2
0
Friday 15 Feb 2013 16:15

تکفیری گروہ کو کسی قیمت پر اسمبلی میں نہیں جانے دینگے، علامہ مظہر علوی

تکفیری گروہ کو کسی قیمت پر اسمبلی میں نہیں جانے دینگے، علامہ مظہر علوی
شیعہ علماء کونسل صوبہ پنجاب کے صدر علامہ مظہر حسین علوی کا تعلق ضلع اٹک تحصیل جنڈ کے گاوں جھمٹ سے ہے۔ آپ نے بنیادی تعلیم جامعہ الشیعہ کوٹ ادو سے حاصل کی اور اس کے بعد علامہ سید ساجد علی نقوی کے مدرسہ آیت اللہ الحکیم میں تعلیم حاصل کرتے رہے۔ علامہ مظہر علوی جامعتہ المنتظر لاہور سے قاضی کی ڈگری لینے کے بعد قم المقدس چلے گئے اور وہاں پر اعلٰی تعلیم حاصل کی۔ 1993ء میں واپس وطن آئے اور فیصل آباد میں دینی خدمات میں مصروف ہوگئے۔ آپ تحریک جعفریہ کے سرگرم رکن رہے اور مختلف عہدوں سے ہوتے ہوئے آج کل شیعہ علماء کونسل صوبہ پنجاب کے صدر کی ذمہ داری ادا کر رہے ہیں۔ "اسلام ٹائمز" نے علامہ مظہر علوی سے قومی و سیاسی حوالے سے ایک انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: تنظیمی حوالے سے پنجاب میں کیا فعالیت ہے، کتنے اضلاع میں تنظیم سازی مکمل کرچکے ہیں۔؟
علامہ مظہر علوی: بسم اللہ الرحمن الرحیم، پنجاب میں ٹوٹل 36 اضلاع ہیں اور پہلے مرحلے میں نے بطور صوبائی صدر تنظیم سازی کے حوالے سے کام کیا اور یونٹس کے علاوہ آرگنائزنگ کمیٹیاں بنائی ہیں۔ اس وقت پنجاب میں ٹوٹل 150 یونٹ بنا چکے ہیں اور 24 فروری تک ہم پورے صوبے میں تنظیم سازی کا مرحلہ مکمل کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ 10 اور 11 مارچ کو لاہور میں صوبائی کونسل کا اجلاس منعقد کیا جائے گا۔ جس میں پنجاب بھر کے تمام ضلعی سیکرٹریز شرکت کریں گے۔ اس اجلاس میں تنظیمی امور کے سیشن ہوں گے۔ دو روزہ اجلاس میں کل 6 سیشن ہوں گے۔ اجلاس کا ایجنڈا ابھی تک زیر غور ہے۔ اجلاس میں تمام اضلاع اپنی کارکردگی رپورٹس پیش کریں گے اور آخر میں آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کیا
جائے گا۔

میں بڑے وثوق سے یہ کہہ رہا ہوں کہ 12 سالہ تنظیمی بحران کے باوجود تنظیمی ڈھانچہ تحصیل سطح تک موجود تھا اور علامہ سید ساجد علی نقوی کی جماعت کے نمائندہ افراد کام کر رہے تھے۔ لہٰذا تنظیم سازی کے حوالے سے ہمیں قطعاً کسی قسم کی کوئی بھی مشکل پیش نہیں آئی۔ ہم جس ضلع میں بھی وارد ہوتے ہیں، وہاں کارکن انتظار میں ہوتے ہیں کہ علامہ ساجد علی نقوی کے نمائندے ہمارے پاس آئیں اور ہم کام کرنے کے لیے مکمل تیار ہیں۔ ہمارے اجلاسوں میں ایک اہم فیصلہ ہوچکا ہے اور ہم اس کا اعلان جلد ہی کریں گے کہ علامہ سید ساجد علی نقوی ایک بہت ہی بڑا قومی کنونشن بلائیں گے۔ اس سے قبل 31 مارچ، یکم، 2 اپریل آل پاکستان ورکرز کنونشن کے انعقاد کا فیصلہ کیا گیا ہے اور یہ صرف تنظیمی کنونشن ہوگا۔ یہ کنونشن ملتان میں منعقد کیا جائے گا۔ کنونشن کے دوران تنظیمی و تربیتی سیشن منعقد کئے جائیں گے۔ ہمیں امید ہے کہ علامہ سید ساجد علی نقوی قبلہ جلد ہی قومی کنونشن کا بھی اعلان کریں گے۔ قومی کنونشن کی جگہ اور تاریخ کا تعین بعد میں کیا جائے گا۔
اسلام ٹائمز: اسلامی تحریک نے انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے، آپ کس طرح انتخابات میں وارد ہوں گے۔؟
علامہ مظہر علوی: پاکستان میں اسلامی تحریک واحد قومی جماعت ہے کہ جس کو پورے ملک کے بزرگ علمائے کرام کے ساتھ ساتھ ملت کی تائید حاصل ہے۔ اس لیے ہم نے پہلے مرحلے میں یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم اپنے امیدوار میدان میں اتاریں گے۔ جو کہ اسلامی تحریک کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑیں گے۔ علاوہ ازیں سیاست میں تمام دروازے کھلے ہوتے ہیں۔ مختلف سیاسی جماعتیں ہمارے ساتھ رابطے میں ہیں اور ہم بھی ان کے ساتھ مسلسل رابطہ
رکھے ہوئے ہیں۔ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی بات آنے والے وقت پر ہی ہوسکتی ہے، کیونکہ صورتحال بہت ہی تیزی کے ساتھ تبدیل ہو رہی ہے۔ جس میں الحاق بھی ہوسکتا ہے، تنہاء بھی الیکشن لڑا جاسکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: 12 سالہ دور کے تنظیمی بحران کے باوجود کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اسلامی تحریک اس قابل ہوچکی ہے کہ سیاست میں اپنا بھرپور کردار ادا کرسکے۔؟
علامہ مظہر علوی: میں انتہائی یقین سے کہتا ہوں کہ اسلامی تحریک سیاست میں بھرپور حصہ لے گی اور اپنا بھرپور کردار ادا کرے گی۔ میں آپ کو ایک مثال عرض کرتا ہوں کہ ڈی جی خان کا وہ حلقہ جہاں سے سابق صدر پاکستان فاروق احمد خان لغاری الیکشن لڑا کرتے تھے اور محتاط اندازے کے مطابق اس حلقے میں 50 ہزار شیعہ ووٹ ہیں۔ اسی طرح ہم پاکستان میں بہت سی جگہوں پر مضبوط ووٹ بینک رکھتے ہیں اور انشاءاللہ ہم الیکشن میں اچھا نتیجہ دکھا کر اثرات مرتب کرسکتے ہیں۔ اگر ہم متحد ہوں تو ہم پاکستان کی سیاست پر اس حد تک اثر انداز ہیں کہ جسے چاہیں جتوائیں اور جسے چاہیں شکست دیں۔

اسلام ٹائمز: الیکشن کے حوالے سے دیگر شیعی دھڑوں اور جماعتوں سے کس حد تک رابطے میں ہیں اور کس حد تک سمجھتے ہیں کہ شیعہ مشترکہ طور پر سیاسی کردار ادا کریں گے۔؟
علامہ مظہر علوی: قومی فیصلے کرنے کا حق صرف قومی قیادت کو ہی حاصل ہے اور قومی قیادت یقیناً ان باتوں کو مدنظر رکھتی ہے۔ علامہ ساجد علی نقوی نے بھی ان باتوں کو مدنظر رکھا ہوا ہے کہ اگر ہم قومی وحدت کے ساتھ قومی فیصلے کریں گے تو وہ یقیناً موثر ہوں گے۔ اس کے علاوہ ہم ہر گروہ کو دعوت دے رہے ہیں اور وہ ہمارے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں۔ ملت ہمارے ساتھ ہے لیکن جو ہمارے پلیٹ فارم کی نفی کرتے ہیں وہ
ہمارے ساتھ بالکل بھی نہیں چل سکتے۔ لہٰذا ہم ایسے گروہوں کے لیے ضابطہ اخلاق واضح کریں گے کہ وہ قومی قیادت کی نفی نہ کریں اور متضاد قومی پالیسیاں نہ بنائیں۔ قائد کے متضاد پالیسیاں بنا کر قوم کو ٹکڑوں میں نہ بانٹیں، قومی جماعت کے مقابلے میں ایک اور جماعت کھڑی کرنے کی کوشش نہ کریں، وسائل کے بے دریغ استعمال کا کلچر سوالیہ نشان بن چکا ہے۔

اسلام ٹائمز: صوبہ پنجاب میں الیکشن کے حوالے سے کیا تیاریاں جاری ہیں اور خاص کر جھنگ کے حوالے سے کیا حکمت علمی اختیار کی جا رہی ہے۔؟

علامہ مظہر علوی: پنجاب کے حوالے سے عرض کروں کہ ہم نے فروری کے آخر تک تمام امیدواروں سے درخواستیں طلب کی ہیں، جیسے ہی تمام اضلاع کی صورت حال واضح ہو جائے گی، انشاءاللہ اس کے بعد ہم اپنی الیکشن کمپین چلائیں گے۔ جہاں تک جھنگ کی صورت حال کا تعلق ہے تو جھنگ میں جو بھی فیصلہ کیا جائے گا وہ جھنگ کی عوام کی خواہش کے مطابق کیا جائے گا۔ ماضی میں جو بھی فیصلے ہوئے قومی مفادات میں کئے گئے۔ ماضی میں بھی ہم نے اپنے نمائندے نواب امان اللہ سیال کو کھڑا کیا اور خدا کے فضل سے انہوں نے تکفیریوں کے سربراہ کو عبرت ناک شکست دی، اور گذشتہ دنوں الیکشنوں میں بھی علامہ سید ساجد علی نقوی کی دانش اور حکمت عملی سے تکفیری گروہ کامیاب نہیں ہوسکا۔ انشاءاللہ ہم اس بار بھی تکفیری گروہ کو اسمبلی میں نہیں جانے دیں گے۔ این اے 89 کے حوالے سے ہماری حکمت عملی یہی ہوگی کہ تکفیری گروہ کامیاب نہ ہو۔

واضح کرتا چلوں کہ جھنگ کی عوام نے اپنے مقدر کا فیصلہ علامہ سید ساجد علی نقوی پر چھوڑا ہوا ہے اور جو افراد، شیعہ عوام اور شیعہ عمائدین کی مرضی کے بغیر الیکشن میں وارد ہوئے ہیں، ان کا ورود
شیعہ ووٹ کو کنفیوز کرے گا اور مخالفین کو تقویت دے گا۔ سید اختر شیرازی علامہ سید ساجد علی نقوی کی اجازت کے بغیر کھڑے ہوئے ہیں اور ان کے ساتھ عوامی حمایت بھی نہیں ہے۔ لہذا ان کے الیکشن لڑنے سے شیعی کاز کو نقصان ہوگا اور اس سے دشمن فائدہ اٹھا سکتا ہے اور اگر ایسا ہوا تو قوم کبھی معاف نہیں کرے گی۔ لہذا اختر شیرازی پہلے قوم کو واضح کریں کہ وہ کس کی اجازت سے شیعی نمائندہ ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں اور الیکشن لڑ رہے ہیں۔؟ اور جو افراد ان کو سپورٹ کر رہے ہیں، ان افراد کی خدمت میں بھی سوال ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔؟

اسلام ٹائمز: مولانا فضل الرحمان کی جانب سے گورنر راج کے خلاف تحریک چلانے سے کیا ایم ایم اے کی بحالی کا خواب دم توڑتا دکھائی نہیں دیتا۔؟

علامہ مظہر علوی: مولانا فضل الرحمان صاحب ایک سیاسی لیڈر ہیں اور ان کی اپنی سیاسی جماعت ہے۔ مولانا فضل الرحمان کو سیاسی فیصلے کرنے اور اپنے مفادات کے تحفظ کا حق حاصل ہے، چونکہ گورنر راج ان کے خلاف ہے، اس لیے انہیں یہ حق حاصل ہے کہ اپنی جماعت کو بچائیں اور اس کے خلاف آواز احتجاج بلند کریں۔ کوئی بھی سیاسی شخصیت نہ ہی گورنر راج کا مطالبہ کرتی ہے اور نہ ہی اس کے حق میں بیان دیتی ہے۔ مولانا فضل الرحمان صاحب کا گورنر راج کے خلاف بولنا یا ان کے حق میں بولنا ہمارے مدنظر نہیں ہے۔ ہمارے مدنظر صرف اور صرف ملت تشیع کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے۔ ہم اس حق کو لینے کے لیے کوئی بھی راستہ اختیار کرسکتے ہیں اور ہم مولانا فضل الرحمان صاحب کے ساتھ اتحاد برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے، ویسے ویسے گورنر راج کے حق میں بولنے والوں اور گورنر راج پر سیاست کرنے والوں کی حیثیت سامنے
آ رہی ہے۔

اسلام ٹائمز: وطن عزیز میں جاری ٹارگٹ کلنگ، دہشت گردی اور بدامنی کی صورتحال کے تدارک کے لیے آپ کے پاس کیا حکمت عملی ہے۔؟
علامہ مظہر علوی: پہلے تو ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ان سارے معاملات کے پیچھے کون سی قوتیں کار فرما ہیں۔ دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ میں ایسی قوتوں کا ہاتھ ہے کہ جن کے سامنے حکومت بے بس نظر آتی ہے۔ میرے نزدیک اس کا واحد حل یہ ہے کہ آپس میں قومی وحدت ہو اور پاکستان کے آئین کے اندر رہ کر اپنی قوت کا مظاہرہ کریں۔ اداروں اور حکومت کو مجبور کریں کہ وہ مجرموں کو پکڑ کر قرار واقعی سزا دے۔ حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ملک میں بدامنی، ٹارگٹ کلنگ اور قتل و غارت کی روک تھام کرے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنی عوام کو ہر ممکن امن فراہم کرے۔ جب اسٹیک ہولڈر اپنا کردار ادا نہیں کرتے تو حکومت ناکام ہوجاتی ہے اور وہ اپنا حق حکمرانی کھو دیتی ہے۔ اس حوالے سے ہمارے لیے بھی ضروری ہے کہ قومی وحدت پیدا کریں۔

اسلام ٹائمز: اسلام ٹائمز کے ذریعے ہمارے قارئین کو کوئی پیغام دینا چاہیں گے۔؟
علامہ مظہر علوی: اسلام ٹائمز کے ذریعے سے ایک بات کلیئر کرنا چاہتا ہوں کہ چند دن پہلے مولانا اصغر عسکری صاحب نے کہا کہ سیاسی حوالے سے کمیٹی بنا دی گئی ہے اور اس کی سید ساجد علی نقوی سے میٹنگ ہوئی ہے۔ ایک تو واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اس کمیٹی کی علامہ ساجد نقوی سے کوئی میٹنگ نہیں ہوئی اور دوسری بات یہ ہے کہ اگر کوئی کمیٹی اس حوالے سے کام کر رہی ہے تو اس کے بارے میں اس طرح کے غیر سنجیدہ بیانات دینا درست نہیں۔ ہم اسلام ٹائمز کے ذریعے سے اپنا احتجاج درج کرواتے ہیں۔ انٹرویو کے اہتمام پر "اسلام ٹائمز" کا بہت شکریہ۔

خبر کا کوڈ : 239665
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

United Kingdom
mashallah very nice khuda aap ko salamat rakhe aga sahab inshallah kamyabi haq ki hogi
Pakistan
ماشاء اللہ مولانا خوب زہر اگلا ہے۔
ہماری پیشکش