0
Thursday 31 Jan 2013 13:05
عرب ممالک میں بیداری کی تحریکیں ہائی جیک ہوئیں نہ ہی ہوسکتی ہیں

نیٹو فورسز کے مکمل انخلاء کے بغیر افغانستان اور خطے میں امن قائم نہیں ہوسکتا، پروفیسر خورشید احمد

نیٹو فورسز کے مکمل انخلاء کے بغیر افغانستان اور خطے میں امن قائم نہیں ہوسکتا، پروفیسر خورشید احمد
جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی نائب امیر پروفیسر خورشید احمد عالمی شہرت یافتہ ماہر تعلیم، ماہر اقتصادیات، ہمہ گیر مصنف اور ایک مبلغ اسلام ہیں۔ آپ 23 مارچ 1932ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ آپ نے قانون اور اس کے مبادیات میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔ اکنامکس اور اسلامیات میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی، جبکہ کراچی یونیورسٹی کی طرف سے آپ کو پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری دی گئی۔ آپ 1985ء، 1997ء، 2002ء اور 2008ء میں سینٹ آف پاکستان کے رکن منتخب ہوئے۔ پروفیسرخورشید احمد دو اداروں انسٹیٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز اسلام آباد اور اسلامک فاونڈیشن لیسٹر (یوکے) کے بانی سربراہ بھی ہیں۔ پروفیسر صاحب متعدد نظریاتی موضوعات پر مبنی رسائل و جرائد کی ادارت بھی کرچکے ہیں۔ آپ کو شاہ فیصل بین الاقوامی ایوارڈ بھی دیا کیا گیا۔ اسلامی اقتصادیات و مالیات کے شعبے میں خدمات کے اعتراف میں آپ کو جولائی 1998ء میں پانچواں سالانہ امریکن فنانس ہاس ایوارڈ دیا گیا۔ ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے وقت کی قلت کے باعث آپ کیساتھ ایک مختصر انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: نگران حکومتی سیٹ اپ اور اب مسلم لیگ ن کی جانب سے اسلام آباد میں دھرنے کے اعلان کے بعد ملکی سیاسی صورتحال کیا رخ اختیار کر رہی اور جماعت اسلامی اس پوزیشن میں کہاں کھڑی نظر آتی ہے۔؟
پروفیسر خورشید احمد: دیکھئے، ہماری پوزیشن واضح ہے اور وہ یہ ہے کہ اس وقت ملک کی سب سے اہم ضرورت آزاد، شفاف اور غیر جانبدار انتخابات
ہیں، تاکہ عوام سے نیا مینڈیٹ لیکر لوگ آسکیں۔ ہم جمہوری اور آئینی عمل کو جاری رکھنا چاہتے ہیں اور اس کو جو خطرات لاحق ہیں ہم ان کا راستہ روکنا چاہتے ہیں۔ ساتھ ہی میں یہ کہنا چاہوں گا کہ ملک کیلئے نئی قیادت کا آنا بہت ضروری ہے۔ ہمارے دھرنے کا مقصد نہ ہی الیکشن کو ملتوی کروانا ہے اور نہ ہی کوئی دوسرا سیٹ اپ بنانا، بلکہ اس کا مقصد صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ الیکشن کمیشن دستور کے تحت اپنا کردار ادا کرے۔ ہم اس وقت الیکشن کمیشن کو تبدیل کرنے کی بات کی بھی تائید نہیں کر رہے۔ اس لئے کہ اس میں وقت لگے گا اور انتخابات ملتوی ہونے کا خطرہ ہے۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کو دستور میں جو اختیارات حاصل ہیں ان کا استعمال ہو، اور چیف الیکشن کمشنر پر ہمیں اعتماد ہے۔ ہم توقع رکھتے ہیں کہ اگر انہیں اختیار حاصل ہوں اور وہ اس کا صحیح استعمال کریں تو فری اینڈ فیئر الیکشن ہوں گے، اسی کیلئے ہم نے کراچی میں تین دن دھرنا دیا اور الحمد اللہ وہ اس حوالے سے کامیاب رہا کہ جو ہمارا بنیادی مطالبہ تھا اسے قبول کیا گیا ہے۔ جہاں تک اسلام آباد کے دھرنے کا تعلق ہے تو یہ فیصلہ مسلم لیگ ن نے کیا ہے، لیکن ہم اس کی تائید صرف اس لئے کر رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن مستحکم ہوسکے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس کو تبدیل کیا جائے۔

اسلام ٹائمز: ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے مطالبات کے حوالے سے حکومتی مذاکراتی ٹیم بھی تشکیل دی گئی، جس نے گذشتہ دنوں ان کیساتھ مذاکرات کئے۔ کیا جماعت اسلامی حکومت کے ایک فرد واحد
کیساتھ اس قسم کے مذاکرات کو جمہوری سمجھتی ہے۔؟
پروفیسر خورشید احمد: امیر جماعت اور ہمارے سیکرٹری جنرل نے بھی یہ بات کہی ہے کہ جس طرح طاہر القادری صاحب نے سارے معاملات کئے ہیں، اس نے شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔ جس طرح وہ تشریف لائے ہیں اور جو زبان انہوں نے استعمال کی ہے، اس سے ہمیں خطرات محسوس ہوتے ہیں۔ لیکن جہاں تک انتخابی نظام کی اصلاح کا تعلق ہے تو ہم یہ بات شروع سے کہہ رہے ہیں (یہ تو آج نازل ہوئے ہیں) کہ الیکشن کمیشن کو آزاد ہونا چاہئے۔ مختلف لابی اور مافیا نے جس طرح ماضی میں الیکشن کو ہائی جیک کیا ہے یہ دروازہ بند ہونا چاہئے۔ اس حوالے سے ہمیں ان سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔ رہا معاملہ یہ کہ ان کا جو معاہدہ حکومت کے ساتھ ہوا ہے تو میرے خیال میں دستور کے اندر اس بات کی گنجائش موجود ہے کہ لیڈر آف دی ہاوس اور لیڈر آف دی اپوزیشن جس سے چاہیں مشورہ کرلیں۔ پارلیمنٹ کے اندر یا اس سے باہر جو جماعتیں موجود ہیں ان کیساتھ بھی، افراد کیساتھ بھی یا جماعتوں سے بھی۔ اگر حکومت ان سے مشورہ کرتی ہے تو اس میں کچھ خلاف قانون نہیں ہے۔ یہ ان کا اپنا آپس کا معاملہ ہے، ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ جس بات پر اعتراض ہے وہ یہ کہ اس وقت اگر الیکشن کمیشن کو تبدیل کیا گیا کہ وہ تو دراصل انتخابات ملتوی کرنے کا راستہ ہے، جو ہم نہیں چاہتے۔

اسلام ٹائمز: جے یو آئی (ف) کی جانب سے بلوچستان میں گورنر راج کی مخالفت اور اس کے تناظر میں ایم ایم اے کی بحالی کے حوالے سے جماعت اسلامی کیا موقف رکھتی ہے۔؟

پ
روفیسر خورشید احمد: دیکھیں، جے یو آئی کا معاملہ اس حوالے سے کافی کنفیوز ہے۔ ایک طرف وہ مرکز میں تین سال تک حکومت میں رہنے کے بعد باہر آگئے، اور دوسری طرف وہ بلوچستان میں اسی طرح حکومت میں رہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب بلوچستان میں آپریشن بھی ہوا ہے، لاپتہ افراد کا معاملہ بھی ہے، فرقہ وارانہ فسادات بھی ہوئے ہیں، ایک دوسرے کو قتل کیا گیا ہے، علیحدگی پسند گرپوں کی جانب سے بھی تشدد ہوتا رہا ہے اور ان کیخلاف بھی ہوتا رہا ہے۔ سب اس میں شریک رہے ہیں، تو یہ ان کا معاملہ بڑا مبہم سا ہے کہ انہوں نے اپنے معاملات کو کلیئر نہیں رکھا۔ جہاں تک ایم ایم اے کا معاملہ ہے تو ہم نے اپنے سارے آپشنز اوپن رکھے ہوئے ہیں، لیکن جس طرح جے یو آئی کی قیادت نے جماعت پر تنقید کی ہے اور الزامات لگائے ہیں، اس کی روشنی میں انہوں نے خود ایم ایم اے کی بحالی کے راستے کو مشکل بنا دیا ہے۔ ہم نے بہرحال کوئی جوابی کارروائی نہیں کی ہے اور ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ دینی جماعتوں کے درمیان کوئی تصادم نہیں ہونا چاہئے، ووٹ تقسیم نہیں ہونا چاہئے۔ یہی نہیں بلکہ جو دوسری محب وطن قوتیں ہیں، ان کیساتھ بھی معاملات اس طرح ہونے چاہیئں کہ ووٹ تقسیم نہ ہوں اور ایک بہتر قیادت سامنے آسکے۔ اس لئے جماعت نے یہ طے کیا ہے کہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ اور مختلف جماعتوں کیساتھ مذاکرات کرکے ایسے فیصلے کئے جائیں جو ملکی مفاد میں ہوں، ہم یہ راستہ اختیار کئے ہوئے ہیں اور انتخابات کے اعلان کے بعد باقی صورتحال سامنے آسکے گی۔ اسی وجہ سے ہم نے اپنے
آپشنز کو کھلا رکھا ہوا ہے۔ البتہ پی پی پی اور ایم کیو ایم کیساتھ ہمارا کوئی معاملہ طے نہیں ہوسکتا۔

اسلام ٹائمز: مرحوم قاضی حسین احمد کے بعد ملی یکجہتی کونسل کا کیا مستقبل دیکھتے ہیں۔؟
پروفیسر خورشید احمد: قاضی صاحب کی کمی پوری نہیں ہوسکے گی، لیکن انشاءاللہ وہ کام جاری رہے گا۔ یہ پاکستان کے مفاد میں ہے، دینی قوتوں کے مفاد میں ہے۔ جماعت اسلامی اس حوالے سے کمیٹیڈ ہے اور انشاءاللہ یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔

اسلام ٹائمز: افغانستان کی صورتحال میں کیا کوئی تبدیلی دیکھ رہے ہیں اور اس مسئلہ پر پاکستان کی نئی پالیسی کیا ہونی چاہئے۔؟
پروفیسر خورشید احمد: ہمارا ذہن اس حوالے سے بالکل صاف ہے، کہ امریکہ اور نیٹو کی تمام فورسز کا انخلاء ضروری ہے۔ اس کے بغیر نہ افغانستان میں امن ہوسکتا ہے اور نہ ہی اس خطہ میں امن اور چین ہوسکتا ہے۔ فورسز کو وہاں رکھنا میرے خیال میں تصادم کو جاری رکھنے کا نسخہ اور خونریزی کا جاری رہنا ہے۔ دوسری بات یہ کہ پاکستان کو افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے۔ لیکن ہم افغانستان کے سب سے اہم پڑوسی ہیں، ہمارے تاریخی تعلقات ہیں۔ ہمارے ان سے قبائلی، مذہبی، تاریخی اور ثقافتی مراسم ہیں۔ ہمارا اس حوالے سے ایک کردار ہے۔ جس طرح امریکہ نے اپنا اور انڈیا کا کردار وہاں ڈالنے کی کوشش کی ہے، وہ معاملات کو مستقل طور پر الجھائے رکھنے کا ایک راستہ ہے۔ اس لئے ہماری نگاہ میں افغانستان مسئلہ کا ایسا حل جس پر تمام افغان قوتیں باہم مشورے
اور مفاہمت سے متفق ہوں، ہماری اس کو حمایت حاصل ہوگی۔ جہاں تک ہم ان کی مدد کرسکے، مدد کریں گے، لیکن ہم مداخلت نہیں کرنا چاہتے۔ کرزئی صاحب جب یہاں آئے تھے تو ہم نے ان سے کہا تھا کہ آپ آپس میں اپنے اختلافات کو ختم کریں، ہماری تائید پوری پوری حاصل ہوگی، البتہ ہم امریکہ اور بھارت کی کوئی مداخلت نہ وہاں چاہتے ہیں اور نہ ہی افغانستان کے راستے پاکستان، سینٹرل ایشیاء یا ایران میں اس مداخلت کو درست سمجھتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں بعض مذہبی قوتوں کی جانب سے کہا گیا کہ عرب ممالک میں اٹھنے والی بیداری کی تحریک کو امریکہ یا مغربی ممالک نے ہائی جیک کرلیا ہے، آپ اس بارے میں کیا کہیں گے۔؟
پروفیسر خورشید احمد: وہ نہ ہائی جیک ہوئی ہے اور نہ ہی ہوسکتی ہے، البتہ اس کی مخالفتیں ہو رہی ہیں، ٹینشننز ہیں، اوپر سے بھی ہیں، نیچے سے بھی، اندر سے بھی، باہر سے بھی۔ مصر کو جو حالات درپیش ہیں، تیونس کو جو حالات درپیش ہیں، جو کچھ لیبیا میں ہو رہا ہے، یہ سب ہمارے سامنے ہے۔ لیکن یہ وہ تاریخی تحریک ہے، جو اپنے عروج کو لازمی پہنچے گی، البتہ اس میں وقت لگے گا اور نشیب و فراز بھی آئیں گے۔

اسلام ٹائمز: اس بیداری کی تحریک کو پاکستان میں کب آتا دیکھ رہے ہیں۔؟
پروفیسر خورشید احمد: پاکستان میں الحمد اللہ یہ پہلے سے موجود ہے۔ انشاءاللہ موجودہ انتخابات اور آئندہ سالوں میں آپ دیکھیں گے کہ جو پاکستان کا اسلامی تشخص ہے، وہ سیاسی اور زندگی کے ہر شعبہ میں اپنے اثرات کو بڑھائے گا۔
خبر کا کوڈ : 236037
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش