0
Sunday 27 Jan 2013 23:56
ملکی بقاء کیلئے طالبان کیساتھ مذاکرات کا فیصلہ کیا

دہشتگردی کے ناسور کو ملک سے اٹھا کر باہر پھینکنے کیلئے اے پی سی طلب کی گئی ہے، واجد علی خان

دہشتگردی کے ناسور کو ملک سے اٹھا کر باہر پھینکنے کیلئے اے پی سی طلب کی گئی ہے، واجد علی خان
واجد علی خان کا بنیادی تعلق صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع سوات سے ہے۔ آپ صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی کے 80 سوات ون سے عوامی نیشنل پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے، اور پھر وزیر جنگلات کی حیثیت سے صوبائی کابینہ کا حصہ بن گئے۔ واجد علی خان نے ملاکنڈ ڈویژن میں دہشتگردوں کے تسلط کے دوران عوام کا حوصلہ بڑھائے رکھا اور جب ان کیساتھ مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا اس دوران بھی آپ پیش پیش رہے۔ خیبر پختونخوا کے سنیئر وزیر بشیر احمد بلور کی شہادت کے بعد اے این پی کی جانب سے ایک مرتبہ پھر طالبان کیساتھ مذاکرات کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اسی تناظر میں آئندہ ماہ ملکی سطح پر آل پارٹیز کانفرنس بھی طلب کی گئی ہے۔ ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے اے این پی کی پالیسی میں تبدیلی، طالبان کیساتھ مذاکرات اور اے پی سی سے متعلق آگاہی کیلئے واجد علی خان کیساتھ ایک انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: اے این پی نے طالبان کیساتھ مذاکرات کا جو فیصلہ کیا ہے، کیا اس حوالے سے وفاقی حکومت کی معاونت یا حمایت حاصل ہو سکی ہے۔؟
واجد علی خان: جب مذاکرات کی بات کی گئی ہے تو وہ آخر میں مرکزی حکومت کے ہاتھ میں ہی جائے گی، کیونکہ قبائلی علاقہ جات جو ہیں وہ مرکزی حکومت کے کنٹرول میں ہیں اور وہی اس حوالے سے کوئی بھی فیصلہ کرنے کی مجاز ہے۔ اے این پی کی صوبائی حکومت جو بھی قدم اٹھائے گی مرکزی حکومت انشاءاللہ اسکا ساتھ دے گی۔ جس طرح سوات اور ملاکنڈ ڈویژن میں تحریک طالبان کیساتھ ماضی میں بات چیت ہوئی تھی اس میں مرکزی حکومت نے صوبائی حکومت کو مکمل طور پر معاونت فراہم کی تھی، اور انشاءاللہ اس مرتبہ بھی مرکزی حکومت صوبائی حکومت کو سپورٹ کرے گی۔

اسلام ٹائمز: مرکزی حکومت کی جانب سے اب تک حمایت یا مخالفت کے حوالے سے کوئی جواب سامنے آیا ہے یا نہیں۔؟
واجد علی خان: ابھی تو یہ معاملہ ابتدائی مراحل میں ہے، ابھی ہم کوئی اندازہ نہیں لگا سکتے کہ مخالفت ہو گی یا حمایت۔

اسلام ٹائمز: اے این پی کی جانب سے دہشتگردی کو کنٹرول کرنے کیلئے جو اے پی سی طلب کی گئی ہے اس کے کیا اغراض و مقاصد ہیں اور کن کن جماعتوں نے اس کانفرنس میں شمولیت کی یقین دہانی کرائی ہے۔؟
واجد علی خان: اے این پی نے جو آل پارٹیز کانفرنس بلانے کی بات کی ہے اس میں سرفہرست دہشتگردی کا مسئلہ ہے، کیونکہ یہ پاکستان کی بقاء و سلامتی کا ہے۔ اس میں سیاست کی کوئی بات نہیں ہے، نہ کوئی سیاست کرنا چاہتا ہے اور نہ کوئی یہ چاہتا ہے کہ اس کے ذریعے الیکشن خریدا جائے۔ آسان الفاظ میں، میں یہ کہوں گا کہ اس اے پی سی کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ہے بلکہ ملکی سلامتی کا معاملہ ہے۔ اس حوالے سے صرف پاکستان کی بقاء اور امن عزیز ہے۔ ہم ملک میں قیام امن کیلئے جو کچھ کر سکتے ہیں کریں گے۔ اور اس حوالے سے ہم ملک بھر کی جماعتوں کا ایک موقف بنانا چاہتے ہیں، اور اس حوالے سے تمام پارٹیز کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ اس حوالے سے مثبت اشارے مل رہے ہیں اور انشاءاللہ تعالیٰ اس کانفرنس کے بعد جو اعلامیہ جاری ہو گا وہ اس ملک کیلئے انتہائی مفید ہو گا۔

اسلام ٹائمز: آپ کے آبائی علاقہ سوات میں بھی طالبان کے ساتھ 2008ء میں مذاکرات کئے گئے تاہم اس کے باوجود طالبان نے اپنی دہشتگردانہ کارروائیاں جاری رکھیں، اب ایسی خلاف ورزی دوبارہ نہ ہونے کی گارنٹی کون دے گا۔؟
واجد علی خان: دیکھیں، وہ جو مذاکرات ہوئے تھے اس کے نتائج تو مثبت آئے تھے۔ کیونکہ ملاکنڈ ڈویژن میں جو لوگ اس حوالے سے حقیقی دلچسپی رکھتے تھے کہ وہاں نظام عدل ریگولیشن قائم ہو وہ متفق ہو گئے تھے۔ اور وہ لوگ بھی اس بات کو مان گئے تھے جن کا ایجنڈا یہ نہیں تھا۔ جب مذاکرات ہو گئے اور نظام عدل اور دارالقضاء کا قیام ملاکنڈ ڈویژن میں ممکن ہو گیا تو جو لوگ مذہبی رجحانات کی وجہ سے طالبان کیساتھ تھے وہ پھر ان سے الگ ہو گئے، اور اس طرح یہ دہشتگرد تنہا رہ گئے تھے، تو میں سمجھتا ہوں کہ قوم میں جو ایک مشترکہ موقف پیدا ہوا تھا اس کے تحت وہ تمام اقدامات اٹھائے گئے جو اٹھانے چاہیئے تھے۔

اسلام ٹائمز: دہشتگردی کیخلاف اے این پی کی قربانیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، تین ایم پی ایز سمیت آپ کی جماعت کے کئی کارکن شہید ہو چکے ہیں، کیا اب اے این پی اس جنگ میں کہیں بیک فٹ پر تو نہیں چلی گئی۔؟
واجد علی خان: نہیں ایسا نہیں ہے، اے این پی ایک قوم پرست پارٹی ہے، ہم نے ملک کی بقاء اور قوم کی سلامتی کیلئے مذاکرات کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ لچک اس لئے پیدا کی ہے کہ ساری دنیا میں مذاکرات مسائل کا ایک حل ہوتے ہیں، اور اگر مسائل مذاکرات سے حل ہو سکتے ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ بہت بہتر ہو گا۔

اسلام ٹائمز: صوبائی حکومت میں آپ کی جو اتحادی جماعتیں ہیں کیا ان کو مذاکرات کے فیصلہ پر اعتماد میں لیا گیا ہے۔؟
واجد علی خان: اے این پی نے یہ ایجنڈا جو پیش کیا ہے یہ حکومتی سطح پر پیش نہیں کیا بلکہ ہم نے پارٹی کی بنیاد پر کانفرنس طلب کی ہے اور پارٹیوں کو دعوت دی ہے، اسی طرح اتحادی جماعتوں کو بھی اس کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس حوالے سے ان کا جواب انتہائی مثبت ہو گا۔

اسلام ٹائمز: اگر ان مذاکرات کے نتیجے میں امن قائم ہوتا ہے تو کیا آئندہ الیکشن میں اے این پی ان مذہبی جماعتوں کے قریب نظر آ سکتی ہے جو طالبان کی کھل کر مخالفت نہیں کرتیں۔؟
واجد علی خان: میں سمجھتا ہوں کہ پارلیمانی سیاست میں ہر جماعت کا ایجنڈا الگ الگ ہوتا ہے۔ ہماری جماعت کی کسی بھی دوسری جماعت کیساتھ دشمنی نہیں ہے۔ سیاسی طور پر ہم ایک دوسرے کی مخالفت بھی کرتے ہیں اور کبھی کبھی ایک دوسرے کے نزدیک بھی آ جاتے ہیں، الیکشن میں جانے کیلئے جو سیاسی ایجنڈا ہو گا اس کے مطابق چلا جائے گا اور تمام جماعتیں پارلیمانی سیاست میں ایک دوسرے کیساتھ اتحاد کرتی ہیں، تو میں سمجھتا ہوں کہ تمام سیاسی قوتوں کو ایک دوسرے کیساتھ ایسا رویہ اختیار کرنا چاہیئے کہ مشکل حالات میں ایک دوسرے کیساتھ ملکی مفاد میں چلا جا سکے۔ لہذا میں سمجھتا ہوں کہ اے این پی اس حوالے سے اعتدال پسند رویہ اپنائے ہوئے ہے اور کسی کیساتھ بھی ہم بات کر سکتے ہیں۔ اتحاد بھی کر سکتے ہیں اور الیکشن میں بھی جا سکتے ہیں۔ لیکن اس کا انحصار حالات اور ملکی مفادات پر ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ کی جماعت کے رہنما یہ کہتے آئے ہیں کہ پاکستان میں قیام امن افغانستان میں امن سے منسلک ہے، افغانستان میں امن قائم ہونے سے پہلے آیا پاکستان میں صورتحال کی بہتری ممکن ہے۔؟
واجد علی خان: اگر افغانستان میں لوگوں نے حالات کو معمول پر لانے اور قیام امن کیلئے اقدامات کئے ہیں یا کئے جا رہے ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں بھی اپنے ملک کی سلامتی اور ملکی مفادات کو دیکھتے ہوئے پالیسیز میں تبدیلی لانی چاہیئے۔ ہمیں وہ پالیسی اور طریقہ کار اپنانا چاہیئے جس کے نتیجے میں یہاں انتہاء پسندی اور دہشتگردی میں کمی آ سکے۔

اسلام ٹائمز: جیسا کہ آپ کے علم میں ہے کہ پشاور میں گذشتہ ایک ماہ سے ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری ہے، کیا صوبائی حکومت نے اس سلسلے کو روکنے کیلئے کوئی منصوبہ بندی کی ہے۔؟
واجد علی خان: صوبائی حکومت اس حوالے سے اپنا کردار ادا کر رہی ہے، مسئلہ یہ ہے کہ دہشتگردوں کیخلاف کسی ایک جگہ کارروائی کی جاتی ہے تو وہ وہاں سے کسی اور جگہ منتقل ہو جاتے ہیں، پشاور میں آج کل ان کی سرگرمیاں زیادہ ہو گئی ہیں لیکن صوبائی حکومت نے اس حوالے سے اقدامات اٹھائے ہیں اور آئندہ بھی اٹھائے گی۔

اسلام ٹائمز: آخر میں یہ بتائیے گا کہ اے این پی اس کل جماعتی کانفرنس کے انعقاد سے دہشتگردی کے ناسور پر قابو پانے کیلئے کس حد پرامید ہے۔؟
واجد علی خان: اے این پی نے پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرنے کیلئے یہ اقدام اٹھایا ہے اور اس حوالے سے جس بھی پارٹی کا جو بھی ایجنڈا اور تحفظات ہیں وہ اس پلیٹ فارم پر اپنے خیالات اور تحفظات کا کھلم کھلا اظہار بھی کرے اور ہم چاہتے ہیں کہ دہشتگردی کی اس لہر کو مکمل طور پر ختم کر سکیں اور اپنے عوام اور سکیورٹی فورسز کو اس ناسور سے چھٹکارہ دلائیں۔ تاکہ یہاں ترقی اور خوشحالی کے دور کا آغاز ہو سکے اور دہشتگردی کے عذاب کو ملک سے اٹھا کر باہر پھینکیں۔
خبر کا کوڈ : 235177
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش