QR CodeQR Code

سعودی مفتیوں کو بے بنیاد فتووں کی مشین بند کر دینی چاہئیے، ثروت اعجاز قادری

9 Sep 2013 19:07

اسلام ٹائمز: پاکستان سنی تحریک کے سربراہ کا اسلام ٹائمز سے خصوصی انٹرویو میں کہنا تھا کہ سعودی عرب کو اپنا رویہ، اپنا طرز عمل تبدیل کرنا ہوگا، وہ جو اپنا نکتہ نظر جبری طور پر پوری اسلامی دنیا میں مسلط کرنا چاہ رہے ہیں امریکا کی سپورٹ کے ذریعے، یہ بھی قابل قبول نہیں ہے۔


جس وقت پاکستان میں اہلسنت (بریلوی) مسلک کی مساجد پر قبضوں کا سلسلہ شروع ہوا اور عقائد اہلسنت کو مسخ کرنے کی ناپاک سازشیں جنم لینے لگیں تو ایسے حالات میں بانی و قائد سنی تحریک محمد سلیم قادری شہید نے 1990ء میں رمضان المبارک کی ستائیسویں شب کو سنی تحریک کی بنیاد رکھی اور 1990ء سے 1998ء تک بطور سربراہ سنی تحریک عوام اہلسنت کی خدمت کی۔ ان کی شہادت کے بعد محمد عباس قادری کو سربراہ سنی تحریک منتخب کیا۔ 11 اپریل 2006ء کے روز جشن عید میلاد النبی (ص) بارہ ربیع الاول کے موقع پر کالعدم لشکر جھنگوی و کالعدم سپاہ صحابہ کی جانب سے دہشت گردانہ کارروائی کے نتیجے میں نشتر پارک میں ہونے والے بم دھماکے میں متعدد جید علمائے اہلسنت اور سنی تحریک کے مرکزی عہدیداران سمیت محمد عباس قادری کی شہادت کے بعد محمد ثروت اعجاز قادری کو سنی تحریک پاکستان کا سربراہ منتخب کیا گیا۔ آپ 2006ء سے لیکر تا حال اس عہدے پر اپنی ذمہ داری سرانجام دے رہے ہیں۔ آپ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ اسلام ٹائمز نے وزیراعظم کی سربراہی میں وفاقی کابینہ کا کراچی میں اہم اجلاس، کراچی بدامنی، ٹارگٹڈ آپریشن، شام میں امریکی مداخلت، عرب ممالک کی جانب سے امریکی حمایت، جہاد النکاح سمیت سمیت مختلف ایشوز پر محمد ثروت اعجاز قادری کے ساتھ پاکستان سنی تحریک کے مرکزی دفتر " مرکز اہلسنت " میں ایک خصوصی نشست کی، اس حوالے سے کیا گیا تفصیلی انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: وزیراعظم نواز شریف نے وفاقی کابینہ سمیت کراچی کا دورہ کیا، دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف آپریشن کا بھی فیصلہ کیا گیا، کیا کہیں گے اس دورے کے حوالے سے؟
محمد ثروت اعجاز قادری: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سب سے پہلے تو آپ کا شکریہ کہ آپ مرکز اہلسنت تشریف لائے۔ دوسرا یہ کہ وزیراعظم نے وفاقی کابینہ سمیت کراچی کا دورہ کیا، اس مرتبہ میٹنگ میں جو مثبت فرق نظر آیا وہ یہ تھا کہ انہوں نے ان جماعتوں کو بھی ساتھ بٹھایا جن کی اسمبلیوں یا پارلیمنٹ میں نمائندگی نہیں تھی۔ انہوں نے صرف انہیں تین جماعتوں کو ہی ساتھ نہیں بٹھایا کہ جو پچھلے گیارہ سال سے امن قائم نہیں کر سکے۔ بہرحال کراچی بدامنی کے خاتمے کیلئے ٹارگٹیڈ آپریشن کا فیصلہ تو کیا گیا مگر آپریشن سے پہلے اتنا ڈھنڈورا پیٹ دیا گیا کہ اب تک تو سارے دہشت گرد اور جرائم پیشہ عناصر کراچی چھوڑ کو اندرون ملک و بیرون ملک فرار ہو گئے ہونگے۔ بہرحال ہم یہ کہتے ہیں کہ ایکشن ہونا چاہئیے اور وہ بھی مستقل بنیادوں پرجب تک کہ کراچی سمیت ملک بھر سے دہشت گرد، بھتہ خور، جرائم پیشہ عناصر کا خاتمہ نہیں ہو جاتا۔ اب تو ملکی حساس اداروں نے ایک فہرست بھی مرتب کی ہوئی ہے، اس طرح اب دہشت گرد عناصر کو پکڑنا مسئلہ نہیں ہے۔ اگر پھر بھی کوئی مسئلہ ہے تو قانون سازی کی جا سکتی ہے۔ لیکن ہوتا اس کے برعکس ہے کہ 70 آدمی اٹھاتے ہیں دوسرے دن چھوڑ دیتے ہیں، اس سے ان افراد کے گھروں کی عزت بھی گئی، چار و چار دیواری کا تحفظ بھی گیا، کوئی قانون نہیں ہے۔ ہم یہ کہتے ہیں خلوص و سچائی کے ساتھ کر جائیں جو کرنا ہے، اتنا ڈھنڈورا نہیں پیٹیں۔ ٹارگٹڈ ایکشن ہونا چاہئیے اور وہ بھی مسلسل۔ اس کیلئے بڑی بڑی کانفرنسز، اجلاس اور اے پی سی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ صرف مشاورت کریں اور ایکشن کریں کیونکہ اگر عوام آپ کو مینڈیٹ دے چکی ہے تو پھر آپ کو کس نے روکا ہوا ہے۔

اسلام ٹائمز: وفاقی کابینہ نے کراچی بدامنی کے خاتمے کیلئے شہر بھر میں ٹارگٹڈ آپریشن کا فیصلہ کیا ہے، کیا آپ اس فیصلے سے اتفاق کرتے ہیں؟
محمد ثروت اعجاز قادری: دیکھیں ہم نے بھی یہی کہا کہ پولیس آپریشن کرے اور رینجرز اور فوج اس کے بیک اپ پر رہے، یا پولیس اور رینجرز دونوں ایکدوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے کارروائیاں کریں۔ پولیس میں صلاحیت ہے، اہلیت ہے، سب کچھ ہے۔ لیکن آپ یہ بھی دیکھیں کہ ان کے ساتھ ہوا کیا۔ پولیس کو سیاسی بنا دیا گیا ہے۔ لہٰذا پولیس میں اصلاح reforms کی ضرورت ہے، پولیس میں سیاسی بنیادوں پر بھرتیاں بند کر دیں، سیاست سے پولیس کو بالکل الگ کر دیں آزاد کر دیں پولیس کو۔ طے کر لیں کہ پولیس میں کسی کا بھی دباﺅ برداشت نہیں کیا جائے گا، حوصلہ بڑھایا جائے تو پھر پولیس اور رینجرز رزلٹ دیں گے۔ ماضی کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ جنرل نصیر اللہ بابر کے دور میں بھی پولیس نے رزلٹ دیا تھا۔

اسلام ٹائمز: ایم کیو ایم کی جانب سے کراچی میں فوج بلانے کا مطالبہ کیا گیا، کیا موجودہ صورتحال میں یہ مطالبہ صحیح ہے؟
محمد ثروت اعجاز قادری: جو لوگ گیارہ سال سے حکومت میں تھے وہ اب کراچی میں پاک فوج کو بلانے کا مطالبہ کر رہے ہیں تو انہوں نے اپنے دور میں فوج کو کیوں نہیں بلایا۔ آپ کے اپنے مطابق آپ کو حقیقی عوامی مینڈیٹ ماضی میں بھی حاصل تھا اور اب بھی ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ تبدیلی کیوں نہیں لا رہے ہیں۔ اگر پھر بھی آپ تبدیلی نہیں لا سکتے تو ایک سائیڈ پر بیٹھ جائیں اور دوسروں کو کام کرنے کا موقع دیں۔ آپ حکومت چھوڑتے نہیں ہیں، ادارے چھوڑتے نہیں ہیں صرف تنقید کرتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: نیٹو کنٹینرز کی گمشدگی کے معاملے پر آپکی نظر کیا ہے؟ حساس اداروں کی طرف سے ایک بار پھر اس قسم کا حساس نوعیت کا انکشاف ہوا ہے۔ کوئی ایکشن ہوتا بھی نظر آ رہا ہے اس حوالے سے؟
محمد ثروت اعجاز قادری: دیکھیں نیٹو کنٹینرز تو غائب ہوئے تھے، مگر بات یہ ہے کہ اتنے دنوں بعد کیوں خیال آ رہا ہے، جب غائب ہوئے تھے تو اسی وقت ایف آئی آر کاٹ کر تحقیقات شروع کر دینی چاہئے تھی۔ مگر یہ بات بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہے کہ جب کوئی آن ڈیوٹی ہوتا ہے تو اس کی بہت اہمیت ہوتی ہے، حکومت کا بھی دباﺅ ہوتا ہے۔ جیسے مشرف پر اسکے دور میں کوئی کیس نہیں بنے مگر اب کیسز کی ایک طویل لائن لگی ہوئی ہے۔ تو کیا یہ کیسز آج کے تھے، لیکن ادارے اس بات کا انتظار کر رہے تھے کہ وہ اقتدار سے الگ ہو اور وردی اتارے اور پھر اس پر کیسز بننا شروع ہوں۔ اسی طرح نیٹو کنٹینرز کی چوری کا معاملہ بھی یہی ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت وہ وفاقی وزیر بھی تھے، صوبے اور مرکز میں بھی حکومت میں تھے، طاقت تھی، بابا بھی تھے، رحمان بابا بھی تھے، ہر قسم کی حمایت حاصل تھی تو اس وقت یہ کیس نہیں شروع کیا گیا ہوگا۔

آپ کو یاد ہوگا کہ ان کے دور میں کراچی میں پی این ایس سی بلڈنگ میں دو مرتبہ آگ لگی تھی اور ان فلورز پر ان ہی سے متعلق کاغذات تھے۔ سب کچھ ملی بھگت سے ہوتا ہے۔ بہرحال آئی ایس آئی، ایم آئی، آئی بی سمیت دیگر بہت سے ایجنسیاں ہیں وہ ان تمام معاملات کی تحقیقات کریں، اس پر کمیشن بننا چاہئے۔ دیکھیں اداروں کو بھی اپنا قبلہ اب درست کرنا ہوگا۔ اداروں کو سب پتہ ہے کہ غیر ملکی آ رہے ہیں، فنڈنگ ہو رہی ہے، مگر کارروائی نہیں ہو رہی ہے۔ خبر کون دے رہا ہے، یہ ادارے دے رہے ہیں، بم دھماکوں کا کون بتا رہا ہے، جیکٹس کا کون بتا رہا ہے یہ سب ادارے بتا رہے ہیں، ماسٹر مائنڈ کا بھی ادارے بتا رہے ہیں۔ اس سے بڑی کیا بات ہوگی کہ بہارہ کہو اسلام آباد میں جو امام بارگاہ پر حملے کے دوران ایک دہشت گرد مارا گیا، وہ تو صحیح سالم ملا آپ کو، اب کیا پریشانی ہے، پہلے تو صرف سر ملتا تھا اب تو پورا بندہ مل گیا ہے، تو کیا اس کی مدد سے آپ پورے سیٹ اپ کو نہیں پکڑ سکتے۔ خدارا، اداروں کو اب سنجیدہ ہو جانا چاہئیے ملکی بقاء و سلامتی کی خاطر۔

اسلام ٹائمز: طالبان کی جانب سے ملک بھر میں دہشت گردانہ کارروائیاں جاری ہیں مگر ایک بار پھر ان سے مزاکرات کرنے اور دہشت گردوں کو معافی دینے کی باتیں ہو رہی ہیں، اس حوالے سے کیا حل پیش کرینگے؟
محمد ثروت اعجاز قادری: پہلے تو طالبان کو اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ وہ جو ملک بھر میں دہشت گردانہ کارروائیاں کر رہے ہیں وہ ختم کریں، کیونکہ طالبان دہشت گردی بھی کر رہے ہیں، بم دھماکے، خود کش حملے بھی کر رہے ہیں، قتل و غارت گری بھی کر رہے ہیں۔ طالبان جن کو نشانہ بنا رہے ہیں وہ کوئی امریکا کے اسکولز تو ہیں نہیں جو آپ ان پر دھماکے کر رہے ہیں۔ ہم لوگ کوئی امریکی باشندے تو ہیں نہیں، ہمارے پاس کوئی امریکی ویزا تو نہیں لگا ہوا ہے کہ ہم پر حملے کئے جا رہے ہیں۔ دوسری جانب ہمیں ان چالیس ہزار خون کو بھی سامنے رکھنا چاہئیے جن کا خون بہا ہے، چھ ہزار فوجی جوانوں کے خون کو بھی دیکھنا ہوگاجو آج بھی قربانی دے رہے ہیں۔ اگر طالبان کو ان جرائم و دہشت گردی کے باوجود صرف معافی دی جا رہی ہے تو پھر ملک بھر میں دہشت گردوں اور جرائم پیشہ لوگوں سے مزاکرات کریں، پھر کراچی میں بھی آپ ٹارگٹ کلرز و دیگر دہشت گردوں کو جمع کریں، ان کے ساتھ بھی مزاکرات کرکے انہیں بھی عام معافی دے دیں۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ پورے ملک میں قانون کی بالا دستی ہونی چاہئیے، طالبان دہشت گردوں سے آئین و قانون کو تسلیم کروانا چاہئیے۔ وہ جو جنگ والی بات ہے، تو اب جنگ ہونی چاہئیے، یہ سب دہشت گردی ختم ہونی چاہئیے۔

اگر یہ سب نہیں ہوگا تو دیکھیں پھر میرا ذہن بھی یہ بننا چاہئییے کہ مجھے بھی اب کراچی میں اسلحہ اٹھا کر اپنے لوگوں کا حق منوانا چاہئیے، ان کا تحفظ کرنا چاہئیے۔ لگتا ہے کہ اب مجھے بھی مزارات و مساجد و دیگر مذہبی مقامات اور اپنے لوگوں کے تحفظ کیلئے فری ہینڈ دے دینا چاہئیے کہ ٹی وی ریڈیو بیچو اور اسلحہ خریدو۔ دیکھیں یہ تصور لوگوں کے ذہنوں میں قائم ہو جائے گا، حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چاہئیے کہ جو حکومت کی رٹ کو چیلنج کریں آپ انہیں چیلنج کریں، چاہئے وہ یونیورسٹی کا طالب علم ہو یا کسی مدرسے کا۔ بہرحال اگر طالبان دہشت گرد اپنی کارروائیاں نہیں روکتے، پاکستانی آئین و قانون کو نہیں مانتے، عدلیہ کو نہیں مانتے، پارلیمنٹ کو تسلیم نہیں کرتے، یہ بات تسلیم نہیں کرتے کہ پاکستان ہمارا اپنا ملک ہے تو پھر ان سے مزاکرات کرنے کا مطلب غیر شرعی و غیر اخلاقی کاموں اور دہشت گردی و انتہاءپسندی کو فروغ دینا ہے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں اسلام کی نام لیوا اور امریکا مخالف مذہبی جماعتوں کی جانب سے اتحاد و وحدت کے ساتھ کوئی خاص پیشرفت نظر نہیں آتی، حقیقی معنوں میں اتحاد نظر نہیں آتا، اگر یہ بات صحیح ہے تو آپ کی نظر میں اس کی کیا وجہ ہے؟
محمد ثروت اعجاز قادری: اصل میں پاکستان کی سب سے بڑی بیماری ہے کہ جس میں میں بھی شامل ہوں، ہماری ساری جماعتیں بھی شامل ہیں، ہماری ساری لیڈرشپ بھی شامل ہے، وہ ہیں منافقت، حسد، بدگمانیاں۔ ان سب چیزوں نے ہمارے ملک و معاشرے کو برباد کرکے رکھ دیا ہے، ہم سچ نہ بولنے کی وجہ سے آج اس جگہ پر ہیں۔ کیا متحدہ مجلس عمل نہیں بنی تھی، کیا اسلامی نظریاتی کونسل نہیں بنی تھی، کیا ان میں تمام مکاتب فکر کے لوگ نہیں بیٹھے تھے۔ ان لوگوں کو کس نے روکا ہوا ہے، یہ کیوں کوئی منصوبہ بندی نہیں کرتے۔ حضور اکرم (ص) نے دین کی دعوت دینے سے پہلے چالیس سال لوگوں سے اپنا کردار منوایا۔ دیکھیں سب اپنے مفادات کی سیاست کر رہے ہیں، چاہے وہ مذہبی وڈیرے ہوں یا سیاسی وڈیرے، کام سب کا ایک ہی ہے۔ آپ صحیح کہہ رہے ہیں، دل دکھتا ہے اس صورتحال کو دیکھ کر۔ ہمیں تو انسانیت کا پیغام پہنچانا چاہئیے جو کہ محبت، حسن اخلاق، روا داری، برداشت جیسی خصوصیات کو اپنے اندر پیدا کئے بغیر ممکن نہیں، بتائیے کہ ہم سب میں کس کے اندر یہ خصوصیات ہیں۔ ہم نے بھی کوششیں کی ہیں، ہم بھی دلبرداشتہ ہوتے ہیں۔

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے ادارے نہیں چاہتے یہ چیزیں، ان میں ہمارے اداروں کا کوئی مفاد ہے۔ بتایا جائے کہ کون دہشت گردوں کو سپورٹ کر رہا ہے، ہم تو نہیں انہیں سپورٹ نہیں کر رہے ہیں، وہ کون سی جماعتیں ہیں کہ جن کا ان دہشت گردوں سے مفاد جڑا ہوا ہے، دیکھنا چاہئیے کہ ان دہشت گردوں سے کن کو فائدہ ہو رہا ہے۔ ایک جماعت ہے وہ کہتی ہے کہ ہمارے ان دہشت گردوں سے بڑے اچھے تعلقات ہیں، آپ کہیں تو آج میں آپ کے ان سے معاہدے کرا دوں۔ بہرحال ابھی دوبارہ کوششیں ہو رہی ہیں جیسے ماضی میں علامہ شاہ احمد نورانی مرحوم نے صدارت کی، سب کو لے کر بیٹھے، سب جماعتیں تھی۔ یہ فیصلے اکابرین کرینگے، ہم لوگ بہت چھوٹے سے لوگ ہیں۔ ہمارے سب سے تعلقات اچھے ہیں، چاہے وہ ایم ڈبلیو ایم (مجلس وحدت مسلمین) ہو، بہت سی جگہوں پر ہمیں انہوں نے سپورٹ کیا، ہم نے انہیں سپورٹ کیا۔

اسلام ٹائمز: شام پر ممکنہ امریکی حملے کے حوالے سے کیا کہیں گے؟ اہم بات یہ ہے کہ سعودی عرب سمیت عرب ممالک شام پر امریکی حملے کی نہ صرف حمایت بلکہ زور دیتے نظر آ رہے ہیں۔
محمد ثروت اعجاز قادری: ہم نے شام کے حوالے سے امریکی عزائم کی شدید شدید شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ یہ جو امریکا کا خواب ہے پوری دنیا پر قبضہ کرنے کا اب سے ختم کر دے۔ امریکا ہمیشہ اپنے مفادات کیلئے جنگ لڑتا ہے، وہ اپنے اسلحہ، بارود کو بیچنے کیلئے جنگ لڑتا ہے۔ شام میں سعودی عرب نے امریکا کی سپورٹ کی ہے۔ تو وہ جو بے غیرتی کا لبادہ اوڑھ کر بیٹھے ہوئے ہیں عرب ممالک، معذرت کے ساتھ، یہ لوگ جن کی توجہ سے شاید مسلمانوں کے اندر انقلاب آ جائے، مسلمانوں کے اندر سے بھوک ختم ہو جائے مگر یہ عرب ممالک عیاشیوں میں پڑے ہوئے ہیں، انہیں فکر نہیں ہے کہ امریکا کی سپورٹ کر رہے ہیں۔ یہ استعماری قوتیں ہیں جو پوری دنیا کو اپنے قبضے میں لینا چاہتی ہیں۔ آخر یہ جنگ صرف مصر و لبنان میں کیوں ہوتی ہے، یہ جنگ لیبیا و عراق میں ہی کیوں ہوتی ہے، یہ جنگ فلسطین و افغانستان میں ہی کیوں ہوتی ہیں اور جگہ یہ سب کیوں نہیں ہوتا، سارے کیمیائی ہتھیار مسلمان ممالک میں ہی استعمال ہوتے ہیں۔

امریکا نے عراق پر بے بنیاد جنگ مسلط کرکے وہاں خواتین و بچوں سمیت لاکھوں بے گناہ شہریوں پر بے دریغ کیمیائی ہتھیار استعمال کئے، لاکھوں لوگ کا قتل عام ہوا، مگر آج تک اقوام متحدہ سمیت کوئی بھی ادارہ بش کے خلاف تحقیقات کرنے والا نہیں ہے۔ ہمارے عرب حکمرانوں اور او آئی سی (OIC) کو تو ختم کر دینا چاہئیے، کیونکہ یہ او آئی سی جو بنی ہے یہ امریکی مفادات کے تحفظ کیلئے بنی ہے۔ شام میں دہشت گردوں کے ہاتھوں لوگ نشانہ بن رہے ہیں، اہلبیت (س) و صحابہ کرام (رض) کے مزارات مقدسہ کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ آج ہمارے حکمرانوں خصوصاَ عرب حکمرانوں اور مسلم امہ کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں کہ امریکا کسی کا بھی دوست نہیں ہے، یہود و نصاریٰ کسی کے بھی دوست نہیں ہیں۔ یہ القاعدہ، اوباما و اسامہ سب ایک ہی چیز ہیں، ان سب کا مقصد مسلم امہ پر امریکی قبضہ اور امریکی مفادات کا حصول ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ سعودی عرب کو اپنے روئیے میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے؟
محمد ثروت اعجاز قادری: دیکھیں سعودی عرب کو اپنا رویہ، اپنا طرز عمل تبدیل کرنا ہوگا، وہ جو اپنا نکتہ نظر جبری طور پر پوری اسلامی دنیا میں مسلط کرنا چاہ رہے ہیں امریکا کی سپورٹ کے ذریعے، یہ بھی قابل قبول نہیں ہے۔ آپ کے سامنے ہے کہ مصر کے حوالے سے سعودی کردار پر اور شام پر امریکی حملے کی حمایت پر سعودی عرب کو پوری دنیا میں شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ہم نے بھی اس حوالے سے سخت بیانات دیئے ہیں۔

اسلام ٹائمز: سعودی مفتیوں کی جانب سے آنے والے فتوے ” جہاد النکاح “ کے حوالے سے کیا کہیں گے؟
محمد ثروت اعجاز قادری: دیکھیں اب سعودی مفتیوں کو (بے بنیاد) فتووں کی مشین بند کر دینی چاہئیے، اسلام و امت مسلمہ کی سربلندی کیلئے کام کرنا چاہئیے۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہر چیز کا نشانہ مسلمان اور اسلامی ممالک کیوں ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سب اس لئے ہے کہ ہمارے اندر اتحاد و یکجہتی نہیں ہے، مسلمانوں کے وسائل دشمن ممالک کے مفادات کیلئے استعمال ہو رہے ہیں، لہٰذا او آئی سی جیسے امریکی مفادات کے محافظ ادارے کو ختم کرکے ایک ایسا ادارہ بنایا جائے کہ جو مسلمان ممالک و امت مسلمہ کے مفادات کا تحفظ کرسکے، یہ وقت کا لازمی تقاضہ ہے اور ہمیں اس طرف لازمی توجہ دینی ہوگی۔

لہٰذا آئیں اور تمام مسلمان ممالک کو اکٹھا کرکے اپنی ایک اسلامک نیشن بنائیں، ایک نظام، ایک کرنسی بنائیں، اسلامی بینکنگ سسٹم بنائیں، باہمی تجارت کو فروغ دیں، بجائے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ہمارا اپنا فنڈز اور قرضے فراہم کرنے کا سلسلہ ہونا چاہئیے۔ ہمیں بھی اب ایک عالمگیر اسلامک نیشن بنانا چاہئیے۔اسی میں امت مسلمہ کی ترقی و اسلام کی سربلندی ہے اور چونکہ اسلام دین انسانیت ہے اس لئے اس میں انسانیت کی ترقی ہے، عالم اسلام مضبوط ہوگا تو پوری دنیا اور تمام عالم انسانیت مضبوط ہوگا۔


خبر کا کوڈ: 299808

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/interview/299808/سعودی-مفتیوں-کو-بے-بنیاد-فتووں-کی-مشین-بند-کر-دینی-چاہئیے-ثروت-اعجاز-قادری

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org