0
Monday 15 Jul 2013 16:52
دہشتگردوں کیخلاف آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے

امریکہ پاکستان سمیت کسی بھی مسلمان ملک کو مستحکم نہیں دیکھنا چاہتا، حاجی حنیف طیب

ملک میں امن ہوگا تو چین سمیت دیگر ممالک سے معاملات بڑھیں گے
امریکہ پاکستان سمیت کسی بھی مسلمان ملک کو مستحکم نہیں دیکھنا چاہتا، حاجی حنیف طیب
حاجی حنیف طیب انتہائی ملن سار شخصیت کے مالک، دھیمے مزاج کے سیاست دان اور عالم دین ہیں۔ آپ انجمن طلبہ اسلام کے بانی بھی ہیں جبکہ نظام مصطفٰی پارٹی کے سربراہ بھی ہیں۔ آپ نے ابتدائی تعلیم کراچی سے حاصل کی اور اس کے بعد عملی سیاست میں قدم رکھا۔ ضیاءالحق دور میں وزارت کا قلمدان آپ کے پاس تھا، اس کے بعد بھی مختلف عہدوں پر ذمہ داریاں نبھا چکے ہیں، حاجی حنیف طیب مختلف ممالک کے دورے بھی کرچکے ہیں۔ اتحاد بین المسلمین کے بہت بڑے داعی ہیں اور اتحاد امت کے لئے ہمیشہ مصروف عمل رہتے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے ان سے ملک میں جاری دہشتگردی، طالبان سے مذاکرات اور عالمی بدلتی ہوئی صورتحال پر ایک تفصیلی انٹرویو کیا ہے، جو قارئین کے لئے پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)
                                                  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسلام ٹائمز: حاجی صاحب یہ بتائیے گا کہ نئی حکومت سے بہت ساری توقعات وابستہ کی گئی تھیں اور ساتھ ہی طالبان کے ساتھ مذاکرات کی بات ہو رہی تھی، لیکن آئے روز کے دہشت گردی کے واقعات پچھلی حکومت کے تناسب سے بہت زیادہ بڑھ چکے ہیں، آپ کیا سمجھتے ہیں کہ مذاکرات ہو پائیں گے یا نہیں۔؟

حاجی حنیف طیب: میرا خیال یہ ہے کہ نئی حکومت کو پہلے حالات کا اچھی طرح سے جائزہ لینا چاہیے تھا، اس کے بعد مذاکرات والے اعلان کرتے۔ نئی حکومت نے اس کے برعکس وہ اعلان جو بعد میں کرنے والے تھے وہ سب سے پہلے ہی کر دیئے۔ اسی لیے آپ نے دیکھا کہ قائداعظم کی ریذیڈنسی والا معاملہ ہو یا ہزارہ کمیونٹی کے ساتھ مسلسل زیادتی، خیبرپختونخوا میں متواتر قتل و غارت گری کے واقعات ہوں، وہاں ایم پی اے تک قتل کر دیا گیا اور اس کے بعد اب لاہور میں دہشت گردی کا تازہ واقعہ ہوگیا۔ میں اس لیے کہتا ہوں کہ حکومت پہلے بیٹھ کر سنجیدگی کے ساتھ حالات کا جائزہ لیتی اور پھر مشورہ کرتی اور نتیجہ نکالتی کہ کیا اقدامات کرنے ہیں۔ نئی حکومت یہ سمجھتی ہے کہ اس کو کسی کے مشورے کی کوئی ضرورت نہیں۔

اسلام ٹائمز: آپ کی گفتگو سے تو یہ لگتا ہے کہ نئی حکومت نے حالات کا جائزہ لئے بغیر ہی طالبان سے مذاکرات کرنے کا بیان داغ دیا۔؟
حاجی حنیف طیب: میں سمجھتا ہوں کہ بہت سنجیدگی کے ساتھ اور حالات کا بغور جائزہ لے کر اور آپس میں مشاورت کرکے انہیں اقدامات کرنے چاہیے تھے۔ نئی حکومت نے یہ سمجھا کہ چونکہ ہم تو پہلے سے ہی سیاست میں وارد ہیں، اس لئے ہم جو کہیں گے ویسا ہی ہوجائے گا۔ دیکھئے کہ جب اپوزیشن میں ہوں تو اس وقت اور بات ہوتی ہے اور جب برسراقتدار ہوں تو اس وقت اور بات ہوتی ہے اور مشکلات کا اندازہ بخوبی ہونا چاہئے۔

اسلام ٹائمز: کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مذاکرات کئے جائیں جبکہ اکثر لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ قاتلوں کے ساتھ مذاکرات کس طرح ہوسکتے ہیں، اس پر آپ کیا کہتے ہیں۔؟

حاجی حنیف طیب: میرے خیال میں اگر نئی حکومت کو اندازہ ہوتا ہے کہ جو لوگ اسلحہ اٹھائے ہوئے ہیں اور آئے روز ہمارے فوجی بھائیوں اور ایف سی کے اہلکاروں کو قتل کر رہے ہیں اور روز بروز ہمارے پاکستانی بھائیوں کا خون بہایا جا رہا ہے۔ یعنی جو پاکستان کی رٹ کو ہی نہ مانیں، ان لوگوں کے ساتھ مذاکرات کیسے ہوسکتے ہیں۔ بس حکومت نے وہی پرانا سبق پڑھا اور اس پر عمل کرنا شروع کر دیا، لیکن اب ان کو کنفیوژن ہو رہی ہے کہ اب مسلسل یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں ہر صورت میں امن بحال کرنا پڑے گا۔ ہم تو ہر حکومت کے لیے یہی چاہتے ہیں کہ اسے بہت ٹائم ملے اور اچھی حکومت کریں اور پاکستان کو امن کا گہوارہ بنائیں۔ اب وزیراعظم پاکستان نے چین کا دورہ کیا جو کہ بہت اچھا ہے۔ چینیوں کو یہ پوچھنا چاہیے کہ پہلی دفعہ پاکستان میں چینی سیاحوں کو قتل کیا گیا۔؟ یعنی جب پاکستان میں امن و امان کی صورتحال ٹھیک ہوگی تو پھر ڈیویلپمنٹ کی بات کریں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر اچھی طرح سے آپریشن کر دیا گیا ہوتا تو آج دہشت گردی اس حد تک نہ ہوتی۔ اگر کچھ عرصہ پہلے دس بارہ جماعتوں کے قائدین کو بلا کر مشاورتی اجلاس کیا جاتا تو اعتماد کی ایک اچھی فضاء پیدا ہوتی۔ جو کہے کہ ہم آپ کے ساتھ بیٹھ کر مذاکرات کرنے کے لیے تیار ہیں اور پیچھے سے قتل و غارت گری بھی جاری رکھے، تو اس کے ساتھ کیسے مذاکرات کئے جا سکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: ابھی سنی علماء اور مفتیوں نے ایک فتویٰ دیا کہ یہ طالبان دور حاضر کے خوارج ہیں، آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اس فتویٰ کے بعد حکومت اور ریاستی اداروں کو ان خوارج کے خلاف آپریشن اور کارروائی کرنے میں آسانی نہیں ہوگئی۔؟

حاجی حنیف طیب: پہلے بھی علمائے کرام نے مل کر فتویٰ دیا تھا لیکن حکومت نے ان کو نہیں مانا۔ پہلے ایک پریس کانفرنس کی گئی لیکن اگر حکومت سنجیدگی کے ساتھ لیتی تو اس پریس کانفرنس کو پی ٹی وی پر مسلسل چلاتی رہتی، تاکہ لوگوں کا آہستہ آہستہ ذہن بنے۔ اب بھی اگر حکومت چاہے تو علمائے کرام، مشائخ وغیرہ ہر قسم کے تعاون کے لیے تیار ہیں۔ ایسے لوگ موجود ہونے چاہیں، جو اس تعاون سے بھرپور استفادہ کرسکیں اور اچھے اقدامات کریں۔

اسلام ٹائمز: جناب منور حسن اور مولانا فضل الرحمان اب بھی سمجھتے ہیں کہ طالبان سے مذاکرات کئے جائیں، آپ کیا کہیں گے۔؟
حاجی حنیف طیب: سیاسی موومنٹ کی خاطر اس طرح کے بیانات دینا انہوں نے اپنی مجبوری بنا رکھا ہے۔ ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہماری سیاست ہمارے ملک سے مشروط ہے۔ یعنی اگر یہ ملک ہے، ملک سلامت ہوگا، ملک میں امن ہوگا، ملک میں الیکشن ہوگا تو پھر ہی ہم اپنے ملک میں سیاست کرسکیں گے، لیکن ظاہر ہے کہ آج نہیں تو کل کچھ نہ کچھ اقدامات کرنے پڑیں گے۔ جیسا کہ مذاکرات کی بات عمران خان صاحب بھی کر رہے تھے۔ گذشتہ دنوں جب تحریک انصاف کے ایم پی اے کو ان کے بیٹے سمیت قتل کیا گیا تو عمران خان کے رویے میں بڑی واضح تبدیلی دیکھی۔ ایسے ہی ان کو بھی کسی حادثے سے پہلے عقل آجانی چاہئے۔ منور حسن جان بوجھ کو بھول چکے ہیں کہ ایسے ہی لوگوں کے ہاتھوں ان کے کارکن بھی قتل ہوئے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا ریاستی ادارے واقعاً فیل ہوچکے ہیں؟ چونکہ اب تک دہشت گردی کے کسی واقعہ کے ملزمان کو نہیں پکڑ سکے اور جو یہ بارہا کہتے ہیں کہ بیرونی ہاتھ ملوث ہے، اس بیرونی ہاتھ کی نشاندہی بھی نہیں کرسکے۔؟

حاجی حنیف طیب: جب رحمان ملک وزیر داخلہ تھے تو انہوں نے دہشت گردی کے واقعات میں ملوث بیرونی ہاتھ کا کئی بار تذکرہ کیا اور یہ بھی انہوں نے کہا تھا کہ ہمارے پاس ڈاکومینٹری ثبوت ہیں۔ کئی ملاقاتوں میں ان سے میں نے کہا کہ سینئرز کی میٹنگ بلا کر وہ ڈاکومینٹری ثبوت تو دکھائیں۔ اگر وہ ڈاکومینٹری ہاتھ دکھاتے تو پھر ہم ان سے پوچھتے کہ ان کو روکنے کے لیے آپ کے آہنی ہاتھ کہاں ہیں۔ بہرحال ہمیں تو گلی محلے تک کا پتہ ہے۔ گذشتہ دنوں لاہور میں ہونے واللا واقعہ ہوسکتا ہے کہ چین کے دورے کو متاثر کرنے کے لیے کیا گیا ہو، کیونکہ عام طور پر واقعات لاہور میں بہت کم ہوتے ہیں۔ ان واقعات میں کون سے بیرونی یا اندرونی ہاتھ ملوث ہیں، ان کا جائزہ لینا تو ہمارے خفیہ اداروں، ایجنسیز، پولیس کا کام ہے۔ لہٰذا اس سلسلے میں ایسے اداروں کو خود اعتراف کرنا چاہیے کہ ہم بالکل بے بس ہوچکے ہیں اور ہمیں سیاسی رہنمائی کی ضرورت ہے۔

اسلام ٹائمز: ریاستی اداروں اور حکومت کے آپس کے تعاون کو بڑھانے کے لئے کیا تجاویز دیں گے۔؟
حاجی حنیف طیب: نواز شریف صاحب نے ایک دفعہ کہا ہے کہ ہم اس سلسلے میں آئی ایس آئی سے کام لیں گے اور آئی ایم و ایم بی آئی سے بھی کام لیں گے۔ جب تک سنجیدگی کے ساتھ پاکستان کے حالات کو صحیح نہیں کیا جاسکتا، اس وقت تک یہ نہ سوچیں کہ تقریب حلف برداری میں بھارت کے وزیراعظم کو بلوایا جائے اور چین کا دورہ کیا جائے۔ پہلے پاکستان کے حالات ٹھیک کرنے چاہیں۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہمارے ملک کو غیر مستحکم کون کر رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: فاروق عمران قتل کیس کی تحقیقات ہو رہی ہیں، اگر الطاف بھائی کی گرفتاری عمل میں آتی ہے تو کراچی میں کیا صورتحال کیا ہوگی۔؟
حاجی حنیف طیب: میں محسوس کرتا ہوں کہ ایسی صورتحال میں کراچی کے حالات مزید خراب ہوسکتے ہیں، لیکن جن لوگوں کے پاس انکوائری ہے، وہ اتنے آزاد ہیں، وہ میرے یا آپ کے مشورے کی طرف بالکل توجہ نہیں دیں گے۔ اب چونکہ معاملہ انکوائری کے مرحلے میں ہے اور لوگ نتیجے کے انتظار میں ہیں۔ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ نتیجے کے قریب ان کی نگاہوں میں آجائے گا۔

اسلام ٹائمز: طالبان کے امریکہ کے ساتھ مذاکرات اور قطر میں طالبان کے دفتر کے افتتاح کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔؟
حاجی حنیف طیب: میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ وہ کبھی خوش آمدید کہتے ہیں اور کبھی انکار بھی کر دیتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ امریکہ کو اس سے دلچسپی نہیں کہ ہمارے ملکوں میں امن قائم ہو۔ شام، تیونس، عراق و دیگر اسلامی ممالک کو پرامن نہیں دیکھ سکتا۔ پوری دنیائے اسلام کے ممالک کو غیر مستحکم رکھنا امریکہ کے اقدامات کا نچوڑ نظر آتا ہے۔

اسلام ٹائمز: شام کی مجموعی صورتحال کو کسن نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟

اسلام ٹائمز: پہلے تو ہمارے تمام مسلم ممالک کو اللہ پر یقین رکھنا چاہیے۔ ہمیں اللہ نے جو وسائل دیئے ہیں وہ اسی طرح برقرار رہیں گے، اگر ہم نے صرف اللہ کی ہی عبادت کی۔ اگر ہم کشکول گدائی، ڈالرز کے لیے اور چندوں کے لیے کشکول امریکہ یا کسی اور کے سامنے رکھا تو پھر ہمیں ان کی ڈکٹیشن بھی ماننی پڑی گی۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ شام میں جو بیرونی فوج کے سپورٹ کرنے کا اعلان کیا گیا ہے، ظاہر ہے وہ بھی امریکہ کی سازش ہے۔ شام ایک پرامن علاقہ ہے اور روحانی خطہ ہے لیکن اب کوئی وہاں سے بندہ آتا ہے اور وہاں کے حالات بیان کرتا ہے تو بہت سخت تکلیف ہوتی ہے۔ مجھے پاکستان کے حالات بھول جاتے ہیں جب شام کے حالات سنتا ہوں۔ او آئی سی کے لوگ تنخواہیں لے رہے ہیں، لیکن عملاً طور پر کوئی اقدام نہیں اٹھا رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: شام کی صورتحال خراب کرنے میں سعودی عرب اور قطر نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے، حال ہی میں فرینڈز آف شام کے نام سے کانفرنس کی گئی جس میں امریکہ اور برطانوی وزراء خارجہ نے شرکت کی اور باغیوں کو سپورٹ کرنے کا اعلان کیا گیا۔ کیا کہیں گے۔؟

حاجی حنیف طیب: دراصل سعودی عرب و قطر مکمل طور پر امریکہ کی ڈکٹیشن پر عمل کرنا چاہتے ہیں۔ اصل میں امریکہ مسلمان ملکوں کے اندر فرقہ واریت کو ہوا دیتا ہے اور وہ اسی اصول پر کاربند ہے، تاکہ مسلمان ڈی اسٹبلائز ہوں جائیں، یعنی امریکہ کے آگے ہاتھ پھیلائیں اور ان کی دی ہوئی ڈکٹیشن کو قبول کریں۔ اس طرح امریکہ اپنے مقاصد پورے کر رہا ہے اور امریکہ اسی طرح ساری جگہوں پر ایسے ہی کام کر رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: کہا یہ جا رہا ہے کہ اس پورے خطے میں شیعہ سنی فسادات کرائے جائیں، جس کا مقصد اسرائیل کو تحفظ دینا ہے۔؟
حاجی حنیف طیب: یہ کام تو وہ شروع دن سے ہی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایک تو میں یہ کہہ دوں کہ جو شیعہ سنی کہا جاتا ہے وہ پاکستان میں سارے اکٹھے رہتے ہیں۔ مثلاً کراچی میں ایک سنی عالم دین کا مدرسہ تھا اور اس سے تھوڑا آگے شیعہ عالم دین علامہ حسن ترابی کا مدرسہ ہوا کرتا تھا۔ وہاں رات کو تقریباً 12 بجے تک پروگرام منعقد کیے جاتے تھے اور پروگرام کے بعد لوگ پرامن طریقے سے اپنے اپنے گھروں کو جاتے تھے۔ ایک دوسرے کی سبیلوں سے پانی پیتے تھے اور کوئی جھگڑا نہیں ہوتا تھا۔ یہ تو باہر والوں نے سنی کے روپ میں کچھ انتہاء پسندوں کو درمیان میں ڈالا ہے اور یہ جھگڑے کر رہے ہیں اور فساد پیدا کر رہے ہیں۔ میاں نواز شریف جب پہلی دفعہ وزیراعظم بنے تھے تو انہوں نے کانفرنس بلائی تھی اور دوسری بار جب وزیراعظم کا منصب سنبھالا تو پھر بھی انہوں نے کانفرنس بلائی، میں نے انہیں کئی بار سمجھانے کی کوشش کی کہ یہاں پر لفظ سنی غلط استعمال ہو رہا ہے اور خواہ مخواہ دو کمیونٹیوں کو آپس میں لڑانے کی سازش ہو رہی ہے۔

ابھی جب کراچی میں اصفہانی روڈ پر واقعہ ہوا تھا تو اس میں شیعہ سنی لوگ زخمی ہوئے اور ان کی دکانوں، مکانوں کو بھی نقصان پہنچا تھا، متاثرین میں سنی افراد بھی شامل تھے اور شیعہ افراد بھی۔ گلی کوچے میں سبھی لوگ اکٹھے رہتے ہیں اور ان کی دکانیں ساتھ ساتھ ہیں، کوئی کسی کو مارتا نہیں لیکن سنی کے لباس میں غیر سنی انتہاء پسند دہشت گرد شامل ہیں اور یہ ساری کارروائیاں وہی لوگ کر رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 283119
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش