0
Tuesday 30 Jul 2013 20:04

اسرائیل کا ناپاک وجود صرف عالم عرب کے سینے میں ہی خنجر نہیں بلکہ پورے عالم اسلام اور شرف انسانیت کی توہین ہے، سید منصور آغا

اسرائیل کا ناپاک وجود صرف عالم عرب کے سینے میں ہی خنجر نہیں بلکہ پورے عالم اسلام اور شرف انسانیت کی توہین ہے، سید منصور آغا
عالی جناب سید منصور آغا بین الاقوامی صحافی ہیں، Rifle Association, Johri  کے آپ سرپرست ہیں، آپ نے ہندوستان پبلی کیشنز کے لئے ہندی اور اردو مترجم کے طور پر کام کیا ہے، آپ نے تقریباً بارہ سے زیادہ کتابوں کا ترجمعہ کیا ہے جو شائع ہو چکی ہیں، جن میں ڈاکٹر حمیداللہ (پیرس) کی ’انٹروڈکشن ٹو اسلام‘ علامہ یوسف القرضاوی کی ’الحلال و الحرام فی الاسلام‘ اور علامہ بدیع صقر کی ’کیف ندعو الناس‘ قابل ذکر ہیں، سید منصور آغا تقریباً 12 سال روزنامہ قومی آواز کے شعبہ ادارت سے وابستہ رہنے کے بعد 2005ء کو بحیثیت چیف سب ایڈیٹر ریٹائر ہوئے، اس کے بعد بطور آزاد صحافی انگریزی، ہندی اور اردو میں لکھتے رہے، موصوف قرآن فاونڈیشن آف انڈیا کے ڈائریکٹر ہیں آپ نے مولانا ابوالکلام آزاد کی شہرہ آفاق تفیسر ’ترجمانِ القرآن‘ کا ہندی میں ترجمہ بھی کیا ہے، سید منصور آغا آل انڈیا ایجوکیشنل موومنٹ کے نائب صدر بھی ہیں، فورم فار سیول رائٹس کے جنرل سیکرٹری کی ذمہ داری بھی آپ کے سپرد ہے، اسلام ٹائمز نے سید منصور آغا مقیم نئی دہلی کے ساتھ  ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا ہے جو قارئین کرام کے پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: یوم القدس کی اہمیت اور اس کے منانے کے اثرات جو دنیا پر ظاہر ہو رہے ہیں اس کے بارے میں آپ کے تاثرات جاننا چاہیں گے۔؟
سید منصور آغا: میری نظر میں یوم قدس مظلوم عرب فلسطینی بھائیوں سے اخوت کے اظہار کے ساتھ ہی ایک دینی فریضے کی ادائیگی کا ذریعہ ہے، یہ ہماری ملی ضرورت اور انصاف پسندانہ عالمی سیاست کا تقاضا بھی ہے کہ عالمی سطح پر جاری اسرائیل، امریکہ اور اسلام دشمن یورپی طاقتوں کی سازشوں کے خلاف متحد ہوکر پوری طاقت کے ساتھ آواز اٹھاتے رہیں تاکہ عالمی رائے عامہ بیدار ہو، اسرائیل کا ناپاک وجود صرف عالم عرب کے سینے میں ہی خنجر نہیں بلکہ پورے عالم اسلام اور شرف انسانیت کی توہین ہے، اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں سے ہمارے رشتہ اخوت کا تقاضا ہے کہ ہم صہیونی ظلم کے خلاف آواز اٹھاتے رہیں، ظلم کا سلسلہ برابر جاری ہے اس لئے آواز بھی مسلسل اٹھانی ہوگی، بقول شاعر اخوت اس کو کہتے ہیں، چُبھے کانٹا جو کابل میں۔ تو دہلی کا ہر ایک پیر و جواں بیدار ہو جائے۔
یوم القدس دینی فریضہ اس لئے ہے کہ ہمارے آقا رسول رحمت (ص) کا فرمان بلیغ ہے کہ طاقت ہو تو ظلم کو اپنے ہاتھ سے مٹا دو، ورنہ اس کے خلاف آواز اٹھاﺅ، یہ بھی نہیں کرسکتے تو دل سے برا جانو، یوم القدس کا انعقاد اسی فرمان پر عمل کی ایک تدبیر ہے، اس ظلم کو مٹا دینے کے عزم کا اظہار اور اس کے خلاف آواز کو بلند کرنا ہے، کسی بھی مصلحت سے خاموشی اختیار کرنا، ظلم کے خلاف جب آواز اٹھائی جا رہی ہو تو اس سے اجتناب کرنا میری نظر میں اس دنیا میں بھی موجب مواخذہ ہے آخرت میں بھی کیونکہ ان کی خاموشی ان کو ظلم میں شریک بنا رہی ہے، اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ قبلہ اول پر اسرائیلیوں کے جابرانہ قبضے کے خلاف مسجد اقصٰی کی بازیابی کے لئے بھی آواز ہے۔

اسلام ٹائمز: عرب حکومتوں پر صہیونیت و اسلام دشمن طاقتوں کے تسلط کے بارے میں جاننا چاہیں گے۔؟
سید منصور آغا: عرب حکومتوں کے رویہ کی تاریخ مظہر ہے کہ آغاز قیام سے اسرائیل کا وجود ان کے لئے بھی باعث عار رہا ہے، اگر اب کچھ حکمران خدا کی رحمت سے مایوس ہو گئے ہیں اور اپنی ذاتی مصلحتوں یا باہمی رنجشوں کی وجہ سے اس موقف سے دستبردار ہو رہے ہیں تو یہ افسوسناک عمل ہے، جو خود انکی اپنی تباہی کا باعث بن رہا ہے، جہاں تک عالم عرب کا تعلق ہے تو ہم سمجھتے ہیں عرب عوام ان حکمرانوں کی ہم رائے ہرگز نہیں ہیں، یہ حکمراں اپنے ملکوں کی عوام کے فکر و نظریہ کے نمائندہ نہیں ہیں اور بغیر عوام کی مرضی کے ان پر مسلط ہیں، اللہ ان کو اصلاح کی توفیق سے نوازے۔

اسلام ٹائمز: صیہونی عناصر کی اسلامی ممالک میں فعالیت یا موجودگی کے بارے میں آپ کا تجزیہ۔؟
سید منصور آغا: صہیونی عناصر پوری دنیا میں فعال ہیں، کوئی بھی ملک اسلامی ہو یا غیر اسلامی ان کی فعالیت سے محفوظ نہیں، خود ہمارا ملک عزیز ہندوستان ان کے چنگل میں پھنستا جا رہا ہے، ہمیں اس حربہ کو سمجھنے کی ضرورت ہے، مسلمانان جہان کے مسائل میں یہودیوں کی بالادستی اور ان کی بےجا مداخلت سے عالم اسلام لاپرواہ ہے، صرف اسلامی جمہوریہ ایران ہی ان شعبوں پر متوجہ ہے اور اسی لئے اسرائیل ایران سے خوفزدہ ہے، جو پڑوسی مسلم ممالک اس نکتہ کو سمجھے بغیر اپنی پالیسی اخذ کرتے ہیں ان کو اس پر نظرثانی کرنی چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: مسئلہ فلسطین کو زندہ رکھنے میں اسلامی جمہوریہ ایران کا کوئی کردار۔؟

سید منصور آغا: ہم اس رائے سے متفق نہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران مسئلہ فلسطین کو زندہ رکھنے میں کوئی کردار ادا کر رہا ہے، اس کا کردار صرف اتنا کہا جا سکتا ہے وہ اس مسئلہ کی طرف دنیا کو متوجہ کرتا رہا ہے عالمی یوم القدس کی پکار اسی کا مظہر ہے، مسئلہ فلسطین اس لئے زندہ ہے کہ اسرائیل وسیع تر صہیونی ریاست کے قیام کے منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کوشاں ہے، اسی لئے وہ مقبوضہ خطوں پر اپنی پوزیشن مضبوط کر رہا ہے، اس کی نظریں دور دور تک ہیں، یہ مسئلہ اس وقت تک زندہ رہے گا جب تک اس خطے میں صہیونی حکومت کی جگہ پوری طرح خود مختار، عرب فلسطینی حکومت قائم نہیں ہوتی جس میں وہاں آن کر آباد ہوجانے والے یہودی بھی شریک ہوں۔

اسلام ٹائمز: رمضان کے آخری جمعہ کو یوم القدس قرار دینے کا امام آیت اللہ خمینی (رہ) کے فیصلے کے بارے میں آپ کی رائےکیا ہے۔؟

سید منصور آغا: حضرت امام خمینی ایک عظیم عالم دین تھے، ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے رمضان کے جمعہ کے آخری دن کی دینی مصلحت یہ ہے اس عشرے میں ہر عبادت کا اجر بڑھ جاتا ہے، فطرتاً رجوع الی اللہ میں اضافہ ہوتا ہے اور طبائع پر رقت غالب رہتی ہے، ایسے میں دعاﺅں میں اثر بڑھ جاتا ہے، اس عشرے میں مومنین اپنے لئے بکثرت دعائیں کیا کرتے ہیں، حضرت امام خمینی (رہ) نے ان دعاﺅں میں اپنے فلسطینی بھائیوں کو شامل کرنے کی حکمت اختیار فرمائی ہے جس سے اپنے مظلوم بھائیوں سے ہمارے رشتہ اور ان کے مدد کا تقاضا زیادہ مستحکم ہوتا ہے، اس عشرے میں خصوصاً مظلومین اور محرومین کی طرف توجہ ہوتی ہے اسی میں فلسطیینوں کو بھی شامل کرکے حضرت امام خمینی نے ایک عظیم دینی جذبہ کی بناء ڈالی ہے۔

اسلام ٹائمز: بیت المقدس کی تحریک کے تسلسل کے بارے میں جاننا چاہیں گے۔؟

سید منصور آغا: بیت المقدس کی بازیابی ہماری دینی اور ملی ذمہ داری ہے، یوم القدس اس کی یاد دہانی ہے اور یہ یاد دہانی اس وقت تک جاری رہنی چاہیئے جب تک منزل حاصل نہ ہو جائے، یہ تحریک خلافت تحریک کی طرح ہرگز ختم نہیں ہو جانی چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: اسلامی ملک شام کی موجودہ صورتحال کے بارے میں آپ کے زریں خیالات سے واقفیت چاہتے ہیں۔؟

سید منصور آغا: مغربی طاقتوں اور اسرائیل نے سازشیں تو ایران کی اسلامی حکومت کو اکھاڑ پھینکنے کی بھی بہت کیں، مگر کامیاب نہیں ہوئے، کیوں؟ اس لئے کہ جمہوری اسلامی ایران کی قیادت دینی تقاضوں سے ہم آہنگ تھی اور جمہوریت پر سختی سے قائم رہی، اس لئے شرارتوں کے باوجود عوام کی زبردست تائید و حمایت اور قیادت کی بیدار مغزی نے ان شرارتوں کو ناکام کر دیا، اسلامی دنیا میں جہاں بھی سلطانی حکومتیں ہیں انہوں نے اگر اسلامی جمہوریہ ایران سے سبق لیا ہوتا اور عوام کو اپنے ساتھ لیا ہوتا تو وہ نہ ہوتا جو شام میں ہو رہا ہے، حکمرانوں اور عوام کے درمیان رابطہ اور ربط جب کمزور ہوتا ہے تبھی بیرونی سازشوں کو مقامی کارکن ملتے ہیں، اس پہلو پر توجہ نہ دینے کی سزا وہاں کے حکام کو مل رہی ہے۔
خبر کا کوڈ : 288283
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش