QR CodeQR Code

شام کی صورتحال میں امریکہ اور اسرائیل ملوث ہیں

دہشتگردی ہمارا سب سے بڑا مسئلہ، اس کیخلاف مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنیکی ضرورت ہے، بریگیڈئیر (ر) محمد یوسف

24 Aug 2013 23:31

اسلام ٹائمز: معروف دفاعی تجزیہ نگار کا ’’اسلام ٹائمز‘‘ سے خصوصی انٹرویو میں کہنا تھا کہ بھارت کبھی بھی پاکستان پر حملے کی حماقت نہیں کرے گا، کانگریس حکومت اپنی کم ہوتی مقبولیت کو سنبھالنے کیلئے ایسی حرکتیں کر رہی ہے، شام میں باغی نہیں امریکی اور اسرائیلی ایجنٹ مقدس مزاروں کو نشانہ بنا رہے ہیں، طالبان سے مذاکرات میں کوئی حرج نہیں، طالبان نے جن قوتوں کو ثالث کے طور پر تسلیم کیا ہے، انہیں مذاکرات میں کردار ادا کرنا چاہئے۔


بریگیڈئر (ر) محمد یوسف پاک فوج کے سینئر افسروں میں سے ہیں، آپ نے پاک فوج میں نمایاں خدمات سرانجام دی ہیں، بین الاقوامی حالات، مشرق وسطٰی کی صورت حال، پاک بھارت سرحدی کشیدگی اور پاک بھارت بیک ڈور ڈپلومیسی سمیت کشمیر ایشو پر آپ کی گہری نظر ہے۔ عسکری امور کے بہترین ماہر سمجھے جاتے ہیں، خطے میں امریکی سرگرمیوں اور اسرائیل کی سازشوں سے بھی اچھی طرح آگاہی رکھتے ہیں، تحریک طالبان کے خطے میں کردار اور افغانستان سے امریکی انخلا پر بھی آپ کی نظر ہے۔ حالیہ پاک بھارت کشیدگی، مشرق وسطٰی میں مصر کی صورت حال اور شام میں ہونے والی بیرونی مداخلت کے حوالے سے ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے بریگیڈئیر (ر) محمد یوسف کے ساتھ ایک مختصر سی نشست کی جس کا احوال ہم اپنے قارئین کے لئے پیش کر رہے ہیں۔ (ادارہ)
                                          ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام ٹائمز: بھارت نے ایل او سی پر فائرنگ کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے، اس سے پاک بھارت جنگ کا خطرہ تو نہیں۔؟ کیا اس سے بھارت کے جارحانہ عزائم کا پتہ نہیں چل جاتا۔؟

بریگیڈئیر (ر) محمد یوسف: بھارت اپنے اندرونی مسائل سے اپنے عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے ایل او سی پر فائرنگ کر رہا ہے، اس کی آڑ میں چور مچائے شور کی طرح چلا بھی رہا ہے کہ اس کے فوجیوں پر حملہ کیا گیا اور انہیں ہلاک کیا گیا۔ اگر واقعی پاکستان نے باڑ کاٹ کر اس کی سرحد کے اندر جا کر اس کے جوان ہلاک کئے ہیں یا کسی اور نے یہ کام کیا ہے، جیسا کہ وہ کبھی پاک فوج پر اور کبھی جماعت الدعوۃ پر الزام عائد کرتے ہیں، تو اگر واقعی ایسا ہوا ہے تو بھارت کو اپنی نااہلی تسلیم کر لینی چاہیئے۔ مگر ہم اس کے الزامات تسلیم نہیں کرتے، اس لئے کہ اس بات کا فیصلہ کون کرے گا کہ کس نے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کی خلاف ورزی کی۔ دوسری بات یہ ہے کہ کانگریس حکومت اس وقت اپنی اپوزیشن اور میڈیا کے شدید دباؤ میں ہے، الیکشن سر پر ہیں، وہ اپنی ساکھ بچانے کیلئے اس قسم کے شوشے چھوڑ رہے ہیں، تاکہ بھارتی عوام میں ان کی مقبولیت برقرار رہ سکے، یہ ان کی اپنی اندرونی جنگ ہے، بس ’’کھسیانی بلی کھمبا نوچے‘‘ والی مثال صادق آتی ہے۔ جب ان سے کچھ نہیں بن پاتا تو پاکستان کے خلاف محاذ کھول دیتے ہیں، تاکہ عوام کی توجہ ہٹ جائے۔

جہاں تک جنگ کا تعلق ہے تو پاک بھارت جنگ کبھی نہیں ہوگی، البتہ اس قسم کی سرحدی جھڑپیں تو معمول کی بات ہیں۔ اس لئے فائرنگ کے ان تبادلوں اور جھڑپوں سے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ جنگ اب بچوں کا کھیل نہیں رہا، دونوں ایٹم بم رکھنے والے ملک ہیں۔ انہیں پتہ ہے کہ لڑائی کی صورت میں کس کا نقصان ہوگا۔ اس قسم کی جھڑپوں سے بھی انڈیا کا ہی نقصان ہو رہا ہے۔ اس کی دنیا میں بنی ساکھ متاثر ہو رہی ہے۔ وہ اپنے آپ کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کرنا چاہتا ہے، پھر اس کے پاس گیس کے ذخائر کم ہوتے جا رہے ہیں، اس کو گیس صرف پاکستان کے راستے ہی مل سکتی ہے۔ پاکستان کے راستے سے ہی دنیا کی راہداری مل سکتی ہے۔ وہ کسی بھی قیمت پر پاکستان کے خلاف جنگ نہیں کرے گا۔ البتہ بی جے پی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو کم کرنے کیلئے وہ اس قسم کی شیطانیاں کرتا رہے گا۔ پھر بان کی مون کی پاکستان آمد اور مسئلہ کشمیر حل کرنے پر زور سے بھی بھارت تلملا رہا ہے۔ انہیں پتہ چل گیا ہے کہ مسئلہ کشمیر اب انہیں حل کرنا ہی پڑے گا، اس کے علاوہ جولائی، اگست اور ستمبر میں سرحدوں پر فوج کی یونٹس تبدیل ہوتی ہیں، ایسے موقعوں پر فوجی ایسی حرکتیں کر جاتے ہیں، ان سے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا ایسے موقعوں پر بھارت کو منہ توڑ جواب دینے کی ضرورت نہیں۔؟

بریگیڈئیر (ر) محمد یوسف: آپ نے دیکھا کہ پاکستان نے جذباتی انداز اختیار کرتے ہوئے ردعمل نہیں دیا بلکہ وزیراعظم نواز شریف نے اس موقع پر اپنے بھارتی ہم منصب من موہن سنگھ کیساتھ باہمی گفت و شنید کی ضرورت پر زور دیا، البتہ وزیر داخلہ اور ڈی جی رینجرز نے اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کا اعلان کرکے فوج کا مورال بلند کیا ہے۔ پاکستان جنگ نہیں چاہتا، اگر کسی صورت اس پر جنگ مسلط کی گئی تو وہ منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اسی لئے فوجی جوان ایل او سی پر بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دے رہے ہیں۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ بھارت اپنے بے پناہ اندورنی مسائل سے دوچار ہے، اس نے چھ سات لاکھ فوج مقبوضہ کشمیر میں پھنسا رکھی ہے اور وہ جب حافظ سعید کو حوالے کرنے کی بات کرتا ہے تو دنیا جانتی ہے کہ انہیں پاکستان کی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ بری الذمہ قرار دے چکی ہیں۔ اس کے علاوہ کے اپنے اندر سے آواز اٹھی تھی کہ ممبئی حملہ خود بھارتی فوج نے کرایا تھا۔ اس آواز کو بعدازاں دبا دیا گیا۔

اسی طرح سمجھوتہ ایکسپریس کو جلانے کی سازش میں کرنل پروہت کو کیا سزا دی گئی، جب کسی کے خلاف کوئی ثبوت نہیں تو اسے کس طرح مجرم قرار دیا جاسکتا ہے۔ گذشتہ دنوں ایک ٹی وی چینل پر ایک سابق بھارتی آرمی چیف نے اعتراف کیا کہ ان کے پاس حافظ سعید کے خلاف کوئی ثبوت نہیں، بس انہیں خبروں سے پتہ چلا ہے کہ ممبئی واقعات کا ذمہ دار حافظ سعید ہے، تو یہ بات بھارت کے لئے جنگ ہنسائی کا باعث بنی۔ ہم بھارت میں کسی قسم کی دہشت گردی کے واقعے میں ملوث نہیں، البتہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر پر 65 سال سے جو قبضہ کر رکھا ہے اور کھلی جارحیت کا مرتکب ہو رہا ہے، وہ دہشت گردی نہیں، جہاں وہ مظلوم بچوں، بوڑھوں اور خواتین پر ظلم کر رہا ہے، کہاں گئی وہ سلامتی کونسل کی قراردادیں، بان کی مون کو اس کا بھی نوٹس لینا چاہیئے۔ اس لئے کہ مقبوضہ کشمیر کی جدوجہد تحریک آزادی ہے۔ اس کا دہشت گردی کی تحریک سے کوئی تعلق نہیں۔ ایک طرف بھارت بجلی دینے کی بات کرتا ہے، دوستی کے لئے ہاتھ بڑھاتا ہے، دوسری طرف وہ ہم پر دہشت گردی کے الزامات عائد کرتا ہے اور ایل او سی کی خلاف ورزیاں کر رہا ہے۔ وہ کب تک نہتے اور مظلوم کشمیریوں کی جدوجہد کو اپنی طاقت کے بل بوتے پر دبا کر رکھ سکتا ہے، اس سلسلہ میں پوری دنیا بالخصوص اسلامی امہ کو آواز بلند کرنی چاہیے۔

اسلام ٹائمز: کیا اندرونی مسائل حل کئے بغیر ہم بیرونی مداخلت ختم کر سکتے ہیں؟ کیا دہشتگردی ختم کرنے کیلئے نیشنل پالیسی بنانے کی ضرورت نہیں۔؟

بریگیڈئیر (ر) محمد یوسف: ہمیں بیرونی سے زیادہ اندرونی خطرات لاحق ہیں، اس لئے پہلے ہمیں اس پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی کو ختم کرنے کیلئے جلد ایک نیشنل پالیسی تشکیل دی جائے، پولیس کے محکمے میں جہاں جہاں خامیاں ہیں انہیں دور کیا جائے، آپ نے اسلام آباد کے واقعے میں دیکھ لیا کہ کس طرح پولیس اور رینجرز ایک شخص کے ہاتھوں یرغمال بنے رہے، یہی معاملہ دیگر شہروں میں دیکھنے میں آتا ہے۔ پولیس کی ازسرنو تشکیل کی جائے، اس کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے۔ دہشت گردی کے خلاف نئے سکواڈ بنائے جائیں، جن کی صحیح معنوں میں تربیت ہو، سری لنکا نے بھی اپنے ہاں دہشت گردی کا خاتمہ کیا، یہ ہماری کمزور کے سبب ہی یہاں پر جیلیں توڑنے جیسے واقعات ہو رہے ہیں۔ ہمارے ہاں ہمیشہ اس حوالے سے ڈنگ ٹپاؤ پالیسیاں بنائی گئیں جن کی وجہ سے دہشت گردی بڑھتی گئی، اس کے علاوہ کراچی اور بلوچستان کے حوالے سے بھی فوج اور ایف سی کو مل کر ایکشن کرنا چاہئے۔ نیم دلی کے ساتھ حکومت کو نہیں چلایا جاسکتا، اس کے لئے سٹیٹ کی طاقت استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ کوئی طاقت اسٹیٹ کی طاقت کے سامنے زیادہ دیر نہیں ٹھہر سکتی، اس لئے سول حکومت فوج پولیس اور دیگر اداروں کو مل کر حکمت عملی تیار کرنی چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: بھارت عالمی طاقتوں کی ایما پر پاکستان میں دہشتگردی کا مرتکب ہو رہا ہے، آپ نہیں سمجھتے کہ ہمارے ہاں روز بروز بیرونی مداخلت بڑھ رہی ہے۔؟

بریگیڈئیر (ر) محمد یوسف: اصل میں امریکہ، اسرائیل اور بھارت کی پاکستان دشمن پالیسیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، ان تینوں کا ہدف ہمارا ایٹمی پروگرام ہے۔ جو ان تینوں کو شروع دن سے ہی کھٹک رہا ہے۔ آج اڑتالیس ممالک کی افواج ہماری سرحد پر بیٹھ گئی ہیں، وہ جنگ جو افغانستان میں لڑی جا رہی تھی، وہاں سے پاکستان منتقل کر دی گئی ہے، دشمن کے کنٹینرز ہمارے راستوں سے اپنا سامان لے کر جاتے ہیں اور انہیں کی آڑ میں یہاں تخریب کاری کو فروغ مل رہا ہے اور بھارت کو شہ مل رہی ہے، ان کے جاسوس یہاں پر دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث ہیں۔ ریمنڈ ڈیوس تو ایک شخص تھا، اس جیسے کتنے امریکی، اسرائیلی اور بھارتی جاسوس ہمارے ملک کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔ ان کی آڑ میں بھارت نے افغانستان میں اپنے چالیس قونصل خانے کھول رکھے ہیں، جہاں بھارت کے لیفٹینٹ جنرل رینک کے فوجی افسر تربیتی کیمپ چلا رہے ہیں، جہاں سے تربیت یافتہ افراد پشاور اور کوئٹہ کے راستے پاکستان آکر کارروائیاں کرتے ہیں، آج پاکستان میں ہونے والی تخریب کاریوں میں یہ عناصر ملوث ہیں۔ بھارت اپنے آقاؤں کی شہ پر ہی پاکستان پر دباؤ بڑھا کر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کر رہا ہے۔

افغانستان کے مسئلہ پر آج پاکستان جس مقام پر کھڑا ہے، ہمیں ایک بار پھر خاص مقام حاصل ہو رہا ہے، اس سے بھارتی حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہے، جبکہ ہم نے ثابت قدمی کیساتھ بیرونی جارحیت کا مقابلہ کیا۔ آج وہ لوگ جو جاہلیت کرنے یہاں تک آ پہنچے تھے، آج وہ ناکام و نامراد ہو کر افغانستان سے واپس جانا چاہتے ہیں۔ اس لئے خطے میں ایک بار پھر پاکستان کو وہ مقام مل رہا ہے جس کا وہ مستحق ہے۔ آپ دیکھ لیں کہ وہ افغانستان سے نکلنے کے لئے پاکستان سے مدد مانگ رہے ہیں۔ ان کے افغانستان سے نکلنے کے بعد تحریک آزادی کشمیر کو ایک بار پھر عروج ملے گا اور ان کا مطالبہ تسلیم کر لیا جائے گا۔ حریت کانفرنس کے رہنماؤں اور دیگر زعماء کو مسئلہ کشمیر پر ہم نے پرعزم پایا، ان کا کہنا ہے کہ کشمیریوں کاجذبہ نہایت بلند ہے۔ انہوں نے اس تحریک کے لئے بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔ پاکستان کی طرف سے جو کمی آئی ہے امریکہ کے خطے میں نکل جانے کے بعد پھر سے پاکستان دباؤ سے نکل کر کھل کر کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے لئے میدان میں آ جائے گا، جس سے کشمیر کی تحریک میں تیزی آئے گی۔

اسلام ٹائمز: کیا ایسے ملک کو پسندیدہ قرار دیا جاسکتا ہے جس نے نہ صرف ہماری شہ رگ پر قبضہ کر رکھا ہے بلکہ ہمارا پانی روک کر وہ ملک کو بنجر بنانے پر تلا بیٹھا ہے۔؟

بریگیڈئیر (ر) محمد یوسف: ہم ایسے ملک کو پسندیدہ ملک قرار دینے جا رہے ہیں جس نے ہمارے ملک کو دل سے تسلیم ہی نہیں کیا، پھر اس نے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو تسلیم نہیں کیا بلکہ اس کی آڑ میں وہ دو بڑی جنگیں ہم پر مسلط کر چکا ہے۔ آج کل پھر اس نے کنٹرول لائن پر فائرنگ کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ اسی بھارت نے کشمیر سے نکلنے والے ہمارے دریاؤں پر 65 سے زائد ڈیمز بنا رکھے ہیں، تاکہ ہمارے ملک کا پانی روک کر اسے بنجر اور ویران کر دیا جائے۔ وہ تو تجارت کی آڑ میں ہماری معیشت تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے، مظلوم کشمیری مسلمان 65 سال سے زائد عرصہ سے بھارت کی غلامی میں ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ اس لئے کہ وہ پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں۔ کشمیری مسلمان پاکستان کو اپنا حقیقی بھائی، دوست اور اپنا وکیل سمجھتے ہیں، جو دنیا میں ان کے حق میں آواز بلند کرتا ہے۔ اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر حل ہونے تک بھارت کیساتھ کسی قسم کی تجارت کی جائے، نہ اسے پسندیدہ ملک قرار دیا جائے۔ امریکہ اور اس کے حواریوں کو بھی تحریک آزادی اور دہشت گردی میں فرق سمجھنا چاہئے، کشمیر کے عوام تو 65 سال سے اپنے حق خودارادیت کے لئے جدوجہد کرتے چلے آ رہے ہیں، اس حوالے سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادیں سب کے سامنے ہیں۔

اس حوالے سے دو ایٹمی طاقتوں کا ٹکراؤ ہوسکتا ہے، اس لئے اسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، بلکہ اسے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جائے اور ہم یہ مسئلہ اقوام متحدہ میں لے کر نہیں گئے تھے بلکہ اسے بھارت کے وزیراعظم پنڈت نہرو سلامتی کونسل میں لے کر گئے تھے، جہاں انہوں نے کشمریوں کے حق رائے دہی کو تسلیم کیا تھا، مگر پھر اپنے عہد سے انحراف کرگئے، ہندو اصل میں مکار اور عیار دشمن ہے، چانکیہ سیاست کے پیرو کاروں نے مسئلہ کشمیر کو 65 برس سے الجھا کر رکھا ہے، یہ انسانی تاریخ کا ایک المیہ ہے، جس میں لاکھوں کشمیری شہید ہوچکے، خواتین کی بے حرمتی کی گئی اور بچوں کو مارا گیا، آج بھی وہاں کا نوجوان حق خود ارادیت کے لئے جدوجہد کر رہا ہے، یہ کوئی زمین حاصل کرنے کا مسئلہ نہیں، یہ نظریات کا مسئلہ ہے اور ہمارا ساتھ اسلامی بھائی چارے کا اٹوٹ ہے اور ہم انہیں ان کی جدوجہد میں اکیلا نہیں چھوڑ سکتے۔ ان کی سیاسی اور اخلاقی مدد کرتے رہیں گے، اس سلسلے میں ہمیں یک جہتی کشمیر کیلئے ریلیاں اور جلوس منعقد کرنے چاہئیے، جن میں مظلوم کشمیریوں کیساتھ اظہار یکجہتی کریں، انہیں احساس دلائیں کہ ہم ان کیساتھ ہیں۔

اسلام ٹائمز: تحریک طالبان نے جو مذاکرات کی پیش کش کی ہے، کیا سیاسی جماعتوں کو اس پر مثبت جواب دینا چاہیئے۔؟

بریگیڈئیر (ر) محمد یوسف: طالبان کی طرف سے مذاکرات کی پیش کش خوش آئند بات ہے، ہم تو شروع دن سے ہی مذاکرات کی ضرورت پر زور دیتے آئے ہیں۔ طالبان نے جن سیاسی جماعتوں کو مذاکرات میں ضامن بنانے کی بات کی ہے، انہیں سنجیدگی کیساتھ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے آگے بڑھنا چاہیے، اس لئے کہ طاقت کبھی بھی مسئلہ کا حل نہیں رہی، آخر کار مذاکرات کے لئے ایک میز پر بیٹھنا پڑتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں نواز لیگ کی نئی حکومت اس حوالے سے اہم کردار ادا کرسکتی ہے، جہاں تک ثالثی کا تعلق ہے تو طالبان نے جن لوگوں کو ثالث چنا ہے، انہیں دیر نہیں کرنی چاہیے، چونکہ امریکہ خطے سے نکلنے کی کوشش کر رہا ہے، اس لئے ہمیں آنے والے حالات کا ادراک کرتے ہوئے تمام اسٹیک ہولڈرز جن میں طالبان اور قبائلی جرگہ شامل ہے، سب کو اعتماد میں لینا چاہیے، ہم تو پہلے ہی کہتے رہے ہیں کہ اگر امریکہ افغان طالبان سے مذاکرات کرسکتا ہے تو ہم پاکستانی طالبان سے مذاکرات کیوں نہیں کر سکتے۔ اس سے خطے میں امن قائم ہوگا، دہشت گردی ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے، اس کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ بلوچستان کے مسئلے کا کیا حل پیش کرتے ہیں، انتخابات کے بعد بھی وہاں امن قائم نہیں ہوسکا۔؟

بریگیڈئیر (ر) محمد یوسف: بلوچستان بارود کا ڈھیر بن چکا ہے، وہاں اغوا برائے تاوان، قتل و غارت کی وارداتیں عام ہوچکی ہیں، اس لئے ضروری ہے کہ ہر کسی کے لئے وہاں سازگار ماحول پیدا کیا جائے، عدل وانصاف مہیا کئے بغیر وہاں امن قائم نہیں ہوسکتا، جب عدالت عالیہ وہاں پر کسی کو حالات خراب کرنے کا ذمہ دار قرار دیتی ہے تو پھر سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل کیوں نہیں کیا جاتا، بلوچستان میں ازسر نو ووٹوں کا اندراج کیا جائے اور تمام جماعتوں کو قومی دھارے میں لا کر انہیں آزادانہ سرگرمیاں جاری رکھنے کا موقع دیا جائے۔ کوئی نوگو ایریا نہ قائم کیا جائے، سب کو اپنے اپنے علاقے میں آنے کی کھلی اجازت دی جائے۔ اکبر بگٹی کی ہلاکت کے بعد وہاں نوجوانوں میں احساس محرومی پیدا ہوا ہے، اس لئے ان کے زخموں کا مداوا کیا جائے، جس طرح حکمرانوں نے ملی بھگت کرکے بلوچستان کے عوام کا استحصال کیا وہ ناقابل معافی ہے، وہاں عوام کو نوکریاں دی جائیں، ان کے لئے تعلیم کا حصول آسان بنایا جائے، حقوق بلوچستان پیکج کے ذریعے عوام کو دھوکہ دیا گیا، یہ صرف اشرافیہ کا فائدہ تھا، عوام پورے پانچ سال ہاتھ ملتے رہے، مگر اب بلوچستان کے عوام کو اپنی مرضی کے فیصلے کرنے دیئے جائیں۔

اسلام ٹائمز: مصر کی صورت حال پر عالمی ردعمل کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

بریگیڈئیر (ر) محمد یوسف: مصر میں فوج کی جانب سے ملک کے پہلے منتخب اسلام پسند صدر محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹنے اور آئین معطل کرنے پر عالمی رہنماؤں نے ملا جلا ردعمل دیا، بیش تر مغربی ممالک نے مصر میں فوجی بغاوت پر محتاط ردعمل دیا، جبکہ خلیجی عرب ممالک نے مصری فوج کے اقدام کا خیر مقدم کیا اور آئینی عدالت کے چیف جسٹس اور ملک کے عبوری سربراہ کو خیر مقدمی پیغامات بھجوائے، خطے کی اہم طاقت ترکی نے فوجی بغاوت کی سخت الفاظ میں مذمت کی، جبکہ ایران نے محتاط ردعمل دیا، 54 افریقی ممالک کے اتحاد افریقن یونین نے فوجی بغاوت کو غیر آئینی تبدیلی قرار دیا اور مصر کی رکنیت معطل کرنے کا عندیہ دیا، امریکہ سمیت بیشتر مغربی ممالک نے مصر میں آنے والی تبدیلی کو ’’فوجی بغاوت‘‘ قرار دینے سے گریز کیا۔ اقوام متحدہ کے سربراہ بان کی مون نے مصر کی صورت حال کو ابتر قرار دیتے ہوئے ملک میں سول حکومت کی جلد بحالی پر زور دیا ہے، انہوں نے واضح کہا کہ وہ اس وقت مصری عوام کی خواہشات کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ یورپی یونین نے بھی مصری صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا۔ مصر مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ کو ملانے والا اہم ملک ہے، اگر یہاں بھی شام جیسی بغاوت ہوتی ہے تو اس کے براہ راست اثرات فلسطینیوں پر پڑیں گے اور پورا مشرق وسطٰی جنگ کی لپیٹ میں آجائے گا۔

اسلام ٹائمز: شام میں جو کھیل کھیلا جا رہا ہے، مزارات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، اب تو آج یہ خبر ہے کہ کیمیائی ہتھیاروں سے حملہ ہوا ہے۔؟

بریگیڈئیر (ر) محمد یوسف: شام میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے، اس میں امریکہ اور اسرائیل ملوث ہیں، مزاروں پر حملے کرنے والے مسلمان نہیں، موساد اور سی آئی اے ایجنٹ ہیں، جو عربوں کے روپ میں وہاں بغاوت کو ہوا دے رہے ہیں، امریکیوں اور اسرائیلیوں کی شکلیں بھی عربوں سے ملتی ہیں، اس لئے وہ عربوں جیسا لباس پہن کر عرب ہی دکھائی دیتے ہیں، جن مزارات مقدسہ کو نشانہ بنایا گیا ہے، وہ تمام مکاتب فکر کے لئے قابل احترام ہیں، حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی حرمت و عظمت سے کون انکار کرسکتا ہے، حضرت حجر بن عدی رضی اللہ تعالٰی عنہ اور حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی عظمت سے کون انکاری ہے، یہ جو بھی گروہ شام میں بدامنی پھیلا رہے ہیں، وہ مسلمان نہیں ہیں، اس کے علاوہ جہاں تک کیمیائی ہتھیاروں کے حملے کی بات ہے تو شامی حکومت نے واضح کہا ہے کہ اس نے یہ حرکت نہیں کی، اس کا مطلب ہے کہ اسرائیلی ڈرونز کے ذریعے یہ کیمیائی ہتھیار وہاں گرائے گئے اور بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنایا گیا، اس حوالے سے عالمی برداری کو بالخصوص اقوام متحدہ کو غیر جانبداری کیساتھ شام کا مسئلہ حل کرنا چاہئے، اس کے علاوہ میڈیا کو بھی کردار ادا کرنا ہوگا کیونکہ یہ میڈیا کا دور ہے اور اس میں میڈیا کے اہمیت سے انکار ممکن نہیں، اب میڈیا میں شام کا ایشو ٹھنڈا کر دیا گیا ہے، کیونکہ مغربی ذرائع ابلاغ یہودیوں کے کنٹرول میں ہیں، اس لئے ان کے مفادات کی ہی خبریں نشر اور شائع کی جاتی ہیں اس حوالے سے مسلم امہ میں بیداری ضروری ہے اور مسلم میڈیا کو کوئی بھی خبر تحقیق کرکے ہی نشر یا شائع کرنی چاہئے۔


خبر کا کوڈ: 295269

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/interview/295269/دہشتگردی-ہمارا-سب-سے-بڑا-مسئلہ-اس-کیخلاف-مشترکہ-لائحہ-عمل-اختیار-کرنیکی-ضرورت-ہے-بریگیڈئیر-ر-محمد-یوسف

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org