0
Wednesday 25 Sep 2013 01:23

طالبان کیخلاف فوجی آپریشن ہی پاکستان سے دہشتگردی کے خاتمے کا واحد حل ہے، مولانا شیخ حسن صلاح الدین

طالبان کیخلاف فوجی آپریشن ہی پاکستان سے دہشتگردی کے خاتمے کا واحد حل ہے، مولانا شیخ حسن صلاح الدین
حجة الاسلام و المسلمین مولانا شیخ محمد حسن صلاح الدین کا شمار پاکستان کے جید اور بزرگ علمائے کرام میں ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علماء کے حلقوں میں آپ کی شخصیت کو منفرد مقام حاصل ہے۔ آپ کی پوری زندگی جہد مسلسل سے عبارت ہے۔ آپ شہید قائد علامہ سید عارف حسین الحسینی (رہ) کے ہم جماعت بھی رہے ہیں۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی شوریٰ عالی کے سربراہ ہونے کے ساتھ ساتھ مولانا شیخ محمد حسن صلاح الدین ہئیت آئمہ مساجد و علمائے امامیہ پاکستان کے صدر بھی ہیں۔ کراچی کے علاقے جعفر طیار میں آپ کی زیر نگرانی ایک مدرسہ بنام مدرسئہ زہرا سلام اللہ علیہا بھی چل رہا ہے۔ کسی بھی اہم قومی و ملی فیصلے کیلئے آپ کی رائے کو خاص اہمیت دی جاتی ہے۔ اسلام ٹائمز نے شام میں نام نہاد جہاد، جہاد النکاح، پشاور میں گرجا گھر پر خودکش حملہ، نواز حکومت و طالبان کے مابین مذاکرات کی حیثیت جیسے موضوعات پر مولانا شیخ محمد حسن صلاح الدین کے ساتھ ایک خصوصی نشست کی، اس حوالے سے آپ سے کیا گیا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: سعودی مفتیوں کی جانب سے دیئے گئے جہاد النکاح کے بارے میں دیئے گئے فتویٰ پر کیا کہیں گے کہ جس کے تحت اسلام کے بنیادی تصور نکاح سمیت روح جہاد و اسلام کے روشن چہرے کو داغدار کرنے کی کوشش کی گئی۔؟
مولانا شیخ محمد حسن صلاح الدین: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔۔۔۔۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جہاد النکاح کا فتویٰ بھی دراصل ان متعدد فتووں میں سے ایک فتویٰ ہے جو اسلامی قواعد و ضوابط و تعلیمات کے مطابق نہیں ہیں، کیونکہ اس سے پہلے بھی متعدد بار اس قسم کے بے بنیاد فتاویٰ دیئے جاچکے ہیں، لہٰذا یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ تاریخ اسلام میں ہمیں اس قسم کے جہاد کی مثال نہیں ملتی۔ رسول اکرم (ص) کا زمانہ ہو یا خلفائے راشدین کا دور، ہمیں اس قسم کے نکاح کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ دوسری بات یہ ہے کہ شام میں کیا واقعی جہاد ہو رہا ہے کہ جس کیلئے جہاد النکاح کا فتویٰ دیا گیا۔ شام میں تو جہاد ہو ہی نہیں رہا ہے بلکہ شام میں جہاد کے نام پر دنیا کے 80 سے زائد ممالک سے آئے ہوئے بیرونی تکفیری سلفی دہشت گردوں نے شامی معصوم عوام پر دہشت گردی، ظلم و بربریت کا بازار گرم کر رکھا ہے اور خطے میں اسرائیل مخالف واحد ریاست کے خلاف ان بیرونی دہشت گرد باغیوں کو امریکہ و اسرائیل اور انکے اتحادی مغربی و عرب ممالک کی مکمل سرپرستی حاصل ہے۔
 
اس پر ان دہشت گردوں کا دعویٰ ہے کہ وہ شام میں اسلامی حکومت کے قیام کیلئے لڑ رہے ہیں، تو کیا جن ممالک سے، خصوصاً جن عرب ممالک سے ان دہشت گردوں کو شام میں لایا گیا ہے، کیا ان عرب ممالک میں یہ دہشت گرد اسلامی حکومت نافذ کرچکے ہیں، کیا افغانستان میں حکومت اسلامی کا قیام عمل میں لاسکے، یہ اپنے ممالک میں پہلے اسلامی نظام نافذ کیوں نہیں کرتے۔ یہ حقیقت اب پوری دنیا پر عیاں ہوچکی ہے کہ دنیا کے 80 سے زائد ممالک سے آئے ہوئے تکفیری دہشت گرد شام کی عوام اور حکومت کے خلاف لڑ رہے ہیں، یعنی ایک طرف شامی عوام اور انکی حمایت یافتہ بشار الاسد حکومت ہے اور دوسری طرف یہ تکفیری بیرونی دہشت گرد ہیں، جنہیں امریکہ و اسرائیل کی سرپرستی حاصل ہے، دنیا جان چکی ہے کہ ان تکفیری دہشت گردوں کو شام کے اندر امریکہ اپنے مفادات کے حصول کیلئے استعمال کر رہا ہے۔ لہٰذا جب شام میں جہاد ہی نہیں ہو رہا ہے کہ تو اس جہاد النکاح کی شرعی حیثیت کیسے ہوسکتی ہے۔ لہٰذا جہاد کے نام پر لوگوں کو دھوکہ دینے کیلئے، جوانوں خصوصاً لڑکیوں کو دھوکہ دینے کیلئے بعض خدا سے ناآگاہ مفتیوں نے یہ جہاد النکاح کا فتویٰ دیا ہے، اس کی کوئی اسلامی اساس و بنیاد نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: گذشتہ روز پشاور کے ایک گرجا گھر کو تکفیری طالبان دہشت گردوں نے خودکش حملے کے ذریعے نشانہ بنایا، اس طرح کے دہشت گردانہ واقعات کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں۔؟
مولانا شیخ محمد حسن صلاح الدین: سب سے پہلے تو ہم ملت تشیع پاکستان کی جانب سے مسیحی برادری کو نشانہ بنانے کی پرزور مذمت کرتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اسلام و پاکستان دشمن طالبان تکفیری دہشت گرد عناصر کی ان دہشتگردانہ کارروائیوں کا مقصد اسلام اور مملکت عزیز پاکستان کو دنیا بھر میں بدنام کرنا ہے۔ یہ دہشت گرد شروع دن سے ہی پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی ناپاک کوششوں میں مصروف ہیں، یہ تکفیری دہشت گرد پاکستان کو ناکام ریاست بنانے کی سازشیں کر رہے ہیں اور ان تمام سازشوں میں تکفیری و طالبان دہشت گردوں کو امریکہ، اسرائیل و بھارت کی مکمل سرپرستی حاصل ہے۔ اس طرح کی کارروائیوں سے یہ لوگ اس پیغام کو دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں کہ پاکستان میں مختلف مذاہب کے لوگ ایک ساتھ امن و سکون کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ یہ تنگ نظر تکفیری طالبان دہشت گرد اپنی فکر کے مخالف ہر مذہب و مسلک کے خلاف ہیں، انہوں نے اہل تشیع، اہلسنت بریلوی مکتب فکر یہاں تک کہ دیوبندی شخصیات کو بھی نشانہ بنایا ہے۔

اسلام ٹائمز: ایک حلقے کا کہنا ہے کہ سانحہ پشاور کا مقصد طالبان کے ساتھ حکومتی مذاکرات کے عمل کو سبوتاژ کرنا ہے، اس حوالے سے آپ کی کیا رائے ہے۔؟
مولانا شیخ محمد حسن صلاح الدین: اصل میں یہ تاثر وہ لوگ دے رہے ہیں جو شروع دن سے ہی طالبان کے حامی ہیں اور حکومت سے مذاکرات کے نتیجے میں ملک میں طالبان کی اجارہ داری چاہتے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ شیعہ سنی و دیگر مکاتب فکر اور مذاہب کو نشانہ بنانے کا مقصد ملک میں فرقہ واریت پھیلانا ہے، آپس میں نفرتیں پھیلانا ہے، تاکہ ملک کی جڑوں کو کمزور کرکے اس کی سلامتی و بقاء کو نقصان پہنچایا جائے۔ مگر طالبان کے حمایتیوں نے کبھی بھی انہیں دہشت گردانہ کارروائیوں سے روکنے کی کوششیں نہیں کی۔ یہ تکفیری طالبان اصل میں مذاکرات سے نہیں بلکہ طاقت کے ذریعے پاکستان پر قابض ہونا چاہتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: آپنے کہا کہ کچھ جماعتیں طالبان کی حامی ہیں، اسی تناظر میں کہا جا رہا ہے کہ جماعت اسلامی طالبان کی ترجمانی اور دفاع شروع کرچکی ہے اور جماعت اسلامی کے سربراہ منور حسن نے ایک سیمینار میں کہا کہ طالبان کیسے سیز فائر کرسکتے ہیں جبکہ پاکستانی فوج کے حملے جاری ہیں، کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ آپ جماعت اسلامی کی طالبان حمایت پالیسی کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
مولانا شیخ محمد حسن صلاح الدین: ہم مجموعی طور پر جماعت اسلامی کے بارے میں مثبت رویہ رکھتے ہیں، بطور خاص مرحوم قاضی حسین احمد کے زمانہ، جس میں انہوں نے اصلاح اور مصالحت کے بارے میں بہت کام کیا اور ہمارے عمائدین نے بھی بہت ساتھ دیا اور اس حوالے سے ساتھ دیتے رہینگے۔ یہ ایک کلّی نظریہ ہے۔ لیکن جماعت اسلامی کے بعض موقف ہیں پاکستان کے اندر اور بیرون ملک، ان موقف کی تائید میں ہم کوئی معقول دلیل نہیں پاتے۔ لہٰذا جماعت اسلامی کے بعض موقف پر ہمارے تحفظات ہیں، جس میں سے ایک انکا طالبان کی حمایت کرنا ہے۔ جیسا کہ آپ نے کہا کہ انہوں نے بیان دیا کہ طالبان کیسے سیز فائر کرسکتے ہیں، تو دیکھیں اس حوالے سے جماعت اسلامی کا معقول موقف تو یہ ہونا چاہئیے تھا کہ دونوں طرف سے سیز فائر ہونا چاہئیے، اگر آپ واقعی مصالحت کار ہیں۔ دیکھیں یہاں طالبان اور القاعدہ کے حامی اور ہم خیال ہیں، اسلامی تعلیمات کے مطابق یہ لوگ باغی ہیں۔ میں یہ نہیں کہ سکتا کہ پاکستان میں اسلامی حکومت ہے مگر یہاں مسلمانوں کی حکومت ہے، یہاں جو بھی مال و زمین ہے، ادارے ہیں یا جو کچھ بھی ہے وہ سب مسلمانوں سے وابستہ ہے۔ پاکستان میں جتنے ادارے ہیں یہ سب مسلمانوں کے ہیں، چاہئیے وہ پولیس ہو یا فوج، ایجنسیز بھی بہرحال نظام کے مطابق مسلمانوں کی حفاظت و تحفظ کیلئے ہے۔ اب یہ اسلامی حکومت ہے یا نہیں، یہ دوسرا مسئلہ ہے مگر مسلمانوں کی حکومت تو ہے۔
 
اس طرح طالبان نے مسلمانوں کی حکومت کے خلاف بغاوت کی ہے یعنی مسلمانوں کے خلاف بغاوت کی ہے، تو یہ باغی گروہ ہے۔ لہٰذا باغیوں سے مذاکرات کے وقت یہ ہونا چاہئیے تھا کہ حکومت پہلے یہ شرط لگاتی کہ ہم طالبان سے جب مذاکرات کرینگے جب وہ ہتھیار ڈالیں گے، دہشت گردی بند کرے، یعنی کم سے کم پہلا قدم یہ ہونا چاہئے کہ طالبان اعلان کریں کہ ہم اور حملے نہیں کرینگے۔ دوسرا قدم یہ ہونا چاہئیے کہ طالبان سارا اسلحہ حکومت کے حوالے کریں۔ تو یہ طالبان کے حمایتی لوگ حکومت اور طالبان کو ایک برابر سمجھتے ہیں اور طالبان جو خودکش حملوں اور دہشت گردی کے نتیجے میں بے گناہ عوام کو نشانہ بناتے ہیں، اس میں طالبان کو حق بجانب سمجھتے ہیں۔ لہٰذا جماعت اسلامی کے طالبان حمایت کے موقف پر ہم تحفظات رکھتے ہیں۔ اسی طرح وہ شام کے حوالے سے بھی جو موقف رکھتے ہیں اس پر بھی ہمارے تحفظات ہیں، شام میں بھی وہ باغی دہشت گردوں کا ساتھ دے رہی ہے، جبکہ دنیا جانتی ہے کہ شام میں دہشت گردوں کو امریکی و سعودی سرپرستی حاصل ہے۔ دوسری جانب جماعت اسلامی امریکا اور سعودی عرب کو مصر کے مسئلے میں تنقید کا نشانہ بناتی ہے۔ 

جماعت اسلامی ایک طرف تو مصر میں عوام کی حمایت کا نعرہ لگاتی ہے مگر وہ شام اور بحرین میں کیوں عوام کی حمایت کیلئے آواز بلند نہیں کرتی۔ کیا جماعت اسلامی کو شام میں 80 سے زائد ممالک سے آنے والے بیرونی تکفیری دہشت گرد شامی عوام نظر آتے ہیں۔ کیا شام میں انہوں نے حکومت کے خلاف عوامی مظاہرے دیکھے ہیں۔ جبکہ شام میں قبائلی نظام ہے اور انکی اکثریت اہلسنت ہیں، مگر انہوں نے کبھی بشار حکومت کے خلاف مظاہرے نہیں کئے بلکہ وہ شامی حکومت کے ساتھ ہیں۔ اچھا اگر آپ مصر میں عوام کے ساتھ دے رہے ہیں تو بحرینی عوام کی حمایت میں کیوں بڑی بڑی ریلیاں نہیں نکال رہے، کیوں مہم نہیں چلا رہے ہیں۔ کیوں جماعت اسلامی بحرین میں وہاں کی نہتی عوام پر ظلم و ستم کرنے والی سعودی افواج کی بحرین سے انخلاء کا مطالبہ نہیں کرتی۔

اسلام ٹائمز: تو کیا آپ سمجھتے پاکستان سے دہشتگردی کے خاتمے کیلئے طالبان کیخلاف آپریشن ہی واحد حل ہے۔؟
مولانا شیخ محمد حسن صلاح الدین: دیکھیں نظریاتی طور پر دو مسئلے ہیں، صلح یا جنگ۔ تو ہم نظریاتی طور پر صلح چاہتے ہیں۔ کسی صورت میں بھی ہم جنگ نہیں چاہتے۔ حتیٰ دشمن کے ساتھ بھی ہم جنگ نہیں چاہتے۔ آپس میں معاہدہ ہو، دونوں امن و سلامتی کے ساتھ رہیں۔ ہم اصولی طور پر صلح و صفائی کے حامی ہیں۔ لیکن موجودہ صورتحال میں مسئلہ یہ ہے کہ طالبان کے ساتھ صلح اور مذاکرات ممکن ہیں یا نہیں۔ صلح تو ہونا چاہئیے مگر مذاکرات کے ذریعے یا طاقت کے استعمال سے۔ کئی دہائیوں سے طالبان کی دہشت گردی و بربریت، انکی وحشی گری اور اقدامات جو سب کے سامنے ہیں، انکی روشنی میں، میں سمجھتا ہوں کہ طالبان مذاکرات کے اہل ہی نہیں ہیں، کیونکہ انکی منطق طاقت، دہشت گردی، خودکش حملے، بم دھماکے ہیں۔ لہٰذا یہ لوگ مذاکرات کے اہل نہیں بلکہ ان کے خلاف بھرپور طاقت کا استعمال کرنا چاہئیے۔ 

یہ بالکل وہی مسئلہ ہے کہ جو فلسطین اور صیہونیوں کے درمیان کا مسئلہ ہے۔ فلسطین میں بھی اب صلح کی کوئی گنجائش نہیں ہے، کئی دہائیوں سے وہاں بھی مزاکرات کا سلسلہ جاری ہے مگر وہاں بھی مزاکرات سے ابھی تک سوائے نقصان کے کچھ نہیں ملا۔ وہاں بھی صیہونیوں کی منطق طاقت ہے کہ جس کے ذریعے وہ اپنی مرضی مسلط کرنا چاہئیے ہیں اور جیسا کہ انہوں نے وہاں اپنی مرضی غاضب حکومت کی صورت میں مسلط کی ہوئی ہے اور بالکل ایسی ہی پاکستان میں طالبان کی منطق بھی ہے یعنی طاقت، زور زبردستی۔ اگر یہ لوگ اہل منطق ہوتے تو ان کے مقابل بھی منطق سے بات کی جاتی، دلیل کے مقابلے میں دلیل سے بات کی جاتی۔ مگر پاکستان میں طالبان طاقت کا استعمال کر رہے ہیں اور حکومت سر سر اور مذاکرات کی رٹ لگائے ہوئی ہے۔ آپ نے دیکھا کہ جیسے ہی مذاکرات شروع کرنے کی بات کی، طالبان نے بجائے دہشت گردی روکنے کے خودکش حملوں کا سلسلہ شروع کر دیا، عوام، افواج اور اب مسیحی برادری کو نشانہ بنایا گیا۔ تو طالبان طاقت کے استعمال کے قائل ہیں، یہ لوگ مذاکرات کے اہل نہیں ہیں۔
 
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ یہ دہشت گرد تکفیری طالبان قاتل ہیں، جنکے ہاتھ ہزاروں بے گناہ معصوم پاکستانی عوام کے خون سے رنگے ہوئے ہیں، تو اسلامی نکتہ نظر سے قاتل کا حکم ہے قصاص یعنی قاتل کو قتل کیا جائے۔ کیا حکومت مذاکرات کے نتیجے میں ان قاتلوں کو چھوڑنا چاہتی ہے یا ان قاتلوں کو سزا دینا چاہتی ہے۔ اب یہ تو ظاہر سی بات ہے کہ طالبان اپنے آپ کو تو قتل کرنے کی اجازت نہیں دینگے، بلکہ طالبان کی جانب سے تو ایک جگہ یہ شرط بھی سامنے آئی ہے کہ ان کے تمام قیدیوں کو رہا کیا جائے۔ اب یہاں قصاص کی بات تو ختم ہوگئی ہے، تو ان ہزاروں لوگوں کے خون کا حساب کون لے گا، کون اس بات کا جواب دیگا۔ شریعت کے مطابق مقتولین کے اہل خانہ کی رضائیت کے بغیر آپ کون ہوتے ہیں کہ ان دہشت گرد طالبان کو معاف کر دیں۔ اب مشکل یہ ہے کہ اگر معاف نہ کریں تو ظاہر ہے مذاکرات ختم ہیں اور اگر معاف کرینگے تو یہ اسلام کے حکم کے خلاف ہوگا، چونکہ طالبان مذاکرات کے دوران بھی دہشت گردی سے باز نہیں آرہے ہیں تو اس لئے طالبان دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن ہی پاکستان سے دہشت گردی کے خاتمے کا واحد حل ہے اور پوری قوم اس معاملے میں حکومت و افواج پاکستان کے ساتھ ہے۔
خبر کا کوڈ : 305055
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش