0
Sunday 18 Apr 2010 11:31

پاکستان کی ایٹمی ٹیکنالوجی اسرائیل اور امریکہ کے لئے ہرگز قابل تحمل نہیں،مرزا اسلم بیگ

پاکستان کی ایٹمی ٹیکنالوجی اسرائیل اور امریکہ کے لئے ہرگز قابل تحمل نہیں،مرزا اسلم بیگ
امریکہ کی طرف سے ایران کو دی جانے والی ایٹمی حملے کی دھمکی اور پاکستان کے ایوان بالا سینیٹ میں منظور کی جانے والی اٹھارویں ترمیم کے بارے میں پاکستان کے سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل(ر) اسلم بیگ کا اہم انٹرویو

اسلام ٹائمز:واشنگٹن میں سکیورٹی کانفرنس کی قراردادوں،نتائج اور اسکے اثرات پر آپ کیا روشنی ڈالیں گے؟
اسلم بیگ:واشنگٹن میں منعقدہ سکیورٹی کانفرنس کے چند بنیادی اہداف تھے۔ایک ایٹمی ہتھیاروں کے دہشت گردوں کے ہاتھ لگنے کے امکانات کا جائزہ،ایران کا ایٹمی پروگرام اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر اپنی گرفت کو مضبوط کرنا،امریکہ نے بڑے ماہرانہ اور جارحانہ انداز سے اس کانفرنس سے یہ نتیجہ لینے کی کوشش کی ہے کہ ایٹمی ٹیکنالوجی دہشت گردوں کے ہاتھوں لگ سکتی ہے اور اس سے امریکہ کو سخت خطرہ ہے۔
ایران سے انہیں یہ شکایت ہے کہ وہ ایٹم بم بنا رہا ہے حالانکہ ایران اس سے مسلسل انکار کر رہا ہے۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام امریکہ سمیت کسی یورپی ملک کے لئے قابل برداشت نہیں ہے اور پاکستان کی ایٹمی ٹیکنالوجی اسرائیل اور امریکہ کے لئے ہرگز قابل تحمل نہیں ہے۔اس کانفرنس سے پہلے امریکی صدر باراک اوباما نے پہلی بار اعلان کیا ہے کہ دہشت گرد اگر امریکہ پر ایٹمی یا کیمیائی حملہ کرتے ہیں تو امریکہ ان ملکوں کے خلاف ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے سے گریز نہیں کرے گا،جو ممالک ان دہشت گردوں کی پشتپناہی کریں گے۔یہ بہت اہم اور بڑا بیان ہے،اس کے پیچھے ایک گہری سازش ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ کل جیسے گیارہ ستمبر کا ڈھونگ رچایا گیا اور اسکے بہانے انہوں نے عراق اور افغانستان پر جارحیت کی،اب اسی طرح کا خود ساختہ حملے کریں گے اور بعد میں کہیں گے یہ ایران نے کیا ہے یا پاکستان کے علاقے فاٹا سے کیا گیا ہے اور اس بہانے سے ان علاقوں پر ایٹمی حملہ کیا جائیگا۔
ہمیں اس بدترین وقت کے لئے تیاری کرنا ہو گي مجھے یقین ہے کہ امریکہ اور یہودی یہ کام مل کر کریں گے یعنی امریکہ کے کسی علاقے پر گیارہ ستمبر کی طرح حملہ کیا جائیگا اور اسکے جواب میں امریکہ ایٹمی حملہ کرے گا۔
ایسی صورتحال میں پاکستان اور ایران کو مضبوط حکمت عملی کی ضرورت ہے۔واشنگٹن کانفرنس میں تمام تر توجہ ایران پر تھی،لیکن ایران کو اس میں دعوت تک نہیں دی گئی۔پاکستان کو بہت زیادہ اہمیت اور شہہ دی گئی اور ایران کو نظرانداز کیا گیا،تاکہ ان دو ملکوں کے درمیان فاصلے بڑھائے جائیں کیونکہ ایران اور پاکستان اگر مل کر حکمت عملی بناتے ہیں تو امریکہ کے لئے مشکل صورتحال پیدا ہو سکتی ہے،لہذا ان دونوں کے ساتھ دو مختلف رویے رکھ کر یہ مقصد حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔
اسلام ٹائمز:باراک اوباما نے اس کانفرنس میں پاکستان کو این پی ٹی کا ممبر بننے کا کہا ہے،تاہم انہوں نے پاکستان کی ایٹمی ٹیکنالوجی کو محفوظ قرار دیا۔پاکستان کے وزير اعظم نے بھی اس پر خوشی کا اظہار کیا،آپ یوسف رضا گیلانی کی خوشی کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
اسلم بیگ:وزير اعظم یوسف رضا گیلانی بے خبر ہے انہیں حقائق کا علم نہیں۔اوباما نے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا،اس لئے وہ بہت خوش ہیں۔یہ دھوکہ ہے پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کو1998ء سے دینا مانتی ہے دھماکے کے بعد سب نے پاکستان کو ایٹمی قوت مان لیا ہے امریکہ مانے یا نہ مانے۔فرض کریں پاکستان این پی ٹی پر دستخط کر دیتا ہے جیسا کہ ایران نے کیا ہے،لیکن امریکہ جب چاہے گا امریکہ پر ایک مصنوعی حملہ کرے گا اور اسے فاٹا سے منسوب کر دے گا۔مستقبل میں ایک سازش تیار ہو رہی ہے اور ایران اور پاکستان کے خلاف حملے  ہو سکتے ہیں۔
اسلام ٹائمز:ایران نے باراک اوباما کے ایٹمی حملے کی دھمکی کے خلاف اقوام متحدہ میں شکایت کی ہے اور احمدی نژاد نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو خط بھی لکھا ہے۔اس خط میں ریگي کی حمایت کے حوالے سے ثبوت اور ویڈیو فلم بھی بھیجی ہے۔یہ ادارہ کیا اور کس طرح کا ردعمل دکھائے گا؟
جنرل اسلم بیگ:اقوام متحدہ امریکہ کا تابعدار ادارہ ہے وہ امریکہ کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں کرے گا حالانکہ اسکی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عالمی قوانین کی خلاف ورزیوں کے خلاف اقدام کرے۔ایران کے خلاف جو ایجنٹ استعمال ہوئے ہیں اور انہیں افغانستان میں تربیت دے کر ایران کے خلاف استعمال کیا گيا ہے اس پر بھی اقوام متحدہ کچھ نہيں کرے گا کیونکہ یہ ایک عالمی مافیا ہے جس نے مسلمان ملکوں کے خلاف سازشیں تیار کر رکھی ہیں۔ایران کی طرف سے اقوام متحدہ میں شکایت اور احتجاج اچھا اقدام ہے،لیکن ان تمام مسائل پر اقوام متحدہ کچھ نہیں کرے گی۔
اسلام ٹائمز:جیسا کہ آپ کے علم میں ہے کہ پاکستان کے قانوں ساز ادارے نے اٹھارویں ترمیم منظور کر لی ہے اس ترمیم میں صوبہ سرحد کا نام خیبر پختون خوا رکھا گيا ہے۔نام کی تبدیلی پر بعض حلقوں بالخصوص ہزارہ کے عوام میں غم و غصہ پایا جاتا ہے بلکہ اسی ترمیم کے پیش نظر دوسرے صوبوں کے اندر نئے صوبوں کے بارے میں مطالبات سامنے آرہے ہیں،آپ اس بارے میں کیا کہیں گے؟
جنرل اسلم بیگ:یہ ایک سیاسی ڈرامہ بازي ہے جس کے نتیجے میں ہم نے آئینی ترامیم کا مشاہدہ کیا۔ان ترامیم میں صوبہ سرحد کے نام کی تبدیلی بھی شامل ہے۔خیبر پختون خوا کے خلاف ہزارہ میں سخت ردعمل سامنے آیا ہے،ایسا لگتا ہے اس احتجاج کے نتیجے میں صوبہ سرحد میں دو مزید صوبے ہزارہ اور فاٹا وجود میں آئیں گے یعنی اس عمل کے نتیجے میں صوبہ سرحد میں تین صوبے اور پنجاب میں چار کی بجائے پانچ صوبے اور اسی طرح یہ سلسلہ سندھ اور بلوچستان تک پھیل جائے گا۔میرے خیال میں یہ اچھا کام ہے۔ہمارے صوبے بہت بڑے ہیں اور انکو سنبھالنا اور چلانا مشکل ہے۔لہذا ضرورت ہے کہ ان صوبوں کو چھوٹے یونٹ میں تقسیم کیا جائے،تاکہ کام کرنے میں آسانی ہو۔یہ اس مسئلے کا مثبت پہلو ہے،لیکن ناموں کی تبدیلی اور صوبوں کی تقسیم کا منفی پہلو یہ ہے کہ ہمارے سیاستدانوں نے اپنی ذاتی مصلحتوں کی بنا پر ان مسائل کو فراموش کیا ہوا تھا،اب یہ مسائل انکے گلے پڑ گئے ہیں،لہذا مجبور ہیں کہ ان مسائل کو حل کریں۔
اسلام ٹائمز:کیا صوبوں کی تقسیم کے حوالے سے یہ منفی پہلو بھی ہو سکتا ہے کہ کچھ غیر مرئی طاقتیں زبان اور دیگر بہانوں سے پاکستان کو تقسیم در تقسیم کر دیں؟
جنرل اسلم بیگ:بعض سیاسی جماعتوں نے سیاسی کھیل کے لئے پختونخوا کا نام استعمال کیا اور اسکو اٹھارویں ترمیم میں شامل کر کے اسے منظور کرایا ہے جبکہ اسطرح کے مسائل کو ریفرنڈم کے ذریعے حل کرنا چاہئے تھا۔عوام سے انکی رائے معلوم کی جاتی۔یہ غلطی اس بات کا باعث بنے گي کہ اب مزيد صوبے بنانے کا راستہ کھل جائیگا اور اب مزيد نئے صوبے بنیں گے۔
خبر کا کوڈ : 23896
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش