0
Tuesday 20 Aug 2013 13:30

آئی ایس او کے جوان تعلیمی مورچے کو کبھی خالی نہ چھوڑیں، اطہر عمران طاہر

آئی ایس او کے جوان تعلیمی مورچے کو کبھی خالی نہ چھوڑیں، اطہر عمران طاہر
امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے مرکزی صدر اطہر عمران طاہر کا تعلق جنوبی پنجاب کے ضلع لیہ سے ہے۔ باقاعدہ تنظیمی سفر کا آغاز زرعی یونیورسٹی فیصل آباد سے کیا۔ تنظیم میں یونٹ ڈپٹی جنرل سیکرٹری، یونٹ نائب صدر، یونٹ صدر زرعی یونیورسٹی، مرکزی ڈپٹی جنرل سیکرٹری، مرکزی سیکرٹری تعلیم کی ذمہ داریاں ادا کیں اور آج کل مرکزی صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ گذشتہ دنوں "اسلام ٹائمز" نے آئی ایس او پاکستان کے مرکزی صدر سے انٹرویو کا اہتمام کیا ہے، جس کا احوال قارئین کے لئے پیش ہے۔

اسلام ٹائمز: شہید قائد ایک اسلام شناس شخصیت تھی، آپ پاکستان میں اسلامی نظام کے حامی تھے، اس پہلو پر روشنی ڈالیں۔؟

اطہر عمران طاہر: جہاں تک شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی کی شخصیت کا تعلق ہے تو مجھ جیسا ناتواں شخص، ایک عظیم عالم باعمل، پیرو امام خمینی (رہ) اور حقیقی عارف خدا کے بارے میں کچھ عرض کرنے سے شاید قاصر ہو۔ بہرحال آپ کے سوال کے ضمن میں اور شہید قائد کے ساتھ محبت کے اظہار کے لئے عرض ہے کہ جب سے سرزمین پاکستان کے اندر آنکھ کھولی اور جب سے اس الہی کارواں امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے ساتھ وابستہ ہوئے، بچپن میں اگرچہ یہ نام سنا کرتے تھے اور ایک دفعہ خدا نے موقع بھی دیا لیکن افسوس وہ موقع گنوایا، وہ موقع مسجد جمران میں ہونے والی ورکشاپ کے بعد شہید قائد عارف حسین الحسینی کی مرقد اطہر پر جانے کا موقع تھا۔ چونکہ اس وقت شہید کی شخصیت سے شناسائی اور عرفان کے بارے میں معلومات نہیں تھیں، اس وجہ سے گھر کو زیادہ اہمیت دی۔ لیکن جب اس الہی کاروان میں شام ہوئے اور اس الہی کاروان میں آکر شہید کے پیغام کو سمجھنے کی کوشش کی تو ایک حسرت باقی تھی۔ پروردگار نے دوران مسؤلیت لطف فرمایا اور شہید کی اس مرقد اطہر جسکو اگر ہم کہیں کہ کربلائے پاکستان کے اندر اسے وہی اہمیت حاصل ہے، جس طرح نجف کے اندر خود کربلا کو حاصل ہے۔ پیواڑ ملت تشیع کے لئے کربلا کی مانند ہے۔ جس میں ایک فرزند زہرا مدفن ہے۔

شہید علامہ عارف حسین الحسینی نہ صرف ایک عالم دین، بلکہ حقیقی معنوں میں اس فکر کے پاکستان میں سفیر تھے، جو امام خمینی (رہ ) نے ایک طویل عرصے کے بعد اسلام کی روح کو زندہ کرنے کے لئے لوگوں میں عام کی، اور اگر ہم سرزمین پاکستان کے اندر کوئی کردار دیکھیں تو شاید علامہ عارف حسین الحسینی کے علاوہ کوئی دوسرا کردار ایسا جامعیت کے ساتھ نظر نہ آئے، جن کے لئے شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی (رہ) فرمایا کرتے تھے کہ پاکستان کے اندر اسلامی انقلاب کو آئینے سے بھی زیادہ شفاف انداز میں منعکس اور منکشف کرنے میں اگر کسی شخصیت نے شب و روز محنت کی، تن من دھن نثار کیا اور تمام تر توانائیاں صرف کیں، وہ شہید عارف حسین الحسینی تھے۔ علامہ عارف حسین الحسینی نے نہ صرف علمی میدان کے اندر، نہ صرف عرفانی، سیاسی، اخلاقی، ثقافتی بلکہ تمام میدانوں کے اندر اس درجہ اتم پہ جاکر کام کیا جو بحیثیت ایک شخصیت کام کرنا ناممکن ہو۔

اسلام ٹائمز: گذشتہ دنوں سید حسن نصراللہ کی اس للکار کے بعد کہ آؤ دہشتگردو تمہیں خیبر یاد دلا دیں گے، لبنان میں سیدالشہداء کمپلیکس پر تکفیری گروہ نے حملہ کیا، جس کی ذمہ داری عائشہ بریگیڈ نے قبول کی، کیا پوری دنیا میں دہشت گردانہ حملوں کی ذمہ داریاں قبول کرنے والوں کی باگ ڈور کو کسی ایک ہاتھ سے ہلتا نہیں دیکھ رہے۔؟
اطہر عمران طاہر: عرض کروں کے یہ معرکہ حق و باطل آج سے شروع نہیں ہوا۔ اس کی بنیاد آج سے چودہ سو سال قبل واقعہ کربلا بپا کرکے رکھی گئی، کربلا حق و باطل کا معرکہ تھا، جس میں یقیناً خاندان اہل بیت (ع) کامیاب ہوا اور پروردگار کے حضور سرخرو ہوا۔ اس معرکے میں وہی سفیانی ٹولہ، تکفیری ٹولہ ناکام ہوا اور اس کا انتقام آل رسول (ع) کیساتھ آج تک باقی ہے۔ دنیا کے اندر آج بھی اس تکفیری ٹولے کی پشت پناہی استعماری طاقتیں امریکہ و اسرائیل کر رہے ہیں۔ جن کے بارے میں قرآن کہہ رہا ہے کہ یہ یہود و نصاریٰ آپ کے حامی نہیں ہوسکتے۔ امام خمینی (رہ) نے اسرائیل کو شر مطلق کہا۔ انہوں نے اسرائیل کو قلب عالم اسلام میں خنجر کی مانند کہا۔ امام خمینی (رہ ) نے اسرائیل کو ایک ناسور کی مانند قرار دیا۔ آج پوری دنیا کے اندر اور خصوصاً شام کے اندر یہ تکفیری ٹولہ اسلام کی روح کو نکال کر تکفیری سوچ کو فروغ دینے کے درپے ہے۔ یہ ہی طریقہ کار اس ٹولے نے بحرین، افغانستان، کشمیر اور آج مصر میں روا رکھا۔ ایک انقلاب آجانے کے بعد اس کے رخ کو تبدیل کرنا یقیناً استعمار و استکبار کا کا م ہے۔ رہبر معظم سید علی خامنہ ای نے اپنے خطابات کے اندر بارہا اس بات کو دہرایا ہے کہ انقلاب کا آجانا بڑی بات نہیں، انقلاب کا حفظ کرنا سب سے بڑی بات ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ امام خمینی (رہ) کی برکتوں کے طفیل جب انقلاب آیا، تو سب سے زیادہ مشکل کام اس انقلاب کو حفظ کرنا، اور اس کے اثرات کو پوری دنیا تک منتقل کرنا تھا۔ بدقسمتی سے کچھ ایسے اسلامی ممالک جن میں یہ انقلاب اپنے اثرات منتقل کر رہا تھا اور آزادی کی تحریکیں اور انقلاب کی تحریکیں شروع ہوئیں تو انہیں شیعی انقلاب کا نام دے دیا گیا، جس کی وجہ سے کچھ تحریکیں اس انقلاب سے جدا ہوئیں اور ذلت و رسوائی سے دوچار ہوکر رہ گئیں۔

اسلام ٹائمز: عیدالفطر کو بارہ کہو میں پیش آنے والا واقعہ کیا اس بات کا متقاضی نہیں ہے کہ ہم اپنے تحفظ کیلئے جدید ٹیکنالوجی سے مدد لیں۔؟

اطہر عمران طاہر: جی یہ اقدامات واجب تر ہیں اور واجب ترین امور میں سے ہیں۔ غالباً امام نے بھی فرمایا تھا کہ جو قوم اپنا دفاع نہیں کرنا جانتی اسے چاہیے کہ وہ صفحہ ہستی سے مٹ جائے۔ یہ واجبی امور میں سے ہے کہ انسان اپنا دفاع کرے اور اسے اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ اگر ہم غور کریں کہ تدبیر کس چیز کا نام ہے۔ کربلا کا معرکہ کہ جس میں ایک طرف ہزاروں اور ایک طرف صرف بہتر 72، لیکن امام حسین (ع) نے اس قلیل تعداد کے ساتھ جنگ کی۔ ان تمام کو ایک دفعہ میدان میں وارد نہیں کیا، ایک ساتھ سب کو شہید نہیں کروایا، بلکہ ایک تدبیر اور حکمت عملی کے ساتھ اپنا دفاع کیا، جنگ کی اور ایک ایک کرکے میدان میں آئے، دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، دشمن کا بہت سارا نقصان کیا۔ بہت ساروں کو واصل جہنم کرکے یہ خانوادہ اہل بیت (ع) شہادت کے مقام پر فائز ہوا۔ یقیناً شہادت ہمارے لئے سعادت ہے، لیکن شہادت آگاہانہ شہادت ہو، دشمن کو خون بہانے کا موقع قطعاً نہ دیا جائے۔ ماتمی انجمنوں، اسکاؤٹس اور ہر فرد پر دفاع شخصی، دفاع عزاداری اور دفاع ملت واجب ہے۔

اسلام ٹائمز: ایم ڈبلیو ایم کے سربراہ کی طرف سے دفاعی پالیسی کے سلسلہ میں فریق بننے کیلئے حکومت کو کہا گیا ہے، کیا اس سلسلہ میں ہوم ورک مکمل ہے۔؟
اطہر عمران طاہر: یقیناً اگر یہ مطالبہ کیا گیا ہے تو اس سلسلہ میں کام کیا گیا ہوگا، اہل بیت (ع) کے مکتب پر عمل کرنے والے اور تمام مکاتب فکر کا احترام ملحوظ خاطر رکھنے والے جو دفاعی پالیسی دے سکتے ہیں وہ کوئی متشدد اور متعصب نہیں دے سکتا۔ اگر وہ دفاعی پالیسی دے گا تو وہ اپنے آپ کو محفوظ کرنے کے دفاعی پالیسی مرتب کرے گا اور امریکہ و اسرائیل کے مفادات کو حفظ کرنے کی پالیسی دے گا۔ اگر اہل بیت (ع) کا پیرو کوئی پالیسی دے گا تو تمام انسانیت کے مفاد کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے دے گا۔

اسلام ٹائمز: آئی ایس او اور تشیع کی دیگر طلباء تنظیموں کے کارکنان کے لئے کیا پیغام دینا چاہیں گے۔؟

اطہر عمران طاہر: آج ہم جس دور سے گزر رہے ہیں، وہ کل یوم عاشورہ و کل ارض کربلا ہے، آج بھی ہم یوم عاشور کی طرح میدان جنگ میں موجود ہیں اور یہ کربلا، کربلائے عصر پاکستان ہے۔ یہاں بھی ہمارا وہی کردار ہونا چاہیے جو مسلم بن عوسجہ (ع) کا تھا۔ زوہیر بن قین کا تھا۔ جو حر بن تمیمی کا تھا۔ ہمارا بھی وہی کربلائی اور عاشورائی کردار ہونا چاہیے۔ اور اس کے لئے انسان کو سب سے پہلے اپنے نفس کو اپنے اس ظرف کو پاک کرنا پڑے گا۔ یعنی کربلا والوں کے ساتھ اس فہرست میں اور اس قطار میں کھڑے ہونے کے لئے، نفس کی طہارت ضروری ہے۔ قوم کو مختلف محاذوں اور مختلف مورچوں پر مختلف قسم کے فوجیوں کی ضرورت ہے۔ چاہے وہ آئی ایس او کے جوان ہوں یا ملت کے باقی جوان ہوں۔ اس وقت ان کے لئے جو مورچہ اہم ہے، وہ تعلیمی مورچہ ہے۔ آئی ایس او ایک طلباء تنظیم ہے، آئی ایس او کے جوانو کو چاہیے کہ وہ اس مورچے کو کبھی بھی خالی نہ چھوڑیں۔ بلکہ اگر وہ اس مورچے پر خود کو مضبوطی کے ساتھ کاربند رکھتے ہیں اور اس مورچے پر پیش قدمی کرتے ہیں تو وہ باقی مورچوں کے لئے بھی افرادی قوت مہیا کریں گے، وہ تربیت یافتہ افرادی قوت معاشرے کی فلاح اور ترقی کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کرے گی۔
خبر کا کوڈ : 293990
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش