QR CodeQR Code

شام کے مسئلے کو گھمبیر بنانے میں امریکہ اور اسرائیل ملوث ہیں

مسلم لیگ نون کو حکومت ملی تو پاک ایران گیس پائپ لائن اور گوادر منصوبے کو آگے بڑھائینگے، جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم

15 Apr 2013 18:17

اسلام ٹائمز: دفاعی تجزیہ کار اور مسلم لیگ نون کے رہنماء کا ''اسلام ٹائمز'' کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں کہنا تھا کہ ایٹمی طاقت ہونے کی وجہ سے ہمارے سعودی عرب، ایران اور مصر سمیت دیگر اسلامی ممالک کے ساتھ تعلقات بہت گہرے ہیں اور ہم ان ممالک کو اکٹھا کرسکتے ہیں۔ بالآخر اس تمام کام کے لیے پاکستان میں قدآور قیادت کی ضرورت ہے۔ اگر اس دفعہ مسلم لیگ نون کی حکومت آگئی تو ہم میاں صاحب کو ضرور یہ مشورہ دیں گے وہ اسلامی ممالک کے درمیان اتحاد اور او آئی سی کو فعال بنانے میں اہم کردار ادا کریں۔


لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم کا نام ملک کے ممتاز محققین اور سیاسی نشیب و فراز پر گہری نظر رکھنے والے بلند پایہ دفاعی و سیاسی تجزیہ نگاروں میں ہوتا ہے، جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم، پاکستان آرڈینسنس بورڈ اور پاکستان سٹیل ملز کے سابق چیئرمین رہے ہیں، نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے ممبر اور سابق وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے ملٹری سیکرٹری کے فرائض بھی انجام دے چکے ہیں۔ جنرل عبدالقیوم عام انتخابات کے حوالے سے مسلم لیگ نون کی طرف سے بنائی گئی سکروٹنی کمیٹی کے بھی ممبر ہیں۔ اسلام ٹائمز نے ان سے گوادر اور پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر نون لیگ کے خدشات سمیت انتخابی سرگرمیوں اور نون لیگ کی متوقع کامیابی کے دعوؤں پر ایک تفصیلی انٹرویو کیا ہے، جو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز:کچھ عرصہ پہلے مسلم لیگ نون کی طرف سے پاک ایران گیس پائپ لائن اور گوادر پورٹ کے حوالے متنازعہ بیان سامنے آئے ہیں، جن سے یہ تاثر لیا جا رہا ہے کہ نون لیگ حکومت میں آتے ہی ان دونوں معاہدوں اور منصوبوں کو بیک رول کردیگی۔ اس میں کتنی صداقت ہے اور نون لیگ ان منصوبوں پر کیا رائے رکھتی ہے۔؟

جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم: مسلم لیگ نون کے حوالے سے میں پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی وضاحت کر دیتا ہوں اور مرکزی قیادت کی طرف سے دو ٹوک الفاظ میں بتاتا ہوں کہ یہ دونوں منصوبے ملکی مفاد میں بہت اہم ہیں اور اس لیے مسلم لیگ نون کی کوئی دوسری رائے نہیں ہے۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہماری گوادر پورٹ ڈویلپ ہو اور اس کو ہم سڑکوں کے ساتھ ملائیں۔ چائنہ ہمارا بہترین دوست ہے اور اگر وہ اسے آپریشنل کر سکتے ہیں تو بہت ہی اچھا ہے۔ نمبر دو یہ کہ گیس پائپ لائن اس وقت ہماری ضرورت ہے۔ پاک ایران گیس پائپ لائن بچھنے کے بعد بھی ہماری توانائی کی آدھی ضرورت بھی پوری نہیں ہوگی۔ ایران ہمارا دوست ملک ہے اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔

مسلم لیگ نون کا موقف جو پہلے تھا وہ آج بھی ہے کہ یہ منصوبہ پندرہ مہینوں کے اندر مکمل ہونے والا منصوبہ تھا تو پانچ سال جماعت کا اتحاد قائم رہا، اس وقت انہوں نے کچھ نہیں کیا۔ اتنی توفیق نہیں تھی کہ اس معاہدے پر دستخط کرتے اور اس منصوبے کو منظم کرتے۔ ہمارے نقصانات ڈبل ٹرپل ہوگئے، جس میں معاشی نقصان سرفہرست ہے جو کہ منصوبہ دیر سے شروع ہونے کی صورت میں ہمیں ہوا۔ ہمیں تو اس وقت بھی ان پر شک ہے کہ یہ منصوبہ ٹھیک طریقے سے ڈیل کیا ہے یا نہیں۔ اس منصوبے کو اپنی حکومت کے آخر میں دستخط کیا، تاکہ اس کے فالو کا سامنا آنے والی حکومت کرے۔ مسلم لیگ نون کی حکومت آگئی تو جس طرح موٹروے بنی، میٹرو بس بنی، ایئر پورٹس بنے، بالکل اسی طرح گیس پائپ لائن پر کام ہوگا اور اسے تکمیل تک پہنچا کر دم لیں گے۔ پانچ سال مکمل کرنے والی حکومت نے ہونے والے کاموں کو اپنے آخری وقت میں کیا۔ جس سے واضح پتہ چلتا ہے کہ یہ صرف پوائنٹ سکورنگ تھی۔

اسلام ٹائمز: آئندہ الیکشن کے نتیجے میں بننے والی حکومت کے حوالے سے کیا کہیں گے، کیا اس بار بھی ہینگ پارلیمنٹ بنے گی یا مسلم لیگ نون اتنی سیٹیں حاصل کر لے گی کہ وہ سادہ اکثریت سے حکومت بنا سکے۔؟
جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم: میں یہ کہتا ہوں کہ پاکستان کے لوگ اس وقت پس چکے ہیں۔ بجلی، پانی، گیس و دیگر بحرانوں نے عوام کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ حکمران اتحاد صرف اور صرف لوٹ کھسوٹ تھا۔ اس حکومت کے پاس نہ مالیاتی کمیٹی کے بندے تھے اور نہ ہی معاشی کمیٹی کے افراد تھے۔ انہوں نے چن چن کر کرپٹ ترین بندوں کو اعلٰی پوسٹوں پر بٹھایا، جنہوں نے دونوں ہاتھوں سے اس ملک کو لوٹا۔ مجھے یقین ہے کہ لوگ دائیں بازو کی جماعتوں کو ووٹ ڈالیں گے اور میں سمجھتا ہوں کہ مسلم لیگ نون خدا کے فضل و کرم سے عام اکثریت تو ضرور لے لے گی اور جو ہم خیال پارٹیاں ہیں ان کے ساتھ اتحاد کرکے اور اپنے مفادات سے بالاتر ہوکر، سیاسی اختلافات کو بھلا کر، اگر ایک مضبوط حکومت بنا لیں تو ہم آگے چل سکتے ہیں۔ 272 ممبر کے اندر اگر آپ کو 150 سیٹ ملیں تو آپ کی اکثریت بنتی ہے۔

مسلم لیگ نون کی پچھلی دفعہ 89 کے قریب سیٹیں تھیں اور پی پی پی کی بھی اکثریت نہیں تھی، انہوں نے بھی اتحادی حکومت بنائی۔ یہ ملک کے مفاد کے لیے بہت ہی اچھا ہوگا کہ مسلم لیگ نون کو سادہ اکثریت ملے۔ پارلیمانی نظام کے فائدے بھی ہیں اور نقصانات بھی ہیں۔ نقصانات یہ ہیں کہ آپ کو حکومت بنانے کے لیے ان پارٹیوں پر انحصاد کرنا پڑتا جو آپ کو بعد میں بلیک میل کرتی ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ پیپلز پارٹی کے سیاسی اتحاد میں ایم کیو ایم نے ان کو ناکوں چنے چبوائے۔ ہم کبھی بھی یہ نہیں کہتے کہ نواز شریف قائد ثانی ہیں، بلکہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ ایک اچھے لیڈر ہیں، اکانومی کو سمجھتے ہیں، کاروبار کو سمجھتے ہیں، انہوں نے پہلے بھی اپنی دو شارٹ ٹرمز حکومت میں ایسے ایسے کام کیے، موٹروے کو بہت ہی قلیل مدت میں مکمل کرکے سب کو حیران کر دیا۔ اس دفعہ بھی انشاءاللہ مزید کام کریں گے اور پاکستان کو معاشی بحران سے نجات دلائیں گے۔

اسلام ٹائمز: آپ خود کہہ رہے ہیں کہ اکثریت نہ ملنے پر پی پی پی کو ایم کیو ایم نے ناکوں چنے چبوائے، فرض کریں کہ نون لیگ بھی اکثریت نہ لے پائی تو پھر آپ کو بھی اتحادیوں کی مدد سے حکومت بنانا پڑے گی اور وہ آپ کو بھی ناکوں چنے چبوا سکتے ہیں۔ اس صورتحال میں کیا ہوگا۔؟

جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم: اگر مسلم لیگ نون کو کسی دوسری جماعت پر انحصار کرنا پڑے تو بہت زیادہ مشکلات ہوں گی۔ اس صورت میں دوسری جماعت غیر متوقع چیز مانگے گی اور ان کے لوگ اگر کرپشن میں ملوث ہوئے تو آپ ان پر ہاتھ ڈالیں گے تو وہ کہیں گے کہ ہم حکومت سے نکلتے ہیں۔ اگر میرے بس میں ہوا تو میں میاں صاحب کو کہوں گا کہ کابینہ صاف ستھری بنائیں۔ اصولوں پر بالکل سودا نہ کریں اور کرپشن نہ ہونے دیں۔ یہاں تک کہ اگر حکومت ٹوٹتی ہے تو ٹوٹتی رہے۔ یہ کبھی نہ کریں کہ اقتدار کے نشے میں ملکی مفاد کے خلاف کوئی کام کر بیٹھیں۔

اسلام ٹائمز: جنرل پرویز مشرف صاحب پاکستان آئے تو مسلم لیگ نون خاموش ہوگئی ہے، جس کی وجہ سے لوگوں کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ اس خاموشی کی وجہ این آر او ہے، خاموشی کی کیا وجوہات ہیں۔؟

جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم: وجوہات کچھ بھی نہیں ہیں، ہماری پارٹی کی طرف سے احسن اقبال نے بڑا مضبوط موقف دیا ہے کہ ہم تو کہتے ہیں کہ ان کا ٹرائیل کیا جائے اور وہ قانون کا سامنا کریں۔ جو باہر سے آئے ہیں، ان کو بھی بڑے اچھے طریقے سے پتہ ہے کہ ان پر کیا کیا الزامات ہیں، تو قانون کا بالکل سامنا کرنا پڑے گا۔ جنرل پرویز مشرف نے بھی کہا ہے کہ میں عدالت میں ضرور جاؤں گا۔ سیاست میں بھی اصول اور ضابطے ہونے چاہیں۔ جب نواز شریف اور میاں شہباز شریف پاکستان سے باہر تھے، تو ہم شور مچاتے تھے کہ ان کو پاکستان میں آنے دیں، ان کا ملک میں آنا ان کا حق ہے، ان کا اپنا ملک ہے، بے شک اندر آکر انہیں کورٹ میں لے جائیں اور انہیں اپنے کئے کی سزا ضرور ملنی چاہیے، لیکن ان کو پاکستان میں داخل ہونے کی اجازت دیں۔ اس وقت جب ہم یہ دعویٰ کرتے تھے تو آج جب نواز شریف صاحب ملک کے اندر بیٹھے ہیں تو باہر سے جنرل پرویز مشرف صاحب آنا چاہتے ہیں تو یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس کو اندر نہ آنے دیں۔ اندر آگئے، بہت اچھی بات ہوگئی۔

آپ نے دیکھا ہوگا کہ کورٹ نے ای سی ایل پر ان کا نام ڈال دیا ہے۔ پہلے جب میاں صاحب، مشرف کے خلاف زیادہ بیان دے رہے تھے تو لوگ کہنے لگے کہ ان کو مشرف ہیضہ ہوا ہے۔ جو پہلے این آر او دستخط ہوا تھا، اس میں تو مک مکا کرکے ایک حکومت بنائی گئی، جس میں آصف زرداری کو پاکستان لایا گیا، اس میں جنرل پرویز مشرف صاحب خود بھی ملوث تھے اور کرپشن کے کیسیز اور حالانکہ قتل کے کیسیز بھی مدعی کی اجازت کے بغیر، عدالت سے بھی پوچھے بغیر سپریم کورٹ نے ختم کئے۔ ابھی میرا خیال ہے کہ یہ بات بالکل ٹھیک ہے کہ جنرل پرویز مشرف کو انصاف ملنا چاہیے۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ یہ سب کچھ کیا صرف جنرل پرویز مشرف اکیلا کرسکتا ہے۔ ظاہری سی بات ہے کہ اس وقت عدالتوں، سیاستدانوں نے مشرف کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔ اگر پرویز مشرف سمجھتا ہے کہ اس کا کوئی گناہ نہیں ہے تو اسے چاہیے کہ وہ قانون کا سامنا کرے۔

اسلام ٹائمز: آج ایک شخص کو فقط اس بنیاد پر الیکشن سے لڑنے سے روکا جا رہا ہے کہ وہ آئین کے آرٹیکل 62، 63 پر پورا نہیں اترتا، میرا سوال یہ ہے کہ جس شخص نے پورا آئین ایک بار نہیں بلکہ اپنے اقتدار میں دو مرتبہ توڑا، اسے الیکشن لڑنے کی اجازت دی گئی آخر کیوں۔؟

جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم: دیکھیں، ہمارے نظام میں یقیناً خرابیاں تو ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ریٹرنگ افسر کے پاس ٹائم بہت کم ہے۔ ریٹرنگ افسر کے پاس ایک فارم جاتا ہے تو وہ کاغذ میں موجود ساری چیز دیکھتا ہے اور کوئی بندہ شکایت نہیں کرتا اور اس کے کاغذ پورے ہیں تو اس کے کاغذ کلیئر ہوجائیں گے۔

اسلام ٹائمز: اگر اعتراض کی بات ہے تو مسلم لیگ نون نے مشرف کیخلاف اعتراض داخل کیوں نہیں کرایا؟ اسی لیے تو لوگوں کو موقع مل گیا ہے اور کہہ رہے ہیں کہ این آر او پر دستخط ہوئے ہیں۔؟

جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم: مسئلہ تو یہ ہے کہ جو پاکستان میں ہو رہا ہے وہ مسئلہ مسلم لیگ نون کا نہیں ہے بلکہ یہ پوری پاکستانی قوم کا مسئلہ ہے۔ مسلم لیگ نون تو خدا کے فضل و کرم سے حکومت میں آئے گی تو رول آف لاء ہوگا۔ سب کیساتھ قانون کے مطابق برتاو کیا جائے گا۔

اسلام ٹائمز: ابھی تک آپ کے مختلف جماعتوں سے روابط بھی ہیں اور ملاقاتیں بھی ہوئی ہیں، پریس کانفرنسیں بھی ہوئی، سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے کوئی عملی شکل نظر نہیں آ رہی ہے، اس کی کیا وجہ ہے۔؟

جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم: اس کی وجہ یہ ہے کہ بہت سی جماعتوں نے اپنے امیدوار فائنل نہیں کیے ہیں۔ سب اس فکر میں ہیں کہ مثلاً نون لیگ والے اپنے بندے فائنل کریں اور ہم جنہیں ٹکٹ نہیں دیتے ہیں، کھینچا تانی کرکے ان لوگوں کو اپنے پاس لے آئیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنا چاہتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر جماعت اسلامی کو کچھ دینا ہے تو اپنے بندے کو بٹھانا پڑے گا تو کچھ دے پائیں گے۔ اس لیے کچھ دیر لگ رہی ہے۔ میں نے بذات خود کاغذات جمع کرائے ہوئے ہیں، لیکن مجھے نہیں کنفرم کہ ٹکٹ ملے گا یا نہیں ملے گا۔

اسلام ٹائمز: کن کن جماعتوں کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی بات چل رہی ہے۔؟

جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم: میرا خیال ہے کہ جماعت اسلامی، فضل الرحمن کا گروپ اور تیسرے پر ہم خیال جماعتیں، مسلم لیگ فنکشنل ان سب کے ساتھ مل کر چلیں گے۔

اسلام ٹائمز: مولانا فضل الرحمن کے ساتھ مسلم لیگ نون کے معاملات چل پائیں گے، کیونکہ وہ تو ناراض ہیں۔؟

جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم: مولانا کی ناراضگی اپنی جگہ پر جائز ہے۔ چوہدری نثار صاحب نے بھی کسی انفارمیشن کے اوپر انحصار کرتے ہوئے کچھ کہا، جس پر مولانا صاحب کچھ نالاں ہیں۔ میاں نواز شریف نے بڑی وضاحت کے ساتھ یہ کہا کہ مولانا فضل الرحمن کی ناراضگی مسلم لیگ نون کے ساتھ نہیں ہے، ان کی ناراضگی چوہدری نثار کے ساتھ ہوئی ہے اور جس کو ہم دور کر دیں گے۔

اسلام ٹائمز: طالبان کے ساتھ مذاکرات عملی ہوتے ہوئے دیکھائی نہیں دے رہے، ایک طرف تو اے پی سی بلائی جاتی ہے جبکہ دوسری جانب بم دھماکہ ہو جاتا ہے، کیا کہیں گے، اس کا حل کیا ہے۔؟

جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم: پہلی بات تو یہ ہے کہ حکومت کو کچھ پتہ ہی نہیں تھا اور قیادت بھی نہیں تھی۔ کس کو کس طریقے سے ہینڈل کرنا ہے۔ دہشت گردی کو کس طرح کنٹرول کرنا ہے۔ ابھی عبوری حکومت کو اس حوالے سے اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا۔ اب کے وزیر داخلہ کو چاہیے کہ وہ دہشت گردوں کو پکڑے اور پھر عوام کو بتائے کہ کہاں سے خطرہ تھا۔ وزیر داخلہ بتائے کہ فلاں بندوں کو خطرہ تھا اور ہم نے دہشت گردوں کے پورے گینگ کو گرفتار کر لیا ہے اور ہم نے انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا ہے۔ ہم بھی اس وقت نہیں چاہتے کہ عبوری حکومت کوئی ایسی بات کرے کہ جس سے ظاہر ہو کہ یہ کسی ایک پارٹی کی جانب جھکاؤ رکھتی ہے۔

اسلام ٹائمز: افغانستان میں امریکہ کے انخلاء کے لیے ایک سال باقی رہ گیا ہے، کیا کہیں گے۔؟

جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم: فورسز ساری نہیں نکلیں گی۔ کم سے کم 15 ہزار تو پیچھے چھوڑیں گے۔ چونکہ امریکہ کے لیے افغانستان بہت زیادہ اہم ہے۔ امریکہ کی یہ صرف اور صرف غلط فہمی ہے کہ یہ افغانستان میں اپنے چھ بیسز پر قبضہ رکھیں گے اور اس کے بعد کہیں گے کہ دہشت گردی رک جائے گی۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ امریکہ مکمل افغانستان والوں کو حق دے کہ وہ اپنی مرضی سے حکومت بنائیں۔ امریکہ افغانستان اور سب عوام کو ان کے جینے کا حق دے۔ امریکہ معاشی لحاظ سے افغانستان کی مدد کرے، ان کے نقصانات بھی پورے کرے، ان کے جو لوگ زخمی ہوئے ہیں اور ان کی دیکھ بھال کریں اور ان کے جو لوگ شہید ہوئے ہیں ان کا ازالہ کریں۔ اس کے علاوہ پاکستان میں جو ڈرون حملے ہوئے ہیں، ان کا بھی ازالہ کیا جائے۔ میرے خیال میں یہی ان کے زخموں پر بہتر مرہم پٹی ہوگی اور یہی بہتر حکمت عملی بھی ہوسکتی ہے۔

اسلام ٹائمز: لیبیاء، مصر، تیونس و دیگر ممالک میں جنگیں لڑی گئیں لیکن ہمیں او آئی سی کا کردار کہیں نظر نہیں آیا، اب شام میں ایک خونی جنگ لڑی جا رہی ہے لیکن اس فورم سے اس سلگتے ہوئے مسئلے کو حل کرانے کیلئے کوئی کردار نظر نہیں آتا۔ اس کی کیا وجہ نظر آتی۔؟

جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم: فورم کی اہمیت تو بہت زیادہ ہے۔ فورم کو فعال کرنے والے لوگ اور قائدین نہیں ہیں۔ جس طرح پاکستان میں قیادت کا فقدان ہے، بالکل اسی طرح اسلامی دنیا میں بھی قیادت کا فقدان ہے۔ دیانتدار، ویژن رکھنے والے، بااصول قیادت مسلم دنیا میں کہیں نظر نہیں آتی۔ امریکہ نے اپنے ٹاؤٹ کھڑے کیے تھے، مثلاً حسنی مبارک وغیرہ جو امریکہ کے لیے کام کرتے رہے۔ مسلم امہ کی وحدت کے لیے ہمیں (جیسے کہ ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے اپنے دور میں OIC کی کانفرنس بلائی تھی)، اسی طرح آج بھی پاکستان کو مسلم امہ کی قیادت کرنی چاہیے۔ چونکہ ہمارا ملک طاقت رکھتا ہے، ایٹمی ملک ہے اور جہاں ہمارے تعلقات ہیں۔ جیسے کہ سعودی عرب، ایران، مصر وغیرہ اسی طرح دیگر مسلم ممالک کے ساتھ تعلقات بہت گہرے ہیں اور ان کو ہم اکٹھا کرسکتے ہیں۔ بالآخر اس تمام کام کے لیے پاکستان میں قدآور قیادت کی ضرورت ہے۔ اگر اس دفعہ مسلم لیگ نون کی حکومت آگئی تو ہم میاں صاحب کو ضرور یہ مشورہ دیں گے۔ پاکستان کے اندر جہاں پر سیاسی اتحاد کو مضبوط کرنا ہے، وہاں پر ساتھ ساتھ مسلم ممالک، OIC کو فعال کرنا ہے اور اس میں ہم اچھے بندے لگائیں، تاکہ یہ مسئلہ فوری حل کیا جاسکے۔

اسلام ٹائمز: ایک دفاعی تجزیہ کار کی حیثیت سے شام کے مسئلے کا حل کیا تجویز کریں گے۔؟
جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم: درحقیقت اگر وہاں پر باہر سے کوئی مداخلت نہ ہو اور سیریا کی حکومت کو یہ بتایا جائے کہ اپنی عوام کو ووٹ کا حق دیں لیکن اب تو معاملہ یہ ہے کہ ایک طرف سویت یونین کے مفادات ہیں اور دوسری جانب امریکہ و اسرائیل کے مفادات ہیں اور پسنے والے درمیان میں ہمارے سیریا والے مسلمان بھائی ہیں۔ انگریزوں نے 1953ء میں ایران میں مصدق گورنمنٹ کو توڑ کر بادشاہت قائم کرلی، چونکہ بادشاہت انہیں زیادہ فائدہ دیتی تھی۔ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں کون سی جمہوریت ہے۔ اگر ملک کی مناسبت سے کوئی بھی سسٹم صحیح چلتا ہے تو چلنے دیں اور اگر وہ تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو اس ممالک کے عوام خود تبدیل کریں۔ کرنل قذافی کی پالیسی اور صدر صدام کی پالیسی سے ہم اتفاق کریں یا نہ کریں، لیکن یہ بات قابل تسلیم ہے کہ مغربی دنیا کے دوہرے معیار ہیں، یعنی جب دیکھا کسی سے فائدہ ہو رہا ہے تو وہی نظام اسی ملک میں لے آتے ہیں۔

جب دیکھا کہ صدر صدام ان مغربیوں کے فائدہ مند ہے تو بھرپور استفادہ کرنے کے لیے اسے کیمیکل ہتھیار تک دئیے اور گیس بھی فراہم کی، تاکہ وہ ایران کے خلاف کھل کر محاذ آرائی کرسکے۔ جب اس سے تمام فائدے پورے ہوگئے تو اسے اتنی اونچی جگہ سے پھانسی لگائی کہ اس کی گردن ہی الگ ہوگئی۔ بعد ازاں صدام کے بچوں کو بھی مار دیا۔ پاکستان میں آئے روز ہونے والے ڈرون حملوں کے نتیجے میں مرنے والے بچے، مرد اور خواتین کیا یہ دہشت گردی نہیں ہے۔ اسی طرح افغانستان میں لوگوں کو شہید کرکے ان پر پیشاب کیا گیا۔ یہ مغربی لوگ امن کے نام پر خود ایسا کام کرتے ہیں، لہٰذا ان سے دنیا میں امن لانے کی امید ناممکن ہے۔

پاکستان میں جس طرح صدر زرداری کو لایا گیا، یہ سب امریکہ کی ہی کارستانیاں ہیں، کیونکہ اس کے بدلے میں امریکہ جب چاہتا ہے اسلام آباد میں اپنی ایمبیسی کھلی کر دیتا ہے۔ لیڈر وہ ہے جو حق کا نعرہ لگائے، اللہ اکبر کا نعرہ لگائے اور جب اسے اپنے عہدے سے ہٹنا پڑے تو ہٹ جائے۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہو گا کہ ونزویلا کے صدر ہو گو شاوز جو ابھی حال ہی میں فوت ہوئے ہیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اسے CIA نے زہر دے کر مروا دیا ہے۔ ایسے لوگ امریکہ کی آنکھوں میں بہت کھٹکتے ہیں۔ بس امریکہ چاہتا ہے کہ ایسے لوگوں کو لے کر آئے کہ جو اپنی فوج نہ رکھتے ہوں اور ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوں۔

اسلام ٹائمز: کہا جا رہا ہے کہ بشارالاسد کو بھی اسی بات کی سزا دی جا رہی ہے کہ وہ ونزویلا کے سابق صدر کی طرح اپنے ملک کی عوام کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا چاہتے ہیں، اور فلسطین کاز کی سپورٹ کرتے ہیں؟
جنرل ریٹائرڈ عبدالقیوم: جی بالکل ایسا ہی ہے۔ اسی طرح ایران کا بھی یہی قصور ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ اسرائیلی زیادتی کر رہے ہیں۔ حالانکہ ایک وقت ایسا بھی تھا جب امریکہ کا سب سے بڑا بیس اور اڈہ ایران میں تھا۔ رضا شاہ پہلوی امریکہ کی نظر میں بہت عظیم شخص تھا اور امریکہ سب سے بہترین ہتھیار انہیں دیتا تھا۔ اب جب کہ ایران نے امریکہ کی بات نہیں سنی تو یہ چور بن گئے۔


خبر کا کوڈ: 254217

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/interview/254217/مسلم-لیگ-نون-کو-حکومت-ملی-پاک-ایران-گیس-پائپ-لائن-اور-گوادر-منصوبے-آگے-بڑھائینگے-جنرل-ریٹائرڈ-عبدالقیوم

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org