0
Sunday 12 May 2013 13:21

اسرائیل کی ترکی سے معذرت خواہی کے پس پردہ عوامل

اسرائیل کی ترکی سے معذرت خواہی کے پس پردہ عوامل
فارس نیوز ایجنسی کے مطابق اسرائیل اور ترکی کے درمیان سفارتی تعلقات اس وقت شدید مشکلات کا شکار ہوگئے تھے جب 2010ء میں غزہ کی جانب گامزن فلوٹیلا میں شامل ترک کشتی "مرمرہ آبی" پر اسرائیلی کمانڈوز نے دھاوا بول کر کئی صحافیوں کو شہید اور اس میں سوار دوسرے افراد کو عملے سمیت گرفتار کر لیا تھا۔ ترکی نے اسرائیل کے سفیر کو ملک سے نکلنے کا حکم دیتے ہوئے اسکی واپسی کو اسرائیل کی جانب سے سرکاری طور پر معذرت خواہی سے مشروط کر دیا تھا۔ چند دن پہلے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے ترکی کے وزیراعظم رجب طیب اردگان سے ٹیلی فون کے ذریعے رسمی طور پر معذرت خواہی کی ہے۔ اس معذرت خواہی کے بارے میں کئی قسم کی آراء سامنے آچکی ہیں۔ بعض سیاسی ماہرین اس معذرت خواہی کو مغربی دنیا کا ایک نیا کھیل قرار دیتے ہیں، جبکہ بعض دیگر ماہرین کے نزدیک اس معذرت خواہی کی اصل وجہ اسرائیل کو درپیش اندرونی اور بیرون مشکلات ہیں۔ مغربی ذرائع ابلاغ نے اس معذرت خواہی کو حقیقی قرار دیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ اس سے اسرائیل اور ترکی کے درمیان تعلقات کا نیا باب کھل جائے گا۔ ہم نے اسرائیل کی جانب سے ترکی سے سرکاری طور عذر خواہی کے حقیقی اسباب اور اسکے دوررس نتائج جاننے کیلئے بین الاقوامی امور کے ماہر جناب جعفر قناد باشی سے انٹرویو لیا ہے، جو قارئین کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے۔ 

سوال: مشرق وسطی خاص طور پر مصر اور شام میں رونما ہونے والی تبدیلیاں بنجمن نیتن یاہو کی جانب سے ترکی سے رسمی طور پر معذرت خواہی پر مبنی فیصلے میں کس حد تک موثر ہیں؟
جواب: وہ چیز جو اس بات کا باعث بنی کہ امریکی صدر براک اوباما اسرائیل سے ایسا مطالبہ کریں اور اسرائیلی وزیراعظم بھی اس کو قبول کریں خطے میں رونما ہونے والی تبدیلیاں ہیں جنہوں نے امریکی حکومت، ترکی کی حکومت اور اسرائیلی رژیم کو یہ فیصلہ کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں اس وقت امریکہ اپنی خارجہ سیاست میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں لانے میں مصروف ہے۔ امریکی حکام اچھی طرح جان چکے ہیں کہ وہ مشرق وسطی اور عالم اسلام میں انتہائی منفور ہو چکے ہیں اور امریکہ کے بارے میں پائی جانے والی اس عمومی نفرت کی بڑی وجہ ان کی غلط خارجہ پالیسیاں خاص طور پر اسرائیل کی بے چون و چرا حمایت ہے۔ لہذا امریکی صدر اوباما کی پوری کوشش ہے کہ اپنا امیج درست کرے اور خود کو مسئلہ فلسطین میں ایک ثالث کے طور پر ظاہر کرے۔ 

اسی وجہ سے براک اوباما نے مقبوضہ فلسطین کے تازہ ترین دورے میں رام اللہ اور بیت المقدس دونوں کا دورہ کیا اور اپنے ثالث والے کردار کو اجاگر کرنے کی کوشش کی۔ اوباما اپنے گذشتہ دورہ صدارت میں بھی اسی پالیسی پر گامزن رہے اور اپنے ترکی اور مصرے کے دوروں کے دوران ایسے بیانات دیئے جن ظاہر ہوتا تھا کہ وہ اسلام دشمنی پر مبنی امریکہ کا حقیقی چہرہ چھپانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے انقرہ میں مذہبی تقریب میں بھی شرکت کی اور مصر میں دورے کے دوران مسجد بھی گئے۔ کلی طور پر امریکہ کی کوشش ہے کہ رائے عامہ کی نظروں میں اس کا کردار ایک اسرائیلی حامی سے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان ایک ثالث کے طور پر تبدیل ہو جائے۔ امریکی صدر کے مشرق وسطی کے تازہ ترین دورے میں بھی اسی بات پر تاکید کی گئی کہ وہ امن مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے کے درپے ہیں۔ 

ترکی اور اسرائیل کے درمیان تناو ایک اچھا ایشو تھا جسے امریکی صدر اسرائیل کی جانب سے ترکی سے رسمی طور پر معذرت خواہی پر مبنی انکے مطالبے کو مان جانے کی صورت میں اپنے حق میں استعمال کر سکتے تھے۔ البتہ اسرائیلی حکام کو بھی اس اقدام کی شدید ضرورت محسوس ہو رہی تھی۔ خطے میں اسلامی بیداری کی امواج رونما ہونے سے اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم کی سلامتی بری طرح خطرے سے دوچار ہو چکی ہے۔ دوسری طرف اسرائیل کی دفاعی صلاحیتیں بھی خاص طور پر غزہ کے خلاف 8 روزہ جنگ کی وجہ سے شدیدا متاثر ہو چکی ہیں۔ ایسے حالات میں اسرائیل کو اس بات کی اشد ضرورت تھی کہ ایک علامتی اور بظاہر امن پسندانہ اقدام کی آڑ میں اپنی شدت پسندانہ پالیسیوں کو مخفی کر سکے۔ اسی وجہ سے ایک ایسے وقت جب بنجمن نیتن یاہو کی سربراہی میں اسرائیل کی انتہائی شدت پسند سیاسی جماعت یعنی لیکوڈ پارٹی برسر اقتدار ہے، اسرائیلی حکومت واضح عقب نشینی کرنے اور ترکی سے رسمی طور پر معذرت خواہی کرنے پر مجبور نظر آتی ہے۔ آج مصر میں رونما ہونے والے انقلاب نے اسرائیلی حدود کو انتہائی غیرمحفوظ کر دیا ہے اور دوسری طرف شام کی حکومت کی جانب سے استقامت اور ثابت قدمی کے مظاہرے نے بھی ظاہر کر دیا ہے کہ مغربی ممالک اسرائیلی خواہش کے مطابق شام کی حکومت کو سرنگون کرنے کی صلاحیت اور طاقت نہیں رکھتے۔ 

خطے کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ اگرچہ ترکی کے فریڈم فلوٹیلا پر اسرائیلی حملے کو کافی عرصہ گزر چکا تھا لیکن اسرائیل نے ترکی سے رسمی طور پر معذرت خواہی کے ذریعے اپنا نیا چہرہ متعارف کروانے کی کوشش کی ہے۔ اس سے قبل اسرائیل کا تصور تھا کہ شام کی حکومت سرنگون ہو جائے گی اور اردن، یمن اور بحرین جیسے ممالک میں عوامی انقلابات کا سلسلہ رک جائے گا۔ لیکن ایسا نہ ہوا اور عرب ممالک میں پیدا ہونے والی اسرائیل مخالف عوامی تحریک حتی مراکش اور الجزائر تک جا پہنچی ہے۔ میرے خیال میں امریکی صدر اوباما کی جانب سے اسرائیل کو ترکی سے رسمی طور پر معذرت خواہی کرنے کی پیشکش کیا جانا خود اسرائیل ہی کی جانب سے پلان کیا گیا تھا۔ کیونکہ اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ اگر ظاہری طور پر بھی اپنی شدت پسندانہ پالیسیوں کو جاری رکھے تو بہت جلد اس کی نابودی آن پہنچے گی۔ 

رہی بات ترکی کی تو اسکے بارے میں کہوں گا کہ اس نے جب سے امریکی پالیسیوں کے ساتھ ہم آہنگ سیاست اپنا رکھی ہے شدید قسم کے خطرات سے روبرو ہو گیا ہے۔ شام کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت نے حتی ترکی کے اپنے عوام کے نزدیک اس کا چہرہ خراب کر دیا ہے۔ کیونکہ ترکی کے عوام دیکھ رہے ہیں کہ انکی حکومت اسرائیل کی مخالفت کرتے کرتے یکدم شام کے خلاف اور اسلامی مزاحمت کے مقابلے میں صف آرا ہو گئی اور ایسا موقف اپنا لیا جس کا سو فیصد فائدہ اسرائیل کو پہنچ رہا ہے۔ اس مسئلے نے اردگان حکومت کی عزت کو خطرے میں ڈال دیا ہے اور آئندہ انتخابات میں حکمران پارٹی کے ووٹ گرنے کا قوی امکان پیدا ہو گیا ہے۔ ایک اور اہم مسئلہ ترکی کی جانب سے القاعدہ جیسے دہشت گرد گروہوں کی حمایت اور انہیں فوجی ٹریننگ مہیا کرنا ہے۔ ترکی کے عوام رجب طیب اردگان اور آزادی و عدالت پارٹی سے یہ توقع رکھتے تھے کہ وہ اسلام کا حقیقی اور صحیح چہرہ متعارف کروائے نہ یہ کہ القاعدہ کے دہشت گردوں کو فوجی تربیت دے کر شام کی سرزمین کی جانب روانہ کر دے۔ ترکی کی حکومت اس اقدام کے باعث نہ فقط اپنے عوام کی نظر میں گر گئی ہے بلکہ علاقائی سطح پر بھی اسکا امیج بری طرح متاثر ہوا ہے۔ 

تیسرا اہم مسئلہ جسکی وجہ سے ضروری تھا کہ ظاہری طور پر ہی صحیح ترکی کی اسرائیل کے مقابلے میں جیت کو اجاگر کیا جائے یہ تھا کہ جب سے ترکی نے گذشتہ چند سالوں سے جاری اپنی سیاسی – تجارتی اسٹریٹجی کو چھوڑ کر فوجی – تجارتی اسٹریٹجی اپنائی ہے اسے انتہائی شدید نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ کیونکہ جب بھی فوجی اقدامات شروع ہوتے ہیں اور دوسرے ممالک میں مداخلت کی جاتی ہے تو اس ملک کی معاشی و اقتصادی سرگرمیوں کو شدید دھچکا پہنچتا ہے۔ بالکل اسی طرح جب سے ترکی نے شام کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا آغاز کیا ہے اسکی معیشت کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ 

مندرجہ بالا مطالب کی روشنی میں ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ امریکہ کی جانب سے اسرائیل کو ترکی سے معذرت خواہی کرنے کا مشورہ دراصل تینوں ممالک کی اشد ضرورت تھی۔ یہ ممالک اس اقدام کے ذریعے خطے میں موجود حقائق کو چھپا کر انہیں کسی اور ہی انداز میں پیش کرنا چاہتے ہیں۔ البتہ ترکی کے عوام بھی انتہائی ہوشیار اور سمجھ دار ہیں اور وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ بنجمن نیتن یاہو کی جانب سے ترکی سے معذرت خواھی کا مطلب اسرائیل کے مقابلے میں ترکی کی جیت ہر گز نہیں۔ ترکی کے عوام سمجھتے ہیں کہ اس اقدام کے پس پردہ شام کے خلاف اسرائیل اور ترکی کی مشترکہ کاوشیں اور تعاون چھپا ہوا ہے اور ترکی درحقیقت اسرائیل کے خلاف متحرک اسلامی مزاحمت کے اصلی مورچے کو نقصان پہنچانے کے درپے ہے۔ 

ترکے کے عوام کو مغربی دنیا سے انتہائی تلخ تجربات ہوئے ہیں۔ اسکی ایک مثال یہ ہے کہ ترکی کی پارلیمنٹ نے یورپی یونین میں شامل ہونے کے لالچ میں اس ملک کے آئین میں سے زنا کے خلاف اسلامی حدود کو حذف کر دیا لیکن اسکے باوجود یورپی یونین نے ترکی کو اپنا حصہ بنانے کی اجازت نہیں دی۔ میری نظر میں ترکی، امریکہ اور اسرائیل کا یہ اقدام مشرق وسطی کے دوسرے حصوں میں بھی مثبت نظر سے نہیں دیکھا گیا۔ اگر ہم اس مسئلے کا بغور جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ امریکہ، اسرائیل اور ترکی خطے میں پیدا ہونے والی اسلامی بیداری کے مقابلے میں خود کو بے بس پا رہے ہیں لہذا ایسی اوٹ پٹانگ حرکتوں پر اتر آئے ہیں۔ 

سوال: ترکی نے عالم اسلام بالخصوص مسئلہ فلسطین کے بارے میں دوغلی اور متضاد پالیسیاں اپنا رکھی ہیں، ایک طرف ہم دیکھتے ہیں کہ ترکی فلسطین کی حمایت کا اعلان اور اظہار کرتا ہے لیکن دوسری طرف عملی طور پر اسرائیل کے مفادات کے حق میں اقدامات انجام دیتا ہے۔ آپ کی نظر میں مسئلہ فلسطین کے بارے میں ترکی کی متضاد پالیسیوں کی اصل وجوہات کیا ہیں؟
جواب: میری نظر میں مشرق وسطی کی عوام اس سے قبل بھی ترکی کی جانب سے اپنائی جانے والی سیاست خارجہ کے نمونوں کا مشاہدہ کر چکی ہے۔ مثال کے طور پر مصر کے سابق آمر حسنی مبارک نے بھی مسئلہ فلسطین کے بارے میں اسی قسم کی خارجہ سیاست اپنا رکھی تھی۔ صدر حسنی مبارک خود ایک فوجی افسر تھے جو 1973ء میں اسرائیل کے خلاف جنگ بھی لڑ چکے تھے اور خود کو اسرائیل کے خلاف مصر کی فتح کا ہیرو بھی قرار دیتے تھے لیکن درحقیقت امریکہ اور اسرائیل کی صہیونیستی رژیم کے پٹھو تھے۔ مصر کی عوام نے انکی حکومت کو برداشت نہ کیا کیونکہ حسنی مبارک کی حکومت کا اصلی چہرہ ان کے سامنے کھل کر آ چکا تھا۔ ترکی بھی اسی ماڈل کی پیروی کرنے میں مصروف ہے۔ اس قسم کی سیاست اپنانے والے ممالک کی مثالیں عرب دنیا میں کم نہیں۔ مثال کے طور پر سعودی حکومت بظاہر اسرائیل کی مخالفت کے دعوے کرتی نظر آتی ہے لیکن عمل کے میدان میں مکمل طور پر اسرائیل کے مفادات کو مدنظر رکھتی ہے۔ اسی طرح مراکش کے سابق بادشاہ شاہ حسن بھی بظاہر اسرائیل کے ساتھ مقابلے کے داعی تھے لیکن جب عمل کی باری آئی تو اسرائیل کے ساتھ صلح کے مذاکرات کرنے لگے۔ حتی خود فلسطین کے اندر بھی ایسی مثالیں موجود ہیں۔ جیسے یاسر عرفات جو خود کو اسرائیل کے ساتھ جدوجہد کا ہیرو گردانتے تھے آخرکار اسرائیلی حکومت سے سازباز کرنے پر مجبور ہوگئے۔ 

ہمیں اس بات پر انتہائی تعجب ہے کہ ترکی کے وزیراعظم جناب رجب طیب اردگان سابقہ تجربہ رکھنے کے باوجود اور یہ جاننے کے باوجود کہ ترکی کی عوام کس قدر بیدار اور ہوشیار ہے دوبارہ اسی شکست خوردہ سیاست کو اپنا رہے ہیں اور یہ تصور کر رہے ہیں کہ انکا پیش کردہ ماڈل عرب دنیا کیلئے ایک مثالی ماڈل ثابت ہو سکتا ہے۔ ترکی عملی طور پر شدت پسند گروہوں کی حمایت کرتا ہوا نظر آتا ہے اور تاریخی اعتبار سے بھی یہ ملک شمالی افریقہ کی عوام میں شدید نفرت کا شکار رہا ہے کیونکہ ماضی میں بدقسمتی سے سلطنت عثمانیہ نے مصر، تیونس، لیبیا، شام اور عراق میں ایسے اقدامات انجام دیئے ہیں جسکی وجہ سے ان مناطق کی عوام ترکی کو ایک قابض اور جارح قوت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اگر رجب طیب اردگان اپنی عوام کے مفاد کیلئے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ تعاون اور ہمکاری کو فوری طور پر ترک کر دیں۔ کیونکہ یہ اقدام خطے کی عوام کے اذہان میں ماضی میں انجام پانے والے سلطنت عثمانیہ کے جارحانہ اقدامات کی یاد تازہ کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ ترکی ان اقدامات کے ذریعے جان بوجھ کر اس عظیم سیاسی اور تجارتی سرمایہ کو نابود کر رہا ہے جو اس نے گذشتہ دس سال کی محنت سے حاصل کیا ہے۔ 

سوال: آیا کہا جا سکتا ہے کہ ترکی مسئلہ فلسطین کو عالم اسلام میں اپنے مفادات کے حصول کیلئے ایک ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔؟
جواب: جی بالکل ایسا ہی ہے۔ ترکی کی کوشش ہے کہ وہ ظاہری طور پر فلسطین کی حمایت کا اظہار کر کے مغرب کے ساتھ اپنی وابستگی کو چھپائے رکھے۔ یہ ایک ایسی پرانی سیاست ہے جس کا تجربہ مصر، اردن اور دوسرے ممالک بھی کر چکے ہیں۔ بدقسمتی سے ترکی کی یہ پالیسی حتی اسکے اپنے ملک مفادات کے بھی خلاف ہے۔ اگر ہم اس مسئلے کو واقع بینی کی نگاہ سے دیکھیں تو جان جائیں گے کہ اسرائیل کی ہر قسم کی حمایت، اپنے پڑوسی ممالک کو نقصان پہنچانے کی کوشش، شام میں برادر کشی شروع کروانے جیسے اقدامات خود ترکی کے اپنے ملکی مفادات کے حق میں بھی نہیں اور اس ملک میں موجود مختلف مذاہب اور اقوام کے افراد کے درمیان وحدت اور اتحاد کی فضا کو نقصان پہنچنے کا باعث بن سکتے ہیں۔ 

نیٹو کے اراکین مغربی ممالک اس تنظیم کیلئے ضروری اسلحہ اور فوجی سازوسامان کو مہیا کرتے ہیں جبکہ نیٹو کیلئے انسانی قوت مہیا کرنے کا کام ترکی کا ہے۔ اسی طرح نیٹو کے اکثر فوجی اڈے بھی ترکی میں قائم کئے گئے ہیں۔ نیٹو میں ترکی کی شمولیت باعث بنی ہے کہ یہ ملک مغربی ممالک کو اس قسم کے مفادات مہیا کرنے پر مجبور ہو جائے۔ دوسری طرف نیٹو میں ترکی کی رکنیت کی وجہ سے یہ ملک ہمیشہ مغربی ممالک کی دلخواہ پالیسیاں اپنانے پر بھی مجبور ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نیٹو میں ترکی کی شمولیت نے نہ صرف اس ملک کی قومی سلامتی کو مستحکم نہیں کیا بلکہ ترکی پر بے پناہ اخراجات کو تحمیل کیا ہے جسکی وجہ سے اس ملک کے اقتصادی مفادات بھی خطرے میں پڑ چکے ہیں۔ 
میری نظر میں مغرب کے ساتھ ترکی کی وابستگی مصر کے سابق ڈکٹیٹر حسنی مبارک کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔ ترکی کی موجودہ حکومت کی جانب سے انجام پانے والے اقدامات کی اصلی وجہ نیٹو معاہدے میں اس ملک کی رکنیت ہے۔ نیٹو معاہدے کا اصلی مقصد مغربی سرمایہ داری کی حفاظت کرنا ہے اور اس سرمایہ دارانہ نظام میں ترکی کا کوئی حصہ نہیں۔ اگر ترکی کے حکام ملک کی اقتصادی صورتحال کو بہتر بنانا چاہتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ وہ نیٹو معاہدے سے باہر نکل آئیں۔
خبر کا کوڈ : 262617
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش