0
Saturday 29 Jun 2013 13:22

سعودی عرب امریکی خارجہ پالیسی کے فریم ورک میں چلتا ہے، قطر متبادل نہیں، ڈاکٹر حسن عسکری

سعودی عرب امریکی خارجہ پالیسی کے فریم ورک میں چلتا ہے، قطر متبادل نہیں، ڈاکٹر حسن عسکری
اپنے آزادانہ سیاسی، دفاعی اور عالمی تجزیوں کی وجہ سے مشہور ڈاکٹر حسن عسکری رضوی نے سیاسیات میں ایم اے پینیسلوینیا یونیورسٹی امریکہ اور پی ایچ ڈی کی ڈگری لیڈز یونیورسٹی برطانیہ سے حاصل کی۔ وہ پنجاب یونیورسٹی لاہور کے شعبہ سیاسیات کے سربراہ بھی رہے۔ اب بھی وہ عالمی سطح کی یونیورسٹیوں میں لیکچرز دیتے ہیں۔ مقامی اور عالمی میڈیا ہاوسز بھی انہیں حالات حاضرہ کے پروگراموں میں دعوت دیتے ہیں۔  اسلام ٹائمز نے طالبان اور امریکہ کے حالیہ دوحہ میں ہونے والے مذاکرات کے بارے میں ڈاکٹر حسن عسکری سے خصوصی انٹرویو کیا ہے۔ جو قارئین کی نذر کیا جا رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: طالبان سے امریکہ کے مذاکرات کو ناکام کہا جائے یا معطل۔؟
ڈاکٹر حسن عسکری: فی الحال تو امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات شروع نہیں ہوئے۔ صرف ایک ابتدائی رابطہ ہوا ہے۔ جس میں دونوں کی خواہش ہے کہ ان کی مرضی کی زیادہ باتیں مانی جائیں۔ اس کی وجہ سے اگلا جو مرحلہ ہے اس پر نہیں پہنچے ہیں۔ فی الحال اسے ابتدائی رابطہ کہا جاسکتا ہے۔ کچھ دیر بعد دونوں اعتماد سازی کے لئے اقدامات کریں گے۔ تاکہ اعتماد سازی عملی طور پر بھی نظر آئے۔ ایک دوسرے کے قیدیوں کو چھوڑیں گے۔ اس کے بعد ایجنڈا طے ہونا ہے کہ گفتگو ہوگی تو کن شرائط اور قواعد کے ساتھ ہوگی۔ ان مراحل سے نکلنے کے بعد پھر باقاعدہ مذاکرات ہوں گے، لیکن ابھی چونکہ گفتگو شروع نہیں ہوئی ہے تو مشکلات ہیں۔ چونکہ طالبان میں مختلف گروپس ہیں لیکن غالب گروپ ملا عمر کا ہی ہے۔ اس لئے اسی سے مذاکرات ہو رہے ہیں۔ دوسری طرف امریکہ ہے، افغانستان ہے، ان میں بھی مسائل ہیں چونکہ افغانستان سمجھتا ہے کہ حامد کرزئی کو ایک طرف رکھ کر امریکہ طالبان سے کوئی مذاکرات نہ کر لے۔ شکوک و شبہات تینوں اطراف موجود ہیں۔ جس کی وجہ سے یہ معاملہ بہت آہستہ آگے بڑھ رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: مذاکرات اگر شروع ہوجاتے ہیں تو فریقین کو کون کون سے اقدامات کرنا ہونگے کہ یہ کامیاب قرار پائیں۔؟
ڈاکٹر حسن عسکری:
فی الحال تو ایسے اقدامات کرنے ہوں گے کہ ان میں آپس کا اعتماد بڑھے اور مذاکرات شروع ہوں۔ چند قیدیوں کو چھوڑنا ایسا طریقہ کار ہے۔ جس سے مذاکرات کے لئے اعتماد بھی بڑھے اور مذاکرات کا جو سلسلہ ہے وہ بھی آگے بڑھ سکے۔ طالبان کہتے ہیں کہ جنگ بند نہیں ہوگی وہ چلتی رہے گی۔ امریکہ یہ اصرار کرتا ہے کہ طالبان اپنا القاعدہ سے رشتہ ختم کریں گے اور power structure میں آئیں گے۔ اس کے لئے terms and conditions طے ہوسکتی ہیں، تو یہ تو بہت آگے کی باتیں ہیں۔ فی الحال تو ابتدائی راونڈ مذاکرات کا ہوگا تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ ڈائیلاگ صحیح نتائج پیدا کرے گا یا نہیں۔ 

اسلام ٹائمز: ڈاکٹر صاحب! کرزئی حکومت کے طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات پر کس حد تک تحفظات ہیں؟ کیا طالبان سے امریکہ کرزئی حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر موجود ہے۔؟
ڈاکٹر حسن عسکری:
امریکہ کرزئی حکومت کو مکمل طور پر مذاکرات سے باہر نہیں رکھے گا۔ ان کو شامل کرے گا۔ لیکن کرزئی کو اس وقت فکر یہ ہے کہ اگر مذاکرات میں آگے چل کر اسے شامل نہیں کیا جاتا۔ ابتدائی گفتگو میں تو اس طرح سے مقامی سیاست میں آگے چل کر ایک طرح سے افغان حکومت کی کمزوری نظر آئے گی۔ اگر مقامی سطح پر حکومت کی پوزیشن کمزور ہوتی ہے تو اپریل 2014ء میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں حامد کرزئی اگرچہ خود تو کھڑا نہیں ہوگا۔ صدارتی انتخابات میں اپنا بندہ کھڑا کر ے گا، تو اس کے لئے ضروری ہے کہ عوام کو بتائے کہ اس نے افغان عوام کے مفادات کا تحفظ کیا ہے۔ تو افغانستان کی اندرونی سیاست کی وجہ سے کرزئی حکومت نے اعتراضات کئے ہیں۔ لیکن آخر کار امریکہ افغانستان کو مذاکرت میں شامل کرے گا کہ ان کے بغیر یہ معاہدہ ہو نہیں سکتا۔ 

اسلام ٹائمز: قطر میں مذاکرات ہونے اور طالبان کے دفتر کھولنے کے بارے میں ایک خیال یہ ہے کہ سعودی عرب کا متبادل امریکہ نے قطر کی شکل میں تلاش کر لیا ہے۔ کیا یہ تاثر درست ہے۔؟
ڈاکٹر حسن عسکری:
میرا خیال ہے ایسا کہنا درست نہیں ہے کہ طالبان سے تو ابھی کوئی تعلق قائم نہیں ہوا ہے۔ لیکن سعودی عرب سے تو ان کا اقتصادی تعلق بہت پرانا اور قریبی ہے۔ علاقائی سیاست میں امریکہ کا بہت سا کردار سعودی عرب ادا کرتا ہے۔ ایک طرح سے سعودی عرب امریکی خارجہ پالیسی کے فریم ورک میں چلتا ہے، جبکہ طالبان ایک علیحدہ وجود کے طور پر موجود ہیں اور وہ امریکہ اور عالمی برادری سے اپنا تشخص منوانا چاہتے ہیں۔ اسی لئے وہ عالمی برادری سے مذاکرات کے لئے تیار ہوئے ہیں کہ انہیں ایک عالمی حیثیت مل سکتی ہے۔ اگر اس کے لئے کوئی طریقہ کار طے ہوجائے۔ 

اسلام ٹائمز: ڈاکٹر صاحب! طالبان سے مذاکرات کے موقع پر قطر کے سربراہ کی تبدیلی کس بات کا اشارہ کرتی ہے؟
ڈاکٹر حسن عسکری:
دیکھئے میرا خیال ہے کہ امیر قطر کی تبدیلی کا طالبان کے مذاکرات سے تعلق نہیں ہے۔ یہ ان کا اندرونی معاملہ ہے اور ان کی خارجہ پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ قطر عرب سیاست میں بہت متحرک کردار ادا کر رہا ہے۔ اس میں شام کے بحران کے حوالے سے بھی کردار ہے۔ وہ شام کے باغیوں کی بھی مدد کر رہا ہے۔ طالبان کے مذاکرات میں بھی میزبان کا کردار ادا کر رہا ہے۔ نئے بادشاہ قطر جو آئے ہیں، اسی خارجہ پالیسی کو لے چلیں گے جو پہلے سے چل رہی ہے۔ یہ طالبان کے مذاکرات کی وجہ یا ا س کا نتیجہ نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا علاقائی طاقتیں ایران اور پاکستان بھی طالبان امریکہ مذاکرات میں on board ہیں۔؟
ڈاکٹر حسن عسکری:
ایران تو ان مذاکرات میں on board نہیں ہے اور نہ ہی امریکہ اس طرف کوئی توجہ دینا چاہے گا، ہاں پاکستان نے ان مذاکرات کو شروع کروانے میں مدد کی ہے۔ طالبان کی حوصلہ افزائی اور ان سے مذاکرات کے لئے تعاون کیا ہے۔ لیکن اس سے زیادہ پاکستان کا کردار ہے اور نہ ہی ہوسکتا ہے، اور نہ مذاکرات کی میز پر پاکستان بیٹھے گا۔ صرف امریکہ ہوگا، طالبان ہونگے اور ہوسکتا ہے کہ بعد میں افغانستان حکومت اس میں شامل ہوجائے۔ پاکستان کا کردار اس وقت بنے گا جب یہ مذاکرات نتیجہ خیز ہوجائیں گے۔ چھ سے آٹھ ماہ بعد تو پھر شاید پاکستان کا کردار ایک علاقائی طاقت کے طور پر بنے گا۔
خبر کا کوڈ : 277776
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش