0
Friday 14 Dec 2012 23:40

مولانا فضل الرحمن اور سمیع الحق اپنی سیاسی زندگی کی آخری جنگ لڑرہے ہیں، مفتی عبدالقوی

مولانا فضل الرحمن اور سمیع الحق اپنی سیاسی زندگی کی آخری جنگ لڑرہے ہیں، مفتی عبدالقوی
مولانا مفتی عبدالقوی کا تعلق مذہبی، روحانی اور صاحب فتوٰی خاندان سے ہے، آپ کے خاندان کا تعارف مفتی ملتان کے نام سے ہوتا ہے، آپ کے والد اور آپ کے دادا دونوں مفتی صاحب کے نام سے جانے جاتے تھے، آپ 26 جولائی 1957ء کو ملتان میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم ملتان، فیصل آباد اور ایم فل کی ڈگری جامشورو یونیورسٹی سے حاصل کی جبکہ وفاق المدارس بنگلہ دیش نے آپ کو پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری دی۔ آپ آج کل پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما، سینٹرل کمیٹی کے ممبر اور مذہبی اُمور کے سربراہ ہیں، مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے ممبر ہیں، پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ حکومت پاکستان کے ممبر ہیں، متحدہ شریعت کونسل پاکستان کے چیئرمین ہیں اور متحدہ قومی موومنٹ کی علماء کمیٹی کے مرکزی نائب صدر ہیں، اسلام ٹائمز نے ان سے موجودہ دینی جماعتوں کے جوڑ توڑ اور ملکی صورتحال کے حوالے سے ایک انٹرویو کیا جو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔
 
اسلام ٹائمز: پاکستان میں جاری امریکی ڈرون حملوں کے حوالے سے آپ کیا کہیں گے؟
مفتی عبدالقوی: ظلم جہاں بھی ہو اسلام، دنیا کے تمام ادیان اور دنیا کا ہر قانون اُس کی مذمت کرتا ہے، ڈرون حملہ ایک ظلم ہے اس میں کوئی دوسری رائے نہیں اس لیے میں بحثیت پاکستانی، مسلمان اور انسان ہونے کے ناطے شدید مذمت کرتا ہوں، دوسری بات پاکستان ایک آزاد ملک ہے کسی بھی آزاد ملک میں یا اُس کے ہمسایوں میں کسی ایسی ملکی مداخلت جو سیاسی طور پر کرتا ہے وہ ایک سنگین جرم ہے تو جو بھی یہ کرتا ہے، وہ مجرمانہ شرارت اور ظالمانہ بدمعاشی کرتا ہے، جس کو فی الفور بند ہونا چاہیے اور اگر موجودہ حکومت کے بس میں نہیں تو آنے والے الیکشن میں نوجوان نسل پاکستان تحریک انصاف کو کامیاب کرائے گی اور پاکستان تحریک انصاف کی بڑی واضح پالیسی ہے کہ عمران خان کا جو قوم سے پہلا خطاب ہوگا اُس میں امریکہ کو یہ پیغام دیا جائے کہ ڈرون حملوں کو بند کردے اور اگر کوئی ڈرون حملہ کیا گیا تو ہماری فضائیہ اُسے مار گرائے گی۔ 

اسلام ٹائمز: جس طرح ایرانی فضائیہ نے امریکی ڈرون مار گرایا ہے کیا یہ کام پاکستانی فضائیہ بھی کرسکتی ہے؟
مفتی عبدالقوی: جی ہاں پاکستانی فوج بہت طاقتور، غیور اور بہادر ہے صرف ایک ایسے وزیراعظم کی ضرورت ہے، جو نڈر اور بےباک ہو، رہی بات ایران کی کامیابی کی تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ظالم کی کوئی حیثیت نہیں، ظالم بزدل اور کمزور ہے، پاکستان کے حکمرانوں میں جس دن ملی اور قومی غیرت پیدا گئی اُسی دن امریکہ کی بےبسی واضح ہو جائے گی۔ 

اسلام ٹائمز: ایک ملالہ کے ایشو پر تو واویلا شروع ہو جاتا ہے جبکہ کراچی اور کوئٹہ میں ہرروز کئی بیٹیاں زخمی اور شہید ہورہی ہیں ان پر آواز بلند کیوں نہیں کی جاتی؟
مفتی عبدالقوی: پاکستان کی ہر بچی کو ملالہ سمجھتا ہوں چاہے وہ کراچی کی ہو یا کسی اور علاقے کی۔ ملالہ کے ساتھ بھی ظلم ہوا، ہم اُس کی بھی مذمت کرتے ہیں، ملالہ نے اپنی صلاحیت یا کسی اور کی صلاحیتوں کی بنیاد پر جو مقام بنایا ہے ہم اُس کی قدر کرتے ہیں، اُس کی اپنی فکری آزادی ہے یا اُس کے کسی سرپرست کی فکری آزادی ہے وہ قابل قدر ہے، اسلامی ریاست میں علم و فنون کی تعلیم کے لیے کبھی کسی کے مذہب اور عقیدے کو نہین دیکھا گیا،پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے تو یہاں پر بھی ہر علم و فن کی تعلیم اجازت ہونی چاہیے، اگر کوئی ادارہ، گروہ یا گروپ کسی کے علم کے حصول میں رُکاوٹ بنتا ہے تو میں بھی اور تحریک انصاف بھی اس کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتی۔ 

اسلام ٹائمز: نام نہاد طالبان نے وزیرستان میں جو سکول مسمار کیے ہیں اُن کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟
مفتی عبدالقوی: جن لوگوں کا یہ کردار ہے اُن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، وہ ہمارے نزدیک قابل مذمت ہیں، قرآن اور سنت اُن کی مذمت کرتے ہیں، اُنہیں اپنے کردار پر نظرثانی کرنی چاہیے، حکومت پاکستان کو اپنی رٹ قائم کرتے ہوئے پہلے مذاکرات کے ذریعے اور پھر نہ رُکنے کی صورت میں آپریشن اور تعاقب کرنا چاہیے۔ 

اسلام ٹائمز:کیا آئندہ انتخابات میں دینی جماعتیں کوئی کردار ادا کرسکتیں ہیں؟
مفتی عبدالقوی: اب تک کی جو دینی جماعتیں ہیں اُن کا آئندہ انتخابات میں کردار بالکل صفر ہوگا، عوام ان کو ایک مرتبہ صوبہ خیبر پختونخواہ میں کتاب (قرآن مجید) کے احترام کے باعث ووٹ دے چکی ہے، جو لوٹ مار، دھوکہ، اور کرپشن کے سوا کچھ نہ تھا یہ ایک حقیقت ہے کہ اس وقت مولانا فضل الرحمن، اُن کے بھائی اور اُن کے تمام ایم پی ایز، ایم این ایز، سینیٹرز اور منسٹرز کرپشن کے باعث اربوں پتی بن چکے ہیں اس لیے اس مرتبہ انتخاب میں اصل مقابلہ پاکستان تحریک انصاف اور اُن حکمرانوں کے درمیان ہوگا جنہوں نے پاکستان کو بہت مزے سے لوٹا ہے۔
 
اسلام ٹائمز: آپ بیک وقت پاکستان تحریک انصاف اور متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما ہیں؟
مفتی عبدالقوی: دراصل میں پاکستان تحریک انصاف کا مرکزی رہنما، سنٹرل کمیٹی کا ممبر اور مذہبی اُمور کا انچارج ہوں، البتہ ملک بھر میں جو بھی ادارہ یا جماعت مسلمانوں اور پاکستانیوں کے لیے رواداری، اتحاد اور احترام کے لیے ہمیں کال دے ہم اُس کا تعاون کرنا اپنا ملی و قومی فریضہ سمجھتے ہیں، ایم کیو ایم کے قائد الطاف بھائی نے ملالہ یوسفزئی کے ایشو پر پورے پاکستان کے علماء کا نمائندہ اجلاس کراچی میں بلایا، تاکہ پاکستان میں ہونیوالی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کوئی ضابطہ اخلاق مرتب کیا جائے چونکہ یہ ایک نیکی اور استحکام پاکستان کے لیے اچھا اقدام تھا جس پر ہمارے دینی مدارس بورڈ کے علماء نے تعاون کرنے کا فیصلہ کیا جس پر اُنہوں نے مجھے مرکزی نائب صدر بنایا جسے میں نے ملک و ملت کی خاطر قبول کرلیا۔
 
اسلام ٹائمز: کیا متحدہ دینی محاذ کا قیام متحدہ مجلس عمل کو توڑنے کے لیے عمل میں آیا ہے؟
مفتی عبدالقوی: اس وقت مولانا سمیع الحق اور مولانا فضل الرحمان اپنی سیاسی زندگی کی آخری جنگ لڑ رہے ہیں اس لیے دونوں کے لیے کوئی نہ کوئی اتحاد بنانا اُن کی زندگی اور موت کا سوال ہے، دونوں کے عزائم چونکہ ذاتی ہیں اس لیے پاکستانی عوام کو ان دونوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، آئندہ آنے والے انتخابات میں ان دونوں کو اپنی حقیقت کا علم ہو جائے گا، متحدہ دینی محاذ میں صرف ایک جماعت ہے کہ جس کا کوئی ووٹ بنک ہے وہ آج کل اہلسنت والجماعت کا نام رکھتی ہے، باقی چار جماعتیں ایسی خوش نصیب ہیں کہ جن کے ساتھ اُن کی بیگمات کا بھی ووٹ نہیں ہے۔
 
اسلام ٹائمز: ملی یکجہتی کونسل کے قیام کا مقصد اُمت مسلمہ کا اتحاد ہے یا سیاسی ساکھ کو برقرار رکھنا ہے؟
مفتی عبدالقوی: ملی یکجہتی کونسل کے صدر قاضی حسین احمد اور سیکرٹری جنرل حافظ حسین احمد دونوں اپنی جماعتوں کے مسترد شدہ افراد ہیں، جماعت اسلامی قاضی حسین احمد سے بیزار ہے اور جمعیت علمائے اسلام حافظ حسین احمد سے اپنا دامن چھڑانا چاہتی ہے، دونوں حسین احمد ایسے ہیں جیسے میدان کربلا میں حضرت امام حسین (ع) تنہا تھے، جس طرح کوفیوں نے امام حسین (ع) کا ساتھ چھوڑ دیا تھا اسی طرح جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام نے ان دونوں حسین احمدوں کا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔
 
اسلام ٹائمز: آج کے دور میں دینی جماعتوں کے کردار کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں ؟
مفتی عبدالقوی: آج کے دور میں جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام، متحدہ مجلس عمل، ملی یکجہتی کونسل اور متحدہ دینی محاذ کا کردار یزیدی ہے، کیونکہ یہ ساری جماعتیں اور ان کے لیڈرحب جاہ کی خاطر کام کررہے ہیں، کیونکہ یہ جماعتیں اور ان کے لیڈران استعمار اور کچھ ہمسایہ ممالک کے آلہ کار ہیں، ان جماعتوں کے لیڈر ان کا کردار ابن زیاد کا ہے، جس طرح شمر اور ابن سعد یزید کے آلہ کار تھے۔ 

اسلام ٹائمز: ڈرون حملے اب بھی جاری ہیں لیکن دفاع پاکستان کونسل کیوں خاموش ہے؟
مفتی عبدالقوی: دفاع پاکستان کونسل جن کے اشاروں پر بنی ہے اور جن کی آلہ کار ہے جیسے جیسے وہ چلائیں گے یہ چلتی جائے گی۔ ڈرون حملے اُس وقت تک بند نہیں ہوں گے جب تک کہ غیرتمند، باوقار اور محب وطن افراد یا جماعتوں کی حکومت قائم نہ ہو جائے۔ ڈرون حملے نہ دفاع پاکستان کونسل کی وجہ سے اور نہ ہی اُن کے جلسے جلوسوں سے بند ہوں گے، نہ ہی موجودہ حکمرانوں کے بیانوں سے بند ہوں گے، ڈرون حملے اُسی دن بند ہو جائیں گے جس دن پاکستان تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوگی۔ 

اسلام ٹائمز: پاکستان میں جاری فرقہ واریت کی اصل وجہ کیا ہے؟
مفتی عبدالقوی: فرقہ واریت کے اسباب میں تو 1857ء کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کی ناکامی کے بعد اُس زمانے کا برطانیہ اور استعمار(تمام بدمعاش اور موجودہ امریکہ)کی سازشوں کے باعث برصغیر میں فرقہ واریت کی بنیاد رکھی گئی اور انگریز ہی کے ابتدائی تیس سالوں میں یہ فرقے پیدا ہوئے جو اس وقت برصغیر میں موجود ہیں جن میں قادیانیت، دیوبندیت، بریلویت اور اہلحدیثیت شامل ہیں۔ یہ چاروں فرقے 1857ء اور 1910ء کے درمیان قائم ہوئے۔ 

اسلام ٹائمز: کونسی ایسی جماعت یا پارٹی ہے جو ملک کے ساتھ مخلص اور نجات دہندہ ثابت ہوسکتی ہے؟
مفتی عبدالقوی: پاکستان تحریک انصاف ہی ایسی جماعت جو ملک کے ساتھ مخلص اور اس قوم کے لیے نجات دہندہ ثابت ہو سکتی ہے، یا وہ خانقاہی شخصیات ہیں جو اس وقت بھی برصغیر میں اپنی خانقاہوں اور اپنے مدارس کے ذریعے قرآن و سنت کی تعلیم دے رہی ہیں، اسلامی علوم کو آگے بڑھا رہے ہیں، فرقہ واریت اور اُن کے نمائندگان ملائیت سے خلوت نشین ہوکر اخلاص کے ساتھ ملک و ملت کی مدد کر رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 221080
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش