0
Friday 30 Aug 2013 08:57

مہذب ہونیکا دم بھرنے والے مغربی ممالک کے چہروں کے پیچھے سفاک آدم خور چھپے ہوئے ہیں، ایم جے لون

مہذب ہونیکا دم بھرنے والے مغربی ممالک کے چہروں کے پیچھے سفاک آدم خور چھپے ہوئے ہیں، ایم جے لون
قلمکار و سینئر صحافی محمد جعفر لون مقبوضہ کشمیر کے کثیر شیعہ آبادی والے ضلع بڈگام کے قلب میں رہتے ہیں، آپ ضلع بڈگام کی اہم علمی و فلاحی شخصیت ہیں، ابتداء زندگی سے ہی آپ قلم آزمائی کرتے چلے آئے ہیں جس کے باعث مقامی و بین الاقوامی اخبارات میں آپ کے ہزاروں کالم شائع ہو چکے ہیں، مقامی اخبارات میں آپ کے ہفتہ وار مضامین تسلسل سے پبلش ہو رہے ہیں، ضلع بڈگام کے سیاسی، سماجی، فلاحی و ترقیاتی امور کے حل اور ان مسائل کو متعلقہ حکام تک پہنچانے کے لئے وجود میں آنے والے تنظیم ’’سٹیزن کونسل آف بڈگام‘‘ کے آپ جنرل سیکرٹری بھی ہیں، ایم جے لون نے پاکستان کے سیاسی حالات سے واقفیت کے لئے کئی بار مملکت خداداد پاکستان کا سفر بھی کیا، عالم اسلام کی موجودہ صورتحال کے سلسلے میں ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے ایم جے لون سے ایک خصوصی نشست کے دوران انٹرویو کا اہتمام کیا جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: دین اسلام کی اہمیت، عالم اسلام کے مسائل اور انکے حل کے بارے میں آپ سے جاننا چاہیں گے۔؟
ایم جے لون: بسم اللہ الرحمن الرحیم۔۔۔اسلام ایک عظیم مذہب ہے اور خود قرآن نے تذکرہ کیا ہے اور اسلام نے تمام معاملات میں اتحاد اور وحدت کی فکری یگانگت کو ترجیح دی ہے، لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کہ پورا عالمی اسلام بکھرا ہوا ہے، ٹوٹا ہوا ہے، ٹُکڑوں میں بٹا ہوا ہے، نئی نئی کہانیاں، نئے نئے نظریات، نئے نئے مقاصد وجود میں آ رہے ہیں، کن کے اشاروں پر یہ سب ہو رہا ہے اظہر من الشمس حقیقت ہے، جو ذی حس و باشعور افراد ہیں وہ جانتے ہیں کہ کہاں پر ان چیزوں کی رہنمائی و پشتبانی ہو رہی ہے، ان کی معاونت کہاں سے ہو رہی ہے، اسلام کے نام پر اسلام کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں، نتیجے کے طور پر پورا عالم اسلام، پوری مسلم مملکت و امت ایک بھنور اور مشکل میں آ گئی ہے، ان تمام مسائل کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے، مسلم رہنماوں اور خاص طور پر مذہبی لیڈران کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہونا چاہیئے، اور یہ احساس کرنا چاہیئے کہ پوری اسلام دشمن قوتیں منظم طریقے سے اسلام پر حملہ کر رہی ہیں، مسلمانوں کے مقدسات، اقتصادیات، دینی معاملات اور مسلمانوں کی مملکتوں کو تباہ کرنا چاہتے ہیں اور کر بھی رہے ہیں، آج دنیائے اسلام میں صہیونیت، استکبار و استعمار کے ہاتھوں جو کچھ بھی ہو رہا ہے یہ صرف مسلمانوں کی قوت اور طاقت کو ختم کرنے کی منظم سازش ہے، منطم کوشش ہے اور بدقسمتی سے اس میں مسلمان کلمہ پڑنے والے ہی آلہ کار بنے ہوئے ہیں جو کافی افسوسناک ہے۔ 

اسلام ٹائمز: ان صہیونی طاقتوں اور انکے آلہ کار عناصر کی کیا ناپاک سازشیں ہیں۔؟
ایم جے لون: پاکستان کے حالات سے ہم آگاہ ہیں وہاں کوئی مسجد، امام بارگاہ، اسکول، اسپتال محفوظ نہیں ہے، منظم سازش کے تحت مسلمانوں کو علم سے محروم رکھا جا رہا ہے، اسی لئے آج کا مغرب زدہ مسلمان بالکل وحشی درندہ معلوم ہوتا ہے، ورنہ اسپتالوں پر حملہ، پولیو ڈراپس ڈالنے والوں پر حملہ، اسکولی بچوں پر حملہ اور انکے تعلیمی مراکز کو بموں سے اڑانا کہاں کی انسانیت ہے اور کون سا مذہب ہے جو اس کے اجازت دیتا ہے، آپ اسلامی ملک شام کو دیکھئے، ایسے ہی نام نہاد مسلمان چھوٹے چھوٹے بچوں کو جان سے مارتے ہیں، بے گناہوں پر گولیاں برساتے ہیں، جو کوئی سامنے آئے اس کو جان سے مارتے ہیں، چاہے وہ عورت، بچہ، بزرگ ہو یا جوان، یہ انسان خور دہشتگرد مقدسات اسلامی کی توہین کرتے ہیں، ہزاروں سال پرانی مقدس قبور کو اڑایا جا رہا ہے، اور یہ سب کچھ اسلام کے نام پر ہو رہا ہے اور اسلامی انقلاب کے نام پر ہو رہا ہے اور دین محمدی (ص) کے نفاذ کے نام پر ہو رہا ہے، آپ دیکھیں کہ محمد عربی (ص) کی اُمت کہاں سے کہاں پہنچ گئی، جو اسلام دنیا میں امن، ترقی، اخلاقیات سکھانے کے لئے رحمت بن کر اللہ تعالیٰ نے ہمارے پاس بھیجا اس کو آج کا مسلمان سمجھنے سے قاصر ہے اور کوشش بھی نہیں کرتا، آج کی دنیا میں صہیونیت کا پیش کردہ اسلام آسانی سے اپنایا جاتا ہے۔

اسلام ٹائمز: ان تشویشناک مسائل کے ہوتے ہوئے مسلمانوں کی ذمہ داری کیا بنتی ہے۔؟

ایم جے لون: اس جہالت کو دور کرنے کے لئے جدوجہد کی ضرورت ہے ایک فرد یہ نہیں کرسکتا، ایک ملک نہیں کر سکتا اس کے لئے مختلف مسلم ممالک کو مل جل کر کام کرنا پڑے گا، مل جل کے ان اداروں کو فعال کردار ادا کرنا پڑے گا، خاص کر اس میں مذہبی علماء کا بہت بڑا و اہم رول بنتا ہے تب جاکر عالمی اسلام، مسلم مملکتوں میں یہ جو بدامنی، انتشار، تضاد، آپسی دشمنی اور دوری پیدا کی گئی ہے دور ہو جائے گا، اب دیکھئے سائنسی و ٹیکنیکی میدان میں سعودی عرب میں کتنے مراکز ہیں، یہ ملک اسلامی دنیا کا اثاثہ ہے، ہمارے دینی عقائد اس سرزمین کے ساتھ وابستہ ہیں لیکن ایک کلپال، ایک ماچس بھی وہاں نہیں بن رہی ہے جو افسوس کی بات ہے، پیسہ ہے لیکن غلط استعمال ہو رہا ہے، دولت ہے لیکن فکر نہیں ہے، اب ایران میں ایک بہت بڑا کارنامہ انقلاب اسلام کی شکل میں انجام پایا، انہوں نے کم مدت میں وہ سب کچھ کر دکھایا جو نام نہاد اسلامی ممالک ہزاروں سال کے بعد بھی سوچنے سے قاصر ہیں، شاہ کے زمانے میں ایران میں اعلیٰ تعلیم کے چند ایک ادارے تھے لیکن ماشاءاللہ آج 1500 سے زائد ادارے ہیں یہ بہت بڑا کارنامہ ہے اور اس انقلاب کی بہت بڑی دَین ہے۔
 
مسلمانوں میں احساسی کمتری پیدا کردی گئی ہے کہ یہودی اور کافر زیادہ ذہین ہیں، کامیابی، پیشرفت اور ترقی و ٹیکنالوجی صرف استکبار کا حق ہے، علماء اسلام کو شہید کرنا، سائنسدان حضرات کا قتل عام اور مسلم ممالک میں فوجی مداخلت اس سازش کی ایک کڑی تھی، لیکن اس کے باوجود اسلام کے حقیقی ماننے والے مرعوب ہوئے بغیر آگے بڑھتے گئے اور کامیابی ان کا مقدر بن گئی، ایک نعرہ جو انقلاب اسلامی ایران کے بانی نے دیا تھا کہ ’’نہ مشرق نہ مغرب اسلام بس اسلام‘‘، امام راحل (رہ) نے مشرق و مغرب دونوں سے بیزاری اختیار کرکے صرف یہ کہا کہ ہماری Ideology اور ہماری سیاسی فکر جو کچھ بھی ہے وہ اسلام ہے، تو دنیا جانتی ہے انقلاب اسلامی ایران کے پاس جو سرمایہ ہے وہ اسلام ہے، صہیونیت، استکبار و استعمار اگر خوف زدہ ہیں تو اسی اسلامی فکر، اسلامی ایڈیالوجی سے وہ اگر ڈرتے ہیں تو خمینی کی Ideology سے ڈرتے ہیں۔ اس فکر کو ختم یا محدود کرنے کرنے کے لئے ایرانی دانشور کو مارا گیا، بڑے بڑے Scholar قوم سے الگ کئے گئے، صدام کو ایران کے خلاف تیار کیا گیا انہوں نے جنگ ٹھوس دی، اس کے بعد انہوں نے سلفیوں و تکفیریوں کو ایران کی راہ دکھائی لیکن ان کی ہر ناپاک سازش ناکام ہوتی گئی۔

جہاں تک میرا ماننا ہے میں کہتا ہوں کہ ہر دانشور مسلمان و انسان کا فرض ہے کہ وہ کوشش کرے کہ ایرانی انقلاب کو سمجھے، انقلاب اسلامی ایران کو خود پڑہیں، یہ انقلاب امن کا پیغام ہے، عالم اسلام کے بقاء کی ضمانت ہے، یہ انسانیت کے لئے رحمت ہے کسی کو ڈرنا نہیں چاہیئے اور کوئی اس انقلاب کے سایے میں غیر محفوظ نہیں ہے، اگر دنیا کے لوگ محفوظ ہیں تو صرف اسلام کے سایے میں، دنیا نے دیکھ لیا کہ وہ سوشیلزم، کیپٹلزم و کیمونیزم کی چھتر چھایا میں محفوظ نہیں ہے، وہ دیکھ رہے ہیں کہ مغربی میں کیا ہو رہا ہے، انہوں نے عورت کو کہاں سے کہاں پہنچایا، انسان کو کتنا برباد و تباہ کر دیا، کوئی معاشرہ ان طاقتوں کے شر سے محفوظ نہیں رہا۔

اسلام ٹائمز: کیوں مغربی طاقتیں حقوق انسانی کی دھجیاں اڑا کر عالم اسلام کے سکون کو ٹہس نہس کررہے ہیں۔؟
ایم جے لون: جب ایک کم ظرف گھمنڈی مغرور طاقت اور توانائی حاصل کرلیتا ہے، تو ایک دم رعونت اور فرعونیت جنم لیتی ہے، فطری طور پر اس رعونت سے باقی دنیا میں مایوسی اور بے زاری کی لہر اٹھتی ہے، رعونت اور فرعونیت ساری دنیا کو ہڑپ کرنے کی ٹھان لیتی ہے، انسان پر احساس برتری کا بھوت سوار ہو جاتا ہے، یہی رعونت اور فرعونیت امریکی حکمرانوں، سیاستدانوں اور پالیسی سازوں کے ذہنوں پر حاوی ہے اسی فرعونی ذہنیت کا اعلان مغربی طاقتیں بار بار کرتی ہیں، اب یہ ناگزیر اور لازمی بات ہے کہ یورپ اور ایشیاء میں کوئی ایسی طاقت نہ ابھرے جو امریکہ کو چیلنج کرسکے، امریکہ نے اپنی تمناؤں کو پورا کرنے کا ایک بہت بڑا گیم پلان شروع کیا ہوا ہے جو ہنوز شام میں جاری ہے، امریکہ نہیں چاہتا ہے کہ اسکے خلاف کوئی سر اٹھائے کوئی اسکی طاقت اور قوت کے خلاف چیلنج بن کر ابھرے، تاکہ امریکہ کی اجارہ داری اور استحصالی پالیسی برقرار رہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ چاہتا ہے کہ جوہری توانائی اور جدید ٹیکنالوجی کا حق بحق امریکہ اور اسرائیل و یورپ محفوظ رہے، جوہری توانائی ہو یا جدید علوم اور ٹیکنالوجی، تعمیر ترقی، اقتصادی برتری، سیاسی بالادستی امریکہ اور اسکے اتحادیوں کے پاس محفوظ رہے، لہذا دوسرے ملکوں خاص کر مسلمانوں کو جوہری ٹیکنالوجی حاصل کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ 

اسلام ٹائمز: کیوں ترقی و پیشرفت کے لئے مسلم امت کو روکا جا رہا ہے اور ہر آئے دن ان پر نئی پابندیاں عائد ہوتی ہیں جب کہ مغرب نے اپنی عنایت کا دروازہ اپنی ناجائز اولاد کے لئے کھول رکھا ہے۔؟
ایم جے لون: امریکہ اور اسکے چند حواریوں کا دعوا ہے کہ ہم مہذب، امن پسند، ذمہ دار، روشن فکر، مساوات اور حقوق انسانی کے علمبردار ہیں، حالانکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد نیوکلیائی دوڑ دنیا میں شروع ہو گئی، نتیجہ کے طور گذشتہ صدی کے دوسرے نصف میں دنیا کے درجن بھر ممالک اس ٹیکنالوجی اور توانائی کے مالک بن گئے، جنہوں نے اس ٹیکنالوجی کا غلط استعمال کر کے ایٹم بم، ہائیڈروجن بم اور دیگر مہلک ہتھیار تیار کئے، اس طرح اپنے آپ کو طاقتور اور توانا بنایا اور اب اسی طاقت اور توانائی سے کمزور، محکوم مظلوم پسماندہ اقوام اور ملکوں کو ڈرا دھمکا رہے ہیں، ہونا یہ چاہیئے تھا کہ اس ٹیکنالوجی کو انسانیت کی بقاء کے لئے استعمال کیا جاتا، مگر اسکو انسانیت کی نابودی اور کمزور اقوام کو دبانے ڈرانے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے، نصف صدی سے یہ ممالک اس ٹیکنالوجی پر اجارہ داری قائم کئے ہوئے ہیں۔ اسرائیل کھلے عام انسانی حقوق کی دھجیاں اڑا رہا ہے، کوئی سزا دینے کی بات نہیں کر رہا ہے، ہاں اگر سزا مل رہی ہے تو مقاوم شام کو، غیور ایرانی عوام کو، مظلوم فلسطینیوں کو اور محکوم افغانیوں و عراقیوں کو، کیونکہ یہ سب مسلمان ہیں۔

اسرائیل اپنی جارحیت کے دوام کے لئے تمام مہلک ہتھیار سے لیس ہوتا جائے مغربی ممالک اسے ہر طریقے سے معاونت کریں اور ایران گذشتہ بیس سال سے چلا چلا کر کہہ رہا ہے کہ ہمارا جوہری منصوبہ بھی پرامن مقاصد کے لئے ہے مگر عالمی اجارہ دار یقین کرنے کے لئے بالکل بھی تیار نہیں ہیں، برعکس اسکے ایران گذشتہ 34 سال سے مختلف قسم کی پابندیاں جھیل رہا ہے، اسرائیل اعلانیہ ایٹمی ملک ہے، مگر نہ کبھی کسی پابندی کا اسرائیل کو سامنا کرنا پڑا نہ کسی نے اسرائیلی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے کی کبھی دھمکی دی، برعکس اسکے فرانس نے ڈیمونا جوہری پلانٹ کو ایک ٹیکسٹائل فیکٹری اور ایک پمپنگ اسٹیشن قرار دیا۔ دنیا کے بڑے ممالک جو جوہری توانائی کے ٹھیکدار ہیں جان بوجھ کر چشم پوشی کر رہے ہیں کیونکہ اسرائیل انکے لئے ایک سیٹلائیٹ اسٹیٹ کا کام انجام دے رہا ہے۔ صاف ظاہر ہے غیر مسلم ممالک کے لئے نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے حصول اور استعمال کے لئے کوئی پابندی نہیں ہے، ہاں اگر پابندی ہے تو صرف مسلمانوں کے لئے اور بس۔ 

اسلام ٹائمز: محسوس ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے اور اگر وہ آج کل جدید دور میں ترقیاتی میدان میں قسمت آمائی کریں تو انہیں مختلف مشکلات اور پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس بارے مں آپ کی رائے کیا ہے۔؟
ایم جے لون: جدید ٹیکنالوجی سے مسلمان ملکوں کو محروم رکھنے کا یہ استعماری ایجنڈا ہے تاکہ مسلمان ممالک طاقت اور توانائی حاصل نہ کرنے پائیں، مسلمان غربت اور افلاس سے نجات حاصل نہ کرنے پائیں، استحصالی ہاتھوں کو روکنے والا کوئی پیدا نہ ہو، تاکہ دھونس دباؤ جماکر مسلم ممالک سے وسائل اور دولت یہ لٹیر ے لوٹتے رہیں گے، سرمایہ داری کا بھرم رکھنے کے لئے یہ سفاک دوسروں کے گھروں سے مال و دولت چرانے میں کوئی شرم بھی محسوس نہیں کرتے ہیں، اخلاقی اور معنوی طور دیوالیہ یہ ممالک مہذب ہونے کا دم تو بھرتے ہیں مگر انکے باپردہ چہروں کے پیچھے سفاک آدم خور چھپے ہیں، یہ نام نہاد مہذب قائدین دنیا کو خطرناک ٹکراؤ کی طرف لئے جا رہے ہیں، لیکن ان کا یہ دوغلا پن اب عام لوگوں پر ظاہر ہو چکا ہے، یہی وجہ ہے کہ ان ممالک کے خلاف مصر، بحرین، شام، پاکستان، افغانستان بلکہ پورے مشرقی وسطٰی بلکہ کرہ ارض پر رہنے والے مسلمانوں کے دلوں میں نفرت روز بروز بڑھ رہی ہے۔
خبر کا کوڈ : 295725
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش