5
0
Wednesday 24 Apr 2013 20:28

مجلس وحدت مسلمین کو بھی پیپلز پارٹی سے اتحاد کر لینا چاہئیے، علامہ جعفر سبحانی

مجلس وحدت مسلمین کو بھی پیپلز پارٹی سے اتحاد کر لینا چاہئیے، علامہ جعفر سبحانی

علامہ جعفر علی سبحانی شیعہ علماء کونسل کراچی ڈویژن کے صدر ہیں۔ آپ کا شمار ملی حوالے سے کراچی کے فعال تنظیمی علماء میں ہوتا ہے جبکہ کراچی میں دیگر شیعہ تنظیموں کے ہاں بھی آپ کی شخصیت احترام کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔ آپ اس سے قبل شیعہ علماء کونسل سندھ کے سینئر نائب صدر کی حیثیت سے ذمہ داریاں سر انجام دے رہے تھے۔ تنظیمی صورتحال بالخصوص کراچی کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے شیعہ علماء کونسل پاکستان کے سربراہ علامہ سید ساجد علی نقوی کی درخواست پر آپ نے ایس یو سی کراچی ڈویژن کی صدارت سنبھالی، تاکہ کراچی کی حساس صورتحال میں بہتر انداز سے کاموں کو آگے بڑھایا جاسکے، آپس کے اختلافات کو ختم کیا جاسکے اور ملت تشیع کو اتحاد و وحدت کے ساتھ آگے لے کر چل سکیں۔ آپ انہیں اہداف و مقاصد کیلئے سرگرم ہیں۔ اسلام ٹائمز نے آئندہ عام انتخابات خصوصاَ اسلامی تحریک اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان ہونے والے سیاسی انتخابی اتحاد اور اس کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے حوالے سے علامہ جعفر علی سبحانی سے ایک خصوصی نشست کی، اس حوالے سے کیا گیا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: حال ہی میں اسلامی تحریک پاکستان اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان ہونے والے سیاسی اتحاد کے حوالے سے آپ کیا کہنا چاہئیں گے۔؟
علامہ جعفر علی سبحانی: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ پاکستان کی موجودہ سیاسی فضاء کو مدنظر رکھتے ہوئے جہاں تمام چھوٹی بڑی مذہبی و سیاسی جماعتوں نے عام انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے، وہیں قائد محترم علامہ سید ساجد علی نقوی صاحب نے بھی آئندہ عام انتخابات میں بھرپور حصہ لینے کا اعلان کیا۔ پورے ملک سے امیدوار کھڑے کرنے کا فیصلہ کیا۔ اسی دوران جب مختلف مذہبی و سیاسی جماعتوں کو پتہ چلا کہ اسلامی تحریک بھی انتخابات میں حصہ لے رہی ہے تو مختلف جماعتوں نے اس حوالے قائد محترم سے آکر ملاقاتیں کیں۔ مسلم لیگ نواز نے بھی رابطہ کیا، تحریک انصاف نے بھی رابطہ کیا، پاکستان پیپلز پارٹی و دیگر جماعتوں نے بھی رابطہ کیا۔ اس دوران سیاسی حوالے سے علامہ سید ساجد علی نقوی کے ساتھ صدر زرداری کے ساتھ ایک اہم ملاقات بھی ہوئی۔ آخر کار پاکستان پیپلز پارٹی جس نے مذاکرات کیلئے اسلامی تحریک کے ساتھ پہل کی تھی، کی طرف سے ایک پارلیمانی بورڈ کی تشکیل دی گئی۔ کچھ لوگ ہماری طرف سے، کچھ لوگ ان کی طرف سے تھے۔ سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کیلئے تقریباً دو ہفتے مذاکرات کا دور چلا۔ جس کے نتیجے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ انتخابی اتحاد کا فیصلہ ہوا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے ایک یہ شرط رکھی گئی تھی کہ ہم آپ کو سیٹیں دینگے لیکن آپ کے امیدوار ہمارے (پی پی پی) ٹکٹ پر الیکشن لڑیں گے۔ ہم نے کہا کہ اگر ہمارا انتخابی اتحاد ہوتا ہے تو ٹھیک ہے ہم آپ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑیں گے۔ لہٰذا ہمارا پی پی پی کے ساتھ انتخابی اتحاد ہوگیا جس کا پہلا مثبت اثر یہ نکلا کہ گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی میں اسلامی تحریک کے رہنماء دیدار علی جو کہ اس اسمبلی کے رکن بھی ہیں، کو وزارت دی گئی اور وہ صوبائی وزیر کی حیثیت سے حلف اٹھا چکے ہیں۔ کشمیر میں وزیراعظم کا ایک مشیر لیا گیا۔ یہ اس کی شروعات ہیں۔ بہرحال آئندہ عام انتخابات کے حوالے سے اسلامی تحریک اور پیپلز پارٹی کے درمیان انتخابی اتحاد ہوچکا اور ہم بھرپور طریقے سے پی پی پی کے ساتھ مل کر الیکشن میں حصہ لیں گے۔ سندھ سے ہمیں دو سیٹیں دی گئی ہیں۔ پنجاب سے بھی ہمیں سیٹیں دی گئی ہیں۔ دیگر تفصیلات بھی جلد قوم کے سامنے آجائیں گی۔

اسلام ٹائمز: جن نشستوں کی آپ نے پنجاب اور سندھ کے حوالے سے بات کی، آپ کے امیدوار پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑیں گے یا اسلامی تحریک کے ٹکٹ پر۔؟
علامہ جعفر علی سبحانی: ہم نے پی پی پی کے ساتھ ان نشستوں پر اپنے لئے بات کی ہے کہ جہاں سے ہم جیت سکتے ہیں۔ لہٰذا ان نشستوں پر اسلامی تحریک کے اعلان کردہ امیدوار پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر انتخابات لڑیں گے۔ ہمارا ہدف یہ ہے کہ ہمارے نظریاتی افراد قومی و صوبائی اسمبلیوں میں پہنچیں۔

اسلام ٹائمز: سنا ہے کہ جھنگ سے تعلق رکھنے والی نشست اسلامی تحریک و پیپلز پارٹی کے درمیان ہونے والے انتخابی اتحاد و معاہدے سے مستثنٰی ہے، اس حوالے سے کیا تفصیلات ہیں۔؟
علامہ جعفر علی سبحانی: پی پی پی اور اسلامی تحریک کے درمیان ہونے والے اس انتخابی اتحاد اور معاہدے میں جھنگ کے مسئلہ کو قائد محترم نے الگ رکھا تھا۔ انہوں نے پی پی پی کو صاف کہہ دیا تھا کہ میں جھنگ کے مسئلہ پر آپ سے کمپرومائز نہیں کرونگا۔ جھنگ میں ہم اس معتدل شخص کی مدد کرینگے جو الیکشن لڑنے والے کالعدم دہشت گرد جماعت کے سرغنہ (احمد لدھیانوی) کے خلاف سب سے زیادہ مضبوط امیدوار ہوگا۔ ہماری اطلاعات کے مطابق اس حوالے سے پیپلز پارٹی کے امیدوار کی پوزیشن مضبوط نہیں ہے۔ اسلامی تحریک کا ایک نمائندہ وفد آج کل میں جھنگ کا دورہ کرکے جائزہ لے گا کہ کس امیدوار کی پوزیشن مضبوط ہے اور حمایت کا فیصلہ کریگا۔ پیپلز پارٹی کے ایک امیدوار سے خود قائد محترم نے انٹرویو بھی لیا مگر وہ بھی ناکافی تھا۔ لہٰذا جس معتدل مزاج امیدوار کی وہاں پوزیشن مضبوط ہوگی ہم اس کی وہاں حمایت کرینگے فرقہ پرست دہشت گرد عناصر کے مقابلے میں۔ چاہے وہ شیخ وقاص اکرم کے والد شیخ اکرم ہوں یا کوئی اور۔

اسلام ٹائمز: اسلامی تحریک کے پیپلز پارٹی کے ساتھ انتخابی اتحاد کے بعد کیا آپ کے مجلس وحدت مسلمین کے ساتھ بھی سیاسی انتخابی حوالے سے پیشرفت کے امکانات ہیں، تاکہ شیعہ ووٹ تقسیم نہ ہو۔؟
علامہ جعفر علی سبحانی: میرا خیال ہے کہ خود مجلس وحدت مسلمین بھی پیپلز پارٹی کے ساتھ انتخابی سیاست کے حوالے سے اتحاد کرلے گی۔ اگر یہ اتحاد ہوتا ہے تو بہت ہی اچھا ہوگا اور میری رائے بھی یہی ہے کہ ایم ڈبلیو ایم پی پی پی سے انتخابی اتحاد کرلے۔ اس طرح جب اسلامی تحریک، ایم ڈبلیو ایم اور پی پی پی کا انتخابی اتحاد بن جائے گا تو ہم جہاں جہاں مجلس وحدت مسلمین کے امیدوار کھڑے ہیں، ان کی بھرپور حمایت کرینگے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اسلامی تحریک اور ایم ڈبلیو ایم کے انتخابات میں حصہ لینے کے مقاصد ایک ہی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ایم ڈبلیو ایم کے بھی پیپلز پارٹی کے ساتھ اس حوالے سے مذاکرات ہوئے تھے مگر کچھ مسائل کی وجہ سے بات بن نہیں سکی۔ مگر امید ہے کہ دونوں جماعتوں کے درمیان معاملات طے ہو جائیں گے اور ایم ڈبلیو ایم کا پی پی پی سے اتحاد کا فیصلہ ملکی اور قومی صورتحال کے پیش نظر بہت بہتر فیصلہ ہوگا۔

اگر ایم ڈبلیو ایم پیپلز پارٹی سے اتحاد نہیں کرتی یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہیں کرتی اور اپنے امیدوار کھڑے کرتی ہے تو پھر ہم وہاں کوئی بہتر بیچ کا راستہ نکالنے کی کوشش کرینگے، کیونکہ اس وقت ان دونوں جماعتوں ایم ڈبلیو ایم اور پی پی پی سے بہت اچھے روابط قائم ہیں۔ ہماری کوشش ہوگی کہ ہم ان دونوں کی بھرپور مدد کریں۔ میں پھر کہوں گا کہ اگر ایم ڈبلیو ایم پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمٹ کرتی ہے تو بہت اچھی صورتحال بن جائے گی اور کراچی شہر سے بھی ایم ڈبلیو ایم کے امیدوار کی صورت میں یا شیعہ نظریاتی امیدوار کی صورت میں شیعہ قوم کے نمائندے اسمبلیوں میں آسانی کے ساتھ پہنچنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

اسلام ٹائمز: پیپلز پارٹی سے اتحاد کے بعد آپ کس طرح ایم ڈبلیو ایم کے امیدواروں کی حمایت کرینگے۔؟
علامہ جعفر علی سبحانی: مثال کے طور پر اگر کراچی میں جہاں ایم ڈبلیو ایم کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کا امیدوار نہیں ہے، ہم وہاں ایم ڈبلیو ایم کے امیدوار کی بھرپور حمایت کرینگے۔

اسلام ٹائمز: اگر کسی حلقے میں ایم ڈبلیو ایم کی مضبوط پوزیشن ہوئی اور ان کے مقابل پی پی پی کا بھی امیدوار ہوا تو کیا اسلامی تحریک وہاں پی پی پی سے بات کرکے ایم ڈبلیو ایم کی حمایت کیلئے کوئی بہتر حل نکالنے کی کوشش کرسکے گی۔؟
علامہ جعفر علی سبحانی: میں کوئی حتمی بات نہیں کر رہا ہوں، لیکن ہوسکتا ہے کہ اگر کہیں ایم ڈبلیو ایم کے امیدوار کی پوزیشن پی پی پی کے امیدوار کے مقابلے میں بہتر ہو تو ہوسکتا ہے کہ پیپلز پارٹی سے ہم اس حوالے سے بات کرکے بہترین راہ حل نکالنے کی کوشش کرینگے، تاکہ شیعہ ووٹ تقسیم ہونے سے شیعہ مخالف اور خود پیپلز پارٹی مخالف عناصر کو فائدہ نہ پہنچ سکے۔ لہٰذا اس بات کا امکان موجود ہے اور یہ ہو بھی سکتا ہے۔ ابھی وقت ہے اور جیسا کہ میں نے کہا کہ ممکن ہے کہ ملکی و قومی صورتحال کی روشنی میں خود ایم ڈبلیو ایم اور پی پی پی کے درمیان کوئی بہتر راستہ نکل آئے۔

اسلام ٹائمز: کراچی میں مجلس وحدت مسلمین اور متحدہ قومی موومنٹ کے درمیان محاذ آرائی دیکھنے میں آ رہی ہے، آپ بحیثیت فعال شیعہ تنظیمی شخصیت و رہنماء کیا سمجھتے ہیں کہ اس محاذ آرائی کا خود ایم ڈبلیو ایم اور کراچی کے شیعوں پر کیسا اثر پڑے گا؟
علامہ جعفر علی سبحانی: اس حوالے سے ہمارے پاس اطلاعات آ رہی ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ ایم ڈبلیو ایم کا متحدہ قومی موومنٹ سمیت کسی بھی سیاسی و مذہبی جماعت سے کسی قسم کا ذاتی اختلاف نہیں ہے۔ اگر کسی جگہ سیاسی حوالے سے محاذ آرائی ہو بھی جاتی ہے تو اسے بات چیت کرکے حل کر دینا چاہئیے۔ امید یہ کہ ایم ڈبلیو ایم کے دوست اس حوالے سے بہتر فیصلہ کرینگے۔ ہو سکتا ہے کہ شیعہ مخالف تکفیری قوتیں شیعہ جماعتوں کو سیاسی جماعتوں سے ٹکرانے کی کوشش کریں۔ دیکھیں یہ وقت جذبات کو قابو میں رکھ کر کاموں کو آگے بڑھانے کا ہے، ہمیں شیعہ ووٹ کے ساتھ ساتھ ساتھ شیعوں کی جان و مال کا تحفظ بھی کرنا ہے۔ ہمیں دیگر غیر اہم معاملات میں الجھنے سے اپنے آپ کو بچانا ہوگا اور بہترین سیاسی و انتخابی تنائج کے حصول کیلئے اپنی کلی توجہ آئندہ انتخابات پر مرکوز رکھنی ہوگی۔

مشاہدہ میں بھی آیا ہے کہ ہمارے بعض ایم ڈبلیو ایم کے دوست ایم کیو ایم کے حوالے سے سخت لہجہ رکھتے ہیں، ان دوستوں کو چاہئیے کہ اپنے بیانات کو معتدل بنائیں۔ اگر کہیں ایم کیو ایم سے محاذ آرائی ہو بھی جاتی ہے تو اس حوالے سے ایم ڈبلیو ایم کی جانب سے ایم کیو ایم سے بات چیت کرنے، رابطہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، ایم کیو ایم سے بھی رابطہ ہونا چاہئیے، ان کے ساتھ بات چیت کا دروازہ بند نہیں کرنا چاہئیے۔ دیکھیں میدان سیاست میں بات چیت کا دروازہ تو سوائے تکفیریوں کے کسی کے ساتھ بھی بند نہیں کرنا چاہئیے۔ جیسا کہ میں نے انٹرویو کے شروع میں کہا کہ مجلس وحدت مسلمین کو پی پی پی کے ساتھ سیاسی انتخابی اتحاد اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنا چاہئیے۔

اسلام ٹائمز: بہت سے حلقوں کی یہ رائے ہے کہ پیپلز پارٹی نظریاتی حوالے سے تشیع کے ہم آہنگ ہے، اس لئے یہ اتحاد ہوا ہے۔ کیا یہ کہنا صحیح ہے۔؟
علامہ جعفر علی سبحانی: دیکھیں نہ تو خود یہ پیپلز پارٹی کا موقف ہے اور نہ ہی یہ بات درست ہے کہ پیپلز پارٹی نظریاتی حوالے سے تشیع کے نظریات سے ہم آہنگ ہے۔ پیپلز پارٹی صرف ایک سیاسی جماعت ہے نہ کہ شیعہ جماعت۔ ایک میٹنگ میں جب کسی نے کہا کہ یہ تو نواز شریف کے ساتھ ہیں، تو قائد محترم نے کہا تھا کہ شیعہ سیاسی حوالے سے فطری طور پر پیپلز پارٹی کے اتحادی ہیں۔ دیکھیں بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کا رویہ بھٹو کے دور سے شیعوں کے حوالے سے بہتر رہا ہے۔ خود نادرن ایریاز میں ان کی خدمات اچھی تھیں۔ اس حوالے سے شیعہ اکثریت ان کی حمایت کرتی ہے۔ البتہ نظریاتی ہم آہنگی کہنا صحیح نہیں ہے۔ ابھی کچھ دنوں پہلے سابق گورنر پنجاب سے کسی نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے علامہ ساجد نقوی سے اتحاد کر لیا ہے تو انہوں نے وہاں برملا کہا کہ ماضی میں نواز شریف بھی علامہ صاحب سے اتحاد کرچکے ہیں، خود بے نظیر بھٹو بھی علامہ صاحب سے انتخابی اتحاد کرچکی ہیں۔ تو آج اگر پی پی پی اتحاد کرتی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: لوگوں کا یہ کہنا بھی ہے سابقہ پی پی حکومت کے دوران اہل تشیع بہت زیادہ دہشت گردی کا شکار رہے، اس لئے ان سے اتحاد کرنا اسلامی تحریک کیلئے سیاسی حوالے سے نقصان کا باعث ہوگا۔ اس حوالے سے کہا کہیں گے۔؟
علامہ جعفر علی سبحانی: اصل میں جو لوگ یہ بات کر رہے ہیں وہ اس وقت پاکستان کی موجودہ صورتحال اور زمینی حقائق سے لاعلم ہیں۔ درست ہے کہ ان کی حکومت ناکام رہی، ہم دہشت گردی کا شکار رہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں حکومت کرنے نہیں دیی گئی۔ کوئی بھی حکومت یہ نہیں چاہتی کہ دہشت گردی میں ملوث ہوکر اپنے آپ کو بدنام کرے، ملک کو تباہ کرے۔ اصل میں سمجھنا ہوگا کہ پاکستان میں ہونی والی دہشت گردی ایک بہت بڑی عالمی سازش کا حصہ ہے، یہ بین الاقوامی معاملہ ہے۔ کوئی بھی دہشت گردی کے واقعات کو روکنے کی گارنٹی نہیں دے سکتا۔ تو یہ دہشت گردی والا معاملہ بالکل الگ ہے۔ اگر وہ لوگ اس چیز کو مورد الزام ٹہرا کر یہ بات کہتے ہیں تو اس حوالے سے میں صرف اتنا کہوں گا کہ اس سے زیادہ مسائل تو دوسری طرف موجود ہیں۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس وقت موجودہ ملکی صورتحال میں تمام تر مسائل کے باوجود پیپلز پارٹی سے اتحاد ہی سب سے بہتر آپشن ہے۔

اسلام ٹائمز: بزرگ علماء کی سربراہی میں بنائے ضابطہ اخلاق کے حوالے سے کیا کہیں گے؟ علامہ ناصر عباس جعفری بھی اس ضابطہ اخلاق پر دستخط کر چکے ہیں۔ شیعہ علماء کونسل کب دستخط کرے گی۔؟
علامہ جعفر علی سبحانی: ضابطہ اخلاق میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایک دوسرے کو برداشت کرنا ہے، توہین نہیں کرنی، بزرگوں کا احترام کرنا ہے۔ مقاصد و اہداف مشترکہ ہیں، اس کو مدنظر رکھ کر آگے بڑھنا ہے۔ بزرگ علماء کی جانب سے بنائے گئے ضابطہ اخلاق کے متن پر کسی کو اختلاف نہیں ہے، سب اس سے متفق ہیں۔ جہاں تک اس پر دستخط کرنے کی بات ہے کہ شیعہ علماء کونسل کی جانب سے کون اور کب کرے گا ابھی میرے پاس اس حوالے سے تفصیلات نہیں ہیں۔ مگر اس پر دستخط کرنے میں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ قائد محترم نے ہمیشہ کہا ہے کہ بزرگ علماء جو فیصلہ کریں گے، اسے ہماری مکمل تائید حاصل ہوگی۔ ویسے بھی یہ کوئی دو تنظیموں کیلئے نہیں بلکہ اس کا دائرہ کار پاکستان کی تمام شیعہ تنظیموں و گروہوں کیلئے ہے۔ انشاءاللہ اس سے ملی صورتحال کو مزید بہتر بنانے میں مدد ملے گی اور ملی تنظیموں اور جماعتوں کے درمیان ہم آہنگی بڑھے گی۔ یہ ایک بہت اچھا ضابطہ اخلاق ہے۔

خبر کا کوڈ : 257130
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Canada
Mashallah allama sahb ny intehai khoobsurat jwab diye .. or Mwm,, suc dono shia jamaatain hen .. apas men koi esa mslaa nhi k jisko barhaa charaa k byan kia jaye ... sazshii anaasir apna kam krty rehty hen lekin Allama sajid naqvi ki hikmat amli say masaail hal ho jaty hen ...
United States
Allama Sahib Allah Pak aap ko Salamat rakhay aap ki baton me Itahaad o Wahdat aur Piyaar o Mohabat ki Khushboo aa rahi hai, aap ka interview parh kr dil ko rahat mehsoos ho rahi hai. Salam to all our Ulema either of ITP or MWM.
پہت اچھا، اپ جیسے فراخدل اور وسیع النظر کی دونوں طرف کمی ہے،
تمام قائدین کی ایسی ہی سوچ اور فکر اتحاد قائم کرسکتی ہے۔
کاش سبھی اگر اسی طرح سے اپنے پیغام کو پہنچائیں تو کوئی مسئلہ ہی پیدا نہ ہو،،،جزا کم اللہ
I think this site has been hijacked by SUC ..............save islamtimes
ہماری پیشکش