0
Tuesday 23 Jul 2013 16:58
اسرائیلی صیہونی کسی بھی مسلم ملک کو مضبوط نہیں دیکھ سکتے

بھارت اور افغان حکومت نے قونصل خانوں کی آڑ میں دہشتگردی کے مراکز قائم کر رکھے ہیں، غفور حیدری

بھارت اور افغان حکومت نے قونصل خانوں کی آڑ میں دہشتگردی کے مراکز قائم کر رکھے ہیں، غفور حیدری
مولانا عبدالغفور حیدری معروف مذہبی رہنما اور ممتاز سیاست دان ہیں، مولانا غفور حیدری 15 فروری 1957ء کو قلات میں پیدا ہوئے۔ آپ 2002ء میں متحدہ مجلس عمل کے ٹکٹ سے ایم این اے منتخب ہوئے، مولانا نے اسلامیات میں ایم اے کیا ہوا ہے۔ آپ 1992- 93 میں بلوچستان اسمبلی میں وزیر بھی رہے۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مرکزی سیکرٹری جنرل کا عہدہ بھی آپ کے پاس ہے۔ مولانا غفور حیدری کے دو بچے ہیں ایک بیٹا اور ایک بیٹی، آپ ترکی، ایران، سعودی عرب، یو اے ای، قطر، بحرین اور جاپان کے دورے بھی کرچکے ہیں۔ آپ نے تنظیمی کیرئر کا آغاز جمعیت طلبہ اسلام سے کیا، آپ اس کے صدر بھی رہ چکے ہیں، آپ نے تحریک ختم نبوت اور قومی اتحاد میں بھی خدمات سرانجام دی ہیں۔ سینیٹ کی مختلف کمیٹیوں کی بھی نمائندگی کرچکے ہیں۔ آپ جامعہ اسلامیہ شاہ ولی اللہ قلات کے ناظم اعلٰی اور کوئٹہ کی پوسٹل کالونی میں جامع مسجد کے خطیب بھی ہیں۔ گذشتہ روز لاہور میں’’اسلام ٹائمز‘‘ نے ان کیساتھ ایک مختصر نشست کی، جس کا احوال اپنے قارئین کیلئے پیش کر رہے ہیں (ادارہ)
                                        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام ٹائمز: ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی روک تھام کیلئے حکومت نے آل پارٹیز کانفرنس بلائی ہے، اس سے کیا نتائج برآمد ہوں گے؟
سینیٹر عبدالغفور حیدری: دہشت گردی کے حوالے سے حکومت اے پی سی کا اہتمام کر رہی ہے، جمعیت علمائے اسلام (ف) اس میں بھرپور انداز میں شریک ہوگی، اس لئے کہ دہشت گردی ہی آج کا بڑا مسئلہ ہے۔ امید ہے کہ تمام جماعتیں مل بیٹھ کر اس مسئلے کا کوئی نہ کوئی اچھا حل نکال لیں گی۔

اسلام ٹائمز: آپ حکومت میں شامل ہو رہے تھے، مذاکرات کہاں تک پہنچے۔؟
سینیٹر عبدالغفور حیدری: جہاں تک حکومت میں شمولیت کا تعلق ہے تو ہماری جماعت حکومت میں شامل ہو یا نہ ہو، حکومت کے ہر اچھے عمل کو سراہے گی اور منفی کاموں پر تنقید کا حق رکھتی ہے۔ ابھی تک وزیراعظم میاں نواز شریف کی ہمارے قائد مولانا فضل الرحمن سے بات چیت چل رہی ہے۔ ہماری حکومت میں شمولیت اصولوں کی بنیاد پر ہوگی۔ محض وزارتیں حاصل کرنا ہمارا مقصد نہیں، ہم کئی بار حکومت بھی چلا چکے ہیں، ہمارے تو عام انتخابات کے نتائج پر بھی تحفظات ہیں، لیکن ہم نے ملکی سلامتی کے لئے ان نتائج کو تسلیم کر لیا، تاکہ ملک میں جمہوریت کا تسلسل قائم رہ سکے۔

اسلام ٹائمز: موجودہ حکومت کی خارجہ پالیسی سے مطمئن ہیں۔؟
سینیٹر عبدالغفور حیدری: ملک کو اس وقت اندرونی و بیرونی خطرات درپیش ہیں، جن سے نمٹنے کے لئے حکومت کو بھرپور اقدام اٹھانے ہوں گے۔ ہم نے ہمیشہ ملکی مفادات کو ہی مدنظر رکھ کر اپنی خارجہ پالیسی تشکیل دی ہے، مگر اب دنیا کے بدلتے ہوئے حالات و واقعات کے پیش نظر ہمیں ازسرنو پالیسی تشکیل دینا ہوگی۔ ملک میں بیرونی مداخلت بڑھ رہی ہے۔ مغربی ممالک ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں۔ اسی مداخلت نے ہماری آزادی و خود مختاری پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ ہماری مشرقی و مغربی سرحدیں غیر محفوظ ہوچکی ہیں۔ اس کے باوجود ہمارے حکمران گلے میں امریکی غلامی کا طوق ڈال کر دنیا میں بڑے فخر سے گھوم رہے ہیں۔ میاں نواز شریف ایٹمی دھماکے کی طرح معاشی دھماکہ کرکے معیشت کو بہتری کی جانب لا کر اسے غیر ملکی تسلط سے نکال لائے تو یہ ان کا بہت بڑا کارنامہ ہوگا۔ حکمرانوں کو سادگی اپنا کر قوم کو بھی سادگی کا درس دینا چاہئے۔ اس طرح بچت کرکے ہم قوم کو قرضوں سے نجات دلا سکیں گے۔

اسلام ٹائمز: امریکہ جب بھی طالبان کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ شروع کرتا ہے، اسے سبوتاژ کر دیا جاتا ہے، اس کا ذمہ دار کس کو ٹھراتے ہیں۔؟
سینیٹر عبدالغفور حیدری: جب بھی طالبان کیساتھ مذاکرات کا سلسلہ بنتا ہے کوئی طاقت اس بنتے ہوئے مذاکرات کو سبوتاژ کر دیتی ہے، حال ہی میں طالبان سے مذاکرات کے لئے امریکہ نے نئی کوشش کی۔ اس سلسلہ میں قطر میں طالبان نے اپنا دفتر بھی قائم کر لیا تھا مگر پھر افغانستان کی کٹھ پتلی حکومت اور بھارت نے مل کر امریکہ و پاکستان کی اس کوشش کو ناکام بنا دیا۔ اس لئے کی امریکہ کے ساتھ طالبان کے مذاکرات کامیاب ہوگئے اور افغانستان سے فوج کا انخلاء ہوگیا تو پھر طالبان کا حق تسلیم کر لیا جائے گا، اس سے طالبان کو پھر سے حکومت مل جائے گی۔ کیونکہ بھارت اور افغانستان میں قونصل خانوں کی آڑ میں دہشت گردی کے کیمپ بنا رکھے ہیں، وہ وہاں پر اپنا تسلط قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ بھارت کی خواہش ہے کہ امریکہ جانے سے پہلے علاقے کی تھانیداری اس کے سپرد کرکے جائے، تاکہ وہ پاکستان کو دونوں اطراف سے دبا کر رکھے۔ دوسری جانب جب تک ڈرون حملے بند نہیں ہوتے امن قائم نہیں ہوسکتا۔ ان حملوں سے علاقے میں دہشت گردی کو فروغ مل رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: ہم ڈرون حملے کیسے رکوا سکتے ہیں۔؟
سینیٹر عبدالغفور حیدری: ڈرون حملے نہ امریکہ کے مفاد میں ہیں اور نہ ہمارے۔ اس مسئلے پر ساری جماعتوں کو بولنا چاہئے، اس حوالے سے خاموشی دشمن کے ہاتھ مضبوط کرنے کے مترادف ہے۔ اس لئے کہ امریکہ کی جانب سے ڈرون حملوں کو قانونی قرار دیئے جانے سے اس کے عزائم کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ حالیہ ڈرون حملے اسی سلسلے کی کڑی ہیں، جو امریکہ نے نئی حکومت کو سلامی کے طور پر کئے ہیں۔ اب مرکزی اور خیرپختونخوا حکومت کا امتحان شروع ہوگیا ہے۔ یہ حکومتیں عوام سے وعدے کرکے آئی ہیں کہ ڈرون حملے بند کروائیں گی۔ سابق حکمرانوں نے تو اپنی جیبیں گرم رکھنے کیلئے ملکی سلامتی داؤ پر لگا دی تھی۔ امریکہ جو مسلم ممالک پر اپنی 8 سالہ جنگ کے دوران کھربوں ڈالر خرچ کرچکا ہے، کہیں بھی کامیابی حاصل نہیں کرسکا۔

اسلام ٹائمز: ہمارے حکمران انکے سامنے لب کشائی کیوں نہیں کرتے۔؟
سینیٹر عبدالغفور حیدری: وہ اس لئے کہ انہوں نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے قرضہ لینا ہوتا ہے۔ قرضوں سے ہی انہوں نے اپنا بھی پیٹ پالنا ہے اور اپنے اثاثے بھی بنانے ہیں، انہی قرضوں کے ذریعے ملنے والی رقم سے انہوں نے ترقیاتی کام کروانے ہیں، جن کی آڑ میں لوٹ مار کرنی ہے، تو یہ کیسے لب کشائی کریں گے، اس کا ایک ہی حل ہے کہ جب تک ہم قرضوں سے چھٹکارہ حاصل نہیں کرتے، اس وقت تک ہمارا ملک ترقی نہیں کرسکتا۔

اسلام ٹائمز: افغانستان سے امریکی انخلاء سے خطے میں امن قائم ہو جائے گا؟ امریکہ، اسرائیل اور بھارت کا اتحاد پاکستان کے خلاف سازش نہیں۔؟
سینیٹر عبدالغفور حیدری: افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا سے وہاں امن قائم ہوجائے گا۔ جس سے ہمارے ملک میں بھی امن قائم ہوجائے گا۔ آج ہمارے ملک میں فرقہ وارانہ فساد ہوتا ہے یا کوئی لسانی جھگڑا تو اس کے پیچھے امریکہ اسرائیل اور بھارت مل کر شامل ہوتے ہیں۔ ان تینوں کو ہمارا ایٹم بم نہیں بھا رہا، جس وجہ سے آئے روز بدامنی پھیلاتے رہتے ہیں اور انہوں نے ہمارے ملک کے خلاف سازشوں کا جال بن رکھا ہے۔ بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک ہو یا کراچی میں فسادات کی لہر ان سب کے پیچھے یہی طاقتیں کار فرما ہیں۔ یہ پاکستان کو کمزور دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہمارا ملک آج نازک دور سے گزر رہا ہے۔ اس لئے ہمیں دشمن کی پھیلائی ہوئی سازشوں سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔ امریکہ اگر آج افغانستان سے راہ فرار اختیار کر رہا ہے تو اپنے پیچھے ایسا پاکستان چھوڑ کر جانا چاہتا ہے جو کمزور اور ناتواں ہو اور بھارت کو خطے کا تھانیدار بنا کر علاقے کی باگ ڈور بھارت کے ہاتھ دینا چاہتا ہے۔

اسلام ٹائمز: ہمیں ان سازشوں کا سدباب کیسے کرنا ہوگا۔؟
سینیٹر عبدالغفور حیدری: اس کا ایک ہی حل ہے اور وہ ہے باہمی اتحاد، ہمیں قومی یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ہم ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لئے کوشاں ہیں۔ جس وجہ سے ملک میں مسالک کے درمیان ہم آہنگی کی فضا پیدا ہو رہی ہے۔ اصل میں امریکہ افواج کے افغانستان میں اترنے سے ہی یہاں کے حالات خراب ہوئے۔ پھر امریکہ نے ہمارے ملک کو روس کے خلاف استعمال کیا۔ افغانستان میں امریکہ نے طالبان کی حکومت ختم کی اور ان پر شدید گولہ باری کی گئی۔ ان کے ملک میں غیر ملکی افواج اتار دیں، اس اقدام سے جہادیوں اور افغانیوں میں ان کے خلاف نفرت پیدا ہوگئی۔ چونکہ افغانستان میں طالبان کی حکومت تھی اس لئے انہوں نے مزاحمت کی، جس کو دہشت گردی قرار دے دیا گیا۔ دہشت گردی کی آڑ میں امریکہ نے ہمارے ملک کو استعمال کیا، جس کے سبب طالبان ہمارے دشمن بن گئے۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمارے 45 ہزار جوان ہلاک ہوئے۔ جو دراصل ہماری حکومتوں نے مروائے ہیں۔ ہماری حکومتوں نے امریکہ کا ساتھ دے کر طالبان اور ان کے ہمدردوں کا اپنا دشمن بنا لیا۔ پھر جب مذاکرات شروع کئے گئے تو ہمارے حکمرانوں نے معاہدوں کی خلاف ورزیاں کیِں۔ جے یو آئی تو پہلے دن سے مذاکرات کی حامی ہے اور آج بھی ہم ان کی حمایت کرتے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ ہمارے خدشات اور تحفظات بھی ہیں۔ ماضی کی حکومتوں نے ہمیشہ معاہدوں کو توڑا۔ اس لئے ہم اب بھی ڈر رہے ہیں۔ اس لئے ہم کہتے ہیں حکومت سنجیدگی کا مظاہرہ کرئے۔ طالبان کی سپورٹ کریں تو مذاکرات کامیاب ہوسکتے ہیں۔ مگر بھارت کے ایما پر امریکہ نے طالبان کیساتھ مذاکرات ملتوی کر دیئے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں بھی تو طالبان ملوث ہیں۔؟
سینیٹر عبدالغفور حیدری: سارے طالبان ایک جیسے نہیں، جن کیساتھ آپ کوئی معاہدہ کریں اور پھر ان کو دھوکہ دے کر اس معاہدے کی خلاف ورزی کر دیں تو وہ پھر آپ کو پھول تو نہیں بھیجیں گے؟ ظاہر ہے جس کے ساتھ آپ نے مذہبی تعلق کی بیناد پر معاہدہ یا کوئی وعدہ کیا اور پھر خود ہی توڑ دیا تو اس کا ردعمل تو آئے گا۔ اس حوالے سے ہماری حکومتوں کو اپنے رویہ پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ اس کے علاوہ جہاں تک طالبان کی بات ہے تو کیا خبر کون واقعات کی ذمہ داری قبول کر لیتا ہے۔ آپ یا میں بھی تو ایسا کرسکتے ہیں کہ کہیں سے فون کر دیں کہ ہم طالبان بول رہے ہیں یہ دھماکہ ہم نے کیا ہے تو کیا اسے سچ مان لیا جائے گا۔ پھر ہمارے اداروں کے پاس ٹیکنالوجی ہے، ڈاکو اور قاتل تو فون سے ٹریس کرکے پکڑ لیتے ہیں دہشت گرد کیوں نہیں پکڑے جاتے؟ تو اس کے پیچھے بھی راز ہے، جسے عوام بخوبی جانتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: مولانا سمیع الحق نے دعویٰ کیا ہے کہ طالبان میرے بچے ہیں، میں مذاکرات میں ثالت کا کردار ادا کرسکتا ہوں۔؟
سینیٹر عبدالغفور حیدری: اس میں کوئی شک نہیں وہ بابائے طالبان ہیں اور انہیں کے مدرسے سے طالبان کے دستے تیار کرکے افغانستان بھیجے جاتے تھے، دفاع پاکستان کونسل کے زیراہتمام طالبان سازی کا کام انہیں کے ذمے تھا، جنرل حمید گل اور مولانا سمیع الحق ہی اس حوالے سے ضیاء کے بہترین دوست تھے۔ تو ہاں حکومت ان کے خدشات اور تحفظات دور کرے، وہ واقعی ثالت کا کردار ادا کرسکتے ہیں اور ان سے مدد لی جانے چاہئے۔ ہمیں ملک میں امن کی ضرورت ہے اور اس کے لئے ہمیں ہر طریقہ استعمال کرنا چاہیے، امن ہماری ضرورت ہے اور جہاں سے ملے ہمیں ہچکچانا نہیں چاہئے۔

اسلام ٹائمز: پاک ایران گیس منصوبے کی آپ کی جماعت مخالفت کرتی ہے، جبکہ پورا پاکستان یہ کہہ رہا ہے کہ یہ منصوبہ مکمل ہونا چاہئے۔؟
سینیٹر عبدالغفور حیدری: ہم نے مخالفت نہیں کی، ہم نے یہ کہا ہے کہ ملکی مفاد کو ملحوظ رکھا جائے۔ اگر ایک اس منصوبے کی تکیمل سے ہمارے پانچ دوست ناراض ہو جاتے ہیں تو یہ اچھی بات نہیں، اس لئے ہم نے تو کہا ہے کہ اگر یہ منصوبہ ملک اور ملکی سلامتی کے لئے مفید ہے اور اس سے ہمارے ملک کے خلاف کوئی آنچ نہ آئے تو اس کو مکمل کرنے میں کوئی ہرج نہیں، ہم بھی توانائی بحران کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ ہماری بھی پالیسی یہی ہے کہ جلد از جلد توانائی بحران کا خاتمہ کیا جائے۔

اسلام ٹائمز: مصر میں مرسی حکومت کے خاتمہ کا ذمہ دار کس کو سمجھتے ہیں۔؟
سینیٹر عبدالغفور حیدری: مصر میں قائم ہونے والی پہلی جمہوری حکومت کو سال بعد ہی توپوں کے زور پر ختم کر دیا گیا جو کہ ایک اسلامی حکومت کے خلاف امریکہ اور اسرائیل کی سازش ہے، جو خطے میں اسلامی حکومت کے قیام پر سیخ پا تھے۔ جس طرح سے مصر میں جمہوریت کی نوخیز کونپل کو ٹینکوں تلے روند دیا گیا، اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ اخوان المسلموں اسلام پسند ہی نہیں جمہوریت پسند بھی ہیں۔ حیرت ہے مغربی دنیا کو اسرائیل کے پڑوس میں ایک اسلامی جمہوریت پسند نہیں آئی۔ اخوان کی حکومت کے خاتمہ کیساتھ مصر میں بدامنی کو مزید فروغ ملے گا۔ اسرائیلی صیہونی کسی بھی مسلم ملک کو مضبوط اور جمہوریت کے راستے پر چلتا نہیں دیکھ سکتے۔ اس لئے انہوں نے آزاد خیال عناصر اور حسنی مبارک کے ساتھیوں کی مدد سے اخوان المسلمون کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ دکھ اس بات کا ہے کہ دنیا میں جمہوریت کے چیمپئن اوباما اور اس کے حواری برطانیہ اور فرانس وغیرہ کو ایک جمہوری حکومت کے خاتمہ پر ذرا بھی دکھ نہیں ہوا بلکہ انہوں نے وہاں منظور نظر نگران حکومت قائم کر دی۔ مصری فوج کو چاہئے کہ وہ وہاں انتقامی کارروائیاں ختم کرکے وہاں فوری جمہوریت بحال کرے۔

اسلام ٹائمز: ایبٹ آباد کمیشن کی سامنے آنے والی رپورٹ کے حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
سینیٹر عبدالغفور حیدری: ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ حقائق کو مسخ کرنے اور قوم کو گمراہ کرنے کی کوشش ہے۔ دو سال تک دو سو سے زائد گواہوں کے بیانات لینے کے باوجود ایبٹ آباد میں امریکی کارروائی کا کسی کو ذمہ دار قرار نہیں دیا گیا۔ یہ تو قوم کے ساتھ مذاق ٹھہرا۔ ماضی میں بھی اس قسم کے واقعات پر جتنے کمیشن بنے سب نے ہی وقت کا ضیاع کیا۔ ایک جمہوری حکومت اور مضبوط فوج متحرک ایجنسیوں کے ہوتے ہوئے امریکی فوجیوں نے ملکی خود مختاری کو پامال کیا۔ امریکی ہیلی کاپٹرز ہماری سرحدوں میں کئی سو کلو میٹر تک اندر گھس آئے اور اپنا آپریشن مکمل کرکے چلے گئے لیکن ہمارے ادارے سوتے رہ گئے۔

ان اداروں کی غفلت سے ہی دہشت گرد ہمارے ملک میں وارداتیں کرتے ہیں اور کامیاب ہوجاتے ہیں، بیرونی مداخلت اور دہشت گردی کو ناکام بنانے کیلئے ہمیں اپنے اداروں کی کارکردگی بہتر بنانا ہوگی۔ اس واقعہ سے یہ تو ثابت ہوگیا کہ امریکہ کے جاسوس پاکستان میں ہر جگہ موجود ہیں، انہی کی وجہ سے اسامہ کو ٹریس کیا گیا۔ اس آپریشن میں ہمارے لوگوں نے بھی معاونت کی، انہیں معاف نہیں کیا جانا چاہئے، مگر اس کمیشن کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد فوج کو تنقید کا نشانہ نہیں بنانا چاہئے، اس لئے کہ فوج کے جوان آج سرحدوں اور اندرون ملک میں دشمن کی گولیوں کے سامنے سینہ سپر ہیں۔
خبر کا کوڈ : 285354
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش