1
0
Friday 2 Aug 2013 22:13

اگر یوم القدس نہ ہوتا تو آج مسئلہ فلسطین تاریخ کے اوراق میں دفن ہوتا، مولانا مقبول حسین

اگر یوم القدس نہ ہوتا تو آج مسئلہ فلسطین تاریخ کے اوراق میں دفن ہوتا، مولانا مقبول حسین
حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا مقبول حسین قمی کا تعلق مقبوضہ کشمیر کے شہر خاص سرینگر سے ہے اور آپ کا شمار جموں و کشمیر کے بےباک و جید مبارز اور  انقلابی علماء کرام میں ہوتا ہے، سرینگر میں امام جماعت اور گونگو پلوامہ کشمیر میں نماز جمعہ کے فرائض انجام دے رہے ہیں، مولانا مقبول حسین جامعہ امام رضا (ع) کشمیر میں تقریباً دس سال سے بحثیت سینئر استاد تدریسی فعالیت سرانجام دے رہے ہیں، قم المقدس سے تدریسی فراغت کے بعد مولانا مقبول حسین 2003ء سے جموں و کشمیر میں فعال ترین تبلیغی رول ادا کر رہے ہیں، اسلام ٹائمز نے مولانا مقبول حسین سے عالمی یوم القدس کی اہمییت و افادیت، امام خمینی (رہ) کے فرمان اور عالم اسلام کی پسماندہ حالی اور ملک شام کی موجودہ صورتحال کے بارے میں ایک انٹرویو کا اہتمام کیا جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔

اسلام ٹائمز: یوم القدس کی اہمیت اور اس کے اثرات جو دنیا میں ظاہر ہو رہے ہیں اور کشمیر میں یوم القدس کے اثرات کے بارے میں جاننا چاہیں گے۔؟
مولانا مقبول حسین: یوم القدس کہ جو حضرت امام خمینی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے جمعۃ الوداع یعنی ماہِ مبارک رمضان کے آخری جُمعہ کو قرار دیا ہے یہ اقوام عالم کی فلسطین کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کا دن ہے، جمعۃ الوداع کو یوم القدس کا انعقاد امام خمینی (رہ) نے ایک ایسا عظیم کارنامہ انجام دیا ہے جس کو اُمت مسلمہ نے تسلیم کیا ہے اور اسی یوم القدس کی وجہ سے مسئلہ فلسطین کی اہمیت اُجاگر ہوئی ہے، جموں و کشمیر کی بات کریں تو بہرحال ہر کوئی تنظیم اپنے اپنے اعتبار سے یوم القدس کے حوالے سے تیاریاں کر رہی ہے اور ہر سال اسے منایا جاتا ہے اور امت فلسطین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا جاتا ہے اور کشمیری عوام کہ جو ہمیشہ حضرت امام خمینی (رہ) کی آواز پر لبیک کہتی آ رہی ہے اس آواز پر بھی انہوں نے لبیک کہا اور ہر سال وہ جمعۃ الوداع یعنی نماز جمعہ ادا کرنے کے بعد سڑکوں پر آتے ہیں اور اسرائیل اور امریکہ کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: عرب حکومتوں کی صہیونیت سے وابستگی کے بارے میں جاننا چاہیں گے۔؟ کیوں مسلم حکمران اسکتبار کے آلہ کار ثابت ہو رہے ہں۔؟
مولانا مقبول حسین: عرب حکومتیں خاندانی حکومتیں ہیں اور وہ اپنی شہنشاہیت کی بقاء کو صرف اور صرف باطل قدرتوں، ابر قدرتوں سے وابستگی میں سمجھتے ہیں، ان کا ماننا ہے کہ اگر وہ اسرائیل و صہیونیت کی حمایت کرنا ترک کریں گے تو ان کی کرسیاں، تخت و تاج خطرے میں پڑے گا کیوںکہ اسرائیل خطے میں ان کی نظر میں ابر قدرت ہے اس لئے یہ عرب حکومتیں ان طاقتوں سے وابستہ ہیں اور انکی حمایت میں وہ اپنی حفاظت سمجھتے ہیں جبکہ یہ فکر باطل ہے صحیح فکر نہیں ہے، صہیونی حکومتیں کو جب بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا تو اسلام ہی باعث بنا اسلئے صہیونیت کو ہمیشہ اپنی شکست کا ڈر رہتا ہے، اسلام ان کی آنکھ کا کانٹا ہے اور شکست بھی انہیں اسلام کے ذریعہ سے ہی ہونی ہے، انہیں شکست کا سامنا نہ کرنا پڑے، اس لئے ان کی کوشش یہ رہتی ہے کہ عرب حکمرانوں کو اپنے مفادات کے لئے استمعال کریں، لہذا انہیں ایمان کے اعتبار سے جو کمزور نظر آتے ہیں ان کو اپنے آلہ کار کے طور استمعال کرتے ہیں اور مسلمانوں کے اندر داخل ہو رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: مسلم دنیا میں صہیونی عناصر کی موجودگی کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
مولانا مقبول حسین: یہ بہرحال اسلامی ممالک کی کمزوری سمجھی جائی گی کہ وہاں صہیونی عناصر موجود ہیں اور یہ کوئی نئے بات بھی نہیں ہے، ابتداء اسلام سے اگر آپ دیکھیں گے یہودیوں نے ابتداء اسلام سے مسلمانوں میں اپنا نفوذ کرنا چاہا اگرچہ مسلمانوں کو کمزور کرنے کے لئے انہوں نے مختلف حربے استمعال کئے ہیں، اور اب مسلمانوں کے اندر نفوذ کر کے وہ ان میں تفرقہ و انتشار ڈالنا چاہتے ہیں، انہوں نے مسلمانوں میں نفوذ کر کے ان کے اتحاد کو تار تار کرنے کی کہیں کوششیں کی ہیں تاہم اگر دیکھا جائے وہ اس امر میں کسی حد تک کامیاب نظر آتے ہیں، لہذا مسلمانوں کو اپنے شخصی مفادات بالائے طاق رکھ کر اتفاق اور اتحاد کو اہمیت دینی چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: مسئلہ فلسطین کو زندہ رکھنے میں جمہوری اسلامی ایران کا رول کیا ہے۔؟

مولانا مقبول حسین: جمہوری اسلامی ایران کی ملت، حکومت نے انقلابی اسلامی کے بعد ظالم و ظلم سے قدس کی آزادی کے مسئلے کو اپنا اولین نصب العین قرار دے رکھا ہے لہذا ایران واحد ملک ہے جو فلسطین کی سیاسی و اخلاقی حمایت کر رہا ہے اور ہمیشہ کرتا آ رہا ہے، ایران ہی نے حکومت کے اعتبار سے اور عوامی اعتبار سے مسئلے فلسطین کو اجاگر کیا ہے، وگرنہ دنیا کے لوگ کب کا فلسطین کو فراموش کر چکے ہوتے، اسرائیلی حکومت کہ جس نے قبلہ اول پر تسلط و غاصبانہ قبضہ کیا ہوا ہے اس قبلہ اول کی آزادی کے لئے اس مسئلے کو مسلمانوں کے درمیان ظاہر کرنے کی ضرورت تھی، دوسری بات جو ظلم و تشدد وہاں پر مسلمانوں کے اوپر ہو رہا ہے اس کو بھی دنیا کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت تھی، اس کے خلاف آواز اُٹھانی تھی، پیغمبر اکرم (ص) نے جو اسلام پیش کیا ہے اس میں اولین درس یہی دیا ہے جیسا کہ ان کے حدیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی مسلمان کسی مصیبت میں ہو اور وہ آواز دے رہا ہے یاللمسلمین اور مسلمان اُس کا جواب نہ دے تو وہ مسلمان ہی نہیں ہے، تو ایران نے یہ سب ذمہ داری اپنے اوپر لی اور دینی فریضہ سمجھ کر اسے انجام دیا اور مسئلہ فلسطین اور قبلہ اول کی آواز دنیا تک پہنچائی، بہرحال ایک واحد ملک ہے، واحد قوم ہے جو ہر اعتبار سے اپنے مسلمان ہونے کا ثبوت دے رہی ہے وہ ایرانی عوام ہے، ایرانی حکومت واقعاً اسلامی حکومت ہے اور واقعاً مومن عوام ہے جو بار بار اپنے مسلمان ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا ضرورت محسوس ہوئی امام خمینی (رہ) کو کہ انہوں نے جمعۃ الوداع کو یوم القدس کے بطور پیش کیا۔؟
مولانا مقبول حسین: دیکھئے غرض و غایت یہی ہے کہ صہیونی حکومت کے تسلط میں جو بیت المقدس و مسلمانوں کا قبلہ اول ہے اُس کی آزادی کے لئے ایک تحریک شروع کی جائے لیکن خود امام خمینی (رہ) نے ایک اپنے پیغام میں اس بارے میں فرمایا کہ یوم القدس ایک عالمی دن ہے، یوم الاسلام ہے یہ دن صرف بیت المقدس سے مخصوص نہیں ہے بلکہ عالمی سطح پر مستکبرین عالم سے مستضعفین عالم کے مقابلے اور استقامت کا دن ہے، یہ تمام سامراجی طاقتوں کے خلاف کمزروں اور محروموں کی دائمی جنگ ہے اور پیکار کا دن ہے چونکہ مسلمانوں کو اپنی نفرت کا اظہار کرنا ہے تو اس دن وہ اپنی نفرت اور اپنی برات کا اظہار کررہے ہیں، اس دن تمام مستضعفین ظالم حکومتوں کے خلاف خاص طور پر اسرائیل اور امریکہ کے خلاف اپنی آواز بلند کریں اس لئے امام خمینی نے یوم القدس کا پیغام دیا۔

اسلام ٹائمز: یوم القدس کا رول بیت المقدس اور فلسطین کی تحریک کو زندہ رکھنے میں۔؟

مولانا مقبول حسین: یوم القدس مردہ دلوں کو زندہ کرنے کے ایک تحریک ہے اس دن مسلمان اپنے اتحاد اور اتفاق کا مظاہرہ کرتے ہیں، اگر یوم القدس نہ ہوتا تو آج مسئلہ فلسطین تاریخ کے اوراق میں دفن ہوا ہوتا، یوم القدس ہی مسلمانوں کے دلوں میں فلسطین کو صہیونی چنگل سے آزاد کرانے میں امید جگاتا ہے، اسلئے یوم القدس، مسئلہ فلسطین اور قبل اول کو زندہ رکھنے کے لئے اہم کردار ادا کرتا ہیں۔

اسلام ٹائمز: اسلامی ملک شام میں کیوں استعمار و استکبار سر چڑھ کر بولنے لگا ہے۔؟

مولانا مقبول حسین: دیکھئے شام عرب ممالک میں ایک واحد ملک ہے جو کھل کر فلسطین اور حزب اللہ کی حمایت کر رہا ہے اور کھل کر ایران کی حمایت کر رہا ہے، لہذا اسی حمایت کی سزا اُن کو دی جا رہی ہے، لہذا اس اعتبار سے چونکہ جو مستکبرین جہان ہیں وہ اپنے تسلط کو باقی رکھنے کے لئے اور خاص کر ایران حکومت کو کمزور کرنے کے لئے مختلف حربے استمعال کر رہے ہیں، پہلے افغانستان میں آئے، عراق میں آئے اور پھر خلیج فارس میں داخل ہوئے اور اب کے انہوں نے دیکھا کہ شام ایران، فلسطین اور حزب اللہ کی حمایت کر رہا ہے لہذا وہاں پر بھی دہشت گردانہ کردار نبھا رہے ہیں، جس طرح سے وہ دیگر اسلامی ممالک میں دہشت گردانہ و وحشیانہ کردار نبھا رہے ہیں اس طریقے سے اب اسلامی ملک شام میں بھی دہشت گردانہ اقدمات کر رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: بی بی زینب (ص) کے روضہ پر حالیہ تکفیری حملے کے بارے میں۔؟
مولانا مقبول حسین: مقدسات اسلام کی توہین ہرحال میں مذمت کے لائق ہے اور تمام مسلمانوں کو اس کی مذمت کرنی چاہیئے اور ایسی حرکات و اقدامات مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکانے کے لئے کی جا رہی ہیں تاکہ اُمت مسلمہ فرقہ واریت اور جنگ کے لئے آمادہ ہو جائیں، لہذا تمام مسلمان کو ایسی سازشوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے، مثلاً اگر اس قسم کے اقدامات ہو رہے ہیں تو یہ ہرگز نہ سوچیں، ہرگز فکر نہ کریں کہ یہ مسلمان کے ہاتھوں ہو رہا ہے، مسلمان ایسی حرکت ہرگز نہیں کرسکتا، یہ لوگ مسلمان نہیں ہیں بلکہ یہ منافق ہیں، یہ دہشت گرد ہیں جو اسلامی لبادہ پہن کر مسلمان میں فرقہ واریت و جنگ و جدل کو ہوا دینا چاہتے ہیں، لہذا ایسے عناصر سے مسلمانوں کو ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔

اسلام ٹائمز: کیوں مسلمانوں کی کثیر تعداد کے باوجود ابھی تک مسلمان قبلہ اول کو آزاد نہیں کرا پا رہے ہیں اور بیت المقدس ابھی تک غیر کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے۔؟

مولانا مقبول حسین: یہاں پر میں رہبر معظم سید علی خامنہ ای کا ایک قول نقل کرنا چاہوں گا کہ انہوں نے اس کی وجہ صاف بیان کی ہے، انہوں نے فرمایا کہ اگر اُمت مسلمہ متحد ہو جائے تو صہیونی حکومت کا خاتمہ یقینی ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ علت فقط تفرقہ و تضاد اور نااتفاقی بین المسلمین ہے، اور جب مسلم مملکتیں اپنے مفادات بالائے طاق رکھ کر اسلامی مفادات کو نظر میں رکھ کر صہیونی حکومت کے خلاف اُٹھ کھڑی ہوں تو یقیناً عنقریب قبلہ اول آزاد ہو جائے گا اور جو ظلم و تشدد فلسطینی عوام پر ہو رہا ہے وہ ختم ہو جائے گا لیکن اتحاد و وحدت اولین شرط ہے، اور حضرت امام خمینی (رہ) نے خود فرمایا ہے کہ اگر مسلمان ایک ایک بالٹی پانی کی ڈالیں تو پورا اسرائیل اس میں بہہ جائے گا لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ مسلمانوں میں نااتفاقی و تفرقہ پایا جاتا ہے لیکن عنقریب مسلمان امت واحدہ بن کر سامنے آ جائیں گے اور ہم فلسطین کو آزاد ہوتا ہوا دیکھیں گے۔ انشاءاللہ۔
خبر کا کوڈ : 288596
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

salam aap ham se bhi rabita kar sakte hain
سید محمد کوثر علی جعفری
رئیس انجمن پیروان ولایت
دس سال ایران میں علم حاصل کیا اور اب تدریس کے فرائض انجام دے رہا ہوں۔
ہماری پیشکش