3
0
Monday 8 Apr 2013 12:17
مشترکہ انتخابی پلیٹ فارم کے امکانات موجود ہیں

عام انتخابات میں مخلص لوگوں کا انتخاب کیا جائے، سیاسی مداریوں سے پرہیز برتیں، علامہ تقی شاہ نقوی

عام انتخابات میں مخلص لوگوں کا انتخاب کیا جائے، سیاسی مداریوں سے پرہیز برتیں، علامہ تقی شاہ نقوی
علامہ سید تقی شاہ نقوی کا شمار ملک کے جید علماء کرام میں ہوتا ہے۔ آپ شیعہ علماء کونسل کے مرکزی راہنما ہونے کے ساتھ ساتھ ایک معروف دینی ادارے مخزن العلوم شیعہ میانی، ملتان کے پرنسپل بھی ہیں۔ ''اسلام ٹائمز'' نے آمدہ انتخابات کے حوالہ سے اسلامی تحریک کی پالیسی اور آئندہ کے لائحہ عمل کے بارے میں علامہ سید تقی شاہ نقوی کا انٹرویو کیا ہے۔ جس کا احوال قارئین کے لئے پیش خدمت ہے۔

اسلام ٹائمز: اسلامی تحریک کی سیاسی فعالیت کے حوالے سے بتائیں۔؟

علامہ سید تقی شاہ نقوی: اس حوالے سے اتنی زیادہ فعالیت تو نہیں ہے، جو مناسب اقدامات کر سکتے ہیں، کر رہے ہیں۔ لیکن جسے باقاعدہ فعالیت کہیں وہ نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ اسلامی تحریک کے مذاکرات ہوئے اور پھر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے لئے مذاکرات کا آپشن کھولا گیا، انتخابات کے اہم مراحل تیزی سے گزر رہے ہیں، کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کا مرحلہ بھی ہوچکا، تو شیعہ ووٹ بینک کے حوالہ سے کیا فیصلہ جات کئے گئے ہیں۔؟

علامہ تقی شاہ نقوی: جہاں تک ہماری اطلاعات ہیں، ابھی تک کچھ فائنل نہیں ہو رہا۔

اسلام ٹائمز: ملت کے کئی پلیٹ فارمز الیکشن کمیشن میں رجسٹر ہوچکے ہیں، ووٹر کو ایک عجیب سی صورتحال کا سامنا ہے، کیا کسی مشترکہ انتخابی پلیٹ فارم کی تشکیل دی جائے گی۔؟

علامہ سید تقی شاہ نقوی: مشترکہ پلیٹ فارم پر زیادہ مسائل ہوں گے،لیکن ہماری خواہش ہے کہ باہمی تزاحم نہ ہوں۔

اسلام ٹائمز: الیکشن کے موقع پر بڑی سیاسی پارٹیاں ہمیں اپنے ساتھ ملاکر اپنے مفادات حاصل کر لیتی ہیں، لیکن ملت تشیع کے حقوق کا تحفظ نہیں کیا جاتا، کیا اب کی بار اس حوالہ سے کوئی ٹھوس لائحہ عمل اختیار کیا جائے گا۔؟

علامہ سید تقی شاہ نقوی: جہاں تک مفاد لینے کا تعلق ہے، تو ظاہر ہے وہ آپ سے بات کیوں کریں گے، ان کو اپنا مفاد عزیز ہے۔ پارٹیاں بنتی ہی مفادات حاصل کرنے کے لئے ہیں۔ ان سے فرار ممکن نہیں ہے، لیکن ان سے آپ بھی فائدہ لے سکتے ہیں، چونکہ ہمارا تعلق مذہبی تنظیم سے ہے اور ہمارا اصل مقصد قومی حقوق کا تحفظ ہے اور ان کا مقصد صرف اقتدار کو حصول ہوتا ہے۔ ہمارا مقصد قومی حقوق کا تحفظ ہے۔ اب یہ مذاکرات پر منحصر ہے کہ کامیابی سو فیصد حاصل ہو یا پچاس فیصد۔

اسلام ٹائمز: پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ حالیہ مذاکرات میں وہ کیا مطالبات تھے جن کی بناء پر مسلم لیگ (ن) کے لئے مذاکرات کا آپشن کھولا گیا۔؟

علامہ سید تقی شاہ نقوی: مذاکرات تو ہر ایک ساتھ ہونا ہی تھے، لیکن زیادہ پیپلز پارٹی سے ہوئے ہیں، جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ تحریک پر عائد پابندی کو اٹھایا جائے۔ ہمیں چند سیٹیں دی جائیں، مختلف اداروں میں ہماری نمائندگی ہونا چاہیے۔

اسلام ٹائمز: اپنی اکثر تقاریر میں علامہ ساجد نقوی نے اس بات کا برملا اظہار کیا ہے کہ ہمارے قاتلوں کو تحتہ دار پر نہیں لٹکایا جا رہا اور رحم کی اپیلیں صدر زرداری کی ٹیبل پر پڑی ہیں، جنہیں مسترد کرکے دہشتگردوں کو تختہ دار پر نہیں چڑھایا جا رہا، کیا حالیہ مذاکرات میں یہ موضوع زیر بحث آیا۔؟

علامہ سید تقی شاہ نقوی: ساری باتیں ہوئی ہیں۔ آغا صاحب (علامہ ساجد نقوی، سربراہ اسلامی تحریک) یہ بھی کہتے رہتے ہیں کہ میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ ان برسر اقتدار لوگوں کے اختیار میں کیا کیا ہے اور یہ کیا کچھ کرسکتے ہیں، جو لوگ سمجھتے ہیں وہ جانتے ہیں۔ پاکستان میں بے اختیار لوگ بھی برسر اقتدار ہیں۔

اسلام ٹائمز: نادیدہ طاقتیں ملت تشیع کیخلاف مختلف انتہاپسند پلیٹ فارمز کو منظم کر رہی ہیں اور دوسری جانب طالبان کی کوشش ہے کہ اپنے ہمنواؤں کو پارلیمنٹ میں بھیجا جائے، کیا اینٹی طالبان قوتوں کے درمیان کسی قسم کا انتخابی اتحاد ممکن ہے۔؟

علامہ سید تقی شاہ نقوی: ان سے تو ہمیں کوئی خیر کی توقع نہیں، انہوں نے تو ہمیشہ ہمارے خلاف ایسی منصوبہ بندی کرنی ہے۔ ایک جنگ کا محاذ ہے، جو مسلسل جاری ہے۔ ختم نہیں ہوا اور نہ ہی اتنا جلدی اس نے ختم ہونا ہے۔ دفاع ہمارا فریضہ ہے۔ جتنا ہم سے ہوسکتا ہے، جتنا بہتر ہوسکتا ہے، جتنے ہمارے وسائل ہیں۔ اس کی اجازت ہے۔ خوش عقیدہ اہل سنت سے بھی اس سلسلہ میں بات چلتی رہتی ہے۔ ہم نے اپنے دفاع کے لئے وہی راستہ اختیار کرنا ہے جس میں کچھ نہ کچھ تحفظ ملے، اگرچہ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ ہمیں سو فیصد دیتے ہیں، چونکہ حالات اس قسم کے ہیں، ان حالات کے پیش نظر جو مل جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ، Some thing is better than nothing

اسلام ٹائمز: ایک رائے یہ بھی سامنے آ رہی ہے کہ ہم کتنی لاشیں اور جنازے اور اٹھائیں گے۔؟

علامہ سید تقی شاہ نقوی: لاشیں اور جنازے ہمارے اختیار میں تو نہیں، کون چاہتا ہے کہ ہمارا ایک قطرہ بھی خون کا گرے۔ کون چاہتا ہے کہ ہمارا یک دمڑی بھی نقصان ہو، لیکن جب چور اور ڈاکوؤں کی تعداد زیادہ ہو تو آپ دفاع ہی کرسکتے ہیں اور اسی کام میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ سوال فقط ہم پر نہیں ہے، یہ ان تمام قوتوں پر ہے جو قومی حقوق کی تحفظ کی ذمہ دار ہیں۔ خواہ وہ اندرونی ہیں یا بیرونی ہیں۔ سب اہل تشیع کیلئے یہ سوال ہے۔ پورے عالم تشیع پر یہ سوال ہے۔ لاشیں ہر طرف گرتی ہیں اور سب جانتے ہیں کہ ہم کیا کرسکتے ہیں اور کیا نہیں کرسکتے۔ وہ ہمیں کس لائن پر لے جانا چاہتے ہیں اور ہمیں اس میں کتنا نقصان ہے۔ سب باتوں کو سامنے رکھ کر چلنا پڑتا ہے۔ آئمہ (ع) کے ادوار میں بھی نہ چاہتے ہوئے قتل و غارت ہوا۔

اسلام ٹائمز: یعنی دشمن فرقہ واریت کی جنگ کو گلی کوچوں میں لانا چاہتا ہے۔؟

علامہ سید تقی شاہ نقوی: وہ آپ کی فکر کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ آپ کی جانوں اور آپ کے مال کے بھی دشمن ہیں۔ ان کے پاس بہترین حملہ بھی ہے، شیطانی سازشیں بھی ہیں، اور وہ باقاعدہ طور پر آپ کو ٹارگٹ کرنا چاہتے ہیں۔ کہا جاسکتا ہے کہ انقلاب اسلامی ایران سے قبل ہم اتنے ٹارگٹ پہ نہ تھے۔ اب جب باقاعدہ ٹارگٹ ہیں تو ہیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ جب تک رسول اکرم (ص) نے اپنی بشارت کا اعلان نہیں کیا تھا، مشرکین مکہ کے ٹارگٹ پر نہ تھے وہ، لیکن جب یہ اعلان کر دیا تو مشرکین کے ٹارگٹ پر آگئے۔ اب انسان کہے کہ دشمن کیوں حملہ کر رہا ہے۔ وہ دشمن ہے اسے حملہ تو کرنا ہے، آپ نے سوچنا ہے کہ ہم کیا کرسکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کچھ عرصہ قبل ایک پریس کانفرنس میں علامہ ساجد نقوی نے کہا تھا کہ ہمیں بسوں سے اتار کر شناخت کرکے مارا جا رہا ہے، جلد اسلام آباد کے بین الاقوامی پلیٹ فارم سے اپنی شناخت پیش کریں گے۔ کیا یہ اسلام آباد کی جانب کوئی لانگ مارچ ہوگا یا Shia Genocide پر انٹرنیشنل لیول کی کوئی کانفرنس ہوگی۔؟

علامہ سید تقی شاہ نقوی: باتیں بہت ساری ہوتی ہیں، ان کے لئے کچھ تمہیدی باتیں بھی کرنی پڑتی ہیں۔ مقدماتی عمل بھی کرنا پڑتا ہے، عوام کا شعور بیدار کیا جاتا ہے۔ علامہ ساجد نقوی سمجھتے ہیں کہ یہ میرے پاس ایک آخری آپشن کے طور پر موجود ہے۔ میں اپنی پوری قوم کو اسلام آباد میں جمع کرونگا۔ مرد و زن سب اور کہوں گا کہ آؤ مارنا ہے تو مارو، لیکن اس کا فائدہ اور نقصان بھی دیکھنا ہوگا۔ اب یہ کب کرنا ہے، ممکن ہے آپ کے ایسا کرنے سے پہلے ہی آپ کے بہت سارے مسائل حل ہوجائیں۔

اسلام ٹائمز: آئندہ عام انتخابات کے لئے مشترکہ انتخابی پلیٹ فارم پر کیا پیش رفت ہوئی، نیز ووٹر کے لئے کیا پیغام دینا چاہیں گے۔؟

علامہ سید تقی شاہ نقوی: ایک دوسرے کے ساتھ مزاحمت نہ کریں۔ اس سے مکمل پرہیز کی کوشش کی جائے۔ مشترکہ انتخابی پلیٹ فارم کے امکانات موجود ہیں۔ ایسے لوگوں کا انتخاب کیا جائے جو ہماری مشکلات سے ہمیں نکالیں۔ جو مخلص ہوں، سیاسی مداری جو عرصہ دراز سے کام کر رہے ہیں لیکن ہمارے معاملات میں مخلص نہیں ہیں، ان سے پرہیز کریں۔ لوگ قومی مفادات کو ترجیح نہیں دے سکتے، اپنے نجی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔ دشمن کی سازش بھی یہی ہے کہ ان کو نجی معاملات میں اتنا الجھاؤ، تاکہ اس چکر سے نکل ہی نہ سکیں۔ ملکی، قومی اور بین الاقوامی مفادات تک ان کی سوچ ہی نہ جاسکے۔
سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ اس نظام سے کیسے جان چھوٹے۔ میں کہتا ہوں کہ یہ کیا فارمولا ہے فلاں ایم این اے کو اتنے کروڑ دے دو، فلاں ایم پی اے کو اتنے دے دو، حالانکہ کام بلدیاتی ہے، گلیاں اور کوچے تعمیر ہونے ہیں، لیکن ایم این اے کی طرف سے لوٹ لگی ہوئی ہے۔ ایسا نظام پوری دنیا میں نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا جال ہے جس میں پورے ملک کو پھنسایا جاچکا ہے، اس سے کوئی کیسے نکلے گا، اب عدلیہ بھی اس معاملہ میں چیخ رہی ہے۔ یہاں صرف ہمارے ساتھ نہیں بلکہ پوری قوم کے ساتھ ظلم روا رکھا جا رہا ہے، لیکن کب تک ایسا کیا جائے گا، بالآخر یہ ملک نہ رہے گا۔ لیکن ہم تو کہتے ہیں کہ ایسی کوئی مشکل نہ ہو، کسی بھی مریض کا علاج موت نہیں ہوتا۔
خبر کا کوڈ : 252479
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

بہت عرصے سے علامہ صاحب کے انٹرویو کا انتظار تھا لیکن جوابات سے تشفی نہیں ہوئی۔
mashAllah
أغا جان نے جواب واضح نہیں دیئے۔
ہماری پیشکش