1
0
Thursday 22 Aug 2013 03:11

طالبان ہمارے مسلمان اور پاکستانی بھائی ہیں، انکے ساتھ لازمی مذاکرات ہونے چاہئیں، خرم شیر زمان

طالبان ہمارے مسلمان اور پاکستانی بھائی ہیں، انکے ساتھ لازمی مذاکرات ہونے چاہئیں، خرم شیر زمان
خرم شیر زمان نوجوان سیاستدان ہیں، آپ نے پاکستان تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے حالیہ عام انتخابات میں حصہ لیا اور سندھ اسمبلی کی نشست پی ایس 112 کراچی پر کامیابی حاصل کی۔ آپ کاروباری پیشے سے وابستہ ہیں اور اپنے حلقے کے مسائل کے حل کیلئے سنجیدہ کوششوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے خرم شیر زمان کے ساتھ پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی میڈیا سیل سندھ میں قائم ان کے آفس میں مختلف ایشوز کے حوالے سے ایک نشست کی، جس میں طالبان حکومت مذاکرات، ڈرون حملے و نیٹو سپلائی، تحریک انصاف کی مجموعی حکومتی کارکردگی، خیبر پختونخوا میں دہشت گردی وغیرہ شامل ہیں۔ اس موقع پر آپ کے ساتھ کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: حکومت نے کالعدم تنظیموں کی دھمکی پر دہشتگردوں کی سزائے موت پر عملدرآمد موخر کر دیا ہے، آپ اس حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
خرم شیر زمان: اس مسئلے سمیت دیگر تمام اس قسم کے مسائل کے حوالے سے تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کے ساتھ مشاورت کرکے فیصلے کرنے چاہیئں، تاکہ فیصلے کے بعد کسی کو بھی کوئی اعتراض نہ ہو۔ یک طرفہ فیصلے سے معاملات خراب ہوتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: طالبان سے مذاکرات پر پاکستان تحریک انصاف کا اب تک کا موقف کیا ہے؟ طالبان سے مذاکرات کرنے چاہیئے یا ان کے خلاف فوجی آپریشن۔؟
خرم شیر زمان: پاکستان تحریک انصاف کب سے کہہ رہی ہے کہ حکومت کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہئیں۔ عمران خان صاحب گذشتہ دس سالوں سے کہہ رہے ہیں کہ طالبان کو ساتھ بٹھانا چاہئیے، ان کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہئیں، ان کی باتوں کو سننا چاہئیے، کچھ طالبان کی باتوں پر عمل کرنا چاہئیے، کچھ باتوں پر طالبان کو رضامند کرنا چاہئیے۔ اگر ساتھ بیٹھے گے اور ان کے ساتھ بات چیت کی جائے گی تو میں سمجھتا ہوں کہ معاملات بہت بہتر ہو جائیں گے۔ اگر اپنے ہی لوگ، اپنے ہی لوگوں کو مارتے رہیں گے تو ظاہر سی بات ہے کہ انتہاء پسندی کا عنصر اٹھتا ہے۔ ڈرون پر پاکستان تحریک انصاف کب سے کہہ رہی ہے کہ یہ ناجائز ہے، پاکستان کی رٹ کو چیلنج کیا جا رہا ہے۔ دوسرا ملک جب پاکستان کی رٹ کو چیلنج کر رہا ہے، ڈرون حملے کر رہا ہے تو آپ برداشت کر رہے ہیں، اسے اجازت دے رہے ہیں۔ تو جب پاکستانی شہری جو اس ڈرون حملے میں مر رہا ہے، اس کے بچے مر رہے ہیں، اس کے ردعمل میں وہ جذباتی ہوکر ہتھیار اٹھا رہا ہے تو آپ کہہ رہے ہیں کہ ملک کی رٹ چیلنج ہو رہی ہے۔

آپ کو انہیں بھی تو سننا چاہئیے کہ انہیں کیا تکلیف ہے، مگر آپ انہیں سننے کو تیار نہیں ہیں۔ امریکہ برسوں سے ان کے ساتھ جنگ لڑ رہا ہے اور اب امریکہ نے قطر میں ان کا دفتر کھولا اور کہتے ہیں کہ ہم ان سے مذاکرات کرینگے۔ تو ہمارا پہلا فرض بنتا ہے کہ وہ ہمارے مسلمان بھائی ہیں، ہمارے پاکستانی بھائی بھی ہیں اور سب سے بڑی بات ہمارے پڑوسی بھی ہیں۔ لہٰذا ہم یہ کہتے ہیں کہ بالکل لازمی طالبان سے مذاکرات کرنے چاہئیں، کسی بھی حالت میں نہ کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دیکھیں ان کے ساتھ بات کی جاسکتی ہے اور انہیں اپنی باتوں پر رضامند کیا جاسکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: ڈرون حملوں اور نیٹو سپلائی روکنے کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف نے الیکشن مہم کے دوران بہت بڑے بڑے دعوے کئے تھے، مگر یہ سلسلہ تاحال جاری ہے، کیا کہنا چاہئیں گے۔؟
خرم شیر زمان: ہم شروع دن سے یہ کہہ رہے ہیں کہ ڈرون حملے نہیں ہونے چاہئیں۔ خیبر پختونخوا کا وزیراعلٰی پاکستان ائیر فورس کو فون کرکے یہ نہیں کہہ سکتا کہ آپ امریکی ڈرون طیاروں کو گرا دیں۔ یہ اختیار اور ذمہ داری وزیراعظم پاکستان کی ہے۔ اگر پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت ہوتی تو یہ حملے پہلے دن ہی بند ہو جاتے۔ ہم 100 فیصد یہ ڈرون حملے بزور طاقت رکوا دیتے۔ لہٰذا ڈرون حملے رکوانے کے حوالے سے وفاقی حکومت کو اپنی ذمہ داری ادا کرنا ہوگی۔ ہم اس حوالے سے ملکی و بین الاقوامی سطح پر، ہر فورم پر ڈرون حملوں کے خلاف آواز بلند کرتے رہیں گے۔ اگر ہم خیبر پختونخوا میں بندق سے ڈرون نہیں گرا سکتے، اس لئے کہ یہ وفاقی حکومت کی ذمہ داری و اختیار ہے، مگر ہم اپنی آواز بلند کرکے انہیں روکنے کی کوشش ضرور کرتے رہیں گے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان تحریک انصاف نے 90 دنوں میں مسائل کو حل کرنے کا وعدہ کیا تھا، 60 دن سے زائد گزر چکے ہیں۔ اگر ان دنوں میں مسائل حل نہیں کرسکے تو کیا حکومت چھوڑ دینگے کہ جیسا کہ آپ کے وزیراعلٰی خیبر پختونخوا کہہ چکے ہیں۔؟
خرم شیر زمان: دیکھیں جادو کہیں بھی نہیں ہوسکتا ہے، سالوں کی کرپشن ہے، ان چیزوں کو ختم کرنے میں وقت لگتا ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ خیبر پختونخوا میں ہماری حکومت پاکستان کی مثالی حکومت ثابت ہوگی۔ میں دعوے سے کہتا ہوں کہ خیبر پختونخوا میں ہماری حکومت کی 90 دنوں کی کارکردگی دیگر صوبوں کے مقابلے میں سب سے بہترین ہوگی۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں امریکی مداخلت، اس کی روک تھام و خاتمے کے حوالے سے پارٹی موقف کی بنیاد پر کیا کہیں گے۔؟
خرم شیر زمان: دیکھیں میرے جیسے شخص کو اگر اختیارات مل جائیں تو میں اپنی آواز سے بھی ان کو آنکھ نہیں اٹھانے دونگا۔ یہ اتنے ڈرپوک لوگ ہیں کہ آواز بھی نہیں اٹھا سکتے، یہ منہ سے بول بھی نہیں سکتے ہیں۔ یعنی مسئلہ ہمارا ہے کہ جب ہم کوئی دہشت گرد پکڑتے ہیں تو اس کا منہ ڈھانپ کر پیش کیا جاتا ہے، جب تک ہم اپنی عوام کو بتائیں گے نہیں کہ ہمارے ساتھ بھارتی را سمیت دوسرے ممالک کی خفیہ ایجنسیز کیا کر رہی ہیں، تب تک کچھ نہیں ہوگا، اس کے برعکس بھارت میں جب کوئی واقعہ ہوتا ہے تو فوراً آئی ایس آئی یا کسی اور پاکستانی ادارے کا نام لے کر بیان دے دیتا ہے، حتی کہ کسی ثبوت کے بغیر۔ ہمیں شرم آنی چاہئیے کہ ہم ایک ایٹمی صلاحیت رکھنے والے ملک ہونے کے باوجود ہم ڈرتے رہتے ہیں۔ آپ مجھے بتائیں کہ ایران کیا بہت زیادہ طاقتور ملک ہے، مگر ایران نے اپنی آواز سے ایسا معاملہ طے کیا ہوا ہے کہ وہ کچھ کر نہیں سکتے۔ وہ ڈرتے ہیں کہ اگر ہم نے ایران کے خلاف کچھ کیا تو جو کچھ ایران نے بولا ہے اگر اس کے 10فیصد پر بھی عمل کر دے گا ایران تو پوری دنیا کو ہلا دے گا۔

اسلام ٹائمز: شیعہ مسلمانوں نے حالیہ عام انتخابات میں بڑی تعداد میں پاکستان تحریک انصاف کی حمایت کی، اسے ووٹ دئیے۔ مگر خیبر پختونخوا میں اہل تشیع مسلمانوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور انہیں تحفظ دینے میں پی ٹی آئی کی خیبر پختونخوا حکومت نہ صرف ناکام نظر آتی ہے بلکہ متاثرین شیعہ مسلمانوں سے نہ تو تعزیت و ہمدردی کا اظہار کیا جا رہا ہے اور نہ ان کے زخمیوں کی عیادت کے لئے اعلٰی شخصیات پہنچیں۔ کیا کہیں گے اس شکوہ کے حوالے سے۔؟
خرم شیر زمان: ہم سب شیعہ سنی ایک ہیں، ہم سب مسلمان ہیں، ہم سب ایک اللہ کو ماننے والے ہیں، پاکستان میں فرقہ واریت اور اختلافات نہیں ہیں۔ ہمیں سب نے مینڈیٹ دیا ہے، خیبر پختونخوا میں ہماری حکومت ہے، ہمارے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں ہے، معاملات کو طے ہونے میں کچھ وقت لگتا ہے۔ ہمیں اللہ پر پورا بھروسہ ہے، ہم معاملات و مسائل پر قابو پا لیں گے۔ جس شکوہ کی آپ نے اپنے سوال میں بات کی، اگر اس قسم کی کوئی بات ہے تو میں ذاتی طور پر اس حوالے سے معذرت خواہ ہوں۔ پاکستان تحریک انصاف کے ایک منتخب ایم پی اے کی حیثیت سے۔ میں اپنی طرف سے جو ہوسکے گا میں کروں گا، میں جاﺅں گا، جہاں تعزیت کیلئے کسی بھی وجہ سے کوئی نہیں جا سکا ہے، میں وہاں جانے کی کوشش کرونگا۔

اسلام ٹائمز: کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ سے پاکستان تحریک انصاف کے معاملات عام انتخابات کے بعد سے خراب ہیں، جس میں اب تک تلخی برقرار ہے۔ پھر زہرا شاہد حسین سمیت کراچی میں دیگر کارکنان کے قتل کا الزام بھی پی ٹی آئی نے ایم کیو ایم اور اسکے قائد الطاف حسین پر لگایا ہے۔ کیا ایم کیو ایم سے بات چیت کرکے معاملات حل نہیں کئے جا سکتے۔؟
خرم شیر زمان: میرا خیال ہے کہ ہمیں ملک گیر جماعتوں کے ساتھ معاملات کے بارے میں بات کرنی چاہئیے۔ میں نہیں سمجھتا کہ ایم کیو ایم اتنی بڑی جماعت ہے کہ اس کے بارے میں تاثرات دئیے جائیں وہ کراچی سطح کی جماعت ہے، پہلے وہ ملکی سطح پر اٹھ کر آئے، اس کے بعد میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کے درمیان کچھ چیزیں، باتیں ہوسکتی ہیں۔ ہم پاکستان کی دوسری بڑی سیاسی جماعت بن چکے ہیں۔ قومی سطح کے معاملات میں وفاقی حکومت سے بات کی جائے گی اور نچلی سطح پر جو مسائل ہونگے، اس کی ذمہ داری بھی حکومت پر عائد ہوگی۔ اگر ایم کیو ایم حکومت میں ہوگی، اسکا وزیراعظم ہوگا، اس کی اکثریت ہوگی تو اس سے معاملات پر بات کی جائے گی۔
خبر کا کوڈ : 294668
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
PTI NE TALIBAN KO BHAI QARAR DE KR APNEY CHEHRE SE NIQAB OTAR LIA HE
ہماری پیشکش