0
Saturday 28 Sep 2013 20:20

طالبان کو ایک مرتبہ پھر پارا چنار میں بسانے کی ریاستی کوشش کی جا رہی ہے، شبیر ساجدی

طالبان کو ایک مرتبہ پھر پارا چنار میں بسانے کی ریاستی کوشش کی جا رہی ہے، شبیر ساجدی
شبیر حسین ساجدی کا بنیادی تعلق پارا چنار کے علاقہ کڑمان سے ہے۔ آپ زمانہ طالب علمی میں امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے وابستہ رہے، پہلے پارا چنار یونٹ میں ذمہ داری ادا کی، ملتان ڈویژن کے مسئول بھی رہے۔ علاوہ ازیں آئی ایس او پاکستان کے مرکزی نائب صدر کی حیثیت سے بھی فرائض سرانجام دیئے۔ شبیر ساجدی صاحب ایک تنظیمی شخص ہیں، اور ملت کی فلاح بہبود کیلئے بھی مختلف مواقع پر خدمات پیش کرتے رہے ہیں، آپ سابق سینیٹر علامہ سید محمد جواد ہادی صاحب کے زیر سرپرستی چلنے والے ’’اسلامیہ‘‘ سکول سسٹم کے ایم ڈی بھی ہیں، ساجدی صاحب یوتھ آف پارا چنار میں بھی خاصے فعال رہے ہیں، جبکہ آج کل اس کے علاوہ مجلس وحدت مسلمین پارا چنار کے آرگنائزر کی حیثیت سے ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے شبیر حسین ساجدی کیساتھ پارا چنار کی صورتحال کے حوالے سے ایک انٹرویو کا اہتمام کیا۔ جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔ (ادارہ) 

اسلام ٹائمز: پارا چنار میں رمضان المبارک میں ہونے والے دھماکوں کے بعد عوام نے سکیورٹی مقامی رضا کاروں اور لیویز کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تھا، پارا چنار کی موجودہ سکیورٹی سے عوام کس حد تک مطمئن ہیں اور پولیٹیکل انتظامیہ کا اس حوالے سے کردار کیسا ہے۔؟
شبیر حسین ساجدی: ان دھماکوں کے بعد ہم نے واضح کردیا تھا کہ یہ کوئی سکیورٹی لیپ نہیں ہے بلکہ اس سانحہ میں سکیورٹی ایجنسیاں ملوث ہیں، کیونکہ آج بچہ بچہ یہ جان چکا ہے کہ اس وقت یہ لوگ جو افراتفری پھیلا رہے تھے، یہ ان کا سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پارا چنار میں ہم طالبان، وہابیوں وغیرہ سے اتنا خوف نہیں ہیں، کیونکہ ہم اپنی حفاظت خود کرسکتے ہیں، لیکن چونکہ پارا چنار میں فوج، انتظامیہ اور ایف سی نے یہ ذمہ لیا تھا کہ ہم آپ کو تحفظ فراہم کریں گے۔ محاصرہ کے دوران ہم نے چار سال تک اپنے علاقہ کی سکیورٹی خود سنبھالی تو کوئی بھی دہشتگردی کا واقعہ پیش نہیں آیا۔ جب سے حکومت نے سکیورٹی سنبھالی تو ہم سمجھتے ہیں کہ کسی بھی وقت کوئی واقعہ پیش آ سکتا ہے۔ جس دن دھماکہ ہوتا ہے اس سے قبل یہ سکیورٹی لوز کر دیتے ہیں اور جب یہ صورتحال ہوتی ہے تو بچے بچے کو یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ آج کچھ نہ کچھ ہونے والا ہے۔ لہذا ایسی صورتحال میں ہم خود کو محفوظ نہیں سمجھتے۔ اس کے علاوہ جو سکیورٹی کی صورتحال خیبر پختونخوا میں ہے اور خیبر پختونخوا کے شہر جتنے غیر محفوظ ہیں، اس کے تین گنا ہمارا پارا چنارشہر غیر محفوظ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب پارا چنار میں تعینات ایف سی اور دیگر افسران بھی تعصب پسند ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ایجنسیوں کے کارندے بھی اس سلسلے میں ملوث ہیں۔ اس وجہ سے ہم خود کو محفوظ نہیں سمجھتے۔

اسلام ٹائمز: جب پارا چنار کے عمائدین اور مذہبی رہنماوں کی جانب سے سکیورٹی ایجنسیوں پر عدم اعتماد کا اظہار کیا جاتا ہے تو کیا پارا چنار کی سکیورٹی مقامی افراد کے حوالے کرنے کیلئے مقامی رہنماوں نے کوئی اقدامات کئے ہیں۔؟
شبیر حسین ساجدی: دیکھیں، بارہا یہ مطالبہ ہوا کہ فوج کو ہٹا دیں اور سکیورٹی انتظامات ہمارے حوالے کردیں۔ لیکن اس وقت ہم ان لوگوں کے ہاتھوں یرغمال ہیں۔ کچھ عناصر ایسے ہیں جو ایسا نہیں چاہتے اور ان کیساتھ ملے ہوئے ہیں لیکن اصل بات یہ ہے کہ ہم لاکھ کوشش کر لیں ہماری آواز آگے نہیں پہنچتی، کیونکہ ہم فاٹا میں رہنے والے لوگ ہیں، مقامی لوگ آرمی والوں سے تنگ آ گئے ہیں، کہ جس طرح یہ مقامی لوگوں کیساتھ پیش آتے ہیں یا سکیورٹی والے جو سکیورٹی رسک بن گئے ہیں۔ ایسے میں مقامی تمام لوگوں کی یہ خواہش ہے کہ ہم اپنی سکیورٹی خود کریں۔ اس حوالے سے کئی مرتبہ بات بھی ہو چکی ہے لیکن انہوں نے اس بات پر کوئی توجہ ہی نہیں دی کیونکہ عام عوام کی کوئی بات مانی نہیں جاتی جبکہ جو گنے چنے چند اہم لوگ ہیں وہ شائد حکومت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہیں کر سکتے۔ اسی وجہ سے یہ مسائل ہیں۔

اسلام ٹائمز: سننے میں آیا ہے کہ گذشتہ دنوں جاوید ابراہیم پراچہ نے کرم ایجنسی کا دورہ کیا، اور دہشتگردوں کی رہائی کیلئے بھی کچھ اقدامات کئے، آپ کی معلومات کے مطابق جاوید ابراہیم پراچہ کے اس دورے کے محرکات و مقاصد کیا تھے۔؟
شبیر حسین ساجدی: جاوید ابراہیم پراچہ کو صرف میں اور آپ ہی نہیں بلکہ دنیا جانتی ہے کہ یہ طالبان، لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ کا باپ ہے، یہ کون نہیں جانتا کہ القاعدہ کے لوگ جب نکلے تو اس نے انہیں وکیل فراہم کئے، پناہ دی اور جو کچھ کر سکتا تھا اس نے کیا۔ یہ تحریک طالبان پاکستان، لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ سے باہر نہیں ہے، یہ ان کا کارندہ ہے۔ جاوید ابراہیم پراچہ کے دورہ کی طرف آنے سے پہلے میں ایک بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ نواز شریف کی حکومت آنے سے قبل جو صورتحال تھی، لوگ سمجھ گئے تھے کہ نواز شریف کی حکومت آ رہی ہے اور ان کا سعودی عرب کیساتھ سمجھوتہ ہوگیا ہے۔ وہ ملک اسحاق جو کہ دہشتگردی کے متعدد واقعات میں ملوث تھا اور اس پر سو سے زائد مقدمات قائم تھے، اس کو جیل سے نکالا گیا اور پھر وہی ملک اسحاق ان کے کام آیا۔ یہی رانا ثناءاللہ اور ن لیگ کے دیگر رہنماء اسے اپنے ساتھ پھراتے تھے۔ تو ملک اسحاق اور نواز شریف سعودی عرب جاتے ہیں اور پھر ہمارے آرمی چیف بھی وہاں گئے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ وہاں ان کا معاہدہ ہو جاتا ہے کہ اگلی حکومت آپ کی آئے گی اور آپ کو مینڈیٹ ملے گا وغیرہ وغیرہ۔ 

یہ واضح تھا کہ ایسا ہی ہو گا۔ لیکن میں یہ سمجھ نہیں پایا کہ طالبان ہمارے قاتل ہیں۔ طالبان نے نواز شریف کے کسی بندے کو نہیں مارا ہے۔ انہوں نے زیادہ تر نقصان ملت تشیع کو پہنچایا ہے۔ یہ طالبان، لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ والے ہمارے قاتل ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ ہمارا ایک بھی نمائندہ اے پی سی میں شامل نہیں ہوتا، اور یہ لوگ فیصلہ کرلیتے ہیں کہ طالبان کیساتھ مذاکرات کرنے چاہیئیں۔ یعنی انہی لوگوں سے مذاکرات کا فیصلہ کیا جاتا ہے جن کے ہاتھ ہمارے خون سے رنگین ہیں۔ ہمیں اعتماد میں لئے بغیر ان کیساتھ مذاکرات کی بات کرنا سراسر زیادتی اور ناانصافی ہے۔ کیا یہ ملک کی 8 کروڑ آبادی کو نظر انداز کرکے یہ لوگ ملک میں امن لا سکتے ہیں۔؟ آپ جو طالبان کو رہا کرتے ہیں تو کیا وہ ملک کی بقاء و سلامتی کیلئے کام کریں گے یا وہ ہمارے وکلاء، ہمارے انجیئنرز اور اہم شخصیات کو چن چن کر قتل کریں گے۔؟ جب مذاکرات کا فیصلہ ہو جاتا ہے تو جاوید پراچہ جیسے شخص کو پارا چنار جیسے علاقہ میں جیل میں بھیجنا اور حکیم اللہ محسود جیسے شخص سے ملاقات کرنا، اس سب کو ہم شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یہ جو کچھ ہو رہا ہے یہ ٹھیک نہیں ہو رہا۔ یہ سب کچھ ہمیں اعتماد میں لئے بغیر ہو رہا ہے۔ 

ہمیں جاوید ابراہیم پراچہ پر بھی اعتراض ہے اور دہشتگردوں کے جو یہ گروپس ہیں یہی ہمارے قاتل ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ نہ صرف ہمیں قتل کرنا چاہتے ہیں بلکہ ہمیں دربدر کرنا چاہتے ہیں۔ اس سارے عمل میں ہماری تمام ایجنسیاں اور حکومت بھی شامل ہے۔ ہم شائد اب دوبارہ جاوید پراچہ جیسے شخص کو پارا چنار میں داخل ہی نہ ہونے دیں۔ اس مرتبہ یہ بہت خاموشی سے پارا چنار میں داخل ہوا تھا۔ دوسری بات یہ کہ گذشتہ دنوں ڈیرہ اسماعیل خان کا واقعہ ہوا، اس کے علاوہ بنوں جیل توڑنے کا واقعہ ہوا۔ اس پس منظر میں جتنا نقصان ہمارا ہوا ہے کسی کا نہیں ہوا۔ ڈیرہ اسماعیل خان جیل کا واقعہ آپ کے سامنے ہے، جہاں چن چن کر صرف شیعوں کو ذبح کیا جاتا ہے۔ کیا جاوید ابراہیم پراچہ اس عمل میں شامل نہیں ہے۔؟ ہم حیران ہیں کہ ان ظالم دہشتگردوں کیساتھ یہ مذاکرات کی بات کر رہے ہیں۔ میرا تو پاکستان کے ہر امن پسند شہری کیلئے یہ پیغام ہے کہ وہ اٹھے اور اس طوفان کو روکنے کی کوشش کرے۔ آج عمران خان کہتا ہے کہ ان کو دفتر کھولنے کی اجازت دی جائے۔ اگر یہ اجازت دے دی گئی تو کل یہ مزید فعال ہوں گے اور اب تو اہل تشیع اور اہل سنت کو نشانہ بنا رہے ہیں، پھر یہ پاکستان کے تمام اداروں کو سبوتاژ کریں گے۔ درحقیقت پاکستان پر اس وقت نواز شریف کی شکل میں طالبان کا غلبہ ہے۔

اسلام ٹائمز: کہا جاتا ہے کہ ہر چار، پانچ سال بعد اسٹیبلشمنٹ پارا چنار کے حوالے سے کوئی منصوبہ بناتی ہے، کیا اب کوئی نیا منصوبہ بنایا جا رہا ہے ؟
شبیر حسین ساجدی: دیکھیں، جاوید پراچہ کا پارا چنار کا دورہ کرنا صرف پارا چنار کے معاملہ تک محدود نظر نہیں آتا، یہ ایجنسیوں کے لوگ ہیں، یہ ڈالرز کیلئے کام کر رہے ہیں۔ لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ چند روز قبل کور کمانڈر صاحب جو پارا چنار گئے تو اس کو میں شک کی نگاہ سے دیکھتا ہوں کہ وہ کہتے ہیں کہ آباد کاری ہوگی تو وہاں سے ہوگی جہاں مینگل قبیلہ آباد ہے۔ جبکہ ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ انہوں نے جو ہماری اراضی پر قبضہ کیا ہے اس کو چھڑوایا جائے۔ یہ وہاں جا کر کہتے ہیں کہ آباد کاری شلوزان تنگی سے شروع کریں۔ لہذا اس کو ہم بہت شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ جاوید ابراہیم پراچہ کا دورہ کرنا، اور پولیٹیکل ایجنٹ کی جانب سے اسے مکمل پروٹوکول دینا بھی خطرناک اشارہ ہے۔ سکیورٹی ایجنسیاں اور ایف سی یہ چاہتے ہیں کہ طالبان بھگوڑوں کو ایک بار پھر کرم ایجنسی میں غالب لایا جا سکے۔ ان طالبان نے ہی ہمیں تباہ و برباد کیا، لوٹا۔ مری معاہدہ کے تحت وہ لوگ آباد ہوں گے جن کا کرم ایجنسی سے مستقل کوئی تعلق ہو، تاہم یہ لوگ دوبارہ طالبان کو آباد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: آپ کی تنظیم کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری صاحب نے گذشتہ دنوں پارا چنار کا دورہ کیا تھا، اس حوالے سے مقامی لوگوں کا رسپانس کیسا تھا اور تنظیمی سیٹ اپ کے حوالے سے پارا چنار کی کیا پوزیشن ہے۔؟
شبیر حسین ساجدی:
اس وقت ہر جوان، مرد، بوڑھا، خواتین اور بچہ سب راجہ ناصر عباس کو شہید عارف الحسینی (رہ) کا جانشین سمجھتے ہیں۔ راجہ ناصر عباس جعفری کی شکل میں جو شخص ابھرا ہے، اس کو پارا چنار میں متعارف کرانے کی ضرورت نہیں تھی۔ کیونکہ پارا چنار کے عوام جانتے ہیں کہ راجہ ناصر عباس جعفری کون ہے اور وہ ان پر جان فدا کرنے کیلئے تیار ہیں۔ تنظیمی حوالے سے راجہ صاحب کا پارا چنار کا پہلا دورہ تھا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ پارا چنار کا ہر شخص ایم ڈبلیو ایم کا کارکن ہے، لیکن راجہ صاحب کا وہاں کا دورہ کرنا، وہاں کے لوگوں اور شخصیات سے ملنا، امن اور اتفاق و اتحاد کیلئے کوشش کرنا، لوگ بہت احترام سے دیکھتے ہیں، بہت قدر کرتے ہیں، لوگ دعائیں دیتے ہیں۔ اور جب سے لوگوں نے انہیں قریب سے دیکھا ہے وہ ان کے گرویدہ ہو گئے ہیں۔ البتہ جہاں تک تنظیمی حوالے سے پارا چنار کی بات کی جائے تو وہاں تنظیمیں بہت زیادہ ہو گئی ہیں لہذا وہ سب مجلس وحدت مسلمین کو اپنے لئے ایک چھتری تصور کرتے ہیں۔ وہ سب چاہتے ہیں کہ ہم ایم ڈبلیو ایم کی چھتری کے سائے تلے آ جائیں۔ ہم جتنے لوگوں سے ملے ہیں، انہیں آمادہ کیا ہے، تو ہماری کوشش بھی یہ ہے کہ پارا چنار میں ایم ڈبلیو ایم ایک چھتری نماء تنظیم ثابت ہو۔ نہ کہ یہ تنظیم بھی پارا چنار کی لوکل سیاست کی نذر ہو جائے اور مقامی سیاست میں الجھ جائے۔ پارا چنار کے لوگوں نے اگر خود کو بچانا ہے تو خود کو ایم ڈبلیو ایم سے وابستہ کرنا ہوگا۔

اسلام ٹائمز: آخر میں ''اسلام ٹائمز'' کے توسط سے کوئی پیغام دینا چاہیئں تو ہمارا فورم حاضر ہے۔
شبیر حسین ساجدی: پاکستان کی ملت تشیع، علمائے کرام، سکالرز، صحافیوں، دانشوروں، تنظیمی اور اہل علم حضرات کیلئے میرا ایک پیغام ہے کہ اس وقت ہم سو رہے ہیں، سوائے مجلس وحدت مسلمین کے قائدین کے میں نے کسی کے منہ سے مذاکرات کی مخالفت میں بات تک نہیں سنی۔ ہمیں اٹھنا ہوگا اور منوانا ہوگا کہ ہمیں کسی بھی صورت ان قاتلوں کیساتھ مذاکرات قبول نہیں ہیں۔ ان قاتلوں کو مذاکرات کے ذریعے اگر مزید فعال بنانے کی کوشش ہوتی ہے تو یہ سمجھا جائے کہ یہ ہم سے دشمنی ہے۔ ہم سب کو یک آواز ہو کر اس بےغیرت حکومت کو روکنا ہوگا۔ اگر ہم نے تاخیر کردی تو کل ہمیں اس کی کہیں زیادہ قیمت چکانا ہوگی۔ ملت مولا علی (ع) کی اس بات کو کبھی نہ بھولے کہ ''اس سے پہلے کہ دشمن تمھارے گھر کے دروازے تک پہنچے، تم نکلو اور گھر کے باہر اس کا مقابلہ کرو''۔
خبر کا کوڈ : 306241
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش