0
Monday 15 Jul 2013 13:02
طالبان سے مذاکرات سے پہلے فوجی آپریشن اور ڈرون حملے بند ہونے چاہئیں

ایران ہمارا دیرینہ اور مخلص دوست ہے، امریکہ کیلئے اسے ناراض نہیں کرنا چاہئے، منور حسن

شام میں کچھ مسلمان ممالک بھی امریکہ کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں
ایران ہمارا دیرینہ اور مخلص دوست ہے، امریکہ کیلئے اسے ناراض نہیں کرنا چاہئے، منور حسن
سید منور حسن جماعت اسلامی پاکستان کے امیر ہیں۔ آپ اگست 1944ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد آپ کے خاندان نے پاکستان ہجرت کی اور کراچی میں قیام پذیر ہوئے۔ آپ نے 1963ء میں کراچی یونیورسٹی سے عمرانیات اور 1966ء میں اسلامیات میں ماسٹر کیا۔ آپ نے اپنے تنظیمی کیرئیر کا آغاز 1959ء میں نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے کیا۔ آپ این ایس ایف کے صدر منتخب ہوئے۔ مولانا ابوالاعلٰی مودودی کی تعلیمات سے متاثر ہو کر آپ نے 1960ء میں اسلامی جمعیت طلبہ میں شمولیت اختیار کر لی۔ آپ اسلامی جمعیت کے رکن بنے اور ساتھ ہی کراچی یونیورسٹی کے ناظم بنا دیئے گئے۔ اس کے بعد سنٹرل ایگزیکٹو کونسل کے رکن بنے۔ بعدازاں 1964ء میں اسلامی جمعیت طلبہ کے مرکزی ناظم اعلٰی بنا دیئے گئے۔1967 ء میں جماعت اسلامی کے رکن بن گئے۔ کراچی کے مختلف عہدوں پر جماعت میں کام کیا۔ 1977ء کے انتخابات میں آپ نے باقاعدہ حصہ لیا اور پاکستان بھر میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔ 1992- 93  میں آپ جماعت اسلامی پاکستان کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل منتخب ہوگئے اور 1993ء میں سیکرٹری جنرل بن گئے۔ آپ کو انگریزی زبان پر عبور حاصل ہے لیکن اردو کو ترجیح دیتے ہیں۔ آج کل جماعت اسلامی پاکستان کے امیر ہیں۔ اتحاد امت کیلئے آپ کی کوششیں لائق تحسین ہیں۔ ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے منصورہ لاہور میں ان کیساتھ ایک نشست کی، جس کا احوال ہم اپنے قارئین کے لئے پیش کر رہے ہیں۔ (ادارہ)
                                                     ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام ٹائمز: مصر میں مرسی حکومت کے خاتمے اور فوجی حکومت کے قیام پر کیا کہیں گے۔؟

سید منور حسن: اصل میں مغرب اور مغرب نوازوں کو جہاں کہیں بھی اسلامی جماعتوں کی حکومتیں قائم ہوئی ہیں، انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتیں۔ مصر میں ساٹھ سال تک انہیں آمریت پسند رہی مگر اخوان المسلموں کا اقتدار میں آنا ایک سال بھی پسند نہ آیا۔ گو کہ یہ معاملہ مصر کا اندرونی مسئلہ ہے مگر ہمیں ان تمام پہلوؤں کو بھی دیکھنا ہوگا۔ مصر میں قائم ہونے والی الاخوان حکومت سے اسرائیل خوش تھا نہ یہودی لابی۔ امریکہ اور اس کے حواری جہاں کہیں بھی مارشل لا لگتا ہے، اس کی مذمت کرتے ہیں لیکن اگر کسی مسلم ملک میں ایسا ہو جائے تو یہ خاموشی اختیار کر لیتے ہیں یا اس کی حمایت کرتے ہیں۔ ان کے اسی دوہرے معیار کی وجہ سے امت مسلمہ مغرب سے ناراض ہے۔ ہم نے بھی یہی دیکھا ہے کہ جہاں کہیں بھی نظریاتی لوگ اقتدار میں آتے ہیں، ان کے خلاف سازشیں
شروع ہوجاتیں ہیں۔ مصری فوج اور اسٹیبلشمنٹ میں حسنی مبارک دور کے لوگ ابھی تک حاوی ہیں اور آپ نے دیکھا کہ انہوں نے مرسی حکومت کا خاتمہ کرکے ہی دم لیا۔

اسلام ٹائمز: موجودہ توانائی بحران کو کس نظر سے دیکھتے ہیں اور آپ کی نظر میں توانائی بحران کا حل کیا ہے۔؟

سید منور حسن: حکومت نے جس توانائی پالیسی کا اعلان کیا ہے، وہ عوام پر ظلم ہے، ہم اسے سراسر مسترد کرتے ہیں۔ مسلم لیگ نون اپنے انتخابی وعدوں سے کھلا انحراف کر رہی ہے، جس سے عوام میں ان کے خلاف نفرت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ وزیراعظم سے قوم کو امید تو تھی کہ انہیں ریلیف دیں گے مگر معاملہ اس کے برعکس ہوا، انہوں نے تو بجلی پر سبسڈی ختم کر دی۔ آپ دیکھ لیں گے کہ لوگوں کی ماہانہ آمدنی دس سے پندرہ ہزار روپے بنتی ہے، اس پر مہنگائی کی شرح میں دو ہفتوں کے دوران دو فیصد اضافہ ہوگیا جس سے مہنگائی کا طوفان آ رہا ہے، لوگوں کے لئے اب رمضان میں روزے رکھنا محال ہوگیا ہے۔ اوپر سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے نے شہریوں کی زندگی مزید اجیرن کر دی ہے۔ پتہ نہیں میاں نواز شریف کیوں صدر زرداری کی پالیسی پر عمل پیرا ہوچکے ہیں۔ اگر مہنگائی کی شرح میں اسی طرح اضافہ ہوتا رہا تو پھر میاں نواز شریف کا انجام بھی زرداری کی پارٹی جیسا ہوگا۔

اسلام ٹائمز: کیا پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ ملک سے توانائی بحران کے خاتمہ میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکتا ہے۔؟

سید منور حسن: جی بالکل کرسکتا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ وہ بہت ہی ضروری ہے۔ ایران ہمارا دیرینہ اور مخلص دوست ہے، جس نے ہر مشکل کھڑی میں پاکستان کی مدد کی ہے۔ ہمیں امریکہ کے لئے ایران کو ناراض نہیں کرنا چاہئے، کیونکہ امریکہ نے کبھی بھی دکھ میں ہمارا ساتھ نہیں دیا جبکہ ایران نے دکھ میں ہمیں کبھی تنہا نہیں چھوڑا۔ اس منصوبے کی جہاں تک بات ہے تو پورے ملک کے عوام اس کے حق میں ہیں، حتیٰ وہ لوگ بھی اس منصوبے کے حامی ہیں جو ایران کو اچھا نہیں سمجھتے۔ تو ہم حکومت پر واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ ہر صورت میں مکمل کیا جائے، اس کے حوالے سے تمام بیرونی دباؤ مسترد کر دیا جائے۔ ہمیں چین اور ایران کیساتھ ہی معاہدے اور تجارت کرنی چاہئے بھارت اور امریکہ ہمارے لئے ویسے ہی نحس ہیں اور ان سے ہمیں کبھی فائدہ نہیں ملا بلکہ انکی دوستی سے ہمیں نقصان ہی ہوا ہے۔

جہاں تک ایرانی گیس کی بات ہے تو اس سے ہماری صنعت کو سہارا ملے گا اور معاشی بحران سے نکل آئیں گے، کیونکہ توانائی کا بحران بہت سے مسائل جنم دے رہا ہے۔ اس سے مہنگائی پیدا ہو رہی ہے، اس سے معاشی بدحالی جنم لے رہی ہے اور ان مسائل کی وجہ سے معاشرے میں جرائم بڑھ رہے
ہیں۔ تو ایرانی گیس آنے سے ہمارے بہت سے مسائل حل ہوجائیں گے۔ ایران سے گیس ہی نہیں بلکہ ہمیں پٹرول بھی ایران سے ہی لینا چاہئے، تاکہ ہمارے ملک میں خوشحالی آئے، اب جو لوگ ہمیں تیل فراہم کر رہے ہیں، اس کے بنیادی طور پر دو بڑے نقصانات ہیں، ایک تو یہ مہنگا بہت ہے، آئے روز اس کی قیمت میں اضافہ ہو جاتا ہے، دوسری اور خوفناک چیز یہ ہے کہ دنیا بھر میں سب سے ناقص ترین تیل ہمیں دیا جا رہا ہے۔ تمام ممالک میں حکومت اور عوام اچھا تیل استعمال کر رہے ہیں، لیکن پاکستان کے عوام کو گھٹیا ترین تیل دیا جا رہا ہے، جو ہم اپنی گاڑیوں میں استعمال کر رہے ہیں لیکن حکمرانوں کی بے حسی دیکھیں کہ کوئی بھی اس پر بول نہیں رہا۔

اسلام ٹائمز: چین کو گوادر پورٹ دی ہے، اس پر ہمارے کچھ ’’دوست‘‘ ناراض ہیں، آپ کیا کہیں گے۔؟

سید منور حسن: پاکستان نے ایران اور چین کیساتھ جب بھی کوئی معاہدہ کیا ہے ہمارے کچھ دشمنوں کو جن کو آپ نے زور دے کر ’’دوست‘‘ کہا ہے، کو تکلیف ہونا شروع ہوجاتی ہے اور ان کے پیٹ میں مروڑ اٹھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دہشت گردی کی لہر میں اضافہ ہوگیا ہے۔ آپ دیکھیں کہ زیارت میں قائد ریذیڈنسی پر حملہ اور پھر لاہور کے علاقے انارکلی کی فوڈ اسٹریٹ میں بم دھماکے کے بعد اس کی ذمہ داری بلوچ لبریشن والوں کی جانب سے قبول کیا جانا، اس جانب واضح اشارہ ہے کہ ملک میں حالیہ دہشت گردی گوادر پورٹ کا ردعمل ہے، کیونکہ بلوچوں کا نام اس لئے لیا جا رہا ہے کہ یہ ظاہر کیا جائے کہ بلوچوں کو یہ پسند نہیں کہ گوادر پورٹ چین کے حوالے کی جائے۔ تو اس حوالے سے بلوچوں کو بھی ساتھ بدنام کیا جا رہا ہے۔ حکومت اور ہمارے سکیورٹی اداروں کو آنکھیں کھلی رکھنا ہوں گی۔ دہشت گردوں کے عزائم ناکام بنائے جاسکتے ہیں، اس کے لئے تمام مکاتب فکر کو بھی اتحاد کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

اسلام ٹائمز: حکومت نے آئی ایم ایف کی تمام شرائط مان لی ہیں، اس سے مہنگائی کی نئی لہر جنم نہیں لے گی۔؟

سید منور حسن: حکومت کی جانب سے جی ایس ٹی میں اضافہ نے غریب کی کمر پہلے ہی توڑ دی ہے، اس سے غریب بچارے کی ماہانہ اخراجات میں ناقابل برداشت اضافہ ہوجائے گا۔ ایسے میں متوسط طبقے کو سفید پوشی کا بھرم رکھنا بھی مشکل ہوجائے گا۔ موجودہ حکومت عوام سے غربت، مہنگائی اور بجلی کا بحران ختم کرنے کے وعدے کرکے آئی ہے، اب ان حکمرانوں نے اپنے اخراجات تو کم نہیں کئے، سارا بوجھ عوام پر ڈال دیا ہے، اور آئی ایم ایف نے قرض دینے کیلئے ٹیکس بڑھانے پر حکومت کو آمادہ کر لیا ہے۔ اصل میں یہ آئی ایم ایف کا ہی ایجنڈا ہے کہ پاکستان میں بجلی گیس کی قیمتوں میں اتنا اضافہ کر دیا جائے کہ زراعت اور
معیشت تباہ ہو جائے اور یہ توانائی کے شعبہ میں خودکفیل نہ ہوسکیں۔ اب مزید مہنگائی ہوگی، جس سے ملک اور سنگین مسائل کا شکار ہوجائے گا، پھر آئی ایم ایف کی خواہش ہے کہ پاکستان بھارت کا دست نگر بنا رہے۔ اصل میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سمیت دیگر مالیاتی اداروں پر صہیونی قابض ہیں، جو کسی صورت بھی پاکستان کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہوتا نہیں دیکھ سکتے، وہ ہمیں خود انحصاری کی منزل سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ ایٹمی پاکستان کو معاشی طور پر مضبوط نہیں دیکھنا چاہتے۔

اسلام ٹائمز: بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کیلئے ہمارے حکمران بے چین دکھائی دیتے ہیں، جبکہ مسئلہ کشمیر بھی جوں کا توں ہے اور افغانستان میں بھی بھارت کا کردار پاکستان مخالفانہ ہے۔؟

سید منور حسن: ہم کسی ملک کے ساتھ جارحیت پسند نہیں کرتے، ہم برابری کی بنیاد پر تمام ممالک کیساتھ دوستی چاہتے ہیں، مگر یہ کیا کہ ایک ہمسایہ ملک جس نے ہمارا پانی روک رکھا ہے، جس کے ساتھ کشمیر سے لے کر سیاچن اور پھر سرکریک تک کئی مسائل موجود ہیں اور جس کے ساتھ مسئلہ کشمیر پر دو بڑی جنگیں ہوچکی ہیں اور جو ہمارے خلاف جارحیت کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ اسے کیسے پسندیدہ ملک تسلیم کر لیں اور اسے تجارتی راہداری دیدیں اور اس کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم کرلیں۔ ہاں بھارت کیساتھ دوستی ہوسکتی ہے اگر وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر حل کرے، ہمارے دریاؤں کا پانی چھوڑے اور ہمارے ملک میں تخریب کاری بند کر دے۔ ایک طرف افغانستان میں بھارت اپنے سفارت خانوں کے ذریعے پاکستان میں جاسوسی کروا رہا ہے۔ دوسری جانب ہم آلو پیاز کے لئے بھارت سے دوستی کے لئے ہاتھ بڑھا رہے ہیں۔ ہم کسی ملک میں مداخلت کرنے کے حامی ہیں اور نہ کسی کو یہ اجازت دیتے ہیں کہ وہ ہمارے معاملات میں ٹانگ اڑائے۔

اسلام ٹائمز: افغانستان سے امریکی انخلا کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ کیا ملک میں امن و امان قائم رہے گا یا خانہ جنگی شروع ہوجائے گی۔؟

سید منور حسن: امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی افواج اب جو واپس جا رہی ہیں، وہ خطے میں بھارت کی تھانیداری قائم کرنا چاہتے ہیں یعنی وہ علاقے میں بھارت کو اپنا وائسرائے مقرر کرکے جا رہے ہیں، تاکہ وہ اس کے ذریعے خطے کے معاملات اپنے ہاتھ میں رکھ سکیں۔ اب ہمیں امریکہ کی اندھی تقلید اور تابعداری ترک کرنا ہوگی۔ امریکہ اگر طالبان کیساتھ مذاکرات کر رہا ہے تو ہمیں ان مذاکرات کو بامقصد بنانے کے لئے طالبان سے بات چیت کرنا ہوگی، تبھی یہ نتیجہ خیز ثابت ہوسکتے ہیں۔ اس طرح افغانستان میں امن قائم ہونے سے پاکستان میں دہشت گردی ختم ہو جائے گی اور ڈرون حملوں کا سلسلہ
بھی رک جائیگا۔

طالبان سے مذاکرات سے پہلے فوجی آپریشن اور ڈرون حملے بند ہونے چاہئیں۔ ماضی میں ہمارے قبائلیوں کیساتھ جتنے بھی معاہدے ہوئے، امریکہ نے ڈرون حملوں کے ذریعے انہیں سپوتاژ کر دیا۔ اب جیو اور جینے دو کی پالیسی پر عمل کرکے خطے میں امن بحال کیا جاسکتا ہے۔ نئی حکومت کے قیام کے بعد بھی امریکہ نے ڈرون حملے جاری رکھے۔ ایک طرف امریکہ واپس جانے اور مذاکرات کی باتیں کر رہا ہے، دوسری جانب وہ ہمارے قبائلی علاقوں پر ڈورن حملے کرکے نفرت کے بیج بو رہا ہے، تاکہ قبائل میں ہمارے خلاف نفرت پیدا ہو۔ وہ جان بوجھ کر ایسی فضا پیدا کر رہا ہے کہ اس کے انخلا کے بعد خطے میں امن قائم نہ رہ سکے، اس لئے ہمیں اسلام دشمنوں کے عزائم سے باخبر رہنے کی ضرورت ہے۔ یہ میاں صاحب کے لئے کڑا امتحان ہے کہ وہ ان مسائل سے کیسے نبرد آزما ہوتے ہیں۔ کیونکہ آج ہم جن مسائل سے دوچار ہیں، ان کی وجہ امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ ہے۔

اسلام ٹائمز: شام میں بھی امریکہ مداخلت کر رہا ہے، اس کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔؟

سید منور حسن: شام کی صورت حال پر دل خون کے آنسو روتا ہے، وہاں پر صحابہ کرام کے مزارات کی توہین کی جا رہی ہے اور یہ سب کچھ کرنے والے مسلمان نہیں ہوسکتے بلکہ مسلمانوں کے روپ میں امریکہ کے ایجنٹ ہیں، جنہیں صحابہ کرام اور اہل بیت عظام کے تقدس اور مقام و مرتبے کا بھی علم نہیں۔ پاکستان کی طرح شام میں بھی امریکہ ہی شیعہ سنی میں فساد کروا رہا ہے اور دکھ کی بات یہ ہے کہ اس میں ہمارے کچھ مسلمان دوست ممالک بھی امریکہ کے آلہ کار کے طور پر اپنے ہی بھائیوں کی نسل کشی میں برابر کے شریک ہیں۔ اس حوالے سے پاکستان کو کچھ کردار ادا کرنا چاہئے اور مسلمانوں ملکوں کے حکمرانوں کو کم از کم سمجھانے کی کوشش کرنی چاہئے کہ وہ اپنی ان مذموم حرکتوں سے باز آجائیں۔
 
اسلام ٹائمز: برما میں بھی مسلمان ہی زیرعتاب ہیں، کشمیر و فلسطین، جہاں بھی دیکھیں مسلمان ہی ظلم کا شکار ہیں کیوں۔؟

سید منور حسن: باہمی اتحاد کا فقدان ہے۔ امریکہ اور مغربی قوتوں نے ہمارے حکمرانوں کے دلوں میں یہ بات ڈال دی ہے کہ امت واحدہ کچھ بھی نہیں، بس ہر ملک کے اپنے مفادات ہوتے ہیں اور وہی اہم ترین ہوتے ہیں اور وہ مفادات ہر چیز پر مقدم ہوتے ہیں، اس لئے کہیں بھی ہمارے مسلمان بھائیوں پر ظلم ہو ہمارے حکمران اس بطور مسلمان نہیں لیتے بلکہ اسے ملکی مفاد کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ اگر ملک کا کوئی فائدہ ہو تو خاموش ہو جاتے ہیں کہ مسلمان جائیں بھاڑ میں، لیکن اسلام ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتا، اسلام کہتا ہے کہ پوری امت جسد واحد کی مانند ہے، جسم کے کسی ایک عضو میں تکلیف ہو تو درد پورا
وجود محسوس کرتا ہے۔ تو اس حوالے سے امت میں درد ہے، وہ اپنے مسلمان بھائیوں کے دکھ درد میں روتے ہیں ان کی تکلیف اپنے وجود میں محسوس کرتے ہیں لیکن ہمارے حکمران ایسا نہیں کرتے۔ لہذا ہمیں ایسے حکمران اقتدار میں لانا ہوں گے جو امت مسلمہ کو جسد واحد سمجھتے ہیں اور اس کے لئے دینی قیادت ہی اس کردار کو بہتر انداز میں نبھا سکتی ہے۔

اسلام ٹائمز: شاہ جی، پاکستان میں دہشت گردی کی حالیہ لہر میں کس کا ہاتھ دیکھتے ہیں۔؟
سید منور حسن: اس میں بھارت ملوث ہے، امریکہ اور اسرائیل اس کی پشت پر ہیں اور بھارت امریکی و اسرائیلی ایجنڈے پر ہمارے ملک میں بدامنی کو فروغ دے رہا ہے، اس مقصد کے لئے اس نے افغانستان میں بہت سے اپنے سفارت خانے کھول رکھے ہیں، جن کے وجود کی ان علاقوں میں ضرورت ہی نہیں، لیکن بھارتی سفارتخانے وہاں کام کر رہے ہیں اور وہ دہشت گرد اور تخریب کاروں کو تیار کرکے پاکستان بھیجتے ہیں، جو یہاں وارداتیں کرتے ہیں اور امریکہ و بھارت کے مفادات کو تحفظ پہنچاتے ہیں، آپ نے دیکھا کہ نواز شریف صاحب چین کے دورہ پر گئے اور اس دورہ کے مخالفین نے لاہور میں بم دھماکہ کروا دیا، اس دھماکے کے ذریعے میاں برادران کو یہ پیغام دیا گیا کہ وہ کسی غلط فہمی میں نہ رہیں، ہمیں آپ کا چین جانا اچھا نہیں لگا۔ تو اس حوالے سے حکمرانوں کو فیصلہ کن اقدام اٹھانا ہوگا اور چین، ایران، سعودی عرب، روس اور ترکی کیساتھ مل کر ایک بلاک بنانا چاہئے اور اس بلاک کے ذریعے امریکہ کو ہمیشہ کے لئے گڈبائے کہہ دیا جائے، امریکہ کو پاکستان سے نکال دیا جائے، اسی میں ہی پاکستان کے امن کا راز مضمر ہے۔ جب تک امریکہ خطے میں اور بالخصوص پاکستان میں موجود ہے یہاں امن قائم نہیں ہوسکتا۔

اسلام ٹائمز: آخری سوال، الطاف حسین کا مستقبل کیا دیکھتے ہیں۔؟

سید منور حسن: الطاف حسین اپنے انجام کو پہنچتا دکھائی دے رہا ہے۔ عمران فاروق قتل کیس میں ’’کھرا‘‘ الطاف حسین کے گھر ہی پہنچ رہا ہے اور برطانوی پولیس سے ہمیں توقع ہے کہ وہ غیر جانبدارانہ تحقیقات کرے گی۔ الطاف حسین صرف عمران فاروق کا ہی قاتل نہیں بلکہ اس کے ہاتھ ہزاروں بے گناہوں کے لہو سے رنگے ہوئے ہیں۔ آپ نے دیکھا کہ کس طرح وہ اپنی تقریروں میں بڑھکیں مارتا ہے، نشے کی حالت میں، پھر جب صبح ہوش میں آتا ہے تو اس بات سے مکر جاتا ہے، بچارے رابطہ کمیٹی والوں پر بن آتی ہے اور وہ بچارے شرمندہ شرمندہ سے میڈیا میں اس خطاب کی تردید چلواتے پھر رہے ہوتے ہیں، تو کہتے ہیں کہ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی؟ تو الطاف حسین کی عیاشی کے دن اب ختم ہونے والے اور میں انہیں برطانوی جیل کی سلاخوں کے پیچھے دیکھ رہا ہوں۔
خبر کا کوڈ : 283128
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش