0
Saturday 26 Jan 2013 10:16

بلوچستان میں گورنر راج مسئلہ کا حل نہیں، مخالفت کرتے ہیں، شاہ اویس نورانی

بلوچستان میں گورنر راج مسئلہ کا حل نہیں، مخالفت کرتے ہیں، شاہ اویس نورانی
مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی مرحوم کے چھوٹے فرزند شاہ اویس نورانی صدیقی جو کہ جمعیت علمائے پاکستان کے سینئر نائب صدر اور مرکزی جماعت اہلسنت پاکستان کے نگران اعلٰی ہونے کے ساتھ ساتھ ورلڈ اسلامک مشن کے وائس چیئرمین بھی ہیں۔ آپ اپنے والد کے انتقال کے بعد سیاسی منظر نامے میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے شاہ اویس نورانی صدیقی کے ساتھ سانحہ کوئٹہ، بلوچستان میں گورنر راج، ڈاکٹر طاہر القاری کے لانگ مارچ، کراچی بدامنی وغیرہ جیسے موضوعات پر ایک انٹرویو کیا ہے۔ جو قارئین کے لئے پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: حالیہ ہونے والے سانحہ کوئٹہ کے حوالے سے کیا کہنا چاہیں گے؟ کیا یہ شیعہ سنی مسلمانوں کو لڑانے کی سازش تو نہیں؟
شاہ اویس نورانی صدیقی: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم، کوئٹہ اور کراچی دونوں شہروں میں بڑی بے رحمی کے ساتھ اہل تشیع حضرات کو قتل کیا جا رہا ہے، ایران جانے والے زائرین کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جس کی ہم بھرپور مذمت کرتے ہیں۔ اس قتل عام کے پیچھے کوشش یہ کی جا رہی ہے کہ کسی طرح شیعہ سنی فساد ہو جائے، یعنی یہ پاکستان میں شیعہ سنی فرقہ وارانہ فسادات کرانے کی سازش ہے۔ مگر الحمد اللہ ملی یکجہتی کونسل اور ماضی میں متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم پر دینی جماعتوں کی کوششوں سے اس سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیا گیا، لہٰذا دہشت گرد اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان کے حالات اور وہاں لگنے والے گورنر راج کے حوالے سے آپ کا کیا مؤقف ہے؟
شاہ اویس نورانی صدیقی: دیکھیں ایران جانے والے زائرین کو کئی بار دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا جبکہ ہر 200 فٹ کے فاصلے پر ایف سی تعینات ہے، ان کی چوکیاں بنی ہوئی ہیں، انتہائی حساس مسئلہ بنا ہوا ہے، یہ انہیں معلوم بھی ہے، پھر بھی یہ دہشت گردی کو روک نہیں پا رہے ہیں۔ اب اگر انہوں نے گورنر راج لگایا ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ یہ گورنر راج مسئلہ کا حل نہیں ہے لہٰذا ہم گورنر راج کی مخالفت کرتے ہیں۔ اصل میں یہ گورنر راج نہیں بلکہ یہ تو منی مارشل لاء ہے، ایک طریقے سے انہوں نے ایمرجنسی نافذ کی ہے۔ فرنٹ لائن پر تو انہوں نے ذوالفقار مگسی کو رکھا ہے گورنر کی حیثیت سے مگر پیچھے اس کے فوج ہے جو مانیٹر کر رہی ہے۔ ایسے گورنر راج کا کیا فائدہ کہ جس میں گورنر کے پاس اختیارات ہی نہ ہو۔

بلوچستان ایسا صوبہ ہے جو وسائل کے لحاظ سے باقی تینوں صوبوں کے اخراجات اٹھا سکتا ہے اگر وہاں کے وسائل سے صحیح استفادہ کیا جائے۔ اگر وہاں ترقیاتی کاموں کو کیا جائے، بلوچوں کا استحصال بند کیا جائے، بلوچستان کے حقیقی نمائندوں کو جنہیں حقیقی معنوں میں عوام کی پزیرائی بھی ہو ترقیاتی کاموں کے لئے فنڈز دیئے جائیں۔ ابھی فنڈز کا استعمال صحیح نہیں ہو رہا ہے، اس کا فائدہ وہاں کی عوام کو نہیں ہو رہا ہے تو اس کا ردعمل ہو رہا ہے۔ نواب اکبر بگٹی قتل کیس پر بھی کوئی کارروائی اب تک نہیں ہو سکی، کوئی فیصلہ نہیں ہو پا رہا ہے۔ تو عوام کے اندر بغاوت جنم لے رہی ہے، لوگ اب بیزار ہو چکے ہیں۔ گزشتہ روز ہمارے ایک رہنما مولانا عبدالباقری کو مار دیا گیا، دو مہینے میں ہمارے نو علماء کرام کو مارا جا چکا ہے، یہ بھی فرقہ وارانہ فسادات کرانے کی کوشش کا حصہ ہے۔

بلوچستان کے مسائل کا حل یہ ہے کہ نچلی سطح تک عوام کو صحیح معنوں میں ان کے حقوق دئیے جائیں، تعلیمی و طبی سہولیات سے بلوچستان کو آرستہ کیا جائے، معاشی مسائل حل کئے جائیں، استحصال بند کیا جائے، ان کو دیوار سے لگائے رکھنے کا عمل ختم کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ انتظامی کمزوریوں کو دور کیا جائے، ترقیاتی منصوبوں پر عمل درآمد کیا جائے، حقیقی عوامی قیادت کے ساتھ بیٹھ کر بات کی جائے نہ کہ جعلی قیادت کے ساتھ مفاہمت کی جائے، ایسا نہ ہو کہ چار جعلی نمائندوں کے ساتھ بیٹھ کر دعویٰ کیا جائے کہ ہم نے بلوچستان کا مسئلہ حل کرلیا ہے اب سب کچھ اچھا ہوگیا ہے۔ اصل اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بات کی جائے، بڑے قبائل جن کی وہاں عوام میں شنوائی ہے، پزیرائی ہے ان سے مذاکرات کرنے چاہئیے مگر یہاں اگر اسلم رئیسانی جیسا ڈمپ قسم کا وزیراعلیٰ بٹھا دیا جائے، جسے نہ سر کا پتہ ہے نہ پیر کا تو کہاں سے صوبہ کے معاملات چلیں گے۔

یہ جو نیا گورنر بنایا ہے یہ تو خود کراچی میں اکثر بیٹھا ہوا ہوتا ہے، یہ تو وہاں جاتا ہی نہیں ہے، چیف منسٹر اسلام آباد میں بیٹھا ہوا ہوتا ہے۔ پھر بلوچستان کے خراب حالات کی ذمہ دار نا اہل حکومت بھی ہے اور وہاں بھارتی خفیہ ایجنسی را کا بھی بہت بڑا کردار ہے جو بلوچستان سمیت پورے پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔ حکومت وہاں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ دیکھیں جیسے کوئٹہ کے حالات خراب ہیں اسی طرح کراچی کے حالات بھی خراب ہیں، پشاور کے حالات خراب ہیں، ان حالات میں تو وہاں بھی گورنر راج لگا دینا چاہئیے۔ کراچی میں ایک رات میں تین سو آدمی مر جاتے ہیں، کوئی انکوائری نہیں ہوتی، روزانہ دس سے بارہ افراد قتل ہوجاتے ہیں، یہاں تک کہ ایک گھنٹے میں دس بارہ افراد مار دئیے جاتے ہیں۔ گزشتہ جمعرات کو ہمارے ایک عہدیدار اصغر نورانی کو سولہ گولیاں مار کر شہید کر دیا گیا، کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔

تو کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کراچی میں روزانہ دس سے بارہ افراد قتل ہو جاتے ہیں، کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ تو اس حوالے سے گورنر راج تو سب سے پہلے کراچی میں لگنا چاہئیے۔ کوئٹہ سے زیادہ ٹارگٹ کلنگ کراچی میں ہے، کوئٹہ میں افسوسناک سانحہ میں سو سے زائد افراد شہید ہوئے، واقعاََ افسوسناک سانحہ ہے مگر کراچی میں ہر گزرتے ہفتے میں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بننے والے سو سے زائد افراد ہو جاتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا کوئٹہ میں کالعدم دہشت گرد تنظیموں کے خلاف فوجی آپریشن ہونا چاہئیے؟
شاہ اویس نورانی صدیقی: کوئٹہ میں آپریشن غیر جانبدار ہونا چاہئیے، اس سلسلے میں کسی خاص کالعدم تنظیم کا نام لینا صحیح نہیں بلکہ ہم تو کراچی میں بھی آپریشن کا کہتے ہیں۔ جیسا کہ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ فلاں جماعت کے خلاف کیا جائے یا فلاں گروہ کے خلاف، مگر ہم یہ کہتے ہیں کہ غیر جانبدار آپریشن ہونا چاہئیے ہر ایک کے خلاف۔ کسی بھی سیاسی و مذہبی جماعت کے پاس اگر کوئی مسلح ونگ ہے یا جرائم پیشہ عناصر ہیں تو ان کا خاتمہ کیا جائے۔ کوئٹہ ہو یا کراچی، پشاور یا دیگر شہر ہر جگہ آپریشن ہونا چاہئیے مگر اس کی شروعات کراچی سے ہونی چاہئیے۔

اسلام ٹائمز: ایک اطلاع کے مطابق جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ تنہا الیکشن میں حصہ لیں گے؟ نیز ان کی بلوچستان میں گورنر کی مخالفت کے فیصلے کی ایم ایم اے میں شامل شیعہ جماعت مخالفت کرے گی، تو اس صورتحال میں ایم ایم اے کا انتخابی مستقبل آپ کیسا دیکھتے ہیں؟ آیا آپکی جماعت بھی تنہا الیکشن لڑے گی؟
شاہ اویس نورانی صدیقی: مجھے نہیں پتہ کہ مولانا فضل الرحمان نے اس قسم کا کوئی فیصلہ کیا ہے یا نہیں۔ لیکن اگر انہوں نے یہ فیصلہ کیا ہے تو میں یہ کہنا چاہوں گا کہ پاکستان میں کوئی بھی ایسی سیاسی جماعت نہیں ہے کہ جو یہ دعویدار بنے کہ وہ تنہا الیکشن لڑے۔ پیپلز پارٹی ہو یا مسلم لیگ نواز، ق لیگ ہو یا پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی، جمعیت علماء پاکستان، عوامی نیشنل پارٹی غرض کوئی بھی جماعت اکیلے نہیں لڑ سکتی۔ ایم ایم اے کی بحالی کیلئے میں نے ڈیڑھ سال محنت کی، بات آگے جا کر بن بھی گئی اور بن بھی نا سکی۔ اس میں مولانا فضل الرحمان کے کچھ تحفظات تھے، منور حسن جماعت اسلامی کے تحفظات زیادہ تھے۔

اگر جماعت اسلامی ایم ایم اے کا حصہ نہیں بنتی تو جو چیز ہم عوام کو دینا چاہتے ہیں وہ نہیں ہوگا۔ ہماری خواہش یہی ہے اور ہم پھر کوشش کرنے جا رہے ہیں کسی طرح جے یو آئی اور جماعت اسلامی کو منائیں تاکہ ایم ایم اے کی بحالی ہو سکے کیونکہ دینی جماعتوں کا ایک بڑا ووٹ بینک ہے جس کو تقسیم نہیں ہونا چاہئیے۔ اس تقسیم سے مولانا فضل الرحمان اس خوش فہمی میں نہ رہیں کہ مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا، منور حسن اس خوش فہمی میں نہ رہیں کہ ہمیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ سب کو فرق پڑے گا اس تقسیم سے۔ سب اپنی ساکھ کھو دیں گے۔ لہٰذا ہمارا مشورہ یہی ہے کہ سب کو مل جل کر ایک ساتھ بیٹھنا ہوگا اس کے بغیر گزارا نہیں ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے اگر یہ کہا ہے کہ وہ تنہا الیکشن لڑیں گے تو میں ان کو انشاء اللہ اکیلا الیکشن نہیں لڑنے دونگا، راضی کرلوں گا۔ جبکہ جمعیت علماء پاکستان کی کوشش ہوگی کہ ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے ساری دینی جماعتوں کے ساتھ الیکشن میں حصہ لیا جائے۔

اسلام ٹائمز: ڈاکٹر طاہر القادری کے لانگ مارچ اور حکومت سے ان کے کامیاب مذاکرات کے بارے میں کیا کہیں گے جبکہ ان مذاکرات سے پہلے سربراہ سنی اتحاد کونسل صاحبزادہ فضل کریم نے بھی طاہر القادری اور حکومت کے درمیان ثالثی کے کردار کی پیشکش کی تھی؟
شاہ اویس نورانی صدیقی: پہلی چیز جیسا کہ آپ نے فرمایا صاحبزادہ فضل کریم کے بارے میں کہ وہ سنی اتحاد کونسل کے سربراہ ہیں، کوئی سنی تنظیم اب ان کے ساتھ نہیں رہی۔ سب ان سے علیحدگی اختیار کر چکے ہیں۔ وہ صرف مرکزی جمعیت علماء پاکستان کے سربراہ ہیں۔ دوسری چیز وہ ثالثی کردار کیسے ادا کرسکتے ہیں اس شخص کیلئے جو خود فکر رضا اعلیٰ حضرت فاضل بریلی رہ کی فکر پر حملہ آور ہو، اور اگر اس کے باوجود فضل کریم ایسے شخص کیلئے یہ کام کریں تو انہیں کوئی حق نہیں کہ وہ اہلسنت سے ووٹ مانگیں۔ طاہر القادری کا لانگ مارچ جو شارٹ مارچ ثابت ہوا، دراصل ایک ڈرامہ مارچ تھا اور ایک پری پلان پروگرام تھا جس کی پلاننگ پچھلے ڈیڑھ دو سالوں سے کی جا رہی تھی جسے اب کھل کر عوام کے سامنے لایا گیا۔

میرا طاہر القادری سے کوئی ذاتی اختلاف نہیں ہے بلکہ کچھ ایشوز پر ان سے اختلاف ہے۔ مثلا ممتاز قادری پر، توہین رسالت قانون پر، ایک کارٹونسٹ جو حضرت رسول اکرم (ص) کی شان میں گستاخی کرتا ہے، اس کے ساتھ جا کر بیٹھ کر آپ مذاکرات کریں۔ آپ یہ کہیں کہ توہین رسالت قانون میرا بنایا ہوا نہیں ہے، یہ مسلمانوں پر لاگو ہوتا ہے غیر مسلم پر نہیں۔ تو یہ جو کنفیوژن انہوں نے پھیلائی ہے اپنے آپ کو so called ماڈریٹ اور Hip Hop مولوی کہلانے کیلئے، یہ ایک غلط خیال ہے جس کی ہمارے ہاں کسی قسم کی قبولیت نہیں ہے۔ دوسری جانب آپ نے لانگ مارچ کا پوچھا، دیکھیں کوئی شخص آ کر کسی شخص کی مخالفت کرے ٹھیک ہے مگر وہ کہے کہ میں فوج، میں رینجرز، میں ایف سی، میں پولیس، میں وزیراعظم، میں ہی صدر، میں ہی کابینہ، میں ہی سب کچھ۔ اس کے ساتھ ساتھ فوج اور عدلیہ کو بھی لڑانے کی سازش کرے اور انکی حمایت بھی حاصل کرنا چاہے، جو ریاست کو چیلنج کرتا ہو، سارے کام غیر آئینی اور غیر جمہوری اور دستور کے خلاف کرتا ہے۔ تو بتائیں اس شخص کو ایسی حرکت کرنے کی کون اجازت دیتا ہے۔

سب سے غلط بیان جو اس لانگ مارچ میں انہوں نے دیا کہ امام حسین ع بھی اکیلے تھے، یہ کربلا ہے، ایک ہی تقریر میں نو مرتبہ اللہ رب العزت کی قسم کھائی جاتی ہے، کہتے ہیں کہ رسول اکرم ص کی شفاعت مجھے نصیب نہ ہو، پنج سورہ کی کتاب اٹھا کر کہہ دیا کہ میں قرآن کریم اٹھا رہا ہوں، اس طرح عوام کو جذباتی بلیک میل کرنا۔ آپ کے اندر قدرت ہے، طاقت ہے آپ لانگ مارچ کریں مگر To the point کریں، آپ اپنے مطالبات کی منظوری کیلئے بیس دن بیٹھیں اگر آپ میں اتنی ہمت و وسائل ہیں۔ مگر آپ عوام کو جذباتی کرنے کیلئے اللہ اور رسول کی قسمیں دیں کہ یہاں سے اٹھنا نہیں، یہاں سے بھاگنا نہیں، یہ غلط ہے۔ اس طرح سے اسلام و دین کے اندر، ملک کے اندر فتنے آتے رہتے ہیں۔ ایسے فتنوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہئیے نہ کہ ان سے مرعوب ہوکر ان سے قربت بڑھائیں۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ ڈاکٹر طاہر القادری کے انتخابی اصلاحات کے نکات کو صحیح تسلیم نہیں کرتے؟
شاہ اویس نورانی صدیقی: دیکھیں نکات تو صحیح ہیں، مگر اس پر عملدرآمد کا طریقہ کار صحیح نہیں ہے۔ دوسرا یہ کہ جب آپ نے کہہ دیا کہ چور اچکا وزیراعظم، یزید حکمران، فرعون، سارا کچھ کہہ کر آخر میں دستخط تو آپ نے اسی راجہ رینٹل وزیراعظم سے کرائے، آخر میں ضامن وہی راجہ پرویز ہی بنا، معاہدہ زرداری صاحب نے فاروق نائیک کی مدد سے تیار کیا، ساری مشاورتی کمیٹی تو آپ کی حکومت تھی، اس کے بعد جنہوں نے آپ کو بیچ راستے میں یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ ہم تو آپ کے ساتھ چلیں گے نہیں لانگ مارچ میں، اس متحدہ قومی موومنٹ کو بھی آپ نے لا کر کنٹینر میں بٹھا دیا۔ یہ ایک ڈرامہ کیا انہوں نے، کنٹینر میں بیٹھ کر گپ لگائی۔ نبیل گبول خود اس کا دعویدار ہے، وہ خود کہتا ہے کہ اندر جو مذاکرات ہوئے ہیں وہ ریکارڈ ہیں میں سنا دوں گا۔ تو اس ساری صورتحال میں ڈاکٹر طاہر القادری کا کردار بہت مشکوک ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ نہیں سمجھتے کہ پاکستان میں اکثریت اہلسنت بریلوی مکتب فکر کو بھی ایک پلیٹ فارم سے سیاست میں حصہ لینا چاہئیے تاکہ ووٹ بھی تقسیم نہ ہو، آیا اس کیلئے سنی اتحاد کونسل مثبت ثابت نہیں ہو سکتی تھی؟
شاہ اویس نورانی صدیقی: پاکستان میں حقیقت ہے کہ اہلسنت بریلوی مکتب فکر اکثریت میں ہے۔ دوسری جانب واضح کردوں کہ ہم کبھی بھی سنی اتحاد کونسل کا حصہ نہیں تھے کیونکہ اتحاد اگر کسی مقصد، کسی کاز کیلئے ہو تو اچھا رہتا ہے نہ کہ وکی لیکس کی آنکھوں کا تارا بن جاتا ہے۔ اب سنی اتحاد کونسل میں جو جماعتیں تھی وہ رخصت ہو چکی ہیں، کنارہ کشی اختیار کر چکی ہیں، پاکستان سنی تحریک ثروت اعجاز قادری علیحدہ ہوچکے ہیں، فضل رحمٰن اوکاڑوی علیحدہ ہوگئے، پیر محفوظ مشہدی الگ ہوگئے ہیں، پیر افضل قادری الگ ہوگئے ہیں، ساری جماعتیں تقریباََ ان سے الگ ہوچکی تھیں، جماعت اہلسنت واحد جماعت رہ گئی تھی اب مظہر سعید کاظمی بھی الگ ہوگئے ہیں۔ ایسا اتحاد جس کا مقصد کچھ نہ ہو اور وہ صرف یہ چاہے کہ میں رانا ثناء اللہ کو ہٹا دوں، جس کا مقصد صرف طالبان کے خلاف دھرنا اور مارچ دینا رہ جائے۔ پھر الطاف حسین اپنی تقریر میں کہتے ہیں کہ میں چوبیس گھنٹے دیتا ہوں علماء کرام کو کہ وہ فتویٰ دیں، تو سنی اتحاد کونسل کے نام پر کہ جو ختم ہوچکی تھی، صاحبزادہ فضل کریم نے اس کا نام استعمال کرکے اپنی طرف سے فتویٰ اٹھا کر اس کو دے دیا۔

ہم نہیں سمجھتے کہ ایسے کسی قسم کے اتحاد کی حمایت کرنی چاہئیے۔ مولانا شاہ احمد نورانی نے اپنی پوری زندگی کوشش و کاوشیں کرلیں کہ کسی طرح اتحاد اہلسنت ہو جائے مگر وہ نہیں ہو سکا۔ اس کے بعد سنی اتحاد کونسل کے آٹھ یا نو اکتوبر کے ٹرین مارچ سے دو دن پہلے ہم بارہ اہلسنت تنظیمیں چک شہزاد اسلام آباد میں سولہ سے زائد گھنٹے پیر حصین الدین شاہ کے مدرسہ میں بیٹھے، انہوں نے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ میں اسّی سال کا ہوگیا ہوں خدارا ایک ہو جاؤ، ہم نے اپنے آپ کو سرنڈر بھی کیا اور اس میں سنی تحریک نے بھی اپنے آپ کو سرنڈر کیا، ساری جماعتوں نے سرنڈر کیا مگر صاحبزادہ فضل کریم چاہتے تھے کہ ساری جماعتیں ان کو اپنا سربراہ تسلیم کریں، سربراہ مانیں، جبکہ حقیقت یہ تھی کہ ان کے اوپر کوئی جماعت بھی اتفاق نہیں کر رہی تھی کہ ان کو سربراہ بنایا جائے۔ یہ صحیح ہے کہ اہلسنت کا اتحاد وقت کی ضرورت ہے، اس کیلئے میں نے بھی بڑی کوششیں کی۔ میں مظہر سعید کاظمی کے پاس بھی گیا، جیل میں حامد سعید کاظمی سے بھی ملا، سب سے میں نے اتحاد کی درخواست کی۔ دیکھیں سیاست میں اہلسنت کی نمائندگی جمعیت علماء پاکستان کے علاوہ کوئی اور جماعت نہیں کرتی۔

طاہر القادری کے لانگ مارچ کے خلاف گولڑہ شریف والوں نے میرے نام سے پریس کانفرنس کی، انہوں نے شروع میں ہی کہا کہ جمعیت علماء پاکستان کی اہلسنت کی واحد سیاسی نمائندہ جماعت ہے۔ ہم تو چاہتے ہیں کہ اتحاد ہو مگر اس کا مقصد یہ نہ ہو کہ سیدھا جا کر کسی حکومت کی گود میں بیٹھ جائیں، یا جا کر کسی ایمبیسڈر کی گود میں بیٹھ جائیں۔ ہاں مقصد یہ ہونا چاہئیے کہ مکتب اہل سنت کے ساتھ ملک کا دفاع کریں، قوم کو کچھ فائدہ دیں۔ جیسے 70ء کی تحریک چلی تھی نظام مصطفی (ص) کی، اس میں لوگوں کو کیا ملا، تحفہ ملا۔ پورا آئین دستور بنا کر اکابرین نے دیا جس میں ہر اول دستے کا کردار میرے والد شاہ احمد نورانی نے فرمایا تھا۔

جہاں تک بات ہے سنی تحریک تحریک کی، تو دیکھیں اس کا طرز عمل بہت مختلف ہے جبکہ اکابرین کا طرز عمل اس سے مختلف ہے۔ سنی تحریک کو آپ ایک یوتھ ونگ تو کہہ سکتے ہیں مگر سیاسی جماعت نہیں کہہ سکتے۔ پھر آپ نے بات کی ووٹ کی تقسیم کی، تو سب کو جمع کیسے کریں گے، کوئی سنی پیپلز پارٹی میں بیٹھا ہوا ہے، کوئی مسلم لیگ کی جانب جھکاؤ رکھتا ہے، کوئی ایم کیو ایم میں گیا ہوا ہے کوئی دیگر جماعتوں میں ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اہلسنت کے سیاسی اتحاد کی سو فیصد ضرورت ہے، اگر یہ اتحاد ہو جائے تو کسی سیاسی جماعت کا نام تک نہیں رہے گا۔

اسلام ٹائمز: ملی یکجہتی کونسل میں شامل اہل تشیع مکتب فکر کی بڑی سیاسی مذہبی جماعت مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکریٹری جنرل علامہ ناصر عباس جعفری نے بھی خواہش ظاہر کی ہے کہ پاکستان میں شیعہ سنی مل کر اسلام و استحکام پاکستان کیلئے جدوجہد کریں، امریکی مداخلت کا خاتمہ کریں۔ آپ اس حوالے سے کیا کہیں گے؟
شاہ اویس نورانی صدیقی: ہمیں تو کوئی اعتراض نہیں ہے، سیاسی طور پر ہمیں ان کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہئیے۔ ہم تو ویسے ہی ان کے ساتھ ہیں۔ اہل تشیع کے ساتھ تو ہم متحدہ مجلس عمل میں ہیں، ملی یکجہتی کونسل میں ہم ان کے ساتھ ہیں، افغان جہاد کونسل میں ان کے ساتھ ہیں۔ ہم تو اتحاد کے بانیوں میں سے ہیں، ملی یکجہتی کونسل کے تو بانی ہم ہیں۔ متحدہ مجلس عمل کے تو بانی ہم ہیں۔ مجلس وحدت مسلمین تو اب اتحاد کی بات کر رہی ہے۔ ہم تو 90ء کے اوائل سے کر رہے ہیں ۔ یہ بہت ضروری ہے۔ دیکھیں اس اتحاد سے فساد رکا ہے، فرقہ واریت پھیلانے کی سازش روکی گئی ہے۔ باشعور عوام سمجھتی ہے کہ پاکستان میں شیعہ سنی مسئلہ نہیں ہے اور ملکی حالات بھی اس قسم کے مسائل کے متحمل نہیں ہیں۔ انسان چاہے شیعہ ہو سنی ہو یا کسی اور مکتب فکر سے ہو، سب مسلمان ہیں۔ مل جل کر کوشش کرنا ممکن بھی ہے، اسلامی نظریاتی کونسل موجود ہے، پالیمنٹ موجود ہے، اس حوالے سے قراردادیں پاس ہوچکی ہیں، اس پر بھی عملدرآمد فائدہ مند ہو سکتا ہے۔

ملک میں صرف امریکی مداخلت نہیں ہے صرف امریکہ کو الزام دینا مناسب نہیں بلکہ نیٹو کی صورت میں پورا مغرب دخل اندازی کر رہا ہے۔ اسلامی تہذیب پر مغربی ثقافت حملہ آور ہے، اس کے ذریعے بے حیائی کو پھیلا کر نئی نسل کو اسلام سے دور کیا جا رہا ہے۔ امریکہ اور مغربی ممالک بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کے استحکام کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں، ملکی اقتصاد و معاشیات کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ جہاں تک بات ہے امریکی مداخلت کی، تو یہ عوام ہی ختم کر سکتی ہے ووٹ کی طاقت کے ذریعے۔ ایسے لوگوں کو منتخب کرکے پالیمنٹ میں بھیجیں جو پاکستان کی داخلہ و خارجہ پالیسی کو آزادانہ بنا سکیں۔ کیوں کہ ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی اپنی نہیں ہے، دفاعی پالیسی اپنی نہیں ہے، اقتصادی حوالے سے پالیسیاں آزادانہ نہیں بنی ہوئی ہیں، تو بتائیں کہ ہم کیسے ترقی کر سکتے ہیں، کیسے امریکہ کے چنگل سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ دیکھیں سفارتی تعلقات اور مداخلت میں فرق کرنا ہوگا۔ سفارتی تعلقات کی آڑ میں ہمیں غیر ملکی مداخلت کو ختم کرنا ہوگا۔

ہم پاکستان کے امریکا یا کسی اور مغربی ممالک، یا اسلامی و عرب ممالک، پڑوس میں چین و انڈیا کے ساتھ تعلقات کے خلاف نہیں ہیں، بلکہ ہم تو پاکستان میں ان ممالک کی مداخلت کے خلاف ہیں، ہم تمام ممالک کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات چاہتے ہیں ایسے تعلقات جو آزاد اور خالص پاکستان کی اپنی بنائی ہوئی خارجہ و داخلہ پالیسی کی بنیاد پر ہوں۔ ایسا نہ ہو کہ وہی ہماری پالیسیاں بنائیں، جیسا کہ ابھی ہے کہ ہماری خارجہ، دفاعی و اقتصادی پالیسیاں باہر سے بن کر آتی ہیں۔

اسلام ٹائمز: کراچی میں جاری بد امنی کی کیا وجوہات آپ سمجھتے ہیں اور کیا حل پیش کرتے ہیں؟
شاہ اویس نورانی صدیقی: کراچی کا حل یہ کہ کرفیو لگا کر غیر جانبدار ہوکر آپریشن کرنا چاہئیے دہشت گرد تنظیموں، گروہوں کے خلاف، جرائم پیشہ عناصر اور ان کے سرپرستوں کے خلاف۔ شہر کو ہر قسم کے جائز ناجائز اسلحہ سے پاک کرنا چاہئیے۔ اتنے سارے چھوٹے بڑے کرمنل گروہ پیدا ہو چکے ہیں جو کراچی میں جو فرقہ وارانہ و لسانیت و دیگر حوالوں سے دہشت گردی کر رہے ہیں۔ پہلے تو کہا جاتا تھا کہ ایک مہینے میں آپریشن کرکے ان کا صفایا کردیا جائے گا مگر میں کہتا ہوں کہ اب تین مہینے تک ان کو مسلسل آپریشن کرنا پڑے گا۔ یہاں تک کہ یہ دہشت گرد و جرائم پیشہ گروہ جن کا تعلق جس جماعت سے بھی ہوتا ہے اب وہ ان جماعتوں کے قابو میں بھی نہیں ہیں، اتنا اسلحہ شہر میں موجود ہے کہ خود حکومت پریشان ہوگئی ہے کہ کیا کرے۔ سیاسی مداخلت کی وجہ سے پولیس و رینجرز کو مکمل اختیار دئیے نہیں جاتے۔ جو جوڈیشنل انکوائری ہوتی ہے، جو کرمنلز کورٹ میں جاتے ہیں وہ چالان بھرنے سے پہلے رہا ہو چکے ہوتے ہیں، ان کو سزائیں نہیں ملتیں۔

حال ہی میں مثال آپ کے سامنے ہے خطرناک دہشت گرد اجمل پہاڑی جیسے کو انہوں نے پھر رہا کر دیا ہے۔ پھر کل کو صولت مرزا کو رہا کر دیا جائے گا پھر دوسرے اور لوگ ہیں۔ تو یہ ایک گھناؤنا مذاق ہے، سازش ہو رہی ہے کراچی کے ساتھ۔ پچھلے بائیس سالوں سے اس شہر کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ جرائم میں سیاسی سرپرستی بڑھ چکی ہے، کبھی متحدہ قومی موومنٹ کے لڑکے پکڑے جاتے ہیں، کبھی اے این پی کے لڑکے پکڑے جاتے ہیں، کبھی پی پی کے کبھی امن کمیٹی کے، حتیٰ کہ سنی تحریک کو واچ لسٹ میں رکھا ہوا ہے۔ اگر ان کا آپریشن کرکے صفایا کیا جائے، غیر جانبدار ہوکر آپریشن کریں، جماعت اسلامی کے خلاف بھی کریں، جمعیت علماء پاکستان کے خلاف بھی کریں، ساری جماعتوں و گروہوں کے خلاف غیر جاندار ہوکر کراچی کی عوام کے تحفظ کیلئے پاکستان کے استحکام کیلئے آپریشن کرنا ہوگا ورنہ کراچی کے حالات مزید ان کے کنٹرول سے باہر ہو جائیں گے۔ بہرحال امید ہے کہ آزاد و منصفانہ الیکشن ہوئے تو اچھے چہرے سامنے آئیں گے جو یہاں کے حالات کو بہتر کر سکیں۔

اسلام ٹائمز: حضرت رسول خدا (ص) کی ولادت با سعادت کے مقدس مہینے ربیع الاول میں عالم اسلام خصوصاََ پاکستان کی شیعہ سنی عوام کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
شاہ اویس نورانی صدیقی: آنحضرت خاتم النبین (ص) ہیں، ہر مسلمان کا چاہے اس کا تعلق کسی بھی مسلک و مکتب سے ہو اس کا یہ ایمان ہے۔ ان کا میلاد منانا، ان کا تذکرہ کرنا ہم سب کا فرض اولین ہے۔ مسلمانوں کو آپ کی ذات مبارکہ، سیرت مبارکہ سے استفادہ کرتے ہوئے اتحاد و وحدت قائم کرنا چاہئیے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح اسلام دشمن طاقتیں، امریکا، مغربی ممالک مسلمانوں و اسلام کے خلاف بر سر پیکار ہیں۔ لہٰذا عالم اسلام کو بھی متحد ہونے، اتحاد و وحدت کی اشد ضرورت ہے۔ سعودی عرب اس میں اپنا کردار ادا کرے، اسے اللہ تعالیٰ نے اتنی نعمتوں سے نوازا ہے، مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ وہاں موجود ہے، لہٰذا اس کا کردار لیڈنگ ہونا چاہئیے۔ مسلمان ممالک کو ایک جگہ بیٹھنا ہوگا، ایجنڈا ترتیب دینا ہوگا مگر جو حال او آئی سی کا ہے اس طرح سے ناکام کوششیں نہ کی جائیں بلکہ ٹھوس بنیادوں پر حکمت عملی و ایجنڈا بنانا ہوگا۔ اسلام کے دفاع کیلئے، دین کے دفاع کیلئے پر خلوص کوششیں کرنا ہونگی۔ تو میں سمجھتا ہوں کہ اسلام و مسلمین کے دفاع کیلئے تمام عالم اسلام خصوصاََ سعودی عرب و ایران کو لیڈنگ کردار ادا کرنا ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 234536
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش