0
Thursday 1 Aug 2013 14:01
حضرت زینب (س) کے روضہ پر حملہ کرنیوالے کل خانہ کعبہ کیلئے بھی چیلنج بن سکتے ہیں

موجودہ حالات میں یوم القدس منانے کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے، علامہ خورشید جوادی

موجودہ حالات میں یوم القدس منانے کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے، علامہ خورشید جوادی
امامیہ علماء کونسل خیبر پختونخوا کے سربراہ علامہ خورشید انور جوادی کا بنیادی تعلق ضلع ہنگو سے ہے، آپ کا شمار صوبہ کی اہم ترین شیعہ شخصیات میں ہوتا ہے، ہنگو کے مخصوص حالات کے باوجود آپ نے اتحاد بین المسلمین کی کوششیں جاری رکھیں۔ علامہ صاحب کئی امن معاہدوں میں بھی شریک رہے، آپ جامعہ عسکریہ ہنگو کے مہتمم بھی ہیں، آپ کو مختلف طبقات اور ملی تنظیموں میں انتہائی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، علامہ خورشید جوادی انتہائی خوش اخلاق اور ملنسار طبعیت کے مالک ہیں۔ آپ ہنگو کے علاقے پاس کلے میں واقع الزھرا (س) اسپتال سمیت کئی فلاحی منصوبوں کے نگران کے طور پر بھی کام کر رہے ہیں اور فلاحی کاموں میں انتہائی دلچسپی لیتے ہیں۔ ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے صوبہ خیبر پختونخوا کے مخصوص حالات، دہشتگردی اور یوم القدس سے متعلق علامہ خورشید انور جوادی کیساتھ بات چیت کی، جو انٹرویو کی صورت میں قارئین کے پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: خیبر پختونخوا میں اہل تشیع کیخلاف دہشتگردی کی جو نئی لہر آئی ہے، آپ کے خیال میں اس کے کیا محرکات ہیں اور یہ سلسلہ کیسے ختم ہوگا۔؟
علامہ خورشید انور جوادی:
بسم اللہ الرحمان الرحیم۔ بہت شکریہ آپ کا۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں دہشتگردی کوئی نئی بات نہیں ہے، یہاں دہشتگردی کی کئی لہریں گزری ہیں۔ کچھ عرصہ خاموشی کے بعد ایک مرتبہ پھر پارا چنار اور دیگر مقامات پر شیعیان حیدر کرار (ع) کو نشانہ بنایا گیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ مسئلہ شیعہ اور سنی کا نہیں ہے۔ مسئلہ دراصل ان قوتوں کا ہے جو پاکستان کے استحکام کیخلاف ہیں اور پاکستان کو مختلف ٹکڑوں میں تقسیم کرکے اپنے مزموم عزائم کی تکمیل چاہتی ہیں۔ ان قوتوں کیلئے جو لوگ کام کر رہے ہیں، ان میں مختلف قسم کے دہشتگرد بھی ہیں، مختلف ایجنسیاں بھی ہیں، مختلف لوگ بھی ہیں اور مختلف ادارے بھی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ جب تک ان عناصر کا سدباب نہیں کیا جاتا، ان کے نیٹ ورک کو نہیں توڑا جائے گا۔ جہاں سے ان کو غذا ملتی ہے اسے ختم نہیں کیا جائے گا، اس وقت تک صوبہ خیبر پختونخوا میں کسی طور پر بھی امن نہیں آسکتا۔ ایک سوچی سمجھتی سازش کے تحت صوبہ خیبر پختونخوا کے امن و تہہ و بالا کیا جا رہا ہے۔ 

ایک مرتبہ پھر کوشش کی جا رہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح صوبہ میں شیعہ سنی مسئلہ پیدا کیا جائے اور اہل تشیع اور اہل سنت بھائیوں کو آپس میں لڑا کر وہ اپنے مزموم مقاصد میں کامیاب ہوں۔ لیکن میں آپ کو یہ عرض کر دوں کہ مسئلہ شیعہ سنی کا نہیں ہے۔ اگر مسئلہ شیعہ سنی کا ہوتا تو پارا چنار میں جہاں اہل تشیع پر حملہ کیا گیا، تو دوسرے مقامات پر ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ چارسدہ، مردان، سوات، ملاکنڈ، لنڈی کوتل، جہاں پر اہل تشیع یا تو بہت کم ہیں یا پھر بالکل نہیں ہیں۔ وہاں پر بھی حملے کئے گئے۔ اہلسنت کی مساجد پر بھی حملے کئے گئے، نماز جمعہ پر بھی حملے کئے گئے، نماز عید پر بھی حملے کئے گئے۔ یہ سب اس بات کی عکاسی ہے کہ دہشتگردی ایک منظم سازش کے تحت کی جا رہی ہے، اور یہ ملک اور پاکستانیوں کیخلاف ہے۔

اسلام ٹائمز: تحریک انصاف کی حکومت اب بھی طالبان کیساتھ مذاکرات کی بات کرتی ہے، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ مسئلہ کا حل ہے۔؟
علامہ خورشید انور جوادی:
میرا خیال یہ ہے کہ کسی بھی دہشتگرد کیساتھ مذاکرات کسی بھی طرح کامیاب نہیں ہوسکتے۔ اس لئے کہ دہشتگرد کا کوئی نظریہ نہیں ہے، کوئی ایمان نہیں ہے، کوئی ایک ہدف نہیں ہے۔ وہ استعماری قوتوں کا آلہ کار ہے، جن میں امریکہ، اسرائیل یا انڈیا ملوث ہیں را اور موساد وغیرہ دہشتگردوں کو سپورٹ کر رہے ہیں اور دہشتگردی کو پاکستان میں پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے آنے کے بعد اگرچہ ایک امید تھی کہ جب ان کی حکومت آئے گی تو ملک میں امن قائم ہوگا، بالخصوص ہمارے صوبہ میں۔ لیکن ہم نے یہ دیکھا ہے کہ بجائے امن قائم ہونے کہ حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔ اس کے سدباب کیلئے ہماری فوج کے اعلٰی افسران کو، ملک کی درمند شخصیات اور سیاسی و مذہبی رہنماوں کو مل کر بیٹھنا ہوگا، اور سوچنا ہوگا کہ ہم اس کا حل کس طرح نکالیں۔

اسلام ٹائمز: پارا چنار کا جو حالیہ سانحہ ہوا ہے اس حوالے سے ہمارے قارئین کو بتایئے گا کہ کتنے گھرانے متاثر ہوئے ہیں اور موجودہ صورتحال کیسی ہے۔؟
علامہ خورشید انور جوادی:
پارا چنار میں گذشتہ چار ماہ میں 3 بم دھماکے ہوگئے ہیں اور گذشتہ ہفتہ جو دھماکے ہوئے تھے، وہ انتہائی سنگین تھے۔ اس کے علاوہ 180 افراد زخمی ہیں جو مختلف اسپتالوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ خاص طور پر پشاور اور پارا چنار کے اسپتالوں میں زخمی پڑے ہوئے ہیں اور بہت قریب المرگ ہیں اور موت کے انتظار میں ہیں۔ ان کی حالت بہت ہی نازک ہے۔ بس یہی دعا کی جاسکتی ہے کہ اللہ تعالٰی اپنا رحم کرے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ جب تک قوم خود اٹھ کر ان دہشتگردوں کو جواب نہیں دے گی، اس کا سدباب کرنا مشکل ہے۔

اسلام ٹائمز: ملکی سطح پر اہل تشیع کیخلاف دہشتگردی پر مختلف مذہبی و سیاسی جماعتوں کے ردعمل کو کیسے دیکھتے ہیں۔؟ اور شیعہ علماء کرام نے اس کے سدباب کیلئے کیا اقدامات کئے ہیں۔؟
علامہ خورشید انور جوادی:
میں یہ سمجھتا ہوں کہ پورے پاکستان میں جو بھی دہشتگردی کیساتھ تعلق نہیں رکھتا، اس نے اس واقعہ پر دلی رنج و غم اور ہمدری کا اظہار کیا ہے۔ مختلف علماء اور تنظیموں نے بیانات بھی جاری کئے ہیں۔ بالخصوص ہماری جو تنظیمیں ہیں، خاص طور پر مجلس وحدت مسلمین کے پلیٹ فارم سے دھرنے بھی دیئے گئے، مظاہرے بھی کئے گئے، احتجاجی پریس کانفرنسز بھی کی گئیں اور اب تک یہ سلسلہ جاری ہے۔

اسلام ٹائمز: یوم القدس کی آمد ہے، اس حوالے سے کیا کہیں گے کہ یہ دن آج بھی کس حد تک عالمی استعمار کیلئے درد سر بنا ہوا ہے۔؟
علامہ خورشید انور جوادی:
اگر یوم القدس عالمی استعمار کیلئے خطرے کا باعث نہ ہوتا تو کسی بھی صورت ان جلوسوں کو روکنے کی کوشش نہ کی جاتی۔ حج پر بہت بڑا اجتماع ہوتا ہے، لاکھوں لوگ جمع ہوتے ہیں۔ جمعہ کی نمازوں میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ جمع ہوتے ہیں۔ شب ہائے قدر میں لوگ ہزاروں کی تعداد میں جمع ہوتے ہیں لیکن ان عبادات کو ظاہری طور پر اس طریقہ سے استعمال نہیں کیا جارہا جس کیلئے حج، جمعہ اور دیگر اجتماعات کو مذہبی قرار دیا گیا ہے۔ استعمار کو ان سے خطرہ نہیں ہے، بلکہ ان چند لوگوں سے خطرہ ہے جو جمع ہوکر امریکہ مردہ باد اور اسرائیل مردہ باد کے نعرے لگا کر لوگوں کے اندر جذبہ پیدا کرتے ہیں اور لوگوں کو یہ پیغام دیتے ہیں۔ جیسا کہ امام خمینی (رہ) نے یہ پیغام دیا تھا کہ اگر یوم القدس نہ منایا گیا تو اسلام کا وجود خطرے میں ہے۔ اس لئے کہ جو لوگ ہمارے قبلہ اول پر قابض ہیں، وہ ہمارے خانہ کعبہ اور مدینہ منورہ پر بھی قبضہ کرنے کے منصوبے بنارہے ہیں۔ اگر آج ہم نے قبلہ اول کیلئے آواز نہ اٹھائی، آج ہم نے اسرائیل کیخلاف آواز نہ اٹھائی، آج ہم نے امریکی استعمار کیخلاف آواز نہ اٹھائی تو یقیناً کل پھر ایک ایسا دن آئے گا کہ یہی استعمار جو آج بعض مسلم ممالک میں داخل ہوگیا ہے اور اپنی فوجیں بھیج کر یا مسلمانوں کو اپنا آلہ کار بناکر اسلام کیلئے خطرہ کا باعث ہیں، اسی طرح یہ استعمار تمام مسلم ممالک میں داخل ہوسکتا ہے اور خطرہ کا باعث بن سکتا ہے۔ لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ یوم القدس کو بھرپور انداز میں منایا جائے۔

اسلام ٹائمز: آپ کے خیال میں موجودہ حالات میں یوم القدس منانے کی اہمیت کس حد تک بڑھ گئی ہے۔؟
علامہ خورشید انور جوادی:
یقیناً یوم القدس منانا آج کل کے دور میں اور زیادہ اہم ہوگیا ہے، کیونکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ افغانستان، ایران، عراق اور اب شام میں استعماری قوتوں اور عربوں کی جو حکمت عملی ہے اور ان کی فوجیں وہاں باقاعدہ طور پر لڑ رہی ہیں، یہ اس بات کی غمازی کر رہا ہے کہ ان کے نزدیک مسلمانوں کی کوئی حیثیت نہیں اور وہ اپنے مقاصد حاصل کرنے کیلئے ہزاروں کی تعداد میں بچوں کو یتیم بنا سکتے ہیں، وہ ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں خواتین کو بیوہ بنا سکتے ہیں۔ نوجوانوں اور بوڑھوں کو شہید کرسکتے ہیں، مقدسات کی بے حرمتی کر سکتے ہیں۔ آپ نے دیکھا کہ صحابی رسول (ص) جناب عمار یاسر کے مزار کیساتھ کیا سلوک کیا گیا۔ جناب حضرت زینب کبریٰ (س) کے مزار پر حملہ کرکے ناپاک جرات کا مظاہرہ کیا گیا۔ جو لوگ آج حضرت زینب (س) کے مزار پر حملہ کی جرات کر سکتے ہیں، کل وہ پیغمبر اکرم (ص) کے مزار کو بھی نعوذ بااللہ منہدم کرنے کی سازش کرسکتے ہیں اور کل کو ہمارے خانہ کعبہ کیلئے بھی چیلنج بن سکتے ہیں۔
 
اس لئے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا پڑے گا اور تب ہی مسلمانوں کی بقاء ہوگی۔ اس کیلئے تمام مسلمانوں کو اپنے فروعی اختلافات کو بھلا کر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا گا۔ امام خمینی (رہ) نے یوم القدس کیلئے ایک بہترین دن مقرر کیا ہے۔ مسلمانوں میں وحدت اور یکجہتی پیدا کرنے کیلئے اور استعمار کیخلاف آواز اٹھانے کیلئے امام خمینی (رہ) نے جمعتہ الوداع کا دن مقرر کیا ہے، اس دن کو امام خمینی (رہ) نے یوم اسلام قرار دیا ہے، اسلام کے احیاء کا دن قرار دیا ہے۔ اس لئے تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ ہم اپنے اپنے طریقہ سے میدانوں اور سڑکوں ہر نکل کر استعمار کیخلاف آواز اٹھائیں۔
خبر کا کوڈ : 288130
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش