1
0
Tuesday 24 Sep 2013 00:59
امریکہ اور اسکا ساتھ دینے والوں کا انجام بہت بھیانک ہوگا

امام خامنہ ای اور شاہ عبداللہ امت مسلمہ کو مسائل سے نجات دلا سکتے ہیں، عبداللہ گل

امام خامنہ ای اور شاہ عبداللہ امت مسلمہ کو مسائل سے نجات دلا سکتے ہیں، عبداللہ گل
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ حمید گل کے فرزند عبد اللہ گل نے ابتدائی تعلیم ایف جی سکول سے حاصل کی، نیو یارک یونیورسٹی سے بزنس میں ماسٹر کیا ہے، عبد اللہ گل اس وقت الجزیرہ کیلئے آرٹیکل لکھتے ہیں، اس کے علاوہ امریکہ سمیت جنوبی افریقی ممالک کے صحافتی اداروں کیلئے بھی آرٹیکلز لکھتے ہیں۔ عبداللہ گل میثاق ریسرچ کے نام سے ایک سینٹر بھی چلا رہے ہیں، جس کا فوکس ہاٹ ریجن ہے۔ اس میں ایران، پاکستان، کشمیر، انڈیا اور افغانستان شامل ہیں۔ عبد اللہ گل کے مطابق وہ 2007ء سے تمام یوتھ تنظیموں کے منتخب صدر بھی ہیں، اس کے علاوہ وہ محسنانانِ پاکستان فاونڈیشن ادارہ بھی چلا رہے ہیں، جس کا مقصد غیر سیاسی لوگوں کو اپنے ساتھ ملانا ہے۔ عبداللہ گل اس وقت تحریک جوانان کے صدر بھی ہیں۔ پاکستان سمیت بین الاقوامی حالات حاضرہ پر ایک خاص نقطہ نگاہ رکھتے ہیں، اسی لئے مختلف ٹی وی چینلز پر ان کے بےلاگ تبصروں کو بیحد سراہا جاتا ہے۔ ’’اسلام ٹائمز‘‘ آج عبداللہ گل سے کیے گئے انٹرویو کا دوسرا حصہ پیش کر رہا ہے، جس میں ان سے شام اور مصر میں عرب ممالک کے کردار اور امریکہ کے خطے میں مستقبل سے متعلق سوالات کئے گئے ہیں۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: شام کے حالات میں عرب ممالک کا کردار اور مصر کی جمہوری حکومت کا خاتمہ، اس پورے خطے کی صورتحال کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
عبداللہ گل: میرے خیال میں کچھ غلطیاں بشار الاسد صاحب سے بھی ہوئی ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ بشار الاسد صاحب کو اب فی الفور ایک عبوری حکومت بنانی چاہیے اور وہ جیسی بھی ہو، کیونکہ شام میں بہت خون بہا ہے۔ آپ نے بات کی کہ شام میں بیرونی مداخلت کیوں ہے، میں بتاتا ہوں کہ اصل ایشو کیا ہے، دنیا میں ہر کوئی گوادر گوادر کر رہا ہے، لیکن کبھی کسی سے یہ بھی سنا ہے کہ شام میں بھی ایک پورٹ موجود ہے جو سوئس کنال سے ہٹ کر آپ کو براہ راست رسائی دیتی ہے، وہاں سارے تیل اور گیس کے ذخائر موجود ہیں، اس کے درمیان میں عراق اور باقی ممالک حائل ہیں۔ اس لئے شام پر دنیا کی نظر ہے۔ یہ سیریا کی نئی بندر گاہ ہے جس پر امریکیوں کی نظر ہے اور سیرین گیس پر باقاعدہ جو کہ کلر لیس اور پاؤڈر لیس ہے یعنی اس گیس کی نہ کوئی بو ہوتی ہے اور نہ ہی وہ نظر آتی ہے اور یہ وہی گیس ہے جو جنرل ضیاء الحق کے طیارے میں استعمال کی گئی تھی۔ یہ ایسے ذخائر ہیں جو امریکیوں کو عراق میں نہیں ملے، وہ ان کو شام کے اندر ملے ہیں اور ابھی دہشت گردوں کو صرف شام میں اسی مقصد کے لیے مسلط کرنا چاہتے ہیں۔

جارج بش نے بالکل صحیح کہا تھا کہ یہ صلیبی جنگ ہے۔ اگر مسلمان قوم کو اب بھی نظر نہیں آ رہی تو میں ان سے کہوں گا کہ اپنی آنکھیں کھولیں۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے اکثر مسلم ممالک کا مغرب کی طرف اتنا جھکاؤ ہے کہ ہمیں شرم آتی ہے۔ مسلم حکمران مغرب کے آگے جھکے ہوئے ہیں اور ان کے عوام ان کے بالکل برعکس ہیں اور امریکہ مخالف ہیں، یعنی مغرب کی پالیسی کے سخت خلاف ہیں۔ ان معاملات میں سعودی عرب کے کردار پر سوالیہ نشان ہے اور لوگ اب کھل کر سعودی عرب کے خلاف بات کر رہے ہیں۔ پہلی دفعہ پاکستانی میڈیا میں یہ بات آنا شروع ہوگئی ہے۔ او آئی سی کا اجلاس ہوا لیکن اس میں سوائے شام کے ایشو کسی اور مسئلہ کو ڈسکس تک نہیں کیا گیا۔ پھر جو کردار ہوا، اڈے دینے کی بات آئی تو شرم آنی چاہیے ایسی بات کرتے ہوئے، بہرحال شام ہمارا اسلامی بھائی ہے۔ بھائیوں کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کرتے۔ میں گزارش کروں گا، آیت اللہ امام خامنہ ای سے اور سعودی بادشاہ شاہ عبداللہ سے کہ وہ شام اور مسلمان ممالک کے مسائل کا حل نکالیں۔ یہ عمر اور تجربہ کے اس حصے میں ہیں کہ مسلمان ممالک کو مسائل کے گرادب سے نکال سکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: اگر مان لیا جائے کہ شام میں ایران کا معاملہ ہے تو مصر میں کیا ہے۔؟
عبداللہ گل: جب اسلامی نظام کی بات کرتے ہیں تو اخوان المسلمین آگئے اور جمہوری انداز میں آئے۔ اخوان المسلمین نے جمہوری انداز میں اسلامی شقیں ڈالنے کی کوشش کی تو بدلے میں انہیں فوجی بغاوت کی شکل میں سزا ملی۔ اصل مسئلہ ہی یہی ہے کہ اسلامی نظام کو عملی طور پر نافذ ہی نہ ہونے دیا جائے، یہ امریکہ کا ایجنڈا ہے۔

اسلام ٹائمز: میں سوال کو بدل دیتا ہے کہ دشمن تو دشمن ہے اس نے تو سازشیں کرنی ہی ہیں، لیکن مسلم ممالک کیوں ان سازشوں میں انکے ساتھی بن جاتے ہیں۔؟

عبداللہ گل: دیکھیں سعودی عرب میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ 42 علمائے کرام نے فتویٰ دے دیا ہے مصر کے حوالے سے۔ جب ظلم حد سے بڑھتا ہے تو آواز ضرور اٹھتی ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ بڑے بھائی کا کردار ادا کرے، بجائے اس کے کہ ہم ایسی بات کریں کہ جس سے دل آزاری ہو۔ ہمارے مقابلے میں ایسی طاقت ہے کہ جس کا سورج اب غروب ہونے کو ہے۔ اب امریکہ بہت کمزور ہوچکا ہے اور جو چیز کمزور ہو جاتی ہے تو اس کو لوگ چاروں طرف سے گھیر لیتے ہیں۔ آپ حوصلہ تو کریں اور دیکھیں کہ اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ امریکہ نے اگر سیریا کے اندر کوئی معاملہ کیا تو یہ جہاد انٹرنیشنل سطح پر شروع ہو جائے گا اور پوری دنیا کے جہادی ابھی بھی وہاں آہستہ آہستہ جانا شروع ہوئے ہیں، لیکن اس کے بعد یہ باقاعدہ جائیں گے۔ اگر یہ جنگ چھڑ گئی تو اس جنگ کو پھر کوئی روک نہیں سکتا اور یہ جنگ پھر تیسری جنگ عظیم کا پیش خیمہ ہوگی۔ یہ بات اب اسرائیل کو سمجھ آگئی ہے اور اس لیے اب انہوں نے بھی کانوں کو ہاتھ لگائے ہیں۔

اسلام ٹائمز: پاکستان ان مسائل کے حل کیلئے کیوں کردار ادا نہیں کر رہا۔؟
عبداللہ گل: میں پاکستان کی بات کرنا چاہوں گا کہ کیا سیریا آج وہ سیریا نہیں کہ جس کے اندر بہت زیادہ پاکستانی پائلٹس نے اپنا کردار ادا کیا تھا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ جب سیریا کی اسرائیل کے ساتھ جنگ ہوئی تھی تو اس میں پاکستانی پائلٹس نے کردار ادا کیا اور وہ ہیرو تھے۔ پاکستان کو آج کیا ہوگیا کہ وہ ایک ڈوبتی ہوئی طاقت کو سہارا دے رہا ہے۔ جس نے دنیا کی معیشت تباہ کرکے رکھ دی ہے اور دنیا پر ظلم و ستم روا رکھے ہوئے ہے، جس نے دنیا کو اپنا غلام بنا لیا ہو، جس نے دنیا میں جھوٹ کا بازار گرم کیا ہو، اور ایسے لوگ جب کمزور ہوتے ہیں تو ان کو چاروں طرف سے لوگ گھیر لیتے ہیں اور انشاءاللہ آپ دیکھیں گے کہ امریکہ کو چاروں طرف سے بہت زیادہ مشکلات ہوں گی اور نہ صرف امریکہ کے لیے بلکہ اس کا ساتھ دینے والوں کا بھی بہت بھیانک انجام ہوگا۔

اسلام ٹائمز: روس کے حالیہ کردار کو کیسے دیکھ رہے ہیں، اس سارے معاملے میں روس کے پاس کیا ایسی طاقت ہے جس سے وہ یورپ کو روک سکتا ہے۔؟

عبداللہ گل: عرب ممالک بے شک تیل کی دولت سے مالا مال ہیں۔ جنگ تو ٹل گئی ہے، لیکن اگر شام کی جنگ چھڑ گئی تو روس یورپ کو تیل دینا بند کر دے گا اور یورپ یوں ہی مر جائے گا۔ اس لیے اس وقت روس کے ساتھ آسان نہیں کہ وہ پنگا لیں۔ اگر روس کا صدر سیریا کا دورہ کر لیتا تو یہ امریکہ کے لیے ایک واضح پیغام ہوتا۔ دوسری یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جہاں پر امریکہ کو مزاحمت کا سامنا ہو، وہاں پر امریکہ کبھی بھی نہیں جاتا۔

اسلام ٹائمز: یہ کیا بات ہے کہ افغانستان میں تو القاعدہ امریکہ کیخلاف لڑ رہی ہے، لیکن شام میں وہ امریکیوں کے اتحادی ہیں۔؟
عبداللہ گل: اسامہ بن لادن کے اوپر آج تک کوئی مقدمہ ہی نہیں چلا۔ اگر ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی بات کریں تو ٹھیک ہے کہ جہاز کے لگنے کی وجہ سے گرگئے لیکن جو ورلڈ ٹریڈ کے ساتھ والی بلڈنگ نمبر 7 تھی وہ کس طرح سے گرگئی، اس پر تو کسی نے بات ہی نہیں کی، وہ کیا شرم سے گرگئی کہ دو گر رہی ہیں تو میں بھی گر جاؤں۔ یہ صرف اور صرف سارا جھوٹ تھا۔ نہ ہی اسامہ بن لادن کے اوپر کوئی مقدمہ دائر ہوا اور نہ ہی کوئی صحیح تحقیقات کی گئیں۔ سی آئی اے اور پینٹا گون کے اپنے اہداف ہیں اور ان کے اہلکار وحشی درندوں کی طرح پھر رہے ہیں۔ ان کو پتہ ہے کہ پھر ان کی روزی روٹی ختم ہو جائے گی۔ دنیا میں وہ جو پراپرٹی خرید رہے ہیں، ان کی عیاشیاں بالکل ختم ہو جائیں گی۔ کیا یہ وہی لوگ نہیں ہیں کہ جب لیبیا کے اندر ان کا ایمبسیڈر مارا گیا تو یہ وہی تھا جو کرنل قذافی کے خلاف لڑ رہا تھا۔ بس جہاں پر ان کی اپنی مرضی ہوتی ہے تو وہاں اس حادثے کو کوئی بھی نام دے دیتے ہیں اور اس کو میڈیا پر اتنا اچھالتے ہیں کہ ان کے اہداف پورے ہو جائیں۔

مصر میں ان جوانوں کو ہی لے لیں کہ جب سوشل میڈیا پر انہوں نے اپنی تحریک چلائی۔ یہ ان کی آخری کوشش ہے کہ امریکہ کسی طریقے سے اس خطے میں ایسا کام کر ڈالے کہ وہ جنگ والے معاملے سے بچ سکے۔ اب میں کہوں گا کہ امریکہ کی طاقت بالکل ختم ہوچکی ہے اور اب امریکہ کو اپنی فکر کرنی چاہیے اور امریکہ کو دیکھنا چاہیے کہ ان کے اپنے گھر کے اندر آزادی کی صدائیں بلند ہونا شروع ہوگئیں ہیں اور انشاءاللہ ہم سب اپنی زندگیوں میں امریکہ کی بے عزتی دیکھیں گے، کیونکہ ان لوگوں نے انسانیت کے اوپر ظلم کیا ہے، انہوں نے مسلمانوں سے بھی بڑھ کر انسانیت پر ظلم کے پہاڑ توڑے ہیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ تاریخ کی سب سے بڑی سپر پاور سب سے کمزور لوگوں سے شکست کھا کر اور ذلیل و رسوا ہو کر یہاں سے جا رہی ہے۔
خبر کا کوڈ : 304523
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

شاہ عبداللہ نے مسلمانوں کو اور بھی مسائل میں مبتلا کر دیا ھے۔
ہماری پیشکش