0
Tuesday 26 Mar 2013 22:16
علامہ ناصر عباس جعفری کی علامہ ساجد نقوی سے ملاقات وحدت کیطرف آغاز ہے

اسلامی تحریک اور مجلس وحدت مسلمین کا ایک جماعت بننا ممکن نہیں، مفاہمت اور ہم آہنگی ہونی چاہئے، علامہ افتخار نقوی

اسلامی تحریک اور مجلس وحدت مسلمین کا ایک جماعت بننا ممکن نہیں، مفاہمت اور ہم آہنگی ہونی چاہئے، علامہ افتخار نقوی
علامہ سید افتخار حسین نقوی ایک جانی پہچانی مذہبی شخصیت ہیں۔ آپ اس وقت اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن اور امام خمینی (رہ) ٹرسٹ کے سرپرست کے طور پر اپنے فرائض ادا کر رہے ہیں۔ آپ ماضی میں تحریک جعفریہ کے ایک سرگرم رہنماء بھی رہے۔ اب بھی ملت امور میں پیش پیش رہتے ہیں اور ہر دستیاب فورم پر دین و ملت کی خدمت کرتے نظر آتے ہیں۔ علامہ صاحب ضلع میانوالی میں قائم مدرسہ امام خمینی (رہ) کے سرپرست بھی ہیں۔ اتحاد بین المسلمین کے ساتھ ملت تشیع کے اتحاد کے بھی شدید خواہش مند ہیں۔ ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے علامہ سید افتخار حسین نقوی کیساتھ انٹرویو کا اہتمام کیا۔ جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔ (ادارہ) 

اسلام ٹائمز: پاکستان میں جاری ٹارگٹ کلنگ جو اس وقت ملت تشیع کیلئے سب سے بڑا چیلنج ہے، پر قابو پانے کیلئے کیا اقدامات تجویز کرتے ہیں۔ اور اس کا ذمہ دار کون ہے۔؟
علامہ افتخار حسین نقوی: یہ ذمہ داری تو حکومتوں کی ہے، پچھلے پانچ سال کے دوران ٹارگٹ کلنگ کو کنٹرول نہیں کیا گیا۔ خودکش حملوں کو کنٹرول نہیں کیا گیا۔ دہشتگردی کے واقعات بڑھتے ہی رہے اور اپنی انتہاء کو پہنچ گئے۔ اس سال جنوری اور فروری میں کوئٹہ میں بہت بڑے حادثات، پھر عباس ٹاون کراچی اور پھر لاہور میں مسیحی کیساتھ جو ہوا، اسی طرح پشاور کی مسجد میں جو دھماکہ ہوا۔ یہ سارا جو سابقہ دور گزرا ہے وہ امن و امان کی بری صورتحال کا عکاس ہے۔ وہ تو ایسا لگ رہا تھا کہ حکومت بے بس ہے یا جان بوجھ کر چاہ ہی نہیں رہی کہ امن قائم ہو۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ کوئی یہ نہیں چاہے گا کہ اس کے دوراقتدار میں امن قائم نہ ہو، کیونکہ یہ اس کے خلاف جاتا ہے۔ کچھ ایسی بین الاقوامی طاقتیں اور قوتیں ہیں جو ان دہشتگردوں کی پشت پر موجود تھیں اور ہیں۔ جو یہ نہیں چاہتیں کہ دہشتگردوں کے سرپرستوں پر ہاتھ ڈالا جائے۔ یا وہ دہشتگرد جو گرفتار ہوجاتے ہیں اور رنگے ہاتھوں پکڑے جاتے ہیں ان پر ہاتھ ڈالا جائے۔ گواہیوں اور مجرموں کو سزائیں دلوانے کے حوالے سے قانون میں جو سقم موجود ہے، اسے دور کرنے کیلئے بھی اس پانچ سالہ دور میں اسمبلی میں بیٹھ کر کوئی قانون سازی نہیں کی گئی۔
 
آخری ایام میں قانون سازی کی گئی ہے اور وہ بھی بغیر کسی لمبی چوڑی بحث کے۔ اس میں بھی ابھی خرابیاں موجود ہیں۔ اس حوالے سے پوری طرح جائزہ نہیں لیا گیا کہ عدالتوں سے جو مجرم چھوٹ جاتے ہیں اس کا سبب کیا ہے۔؟ ظاہر ہے کہ وہ پولیس والے ہی صحیح بتا سکتے ہیں۔ جیسا کہ سچ ٹی وی پر کراچی کے مشہور ایس ایس پی چوہدری اسلم نے بہت اچھی بات کہی کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ کوئی واقعہ ہو اور ہم اس کے مجرم نہ پکڑیں۔ انہوں نے پھر گنوائے کہ ہم نے فلاں واقعہ کے مجرم پکڑے، فلاں واقعہ کے مجرم پکڑے۔ انہوں نے کہا کہ پھر ہوتا یہ ہے کہ پہلے تو کوئی مدعی بننے کیلئے تیار نہیں ہوتا، اگر مدعی بن جاتا ہے تو کوئی گواہ بننے کیلئے تیار نہیں ہوتا۔ اگر گواہ آجاتے ہیں تو درمیان میں ہی ان گواہوں کو اڑا دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جن کو ہم پکڑتے ہیں، انہیں آگے عدالتوں میں سزاء نہیں مل سکتی۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا کام تو مجرموں کو پکڑنا ہے۔ اب یہ ایک خرابی ہے قانون میں۔ اور ایک خوف کہ جب ایک واقعہ کے مجرم پکڑے جاتے ہیں تو اس واقعہ کے جو متاثرین ہوتے ہیں وہ مدعی اور گواہ بننے کیلئے تیار نہیں ہوتے۔ 

اس حوالے سے اسمبلی میں ان تمام چیزوں کا جائزہ لیکر قانون سازی کی جاتی مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ پھر عدالت سے امید تھی لیکن دہشتگردوں نے پشاور میں عدالت پر جو خودکش حملہ کیا تو اس حوالے سے عدالت کو بھی پیغام دیا گیا۔ پہلے تو ججوں وغیرہ کو دھمکیاں ملتی تھیں، لیکن پوری طرح سے ایک اور پیغام دے دیا گیا۔ تو یہ ایک بہت ہی مخدوش صورتحال ہے۔ ہم نے تو پہلے بھی کہا تھا کہ یہ بات تسلیم کر لینی چاہئے کہ ہمارا ملک جنگ کی حالت میں ہے۔ اور یہ ایک گوریلا جنگ ملک میں ہو رہی ہے۔ جب ملک جنگ کی حالت میں ہوتا ہے تو اس وقت عام حالات کے قوانین لاگو نہیں ہوتے۔ اس کیلئے ہنگامی قوانین ہوتے ہیں۔ فوجی عدالتیں لگتی ہیں اور فٹافٹ جنگی جرائم کے تناظر میں فیصلے کر کے انہیں سزائیں دی جاتی ہیں۔ اس صورتحال کو تسلیم ہی نہیں کیا گیا، کبھی کہہ دیا گیا کہ فرقہ واریت ہے، کبھی کہا گیا کہ دشمن کی سازش ہے۔ اسی طرح ٹال مٹول کرتے رہے۔ اسی طرح انہوں نے پانچ سال گزار دیئے۔ حیرانگی ہے اور ڈھٹائی کی انتہاء ہے کہ رحمان ملک صاحب کہتے ہیں کہ ہم ایک پرامن ملک دے کر جا رہے ہیں۔ 

ہر ایک کو معلوم ہے کہ ملک میں امن و امان کی صورتحال کیسی ہے، لیکن وہ اس ڈھٹائی کیساتھ یہ بات کہہ کر جا رہا ہے، لیکن کوئی اس سے پوچھنے والا نہیں ہے۔ لگتا ایسا ہے کہ ان مجرموں کے سر پر اس کا ہاتھ تھا یا وہ شریک جرم تھا۔ اب جو یہ نگراں حکومت بنی ہے یہ تو ڈیڑھ ماہ، دو یا زیادہ سے زیادہ تین ماہ تک ہوگی۔ نگراں حکومت اتنے مختصر عرصہ میں اتنے بڑے مسئلہ پر قابو نہیں پاسکتی۔ ہاں اگر بڑے سرجوڑ کر بیٹھیں اور جب ہم کہتے ہیں کہ ریاست اور ریاستی اداریں طے کرلیں کہ کس طرح ان مسائل پر قابو پانا ہے تو صورتحال بہتر ہوسکتی ہے۔ جو دہشتگردی کر رہے ہیں وہ اتنے طاقتور ہیں کہ جب چاہیں اور جہاں چاہیں کوئی بھی واقعہ کرسکتے ہیں۔ اب حالت یہ ہے کہ کہہ دیا جاتا ہے کہ خطرہ ہے۔ اب جس کو اطلاع دی جاتی ہے وہ کیا کرسکتا ہے۔؟ امن قائم کرنا تو پولیس کا کام ہے۔ اب کسی تھانے کا انچارج، ڈی ایس پی یا ڈی پی او آکر کہے کہ ہم آپ کو اطلاع دیکر جا رہے ہیں۔ یہی رحمان ملک کرتا تھا کہ میں اطلاع دے رہا ہوں کہ اتنے خودکش داخل ہوگئے ہیں۔ اب کوئی اگر یہ کہے کہ میانوالی میں، بھکر میں یا ڈیرہ اسماعیل خان میں اتنے خودکش داخل ہوگئے ہیں اور کہے کہ آپ خود اپنا انتظام کریں۔ اب کون انتظام کرسکتا ہے۔؟ لہذا پہلے تسلیم کر لیا جائے کہ ہم حالت جنگ میں ہیں، جب حالت جنگ کو تسلیم کر لیا جائے گا پھر جنگی قوانین لاگو ہوں گے۔ پھر کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ صرف ایک مہنے کے اندر یہ سب کچھ کنٹرول ہو جائے گا۔ 

اسلام ٹائمز: ملک میں عام انتخابات قریب ہیں، اور ملت تشیع کی دو بڑی نمائندہ جماعتیں بھرپور انداز میں حصہ لینے کا اعلان کرچکی ہیں، آپ کے خیال میں اس الیکشن کے ذریعے ملت تشیع اپنے حقوق کے تحفظ اور دیگر مسائل کے حل کے حوالے سے کیا کردار ادا کرسکتی ہے۔؟
علامہ افتخار حسین نقوی: دیکھیں، شیعہ تنظیمیں جو ہیں، اسلامی تحریک اور مجلس وحدت مسلمین۔ وہ اکیلے تو میدان میں اتر نہیں سکتے اور انہیں ایسے اترنا بھی نہیں چاہئے اور انہیں ہم خیال سیاسی جماعتوں کیساتھ معاملات طے کرنے چاہیں۔ اسلامی تحریک ایک پرانی جماعت ہے، جبکہ مجلس وحدت مسلمین نوجوانوں اور نوجوان علماء کے ذریعے بنی ہے۔ نوجوان جلسوں میں تو آجاتے ہیں لیکن ووٹ کے حوالے سے مشکلات ہوسکتی ہیں۔ ہر حلقہ میں چار پانچ ہزار ووٹ مل سکتے ہیں، بعض حلقوں میں جہاں پینتیس، چالیس ہزار ووٹ ہیں، اگر یہ کہا جائے کہ وہ سارے مل جائیں تو ایسا ممکن نہیں ہے۔ ہمارے یہاں اب بھی جو دیہاتی حلقے ہیں، ان میں حتیٰ کہ ان سیاسی جماعتوں کا بھی اثر نہیں ہے، بلکہ وہاں ووٹ سیاسی خاندانوں کا ہے، جو براجمان ہیں۔ 

اسلام ٹائمز: آپ گذشتہ دنوں علامہ ساجد نقوی اور علامہ ناصر عباس جعفری کے مابین ہونے والی ملاقات میں بھی شریک تھے۔ اس قسم کی ملاقاتیں کیا ملت تشیع کو کسی ایک پلیٹ فارم پر متحد کرسکتی ہیں اور ملی وحدت کے حوالے سے بزرگ علماء اس حوالے سے کیا کردار ادا کر رہے ہیں۔؟
علامہ افتخار حسین نقوی: میری تو دلی خواہش ہے کہ یہ جتنے قریب ہوں۔ یہ کہنا کہ ایک جماعت ہوجائے، یہ ایک ایسی خواہش ہے کہ جس پر عمل نہیں ہوسکتا۔ ان کا آپس میں تفاہم نامہ ہونا چاہیئے، آپس میں ہم آہنگی ہونی چاہیئے، ملاقاتیں ہونی چاہئے اور ایک دوسرے کے ساتھ مفاہمت ہونی چاہیئے۔ قومی مسائل کے حوالے سے ایک موقف ہونا چاہیئے۔ اگر فرض کریں کہ طے کرنا ہے کہ شیعہ افراد اس قسم کے امیدواروں کو ووٹ نہ دیں جو ان کے مفاد میں نہ ہو۔ یا پھر جس کو ووٹ دیں اس سے یہ یقین دہانی لی جائے کہ اسمبلی میں قانون سازی ہو جو ہماری آئینی حق ہے اس کا تحفظ کیا جائے۔ آئینی حقوق کے حوالے سے یہ ہے کہ جو جس فقہ کا پیروکار ہے، اس کے حوالے سے قانون سازی ہوگی جو ابھی تک نہیں ہوئی، سوائے ایک دو قوانین کے جو زکواۃ کے بارے میں ہوئے۔ 
اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے جو سفارشات جاتی رہیں وہ صرف ایک فقہ کیلئے جاتی رہیں، دوسری فقہ کیلئے گئی ہی نہیں، جبکہ یہ خلاف آئین ہے۔ آئین کہتا ہے کہ جو جس فقہ سے تعلق رکھتا ہے اس سے اس کے مطابق ہی عمل ہوگا۔ اب ہمارے ساتھ لوئر عدالتوں میں زیادتی ہو رہی ہے۔ طلاق، وراثت اور نکاح کے مسائل میں ہمارے اصولوں کے خلاف فیصلے ہو رہے ہیں۔ یہاں تو حرام اور حلال کا مسئلہ ہے۔ لیکن اس پر کسی نے آواز ہی نہیں اٹھائی۔ میں نے البتہ اسمبلی میں کچھ شیعہ ممبران تک یہ بات پہنچائی اور صدر کو بھی خط لکھا اور ایک خط باقاعدہ ان کے ہاتھ میں بھی دیا۔ لیکن اس سے بھی مسئلہ حل نہیں ہوا۔ اس حوالے سے متفقہ طور پر مطالبہ کیا جاسکتا ہے۔ شیعوں کو متوجہ کیا جاسکتا ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ راجہ صاحب، آغا صاحب (علامہ سید ساجد علی نقوی) کے گھر تشریف لے آئے، انہوں نے یہ بہت اچھا قدم اٹھایا ہے اور یہ ایک قسم کا آغاز ہوگا۔ یہ ملاقاتیں جاری رہنی چاہیں۔ بزرگ علماء کیوں نہیں چاہتے کہ یہ آپس میں مل بیٹھیں کیونکہ دوری نقصان دہ ہے۔ دشمن کو اس سے فائدہ ہوگا۔ جتنے ان کی ملاقاتیں زیادہ ہوں گی وہ فائدہ مند ہیں۔ ایک ضابطہ اخلاق بن جائے۔ ایک دوسرے کی توہین نہ کریں، ایک دوسرے پر کیچڑ نہ اچھالیں۔ ایک دوسرے کے منفی پہلوں کو اجاگر نہ کریں۔ ہر ایک میں منفی پہلو ہیں، کوئی بھی معصوم نہیں ہے۔ ہر ایک میں خامیاں بھی ہیں۔ ظاہر ہے کہ جتنی قدیمی جماعت ہوگی اس میں منفی پہلو بھی زیادہ ہوں گے، اور جو نئی جماعت بن رہی ہے لوگوں نے ابھی اسے دیکھا ہی نہیں۔ ابھی تو وہ آزمائے گئے ہی نہیں۔ جب کام کریں گے تو پتہ چلے گا۔ خالی اعلانات سے تو نہیں ہوتا۔ میدان میں جب اترے ہیں تو کمزوریاں بھی سامنے آئیں گی۔ خامیاں بھی سامنے آئیں گی۔ اب مثلاً کوئٹہ میں جو یہ چھوٹا سا واقعہ ہوا تو مجلس وحدت مسلمین کے سیکرٹری صاحب کو کتنی سبکی اٹھانا پڑی۔ جس تنظیم کو 30 سال ہوگئے ہیں اس کیلئے خرابیاں اور خامیاں نکالنا تو بڑا آسان ہے ناں۔ تو میں سمجھتا ہوں کہ بجائے منفی پوائنٹ تلاش کرنے کے ایک دوسرے کیساتھ چلا جائے۔ 

خاص کر میں جوانوں سے کہوں گا، خاص کر اپنے عزیزان اسٹوڈنٹس سے کہوں گا، چاہے ان کا تعلق جعفریہ اسٹوڈنٹس سے ہو یا امامیہ اسٹوڈنٹس سے، جو منظم ترین جماعت ہے کہ وہ اپنے کارکنوں سے کہیں کہ ایک دوسرے کی پگڑی اچھالنے اور ایک دوسرے کی کمزوریاں تلاش کرنے کی بجائے مثبت پہلووں کو تلاش کریں، کیونکہ مثبت پہلو ہر جگہ ہے۔ علمائے اخلاق کہتے ہیں اور حدیثوں میں بھی ہے کہ مومن کی مثال شہد کی مکھی کی سی ہے، گند بھی ہو تو وہ پھول پر جا کر بیٹھے گی اور جو گند کی مکھی ہے وہ چاہے ہزار پھول بھی ہوں اگر کہیں چھوٹی سے جگہ پر میل اور گند لگا ہوا ہو تو وہ وہاں پر جا کر بیٹھے گی۔ ہمیں خالص ایک مومن کا کردار ادا کرنا چاہئے۔ بالخصوص وہ لوگ جو اجمتاعی ذمہ داریاں سنبھالے بیٹھے ہیں۔ جو اجتماعی میدان میں اترے ہیں، انہیں اس بات کا بہت خیال رکھنا چاہئے۔ ہم دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح نہیں ہیں کہ وہ ایک دوسرے کو گالیاں بھی دیتے ہیں، ایک دوسرے پر کیچڑ بھی اچھالتے ہیں، کیونکہ اس سیاست کے حمام میں سارے ننگے ہیں تو پھر باہر نکل کر ایک دوسرے کیساتھ بغل گیر بھی ہو جاتے ہیں۔
 
ہم بالکل ایسے نہیں ہیں۔ ہم ایک نظریہ رکھتے ہیں۔ ہمارا ایک عقیدہ ہے، ہماری اخلاقیات ہیں۔ ہمیں اشاروں کنایوں میں بھی منفی پہلووں کو اجاگر نہیں کرنا چاہئے۔ مثبت پہلو اگر کسی کا ہے تو اسے بیان کر دو، ورنہ نہ کرو۔ کسی کی نفی نہ کی جائے کہ اس نے یہ نہیں کیا، میں نے کیا ہے۔ یہ نہ کہا جائے، اس سے خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ ہماری یہ آرزو ہے کہ ان کی ملاقاتیں زیادہ سے زیادہ ہونی چاہئے اور نچی سطح پر ہونی چاہئے۔ اوپر والے مل بیٹھیں گے لیکن خرابی یونٹ کی سطح پر ہے۔ وہاں ایک دوسرے کے خلاف بہت بولا جاتا ہے۔ جس دن وہ بند ہوگیا تو پھر یہ مسئلہ نہیں رہے گا اور وہ جو آرزو ہے ہر شیعہ اور مومن کی کہ یہ اکٹھے ہوں تو پھر یہ اکٹھے ہی نظر آئیں گے۔ پھر دو نام ہوتے ہوئے بھی یہ اکٹھے نظر آئیں گے۔ پھر لوگ یہی کہیں گے کہ ان کی بات ایک ہے۔

اسلام ٹائمز: پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ پر کام شروع کرنے کے پاکستانی حکومت کے اقدام کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں، یہ اقدام ملک سے امریکی اثر و رسوخ ختم کرنے کا اشارہ ہے یا پھر اسے الیکشن سے قبل کوئی سیاسی چال کہا جائے۔؟
علامہ افتخار حسین نقوی: یہ جو گیس پائپ لائن کا معاملہ ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ پاکستان کے فائدے میں ہے اور پاکستان کو اپنے ہمسائیوں کیساتھ اپنے تعلقات مضبوط بنانے چاہئیں۔ گوادر کو چین کے حوالے کرنا اور ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن معاہدے پر دستخط ہو جانا اور پھر اس کا افتتاح بھی کرنا ایک اچھی خبر ہے۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ پچھلے کئی سالوں سے یہ سلسلہ چل رہا ہے۔ 2002ء میں تو دو یا تین ڈالر میں طے ہو رہا تھا اب سنا ہے کہ یہ 13 ڈالر میں طے ہو رہا ہے۔ لیکن اس کے جو تیکنیکی مسائل ہیں اس سے یہ لگ رہا ہے کہ ابھی اس پر بہت کچھ ہونا باقی ہے۔ اس حوالے سے کوئی دو رائے نہیں کہ یہ پاکستان کے مستقبل کیلئے مفید ہے۔ البتہ امریکہ یہ نہیں چاہتا ہے کہ پاکستان ایسی پوزیشن میں آئے کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہوجائے۔ اور اس کی اقتصاد مضبوط ہو، کیونکہ مضبوط پاکستان امریکہ کے نقصان میں ہے۔ امریکہ اپنی بالادستی اس خطہ پر قائم رکھنا چاہتا ہے۔ 

افغانستان سے جانے کے بعد بھی امریکہ اپنی بالادستی رکھنا چاہتا ہے۔ امریکہ تو چاہتا تھا کہ گوادر بھی اس کے پاس ہوتا کہ وہ اس کو سکیورٹی زون بنائے۔ اور پھر یہاں پر بیٹھ کر پورے خلیج، ایران اور روس تک کو کنٹرول کرے۔ تاہم چین بھی ایک بڑی طاقت ہے اس کے بھی مفادات ہیں، اور اس نے ہمیشہ پاکستان کا ساتھ بھی دیا ہے۔ لہذا میں سمجھتا ہوں کہ گوادر کے معاملہ پر بھی بہت جلد علمدرآمد شروع ہو جانا چاہئے، جبکہ پاک ایران گیس پائپ لائن کی عملی شکل کا ہمیں انتظار ہے۔ انہوں نے جاتے جاتے اس منصوبہ پر کام شروع کیا۔ یہ گذشتہ سال بھی کرسکتے تھے لیکن نہیں کیا۔ اس وجہ سے ان کے اس عمل کو شک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ ماہرین کی نظر میں یہ منصوبہ عملاً پاکستان کے فائدے میں ہے لیکن وہ شک کر رہے ہیں کہ آیا اس پر عمل ہوگا یا نہیں، کیونکہ ابھی بہت سارے کام ہونے باقی ہیں جو نہیں کئے گئے۔
خبر کا کوڈ : 248665
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش