0
Monday 1 Jul 2013 00:28

اسلام کیخلاف عالمی استعمار کی سازش میں نام نہاد مسلمان ہی آلہ کار بن رہے ہیں، مولانا قاضی احمد نورانی

اسلام کیخلاف عالمی استعمار کی سازش میں نام نہاد مسلمان ہی آلہ کار بن رہے ہیں، مولانا قاضی احمد نورانی
معروف اہلسنت عالم دین مولانا قاضی احمد نورانی صدیقی کا تعلق بنیادی طور پر پاکستان میں اہلسنت مسلمانوں کی نمائندہ سیاسی مذہبی جماعت جمعیت علمائے پاکستان سے ہے اور اس وقت جے یو پی کی مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن ہیں۔ اس کے ساتھ آپ مرکزی جماعت اہلسنت پاکستان اور اسکی بعض ذیلی تنظیموں سے بھی وابستہ ہیں اور رابطے کے حوالے سے ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں۔ مولانا قاضی احمد نورانی صدیقی پاکستان میں مسئلہ فلسطین کیلئے آواز بلند کرنے والے ادارے فلسطین فاﺅنڈیشن پاکستان (PLF Pakistan) کے مرکزی ادارے "سرپرست کونسل" کے مرکزی رکن بھی ہیں۔ آپ ہمیشہ اتحاد امت و وحدت اسلامی اور مظلوم فلسطینیوں کیلئے آواز بلند کرتے رہتے ہیں اور ان حوالوں سے پاکستان بھر میں اور ایران، شام، لبنان سمیت دنیا کے کئی ممالک کے دورے بھی کر چکے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے مولانا قاضی احمد نورانی صدیقی کے ساتھ مختلف ایشوز کے حوالے سے ایک نشست کی، جس میں نئی حکومت کے بعد پاکستان کی صورتحال، مذہبی جماعتوں کی ناکامی، پاک ایران گیس پائپ لائن اور پاک چین گوادر پورٹ معاہدوں سے دستبرداری، پاکستان، ایران و چین پر مشتمل علاقائی بلاک کی تشکیل، ملک بھر میں جاری دہشت گردی اور رمضان کی آمد، شام کی موجودہ صورتحال وغیرہ شامل ہیں۔ اس موقع پر آپ سے کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: حکومت کی تبدیلی کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ کسی خوشگوار تبدیلی کا امکان نظر آرہا ہے۔؟
مولانا قاضی احمد نورانی صدیقی: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔۔۔۔۔ ملکی انتخابات میں ہم یہ کہہ ہی نہیں سکے کہ کہ امریکی و دیگر عالمی طاقتوں کا عمل دخل نہیں ہے یا نہیں رہا۔ پاکستان میں موجودہ حکومت ہو یا سابقہ حکومتیں، ڈکٹیٹر کی حکومت ہو یا جمہوری حکومتیں، سب امریکی آشیر باد کے بغیر حکومت چلانا محال سمجھتے ہیں، جو کہ ان سب کی خام خیالی ہے۔ پاکستانی سیاسی منظر نامے میں صرف چہرے بدلتے ہیں، وزیراعظم و صدر تبدیل ہوتے ہیں، بظاہر ایوانوں میں تبدیلی آتی ہے مگر ذہن وہی رہتا ہے جو پہلے موجود تھا۔ تبدیلی صرف اندر کے حالات میں آتی ہے ورنہ انکا تخیل وہی ہوتا ہے، مرکزی خیال ہی ہوتا ہے۔ ڈرون حملے کل بھی ہو رہے تھے، آج بھی جاری ہیں۔ ملک بھر میں دہشت گردی و بدامنی کل بھی آج بھی جاری ہے۔ معیشت ابتر کل بھی تھی آج بھی ہے۔ لوڈشیڈنگ کل بھی ہو رہی تھی آج بھی ہو رہی ہے۔ اسی طرح عالمی حالات پر ہماری بے حسی کل بھی تھی اور آج بھی ہے۔ تو بھائی حکومت کی تبدیلی سے کوئی خاص تبدیلی ہمیں نظر نہیں آتی۔ دیکھیں جب تک پاکستانی سیاسی میدان میں محب وطن مذہبی سیاسی جماعتیں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کرتیں تو اس وقت تک ملک میں حقیقی معنوں میں تبدیلی کی خواہش ہمیں نہیں کرنی چاہئیے۔

اسلام ٹائمز: آپ نے مذہبی جماعتوں کی بات کی، کیوں پاکستان میں آج تک مذہبی جماعتیں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کرسکیں۔؟
مولانا قاضی احمد نورانی صدیقی: 2002ء کے عام انتخابات میں مذہبی جماعتوں کے سیاسی اتحاد متحدہ مجلس عمل نے ملک بھی میں اچھی خاصی تعداد میں نشستیں جیتیں اور اس وقت کی حکومت میں اتنا عمل دخل ہوا کہ انہوں نے مختلف مواقع پر حکمرانوں کو للکارا اور اپنی گرفت مضبوط کی۔ جیسا کہ آپ نے سوال کیا تو اس حوالے سے میں یہ کہنا چاہوں گا کہ جب تک مذہبی لبادے کے اندر موجود بعض سیاستدان اپنے رویوں کو تبدیل نہیں کرینگے اور وقتی طور پر بننے والے اتحاد کو اخلاص کے ساتھ باقی رکھنے کیلئے کام نہیں کرینگے تو عوام کے سامنے جا کر ووٹ حاصل نہیں کر پائیں گے۔ دوسری جانب مذہبی جماعتیں بھی مختلف گروہوں میں تقسیم ہیں۔ اکثریتی مذہبی گروہوں کی تقسیم اپنی جگہ، کم تعداد میں جو گروہ موجود ہیں وہ بھی تقسیم در تقسیم کا شکار ہیں۔ ان میں سے ایک مذہبی طبقہ ایک سیاسی جماعت کی حمایت کرتا ہے، ایک طبقہ دوسری سیاسی جماعت کی حمایت کرتا ہے۔ ایک مذہبی طبقہ صوبوں میں موجود علاقائی یا قوم پرست جماعتوں کی حمایت کرتا ہے اور ایک طبقہ خود انتخابات میں جیتنے کی کوشش کرتا ہے۔ لہٰذا جب تک سیاسی مذہبی جماعتیں یکجا نہیں ہوتیں اور ایک لائحہ عمل طے نہیں کرتیں، تب تک انہیں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل ہونے کا امکان نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: تجزیہ کار کہتے ہیں کہ نواز حکومت بیرونی دباﺅ میں آکر پاک ایران گیس پائپ لائن اور پاک چین گوادر پورٹ معاہدے سے دستبردار ہوسکتی ہے۔ آپ اس حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
مولانا قاضی احمد نورانی صدیقی: اصول تو یہ ہے کہ حکومتوں کی تبدیلی کے باوجود جو پالیسیاں ملکی مفادات میں ہیں انہیں جاری رہنا چاہئیے۔ گذشتہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے دور حکومت کے آخری ایام میں ایران سے گیس پائپ لائن اور چین کے ساتھ گوادر پورٹ کے جو معاہدے کئے ہیں وہ بہت قابل قدر معاہدے ہیں، پاکستانی عوام اور ملکی مفاد میں بہتر ہیں۔ پاک چین گوادر معاہدے سے ہمیں ناصرف بلوچستان کو مستحکم کرنے میں مدد ملے گی بلکہ ساتھ ساتھ پاکستان کو عالمی منڈیوں تک رسائی ملے گی۔ ہمیں بہت زیادہ سرمایہ کاری کئے بغیر معیشت کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ جہاں تک پاک ایران گیس پائپ لائن کی بات ہے، تو وہ ہماری بنیادی ضرورت ہے۔ بلوچستان میں شورش کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ قدرتی نعمت ہمارے یہاں سے نکلتی ہے، وہ خود ہمیں نہیں ملتی۔ لہٰذا ایران سے ہمیں گیس ملنا شروع ہو جاتی ہے تو جہاں جہاں گیس نہیں ہے یا کمی ہے ہم گیس پہنچا سکیں گے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ آئے روز گیس اور سی این جی کی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔ اگر لوڈشیڈنگ نہ کریں تو بڑے صنعتی اداروں، بجلی پیدا کرنے والے اداروں، آئل ریفائنریز کو گیس کی فراہمی مشکل ہو جائے گی۔ تو گیس ہماری بہت بڑی ضرورت ہے۔ اگر پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ مکمل ہو جاتا ہے، سستی گیس فراہم ہو جاتی ہے تو ملک و قوم کو فائدہ پہنچے گا۔ لہٰذا موجودہ حکمرانوں کو چاہئیے کہ وہ قومی مفاد کو مدنظر رکھیں اور کسی بھی دباﺅ میں آئے بغیر ایران سے گیس پائپ لائن کے معاہدے ہو اس کی رو کے مطابق مکمل کریں، تاکہ پاکستانی عوام کو اس کا فائدہ پہنچ سکے، جبکہ چین کے ساتھ گوادر پورٹ معاہدے کی بھی بروقت تکمیل ہونی چاہئیے۔

اسلام ٹائمز: پڑوسی ممالک سے پاکستان کے تعلقات سرد مہری کا شکار رہے ہیں۔ موجودہ عالمی حالات کے پیش نظر کیا آپ سمجھتے ہیں کہ چین اور ایران کے ساتھ مل کر ایک مضبوط علاقائی بلاک بنایا جائے۔؟
مولانا قاضی احمد نورانی صدیقی: ایک زمانہ تھا جب ہم نے ایران اور ترکی کے ساتھ مل کر اقتصادی ترقی کیلئے ریجنل کوآپریشن فار ڈویلپمنٹ (RCD) بنائی تھی۔ مختلف ادوار کی اپنی اپنی جہت ہوتی ہے۔ اس وقت ہم انڈیا سے اپنی پینگیں نہیں بڑھا سکتے، اس لئے کہ اس کے رویے اکثر ہمارے ساتھ مناسب نہیں ہوتے۔ امریکہ پر ہم بھروسہ نہیں کرسکتے کیونکہ وعدے ضرور کرتا ہے مگر اپنے مفادات حاصل کرنے کے بعد ہمیں نظر انداز کر دیتا ہے۔ افغانستان کے ساتھ ہماری بہت بڑی سرحدیں غیر محفوظ ہیں۔ وہاں سے کوئی بھی سازش کسی بھی نام پر، کسی مذہبی انتہاء پسندی کے نام پر یا عالمی سامراج کسی بھی عنوان سے ہمارے خلاف سازش کرسکتا ہے۔ تو ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے پڑوسی اور برادر اسلامی ملک ایران کے ساتھ تعلقات جتنے بہتر کرسکتے ہیں تعلقات بہتر کریں۔ پاکستان اور ایران دونوں ممالک کے بہتر مفاد میں جتنے بھی معاہدے ہو سکیں، ہمیں کرنے چاہئیے۔ ایران میں بھی احمدی نژاد کی جگہ روحانی صدر منتخب ہوئے مگر ملکی مفاد میں پالیسیاں جاری ہیں۔ لہٰذا ہمیں پاکستانی عوام اور ملکی مفاد کی پالیسیوں کو جاری رکھنا چاہئیے پھر اہم ترین آپ نے جو بات کی کہ چین اس وقت دنیا کی ابھرتی ہوئی طاقت بن کر سامنے آیا ہے جس کی دنیا کی تمام مارکیٹ تک رسائی ہے۔ چین نے اپنی ترقی سے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ اگر کوئی اپنے پیروں پر کھڑا پونا چاہئیے، ترقی کرنا چاہئیے تو دنیا کی کوئی طاقت اس کو آگے بڑھنے سے نہیں روک سکتی۔
 
چین ہمارے ساتھ ہی آزاد ہوا، وہاں کے حالات ہم سے زیادہ خراب تھے، وہاں کے سیاسی و سماجی حالات بدتر تھے۔ لیکن چین ایک قوم بن کر سامنے آیا اور اس نے اپنی آزادی کو منوایا۔ اپنی کاوشوں سے اپنی معیشت کو سہارا دے کر دنیا کی مثالی معیشت بنا دیا۔ تو چین پاکستان کا ایک بہترین اور مثالی دوست ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اگر چین اور ایران کے ساتھ اگر تعاون کا ہاتھ بڑھایا جائے تو یہ ٹرائیکا، یہ مثلث اگر ایک علاقائی تعاون کے طور پر ایک بلاک کے طور پر قائم ہو جائے تو یہ بہت بہترین ہوگا اور اس بات کا اظہار کیا جائے کہ ہمارا یہ بلاک کسی کی دشمنی میں نہیں ہے۔ یعنی ہم چین سے تعاون کا ہاتھ ملا کر بھارت کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرنے جا رہے، ہم ایران کے ساتھ ہاتھ ملا کر کسی دوسرے ملک کے خلاف کوئی کارروائی کرنا نہیں چاہتے بلکہ یہ تو ہمارے پڑوسی ممالک ہیں، پڑوسیوں سے اچھے ہونے چاہئیے۔ ملکی و علاقائی مفاد میں اور عالمی رائے عامہ کی مثبت تبدیلی کیلئے بھی آپ اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ پاکستان ایک آزار و خود مختار ملک ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کو کسی بھی دباﺅ اور سازش کا شکار نہیں ہونا چاہئیے۔

اسلام ٹائمز: مسئلہ فلسطین و مشرق وسطٰی کے حالات پر آپ کی گہری نظر ہے۔ شام کے قضیے کے حوالے سے آپ کیا کہتے ہیں۔؟
مولانا قاضی احمد نورانی صدیقی: اسرائیل کے وزیر خارجہ نے ایک بیان دیا تھا اور فرانس کی وزارت خارجہ کے ایک اہم ذمہ دار نے اس راز کو افشا کیا تھا جو کہ پچھلے ہفتے اخبارات میں شائع ہوا کہ اسرائیل نے کہا تھا کہ ہم شام سے اپنی مخالفت کا بدلہ لیں گے۔ تو یہ بات عالمی ذرائع ابلاغ کے ریکارڈ پر موجود ہے اور شام کو صیہونیت اسرائیل مخالفت کی سزا دی جا رہی ہے۔ وہاں طاقت کا توازن بگاڑنے میں بعض عسکری تنظیموں کا حصہ بھی شامل ہے۔ حزب اللہ لبنان جو مسلمانوں کی ایک نمائندہ تنظیم رہی ہے اور اس نے چند سال قبل اسرائیل کے مقابلے میں راکٹوں کی ایک بڑی جنگ جیت کر اپنی استقامت کو ثابت کیا ہے۔ اسی طرح حماس غزہ کی پٹی میں مسلمانوں کی ایک نمائندہ جماعت ہے۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کی حماس، حزب اللہ سمیت وہاں کے دیگر جہادی گروہوں سے ایک وابستگی ہے۔ وہ ان کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ حماس اور حزب اللہ کی قیادت کو بھی دانشمندانہ فیصلے کرنے چاہئیں کہ شام کے معاملات میں ان سے وابستہ کوئی بھی فرد یا کارکن یا ان کا کوئی مجاہد انفرادی یا اجتماعی ایسے کسی معاملے میں شریک نہ ہو کہ دنیا کو ان پر انگلی اٹھانے کا موقع ملے کیونکہ حزب اللہ اور حماس کے مشن بہت عظیم ہیں۔ 

شام کے حالات پر میں بہت تکلیف میں ہوں، وہاں ہزاروں لوگ مار دیئے گئے۔ وہاں مساجد سمیت دیگر مذاہب کے عبادت خانے مسمار کئے گئے۔ ہمیں وہاں کے حالات پر بہت تشویش ہے۔ لیکن یہ شام کا ایک داخلی معاملہ ہے۔ دنیا بھر کو، اقوام متحدہ سمیت تمام اداروں کی جو ذمہ داری ہے کہ شام کے داخلی معاملے کو داخلی سطح پر حل ہونے دیں۔ نہ ہی کوئی گروہ شامی حکومت کو عوام پر مظالم کی اجازت دے اور نہ ہی بشار مخالف باغیوں کو اسلحہ و دیگر امداد فراہم کرے۔ دونوں عمل غلط ہیں۔ اگر بغاوت ہے تو وہ حکومت کے خلاف ہے، یہ انکی حکومت کا مسئلہ ہے کہ باغیوں سے معاہدہ کرتی ہے یا بغاوت کچل دیتی ہے۔ لیکن ان تمام میں انسانی جانوں کا ضیاع بہت زیادہ باعث تشویش ہے۔ عرب حکومتوں کو بھی، ایرانی حکومت کو بھی، شام کے تمام پڑوسیوں کو بھی اور عالمی اداروں کو بھی اس میں ملوث ہونے کے بجائے ایک آزاد کمیشن قائم کر دینا چاہئیے۔ مبصرین وہاں جائیں، وہاں کا جائزہ لیں یا وہاں ایک عوامی ریفرنڈم ہو جائے۔ عوام جو بھی مرضی ہو فیصلہ کرے۔ شامی عوام اگر بشار الاسد کی حمایت میں فیصلہ کرتی ہے تو وہ بے شک وہ حکومت کریں، اگر وہ باغیوں کی حمایت میں فیصلہ کرتے ہیں تو وہ حکومت کریں۔ لیکن کسی بھی صورت میں شام میں تقسیم در تقسیم کا عمل نہیں ہونا چاہئیے۔ وہاں انسانوں کا قتل عام نہیں ہونا چاہئیے۔ شام کے معاملے میں آکر حماس اور حزب اللہ جیسی تنظیموں کے کردار پر کوئی حرف نہیں آنا چاہئیے، اسلئے کہ ان کا مشن اس سے کہیں زیادہ عظیم ہے۔ صیہونیوں یہودیوں کو جواب دینے کیلئے ہماری جو ایک طاقت ہے وہ اس طرح ٹوٹنی نہیں چاہئیے۔

اسلام ٹائمز: مسئلہ شام کے حل کے حوالے سے کیا کہیں گے؟ بشار حکومت جاتی ہے تو اگلی حکومت خطے کی حقیقی مزاحمتی تحریکوں کی حمایت جاری رکھے گی۔؟
مولانا قاضی احمد نورانی صدیقی: دراصل اردن، شام اور اس کے اطراف کے ممالک تحریک آزادی فلسطین کے بڑے حامی رہے ہیں۔ مرسی کے دور سے پہلے مصر نے بڑی سخت پابندیاں لگائیں اور ان سخت حالات میں یہ ممالک امداد کرتے رہے۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ حماس کی اکثر قیادت شام میں مقیم رہی، اس کے ساتھ دیگر جہادی گروہوں کو بھی یہاں سے سپورٹ ملتی رہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان حالات میں ان کا ایک اچھا رویہ تھا لیکن اب جو صورتحال پیدا ہوگئی ہے اس میں کچھ حکمران بیٹھ کر وہاں ایسی صورتحال کا جائزہ لیں اور ایک ایسا فیصلہ کریں کہ کم از کم عوام کا قتل عام نہ ہو اور ان کی مدد جو عالمی تنظیموں کی جانب سے ہے وہ بھی جاری رہے۔ شام کے لوگ اپنی آزادی کے ساتھ کوئی فیصلہ کرلیں، یہ ان کا داخلی معاملہ ہے۔ اس معاملے کو وہاں کی عوام پر ہی چھوڑ دینا چاہئیے۔ جس طرح ایران میں الیکشن ہوئے۔ احمدی نژاد کے کارنامے دنیا جانتی ہے وہ ایک اچھے آدمی تھے، وہ دو ٹرن لے چکے تھے، قوم نے فیصلہ کیا اور کسی اور کو منتخب کر لیا۔ تو یہ ایران کا داخلی معاملہ ہے۔ ہمیں کسی بھی ملک کے داخلی معاملے میں مداخلت کرنے کے بجائے اس کی عوام کو فیصلہ کرنے کی اجازت دینی چاہئیے۔ ہمیں امید ہے کہ جو بھی مسلم حکمران آئے گا انشاءاللہ وہ فلسطین کا اتنا ہی حامی رہے گا اور اگر کوئی وہاں عالمی طاغوت نے کٹھ پتلی حکمران لانے کی کوشش کی تو عوام خود ہی اسے ناکام بنا دیں گے، عوام اسے چلنے نہیں دینگے۔

اسلام ٹائمز: رمضان المبارک کے مقدس مہینے کی آمد آمد ہے۔ مگر ملک بھر میں فرقہ واریت اور لسانیت پھیلانے کی سازش بھی بڑھتی ہوئی نظر آ رہی ہے، ملک بھر میں رمضان المبارک جیسے مقدس مہینے سے قبل دہشتگردی میں اضافہ نظر آ رہا ہے۔ کون اس کا ذمہ دار ہے؟ اس سازش کا تدارک کیا ہے۔؟
مولانا قاضی احمد نورانی صدیقی: جی ہاں ماہ رمضان المبارک کی آمد آمد ہے۔ رمضان المبارک ہر کلمہ گو مسلمان کیلئے ایمان کا، اللہ تعالٰی اور اسکے رسول (ص) سے اپنی محبت و عقیدت کے اظہار کا، اللہ کی عبادت میں زیادہ مصروف رہنے کا مہینہ ہے۔ نزول قرآن کا مہینہ ہے، شب قدر کا مہینہ ہے۔ مسلمان عوام میں کسی قسم کی فرقہ واریت نہیں ہے۔ چند مخصوص ذہن ہیں جو لوگوں کو لڑواتے ہیں۔ کہیں کہیں اسٹیج کے واعظین بھی غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اتحاد امت و وحدت اسلامی کیلئے ہمیشہ سے کوششیں کی جاتی رہی ہیں، اب بھی کوششیں جاری ہیں، بار آور بھی ثابت ہوئی ہیں۔ ماہ رمضان میں وہ علماء، دانشور، مفکرین جو مختلف ٹی وی چینلز پر پروگرامات میں آتے ہیں اور عوام سے مخاطب ہوتے ہیں۔ وہ سب اپنی گفتگو میں اتحاد و وحدت کی دعوت دیں اور اپنی گفتگو کا محور اسلام کے بنیادی عقائد اور عبادات کو رکھیں۔ اگر جزیات میں جانا ہے یا سمجھانا ہے تو اپنی اپنی چار دیواری میں اس پر گفتگو کر لیں۔ لیکن جب اس طرح کی گفتگو ہو تو کوشش کریں کہ کسی کی بھی دل آزاری نہ ہو۔ 

آپ کے سوال کا اہم جز یعنی فرقہ واریت، لسانیت پھیلانے کی، دہشت گردی میں اضافے کی سازش کے حوالے سے یہ عرض کرونگا کہ مخالف ہمیشہ اپنے مخالف کو تقسیم کرنے اور لڑوانے کی کوشش کرتا ہے۔ عالمی طاغوت، عالمی استعمار اسلام کے خلاف سازشیں کر رہا ہے لیکن اہم سوال یہ ہے کہ جو لوگ اس سازش آلہ کار بن رہے ہیں وہ بھی تو نام نہاد مسلمان ہی ہیں۔ پاکستان میں مذہبی اجتماعات پر، مساجد، امام بارگاہوں، مزارات، درگاہوں پر جتنے دھماکے ہوئے ان کو خودکش جیکٹس، بارودی مواد فراہم کرنے والا، ان کی ذہن سازی کرنے والا، ان کی تربیت کرنے والا، تحفظ دینے والا کوئی بھی سامراج کا رکن ہو، ایجنٹ ہو لیکن ملکی سطح پر، ملک کے اندر ان کو کمین گاہیں فراہم کرنے والا نام نہاد مسلمان ہی ہے نا۔ بے شک اسلام کے خلاف عالمی سازش تو ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے، دو رائے نہیں ہیں، لیکن ہمیں تو شکوہ ان سے ہے کہ جو کلمہ پڑھنے کے باوجود دوسرے کلمہ گو کا گلا کاٹنے کو اپنے لئے باعث عبادت سمجھتے ہیں۔ ہمیں اپنی صفوں میں سے ان کالی بھیڑوں عالمی استعمار کے ایجنٹوں کو نکالنا ہوگا، ان کو روکنا ہوگا جو ایسی انتہاء پسندی کی دعوت دیتے ہیں، تو ہم اسلام کے خلاف عالمی سازش کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔
خبر کا کوڈ : 278284
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش