1
0
Tuesday 14 May 2013 18:17

یوم نکبہ کے بعد جون میں گلوبل مارچ ٹو یروشلم 2 کیا جائے گا، صابر کربلائی

یوم نکبہ کے بعد جون میں گلوبل مارچ ٹو یروشلم 2 کیا جائے گا، صابر کربلائی
صابر کربلائی کا تعلق کراچی شہر ہے، جو اس وقت فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کے مرکزی ترجمان ہیں۔ صابر کربلائی اس سے قبل بھی امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کراچی ڈویژن کے جنرل سیکریٹری سمیت اہم عہدوں پر بھی کام کرتے رہے ہیں، صابر کربلائی اس وقت جامعہ کراچی کے شعبہ سیاسیات میں فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کے موضوع پر پی ایچ ڈی کررہے ہیں صابر کربلائی کا شمار کراچی میں اُن فعال افراد میں ہوتا ہے جو فلسطین اور القدس کی آزادی کی خاطر دن رات کام کر رہے ہیں۔ ان ہی کوششوں سے فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان آج ملک کے گوش و کنار میں فلسطین کی آزادی کی آواز بلند کرنے میں مصروف عمل ہے۔ یوم نکبہ سے متعلق اسلام ٹائمز نے اُن سے ایک اہم انٹرویو کیا ہے، جو قارئین کے لئے پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: موجودہ دور میں فلسطین کے حوالے سے کیا تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں؟
صابر کربلائی: بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ موجودہ دور میں مسئلہ فلسطین ایک نئی جہت اور نئے جوش وجزبے کے ساتھ پوری دنیا میں آشکار ہو رہا ہے۔ یعنی اگر اس حوالے سے یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ کائنات میں بسنے والا ہر شخص آج مسئلہ فلسطین اور فلسطین میں بسنے والے مظلوموں کے بارے میں سوچ رہا ہے اور کوشش کر رہا ہے کہ کسی طرح اپنی آواز کو ان مظلوم فلسطینیوں کی آواز کے ساتھ ہم آواز کرے کہ جن کی آواز کو غاصب اسرائیل نے اپنے بہیمانہ مظالم سے دبا دیا ہے۔ اگر ہم گذشتہ چند سالوں کی بات کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام و مسلمانوں کے دشمن بلکہ عالم انسانیت کے دشمن امریکہ اور اسرائیل سمیت مغربی قوتوں نے اس بات کی کوشش کی ہے کہ کسی طرح مسئلہ فلسطین کو محدود کردیا جائے جس کے لئے انہوں نے پہلے پروپیگنڈا کیا کہ فلسطین کا مسئلہ صرف اور صرف عربوں کا مسئلہ کا جبکہ دوسرے مرحلے میں انہوں نے اس بات کا پرچار بھی کیا کہ فلسطین کا معاملہ صرف فلسطین اور اسرائیل (مقبوضہ فلسطین) کے درمیان ہے۔

اسی طرح دوسری طرف آپ نے ملاحظہ کیا کہ آج پوری دنیا سے فلسطین اور فلسطینیوں کے حق میں صدائیں بلند ہو رہی ہیں اور اب یہ مسئلہ صرف عربوں، مسلمانوں یا عالم اسلام کا نہیں بلکہ یہ ایک عالمگیر اور انسانی مسئلہ بن چکا ہے جو خود اس بات کا ثبوت ہے، مسئلہ فلسطین کے حوالے سے پوری دنیا میں بیداری پیدا ہو چکی ہے اور ہر ذی شعور اس بات سے واقف ہوچکا ہے کہ عالمی دہشت گرد امریکہ اور اس کی ناجائز اولاد اسرائیل نہ صرف فلسطین بلکہ پوری دنیا میں مظلوم انسانوں کا خون چوس رہے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ مسئلہ فلسطین کے حوالے سے سب سے بڑی تبدیلی یہی ہے کہ آج دنیا کے گوش و کنار سے ہزاروں انسانوں کے کاروان فلسطینیوں کی آزادی کے لئے فلسطین کا رخ کر چکے ہیں اور وقتاً فوقتاً فلسطینیوں کی مدد کے لئے غزہ پہنچ رہے ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اب اس سلسلے میں کمی نہیں آئے گی بلکہ یہ سلسلہ مزید تیز تر ہوگا اور فلسطینیوں کی آزادی تک جاری رہے گا۔

اسلام ٹائمز: یوم نکبہ کے بارے میں آپ کیا کہنا چاہیں گے؟
صابر کربلائی: یوں تو تاریخ میں کئی ایک ایسے ادوار گذرے ہیں جو تاریخ میں رقم ہو چکے ہیں اور ایسے بھی کئی ایام ہیں جن کو پوری دنیا میں بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔ اسی طرح کی تاریخ میں ایک ایسا دن بھی شامل ہے جس کو تباہی اور بربادی کے دن کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ آخر یہ کون سا دن ہے اور اس دن کو کیوں تباہی اور بربادی سے منسوب کیا گیا ہے۔ یہ دن فلسطینیوں کی تاریخ کا بدترین اور سیاہ دن ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ یہ دن پوری مسلم امہ اور انسانیت کے چہرے پر ایک دھبہ ہے تو غلظ نہ ہو گا۔ جس دن کے بارے میں بات کی جا رہی ہے اس دن کو دنیا ’’ یوم نکبہ ‘‘ یعنی تباہی اور بربادی کے دن کے نام سے جانتی ہے۔ یوم نکبہ یعنی 15 مئی سنہ 1948ء کا وہ دن کہ جس دن بوڑھے استعمار برطانیہ اور عالمی دہشت گرد امریکہ کی ایماء اور سرپرستی میں سرزمین انبیاء علیہم السلام (فلسطین) پر ایک غاصب اور جارح ریاست کا وجود عمل میں لایا گیا جسے دنیا اسرائیل (مقبوضہ فلسطین) کے نام سے جانتی ہے۔ ایک طرف عالمی دہشت گرد قوتوں نے دنیا بھر سے یہودیوں کو لاکر فلسطینیوں کی سر زمین پر بسایا اور پھر ظلم دیکھئے کہ ان کی سر زمین پر نہ صرف قبضہ کیا بلکہ اس پر ایک ناجائز اور غاصب ریاست کے وجود کو جنم دیا گیا۔

بہر حال 15 مئی 1948ء کو انسانیت کے منہ پر ایک ایسا طمانچہ رسید کیا گیا جس کے نشان آج بھی مظلوم انسانیت کے چہرے پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ یوم نکبہ یعنی 15 مئی سنہ 1948ء کو ایک طرف مظلوموں اور نہتے فلسطینیوں کی سر زمینوں پر قبضہ کیا گیا تو دوسری طرف بدنام زمانہ دہشت گرد صیہونی تنظیم ہگانہ اور اس کے ہمنواؤں نے پورے فلسطین میں خون کی ایک نا ختم ہونے والی ہولی کا آغاز کر دیا جو آج تک سر زمین فلسطین پر جاری ہے۔ ظلم و ستم کی انتہاء یہ رہی کہ جہاں ایک ہی دن میں ہزاروں فلسطینی بچوں، مردوں اور خواتین کو بیہمانہ تشدد کے ذریعے قتل کیا گیا وہاں فلسطینیوں کو مجبور کیا گیا اور جبری طور پر ان کو اپنے ہی گھروں، کھیتوں، باغیچوں اور زمینوں سے نکال باہر پھینکا گیا اور آخرکار مظلوم فلسطینیوں کی ایک بہت بڑی تعداد جو کہ تقریباً سات لاکھ سے زائد تھی اپنے گھروں اور زمینوں سے نکل کر قریبی سرحدی ممالک میں ہجرت کرنے پر مجبور ہوئی جو تاحال اپنے وطن اور اپنے گھروں میں جانے سے گریزاں ہے۔

لاکھوں فلسطینی آج بھی اپنے گھروں اور اپنے پیاروں سے دور دوسرے ملکوں میں زندگی گذار رہے ہیں اور ان کو مہاجرین کی حیثیت سے پناہ دی گئی ہے۔ البتہ اسرائیلی بربریت اور ظلم و ستم کا سلسلہ یہیں ختم نہ ہوا بلکہ مہاجرین کو دوسرے ممالک میں بھی بدترین دہشت گردی کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ مثال کے طور پر لبنان میں صبرا اور شتیلا کے فلسطینی مہاجر کیمپوں پر اسرائیلی وحشیانہ بمباری کی گئی اور سیکڑوں فلسطینیوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا۔ غرض یہ کہ غاصب صیہونی اسرائیل کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ کسی طرح فلسطینیوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کردیا جائے اور پورے فلسطین پر قبضہ جما لیا جائے۔ فلسطینیوں کو ان کی زمینوں اور گھروں سے بے دخل کرنے کا سلسلہ گذشتہ 65 برسوں سے جاری ہے اور لاکھوں فلسطینی دنیا کے مختلف ممالک میں پناہ گزین ہیں اور اس بات کے منتظر ہیں کہ وہ اپنے وطن کو واپس لوٹ سکیں جو کہ ان کا بنیادی اور انسانی حق بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطینی عوام 15 مئی کو ’’ یوم نکبہ ‘‘ (یعنی مصیبت اور تباہی کا دن) قرار دیتے ہیں کیونکہ یہی وہ دن ہے کہ 65 برس قبل غاصب اسرائیل نے فلسطین پر قبضہ کیا اور پھر فلسطینیوں کو ان کے وطن سے نکال باہر کیا۔

اسلام ٹائمز: فلسطینی مہاجرین کی وطن واپسی کے لئے کیا حل پیش کریں گے؟
صابر کربلائی : یہاں بات غاصب اسرائیل کی اجازت کی نہیں ہے کیونکہ اسرائیل ایک ایسی غاصب ریاست کا نام ہے جسے فلسطینی قبول نہیں کرتے اور دنیا کے کئی ممالک نے آج تک اسرائیل نامی جرثومے کو قبول نہیں کیا ہے۔ پاکستان ایسے ہی ممالک میں سے سر فہرست ہے کہ جس نے روز اول سے غاصب اسرائیل کے وجود کی مخالفت کی ہے اور اسے ایک ناجائز اور غیر قانونی ریاست قرار دیا ہے۔ جہاں تک فلسطینی پناہ گزینوں اور مہاجرین کی واپسی کی بات ہے تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ فلسطین، فلسطینیوں کا وطن ہے اور تمام فلسطینیوں کو فلسطین واپس آنا چاہئیے جو کہ امریکہ سمیت برطانیہ اور مغربی قوتیں نہیں چاہتیں۔ آج بھی اگر فلسطین کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ غاصب اسرائیل نے ہر دن کو فلسطینیوں کے لئے یوم نکبہ بنا رکھا ہے اور انسانیت سوز مظالم کی انتہا کر رکھی ہے۔ بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں بھی غور و فکر کیا جائے تو نتیجے میں یہی نقطہ سمجھ میں آتا ہے کہ ہر انسان کا یہ بنیادی حق ہے کہ وہ اپنے وطن میں زندگی گزارے اور آزادی سے رہے لیکن فلسطین کے عنوان پر ہمیں تمام بین الاقوامی قوانین فقط کاغذوں کی زینت کے طور پر ہی نظر آتے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی کے گھر میں داخل ہو جائے اور پھر غنڈہ گردی کرے اور اس گھر کے باسیوں کو ظلم و تشدد کا نشانہ بھی بنائے اور آخر میں اسی گھر کے باسیوں کو جو وہاں دسیوں سال سے زندگی گذار رہے تھے بے سر و سامان در بدر کردے؟ کیا دنیا کی مہذب تہذیب اور تمدن یہی درس دیتی ہے؟ کیا انسانی حقوق اور عالمی قوانین اس بات کی اجازت دیتے ہیں؟ دنیا کی بڑی طاقتیں جو آئے روز انسانی حقوق کی فراہمی کا پرچار کرتے نہیں تھکتی ہیں کیا فلسطین کے مظلوم انسانوں کے لئے ان کی زبانوں پر تالے لگ جاتے ہیں؟ اگر ایسا نہیں تو پھر آخر کیوں آج لاکھوں فلسطینی اپنے گھروں کو جانے اور اپنے کھیتوں میں کام کرنے کو ترس رہے ہیں؟ آخر کیوں کوئی عالمی قوانین اور ان قوانین کے بنانے والے ان کی مدد کو نہیں پہنچ رہے؟ یا پھر یہ کہ فلسطین میں بسنے والے فلسطینی انسان ہی نہیں ہیں کہ جن پر کسی قسم کا قانون لاگو ہوتا ہو۔ لاکھوں فلسطینی چاہتے ہیں کہ اپنے وطن واپس لوٹ جائیں لیکن ان کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ وہ قوتیں ہیں جو عالمی قوانین بناتی ہیں، جو انسانی حقوق کا دم بھرتی ہیں آخر ایسا کیوں ہے؟ فلسطین روز اول سے فلسطینیوں کا وطن ہے، جسے دنیا کی کوئی طاقت ان سے جدا نہیں کر سکتی اور فلسطینیوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے وطن لوٹ جائیں اور اپنی زندگی گزاریں۔ اسرائیل ایک ایسا سرطان ہے جو نہ صرف فلسطین کو تباہ و برباد کرنا چاہتا ہے بلکہ مشرق وسطیٰ اور پھر ایشیاء سمیت پورے عالم اسلام اور پوری دنیا کو اپنے پنجوں سے زخمی کرنا چاہتا ہے تاکہ پوری دنیا کے لوگ غاصب اسرائیل کے محتاج ہو جائیں اور اس کے غلام بن جائیں۔

اگر ہم نے مظلوم فلسطینیوں کے حق کے لئے آواز نہ اٹھائی تو عنقریب پوری دنیا اسرائیلی سرطان کی لپیٹ میں آجائے گی اور پھر پانی سر سے گزر چکا ہوگا۔ فلسطینیوں کو پورا پورا حق حاصل ہے کہ وہ اپنے وطن اور اپنی سرزمین پر زندگی گزاریں۔ سنہ 1948ء سے قبل لاکر بسائے جانے والے یہودیوں کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ سر زمین فلسطین کے مالک بن بیٹھیں اور اس سر زمین کے مالکوں کو بے گھر کر دیں۔ ہونا تو یہ چاہئیے کہ تمام فلسطینیوں کی فلسطین واپسی ہو جو سنہ 1948ء میں اور اس کے بعد وقفے وقفے سے جلا وطن کئے گئے سب کے سب فلسطین واپس پلٹ آئیں خواہ ان میں مسلمان ہوں، عیسائی ہوں، یہودی ہوں یا کسی اور مذہب کے پیروکار ہوں اگر وہ فلسطین کے باشندے ہیں اور سنہ 1948ء میں سرزمین فلسطین میں زندگی گزار رہے تھے ان کو حق حاصل ہے کہ فلسطین لوٹ آئیں اور آنے کے بعد ایک عمومی ریفرنڈم کے ذریعے اپنے لئے ایک حکومت یا نظام کا فیصلہ کریں اور پھر وہ نظام یہ فیصلہ کرے کہ سنہ 1948ء کے وقت اور اس کے بعد دنیا بھر سے لاکر بسائے جانے والے یہودیوں اور صیہونیوں کو فلسطین میں رہنے کا حق حاصل ہے یا نہیں اور ایسے حالات میں صرف ایک ریاست کا وجود ہو جس کا نام فلسطین جو نیل کے ساحل سے لے کر تا بہ خاک کاشغر۔

اسلام ٹائمز: فلسطینیوں کی فلسطین واپسی کے عنوان سے فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کیا کوششیں کر رہی ہے؟ اس حوالے سے عالمی سطح پر کیا پیشرفت ہے، روشنی ڈالیں؟
صابر کربلائی: فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کا مؤقف بہت واضح ہے، فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان اس برس یوم نکبہ کو ’’ فلسطینیوں کی فلسطین واپسی ‘‘ کی مہم کے عنوان سے منا رہی ہے، جس کے تحت ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں سمیت سیمینارز اور تصویری نمائشوں کے پروگرام منعقد کئے جائیں گے اور فلسطینیوں کے حق واپسی پر زور دیا جائے گا اور اقوام متحدہ اور دیگر عالمی و علاقائی اداروں سے بھرپور اپیل کرتے ہیں کہ وہ فلسطینیوں کو ان کے وطن واپس جانے میں ان کی مدد کریں اور فلسطینیوں کے حق واپسی کو یقنی بنایا جائے۔ جہاں تک عالمی سطح پر ہونے والی کوششوں کی بات ہے تو اس حوالے سے دنیا بھر میں تحریک آزادی فلسطین کے لئے کام کرنے والی تنظیموں اور اداروں سے فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کا مضبوط رابطہ ہے اور حال ہی میں لبنان کے دارالحکومت بیروت میں ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد بھی کیا گیا تھا جس میں فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کے دو رکنی وفد نے بھی شرکت کی اور اس بین الاقوامی کانفرنس میں بھی سب سے زیادہ جس نقطہ پر بحث کی گئی وہ فلسطینیوں کی فلسطین واپسی ہے۔

لہذٰا یوم نکبہ کے موقع پر پوری دنیا میں اور بالخصوص پاکستان میں فلسطینیوں کی فلسطین واپسی کی مہم کا آغاز کیا جائے گا جبکہ اسی حوالے سے فلسطین کے اطراف سرحدوں بشمول مصر، اردن، شام اور لبنان میں ہزاروں فلسطینی جمع ہو کر فلسطین کی طرف مارچ کریں گے ۔ فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان نے یوم نکبہ کی مناسبت سے فلسطینیوں کی فلسطین واپسی کی مہم کے عنوان سے ذرائع ابلاغ کے اداروں اور آئمہ جمعہ کو خطوط لکھ دئیے ہیں اور اپیل کی ہے کہ وہ اس مہم کے حوالے سے پاکستان کے با شعور اور غیور عوام کو آگہی فراہم کریں اور فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کریں۔

اسلام ٹائمز: گذشتہ برس گلوبل مارچ ٹو یروشلم کا انعقاد کیا گیا تھا آپ کیا سمجھتے ہیں کہ گلوبل مارچ کے مثبت اثرات ہوئے ہیں؟ کیا مستقبل میں ایسا کوئی اور مارچ بھی متوقع ہے؟
صابر کربلائی: الحمد للہ! گذشتہ برس مارچ کے مہینے مین دنیا بھر سے حریت پسندوں کے قافلوں نے انبیاء علیہم السلام کی سر زمین فلسطین کی طرف مارچ کیا اور لاکھوں حریت پسند فلسطین کی سرحدوں پر جمع ہوئے، یہ وہ دن تھا کہ جس دن فلسطین میں ’’ یوم الارض فلسطین ‘‘ منایا جاتا ہے۔ یعنی تیس مارچ۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ گلوبل مارچ ٹو یروشلم فلسطین کی آزادی کا ایک باب ہے جسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکے گی۔ تیس مارچ کو ہونے والا گلوبل مارچ جہاں بہت سی مناسبتوں اور اہمیتوں کا حامل تھا وہاں پوری دنیا میں فلسطین کی مناسبت سے ایک اور دن بھی پہلے سے زیادہ شدت سے متعارف ہوا۔ اس سے قبل دنیا کے اکثر و بیشتر انسان صرف یوم القدس جیسے بڑے ایام کی معرفت رکھتے تھے لیکن تیس مارچ کو یوم ارض فلسطین کے موقع پر گلوبل مارچ کے انعقاد نے دنیا بھر میں ’’ یوم الارض فلسطین ‘‘ کو متعارف کروایا اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ دن اسرائیل کی پریشانیوں میں اضافے کا باعث بنا ہے اور مستقبل میں بنتا رہے گا۔ جہاں تک مستبل میں گلوبل مارچ کی بات ہے تو میں عرض کردوں کہ حال ہی میں گلوبل مارچ ٹو یروشلم کی انٹرنیشنل سینٹرل کمیٹی کا اجلاس مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں منعقد ہوا ہے اور وہاں فیصلہ کیا گیا ہے کہ یوم نکبہ کے بعد جون میں گلوبل مارچ ٹو یروشلم ٹو کیا جائے گا جو کہ 7 جون کو متوقع ہے۔

سوال: شام کی صورتحال کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
صابر کربلائی: شام جو کہ ایک قدیم تاریخی ملک ہونے کے ساتھ ساتھ مشرق وسطیٰ میں بڑی اہمیت کا حامل بھی ہے۔ دو سال قبل یا ڈیڑھ سال قبل شام میں شروع ہونے والی بغاوت کی اصل وجہ کیا ہے؟ حقائق کیا ہیں؟ کچھ عناصر شام کی موجودہ صورتحال کو انتہائی بگڑتی ہوئی صورتحال بتا رہے ہیں اور تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ شام میں بغاوت نہیں بلکہ انقلاب کی لہر آئی ہے اور اس انقلاب کو کچھ افراد تیونس،مصر اور دیگر ممالک کے انقلابوں اور اسلامی بیداری کی لہر سے ملانا چاہتے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی انقلاب میں عوام ہی عوام کو قتل کر دیتے ہیں؟ میں ان تمام لوگوں سے پوچھتا ہوں جو یہ تاثر دے رہے ہیں کہ تیونس، مصر اور لیبیا سمیت یمن، بحرین کی طرح شام میں بھی عوامی اور اسلامی بیداری ہی کا اثر ہے۔ ایسے سب افراد کے لئے میں ایک سادہ سا سوال چھوڑنا چاہتا ہوں اور وہ سوال یہ ہے کہ کیا تیونس، مصر، یمن، بحرین میں عوام نے اسلحہ اٹھاکر اور عوام کا قتل عام کرکے انقلاب لائے ہیں؟ یقیناً پوری دنیا اس بات پر ایک ہی جواب دے گی کہ ’’ نہیں ‘‘ ایسا ہرگز نہیں ہوا۔ تیونس، یمن، مصر اور بحرین میں چلنے والی انقلابی تحریکیں وہاں پر سامراجی نظاموں کے خلاف تھیں۔ وہ سامراجی نظام جو امریکہ اور اسرائیل کے زیر تسلط تھے۔

تیونس کی حالت ہی دیکھ لیجئے کہ وہاں پر مسلمانوں کو اذان دینے پر پابندی تھی حالانکہ مسلمان حکمران تھے۔ اسی طرح غربت، افلاس اور معاشرتی قتل عام وہ بنیادیں بنی کہ جنہوں نے عوام کو جھنجوڑ کر رکھ دیا اور لوگ اپنے حقوق اور اپنی جانوں کے دفاع اور اپنی عزت و حمیت کی بقاء کی خاطر اسلام کے پرچم تلے جمع ہوئے اور دنیا کے باطل اور طاغوتی نظاموں کو اپنے پیروں تلے روندتے ہوئے چلے گئے۔ مصر میں کیا ہوا؟ کیا مصر میں شام کی طرح باغی گروہوں نے اسلحہ کے زور پر عوام کا قتل عام کیا؟ یا عوام نے اپنی عوامی طاقت سے تحریر چوک انقلاب کی داغ بیل ڈالی۔ مصر میں بھی عوام ذلت اور پستی کا شکار تھے، مغربی استعمار ان کا استحصال ان ہی کے حکمرانوں سے کروا رہا تھا جس کی وجہ سے عوام اٹھ کھڑے ہوئے اور سامراجی نظاموں کے پیروکاروں کو نکال باہر پھینکا۔

اسی طرح بحرین میں دیکھیں وہاں کیا ہو رہا ہے؟ وہاں کی حکومت مصر اور تیونس کی سابقہ دہشت گرد حکومتوں کی طرح عوام کا استحصال کر رہی ہے لیکن عوام کے درمیان بھرپور ہم آہنگی اور یکجہتی برقرار ہے اور اسی وجہ سے آج دو برس کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی منامہ کی سڑکیں اور گلیاں بحرین کے مظاہرین سے بھری ہوئی نظر آرہی ہیں لیکن ایک چیز جو ہمیں نظر نہیں آ رہی وہ باغیوں کے ہاتھوں میں جدید اسلحہ ہے جو استعمال نہیں ہو رہا ہے کیونکہ یہ تمام تحریکیں خالصتاً اسلامی بیداری اور انقلابی تحریکیں ہیں جن میں دہشت گردی کا عنصر موجود ہی نہیں ہے۔ بحرین میں کوشش کی جا رہی ہے کہ کسی طرح فرقہ وارانہ بنیادوں پر عوام کو تقسیم کیا جائے اور اس انقلابی تحریک کو سبوتاژ کیا جائے لیکن بحرین میں بسنے والی تمام اکائیاں بحرین میں موجود امریکی و اسرائیلی ایجنٹ حکمرانوں سے تنگ آ چکی ہیں اور حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ یاد رہے یہاں پر دو سال کی تحریکی تاریخ میں عوام نے کسی قسم کا تشدد والا راستہ اختیار نہیں کیا ہے جبکہ حکومت کی جانب سے ایسے اقدامات کئے گئے ہیں کہ جو تاریخ میں انسانیت کے منہ پر سیاہ دھبے کی مانند ہیں۔

اب ذرا شام کی صورتحال پر غور کیجئے! شام میں بغاوت کو انقلاب کہنے والوں کو یہ ضرور معلوم ہونا چاہئیے کہ شام میں آخر ایسا کھیل کیوں کھیلا جا رہا ہے اور اس کے پس پردہ عناصر اب تو کھل کر بھی سامنے آچکے ہیں۔ شام کی صورتحال کے خراب ہونے کا ایک الگ ہی پس منظر ہے۔ شام جو کہ لبنان کی سرحد کے ساتھ موجود ہے اور زمینی راستہ بھی ہے۔ شام کی خارجہ پالیسی کی مماثلت ایران اور لبنان سے پائی جاتی ہے جس میں غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کی نابودی اور فلسطین و مسجد اقصیٰ و بیت المقدس کی آزادی بنیادی عنصر کے طور پر موجود ہے۔ شام اور ایران کے اچھے تعلقات ہونے کے ساتھ ساتھ لبنان میں موجود اسرائیل اور امریکہ مخالف تنظیم حزب اللہ کے ساتھ بھی شام کی اچھے تعلقات ہیں اور ان تعلقات کا مرکز و محور صرف اور صرف فلسطین کی آزادی اور فلسطینیوں کا حق ان کو دلوانا ہے۔ غرض یہ کہ شام کی حکومت ایک ایسی حکومت ہے جو امریکی کٹھ پتلی نہیں بلکہ امریکہ مخالف اور بالخصوص اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ اسرائیل کا وجود غیر قانونی ہے لہذٰا اسرائیل کو نابود ہونا چاہئیے اور فلسطین کو آزاد ہونا چاہئیے۔ فلسطین جو کہ نہ صرف عربوں بلکہ مسلم امہ اور پوری انسانیت کا ایک ایسا اہم ترین مسئلہ ہے جو گزشتہ 65 برسوں سے حل طلب ہے اور فلسطین میں غاصب اسرائیل کی بربریت اور ظلم کی داستانیں پوری دنیا اچھی طرح سے جانتی ہے۔

سنہ 2003ء میں امریکی وزیر خارجہ کولن پاؤل عراق سے اپنے دورے کے بعد شام پہنچے اور شام کے صدر بشار الاسد سے ملاقات کے دوران انہوں نے بشار الاسد سے مطالبہ کیا کہ شامی حکومت دمشق میں فلسطین کی آزادی کی جنگ لڑنے والی اسلامی مزاحمتی تحریکوں بشمول ’’ حماس، جہاد اسلامی اور حزب اللہ ‘‘ کے دفاتر کو بند کر دے اور ان کے مجاہدین کو امریکہ کے حوالے کر دے۔ کولن پاؤل کے جواب میں بشار الاسد نے کہا کہ یہ امریکہ کا خواب ہے، شام کسی صورت بھی فلسطین کی حمایت سے دستبردار نہیں ہوگا اور فلسطین کی آزادی کی جنگ لڑنے والی فلسطینی تنظیموں جن میں حماس، جہاد اسلامی اور حزب اللہ شامل ہیں ان کے خلاف کسی بھی قسم کی کوئی کاروائی نہیں کی جائے گی ان کے دفاتر جس طرح پہلے کام کر رہے تھے اسی طرح کرتے رہیں گے۔ یہ وہ پہلا موقع تھا کہ جب امریکہ کو براہ راست مشرق وسطیٰ میں اپنے ناپاک مقاصد میں واضح اور بڑی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

اسلام ٹائمز: حال ہی میں شام میں باغیوں نے صحابی رسول اکرم (ص) حجر ابن عدی کے روضہ مبارک کو مسمار کر دیا اور ان کے جسد مبارک کو لے گئے، اس حوالے سے آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟
صابر کربلائی: یہ ایک انتہائی افسوس ناک اور دردناک واقعہ ہے جس پر ہر مسلمان کا دل خون کے آنسو رو رہا ہے اور اس عظیم سانحہ کی جس حد تک مذمت کی جائے اور اس پر جتنا غم کیا جائے شاید کم ہے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام کے روضہ مبارک کو شہید کرنا اور پھر قبر مطہر سے جسد مبارک کو نکال کر توہین کرنا در اصل شیطانی قوتوں کے پروان چڑھائے ہوئے دہشت گردوں کا کارنامہ ہے جو نہ تو اسلام کے دوست ہیں اور نہ مسلمانوں کی بہتری چاہتے ہیں، یہ عالمی دہشت گرد امریکہ اور اسرائیل سمیت مغربی استعماری قوتوں کے نمک خوار ہیں اور ان کی خوشنودی کی خاطر کسی بھی قسم کے سنگین اقدام سے گریز نہیں کرتے۔

میں یہاں پر یہ بھی کہنا چاہوں گا دنیا کو آل یہود کی تاریخ کو فراموش نہیں کرنا چاہئیے۔ بنی اسرائیل کی تاریخ اس طرح کے سیاہ کرتوتوں سے بھری پڑی ہے، یہ وہی آل یہود ہیں کہ جنہوں نے اللہ کی طرف سے بھیجے گئے پیغمبروں اور انبیاء علیہم السلام کو بھی قتل کرنے سے دریغ نہیں کیا تھا تو آج ان کی اولادیں ان ہی کے نقش قدم پر چل رہی ہیں اور جس کا نتیجہ ہمیں پہلے شام میں موجود دیگر مزارات مقدسہ کی توہین کے نتیجے میں سامنے اور حال ہی میں انتہائی سنگین جرم کہ جس میں صحابہ رسول اکرم (ص) حضرت حجر ابن عدیؓ کے روضہ مبارک کی توہین اور ان کے جسد مبارک کو قبر مطہر سے نکال لینا ہے۔ میں واضح طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ اس دہشت گردانہ اور انسانیت سے گری ہوئی دہشت گردی کی کاروائی میں عالمی دہشت گرد امریکہ اور اس کی ناجائز اولاد اسرائیل براہ راست ملوث ہیں۔ پوری دنیا کے مسلمانوں اور باضمیر انسانوں کو چاہیے کہ ان درندوں کے خلاف سراپا احتجاج بن جائیں۔
خبر کا کوڈ : 263821
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ماشاءاللہ کربلائی صاحب، خداوند متعال آپ کی زحمات کو قبول کرے۔
ہماری پیشکش