0
Saturday 19 Oct 2013 22:59
پاک ایران گیس منصوبے میں امریکی ٹانگ نہ اڑائیں

توانائی بحران نے ہماری معیشت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے، لطیف کھوسہ

توانائی بحران نے ہماری معیشت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے، لطیف کھوسہ
سردار محمد لطیف کھوسہ پنجاب کے سابق گورنر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر مرکزی رہنما ہیں۔ آپ سابق سینیٹر اور اٹارنی جنرل آف پاکستان بھی ہیں۔ سلمان تاثیر کے قتل کے بعد اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے 11 جنوری 2011ء میں لطیف کھوسہ کو پنجاب کا گورنر نامزد کر دیا۔ اس سے قبل 9 اگست 2008ء میں آپ اٹارنی جنرل تعینات ہوئے۔ آپ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے انفارمیشن ٹیکنالوجی میں مشیر بھی رہے ہیں۔ بار کی سیاست میں آپ بہت متحرک ہیں۔ 30 سال آپ کے گروپ نے ہی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور پاکستان بار ایسوسی ایشن میں حکمرانی کی۔ سردار لطیف کھوسہ تین بار ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر منتخب ہوچکے ہیں اور تین بار ہی پاکستان بار کونسل کے رکن بنے ہیں۔ ججز بحالی تحریک میں بھی لطیف کھوسہ کی خدمات نمایاں ہیں۔ موجودہ سیاسی صورت حال پر ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے ان کیساتھ ایک مختصر نشست کی، جس کا احوال قارئین کے لئے پیش ہے۔ (ادارہ)
                                      
اسلام ٹائمز: دہشتگردی کے تدارک کیلئے تمام سیاسی جماعتوں نے اے پی سی کے ذریعے حکومت کو طالبان کیساتھ مذاکرات کا مینڈیٹ دے رکھا ہے لیکن حکومت نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے، آپ کے خیال میں کیا طالبان سے مذاکرات شروع نہیں کر دینے چاہیں۔؟
سردار محمد لطیف کھوسہ: ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ اس وقت دہشت گردی ہی ہے۔ اس ناسور کو ختم کئے بغیر ملک ترقی کی جانب رواں دواں نہیں ہوسکتا، اس لئے حکمرانوں کو سنجیدہ کوششیں کرنی چاہیں۔ اے پی سی میں تمام جماعتوں نے فیصلے کا اختیار دے کر حکومت کے ہاتھ مضبوط کر دیئے ہیں، اب میاں نواز شریف جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس سلسلہ میں جلد کوئی فیصلہ کر لیں، تاکہ ملک اس دلدل سے نکل سکے۔ اس وقت پورے ملک میں لوگ چاہئے ان کا تعلق خیبر پختونخوا سے ہو یا پنجاب سے، سندھ سے ہو یا بلوچستان سے، سب ہی سہمے ہوئے ہیں۔ عوام کو اس پوزیشن سے نکالنے اور ان میں خود اعتمادی کا جذبہ بحال کرنے کیلئے حکومت کو بولڈ قدم اٹھانا ہوگا۔ حکومت کو چاہیئے کہ جو طالبان پاکستان کے آئین اور قانون کے اندر رہتے ہوئے مذکرات پر آمادہ ہوں ان کیساتھ مذاکرات شروع کر دے، تاکہ بگڑتی ہوئی صورت حال کو سنبھالا جاسکے۔ اگر ہم نے دہشت گردی کا مسئلہ حل نہ کیا تو قوم ہمیں گریبان سے پکڑے گی، اس لئے میاں نواز شریف کو ہمت کرکے جلد مذاکرات شروع کر دینے چاہئیں۔

ہماری مشرقی سرحدوں پر امن ہوگا تو مغربی سرحدوں پر کوئی دشمن سازش نہیں کرسکے گا۔ اس لئے پاکستان کو مضبوط بنانے کے لئے مذاکرات کے اونٹ کو کسی کروٹ ضرور بٹھانا پڑے گا، پیپلز پارٹی دہشت گردی کے خلاف حکومت کی مکمل حمایت کرتی ہے، اسی سے ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ قوم کو دہشت گردی سے محفوظ رکھنے کیلئے ہم نے اے پی سی میں حکومت کو مکمل اختیار سونپ دیا ہے، مگر ایسا لگتا ہے کہ حکومت اس سلسلہ میں کنفیوژن کا شکار ہے۔ وزیراعظم کو سمجھ نہیں آ رہا کہ وہ کیا کریں اور کیا نہ کریں۔ پھر آپ کے سامنے ہی ساری صورت حال ہے، جو حکومت چار ماہ کی مدت میں اپنا وزیر خارجہ، وزیر قانون اور وزیر دفاع مقرر نہیں کرسکی، وہ خارجہ اور داخلہ پالیسیاں کیا مرتب کرے گی۔ اب وزیراعظم کے سامنے چیف آف آرمی اسٹاف کی نامزدگی کا مسئلہ آگیا ہے۔ نواز شریف تین مرتبہ وزیراعظم بن چکے ہیں، انہیں میچورٹی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نئے آرمی چیف کا معاملہ جلد حل کر لینا چاہیئے۔ فوج کے ادارے کی مضبوطی ملک کی مضبوطی ہے، اس سلسلہ میں اپنی پسند نہ پسند کی بجائے ملک کے بہترین مفاد میں سینیئر افسر کو فوج کا سربراہ نامزد کر دیا جائے۔

اسلام ٹائمز: پرویز مشرف کے خلاف درج مقدمات میں ان کی ضمانتیں ہو رہی ہیں، کیا انکے ساتھ کوئی ڈیل تو نہیں ہوگئی کہ انہیں رہا کر دیا جائے، وہ ملک ہی چھوڑ جائیں گے۔؟
سردار محمد لطیف کھوسہ: پرویز مشرف کی تمام مقدمات میں ضمانت ہو جانے پر ہم کیا تبصرہ کریں یہ عدالتی فیصلہ ہے، جب اٹارنی جنرل اور حکومتی وکلا کیسوں کو کمزور انداز میں پیش کریں گے تو اس قسم کے مقدمات میں ضمانت کے امکانات روش ہو جاتے ہیں۔ چلو اگر اکبر بگٹی اور بے نظیر قتل کیس میں پرویز مشرف کی ضمانت ہوگئی ہے مگر وزیر داخلہ نثار علی خان جب اپوزیشن میں تھے تو پرویز مشرف پر آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ درج کرنے کا کہتے تھے، اب وہ خود پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ درج کیوں نہیں کراتے۔؟ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پس پردہ کوئی ڈیل ہوئی ہے، جس کے تحت امکان ہے پرویز مشرف جلد ہی دبئی روانہ ہو جائیں گے۔ حکمرانوں نے پرویز مشرف کے خلاف مقدمات چلانے کے نعرے تو بہت لگائے، مگر جب قید میں صیاد آگیا تو اسے باہر نکالنے کے عذر تلاش کرنے لگے۔ اسی لئے شائد حکومت نے عدالتوں میں ان کے خلاف سخت موقف اختیار نہیں کیا، جس کے سبب تمام مقدمات میں پرویز مشرف کی ضمانت ہوگئی۔

اسلام ٹائمز: بجلی گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرکے حکومت نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کر دی ہے، آئی ایم ایف سے معاہدہ کرتے ہوئے عوام کے حالات کو مدنظر نہیں رکھا گیا جو پہلے ہی مسائل کا شکار ہیں۔؟
سردار محمد لطیف کھوسہ: حکومتی اقدامات سے ایسا لگتا ہے کہ حکمران عوام کو نہیں آئی ایم ایف کو جوابدہ ہیں۔ اس لئے کہ آئی ایم ایف کے کہنے پر ملک میں مہنگائی کا سیلاب آگیا ہے، موجودہ حکومت عوام کو سنہرے سپنے دکھا کر اقتدار میں آئی ہے، ابھی اس کا ہنی مون پریڈ ہی ختم نہیں ہوا تھا کہ اس نے مہنگائی کے گڑھے میں لوگوں کو دھکیل دیا۔ عوام کے صبر کا پیمانہ حکومت کے ابتدائی تین ماہ میں ہی لبریز ہوچکا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کے ساتھ ہی آٹا، گھی چاول تک ہر کھانے پینے کی چیز کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ عوام پر ٹیکس لگانے کا اختیار پارلیمنٹ کا ہے لیکن حکومت پارلیمنٹ کو اعتماد میں لئے بغیر ہی ٹیکس لگائے جا رہی ہے۔ جس سے عوام کا جینا دوبھر ہوچکا ہے۔ پیپلز پارٹی ان اقدامات پر زیادہ دیر خاموش نہیں نہیں رہ سکتی۔ ہم عوام کو مہنگائی سے نجات دلانے کیلئے سٹرکوں پر آسکتے ہیں۔ اس لئے حکومت فوراً راست اقدام کرے۔

اسلام ٹائمز: آپ اب سٹرکوں پر آنے کی بات کر رہے ہیں، بلاول بھٹو زرداری نے 2018ء میں شیر کا شکار کرنے کا اعلان کیا ہے۔؟
سردار محمد لطیف کھوسہ: ہم جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کے حق میں نہیں، اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ حکومت اپنے پانچ سال پورے کرے، میں نے سٹرکوں پر آنے کی بات کی ہے حکومت گرانے کی بات نہیں کی۔ میری مراد یہ ہے کہ ہم عوام کے ساتھ مل کر عوام کے حقوق کے لئے احتجاج کرتے ہوئے آواز بلند کریں گے اور عوام کے لئے سڑکوں پر آئیں گے، حکومت چاہئے تو ایسی صورت حال نہ آنے دے اور عوام کو ریلیف فراہم کرے۔ مہنگائی کے جن کو قابو کرے اور دہشت گردی کے خاتمے میں مخلصانہ کوششیں کرے، تاکہ شہری سکھ کا سانس لے سکیں۔

اسلام ٹائمز: حکومت نے کچھ اداروں کی نجکاری کا فیصلہ کیا ہے، کیا اس اقدام سے مسائل حل ہوجائیں گے۔؟
سردار محمد لطیف کھوسہ: اداروں کی نجکاری کا فیصلہ مزدور دوست نہیں، اس لئے اس سے بے روزگاری میں اضافہ ہوگا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ادارے گھاٹے میں جا رہے ہیں تو انہیں پرائیویٹ کرنے کی بجائے ان کے شیئرز ٹرانسفر کر دیئے جائیں تو بھی بہتری آسکتی ہے۔ نجکاری کا فیصلہ حکومت کی جانب سے بندر بانٹ کے سوا کچھ نہیں۔ ہم اس حکومتی فیصلے کو تسلیم نہیں کرتے، اس لئے کہ منافع بخش اداروں کو فروخت کرنا ظلم ہے۔ دنیا بھر میں نجکاری بھی ہوتی ہے مگر ہمارے ہاں یہ صرف دوستوں کو نوازنے کے لئے ایسا کیا جاتا ہے، جو سراسر عوام اور مزدور دشمنی کے زمرے میں آتا ہے، ہم ادارے بیچنے کو ملک بیچنے کے مترادف سمجھتے ہیں، اس لئے یہ سلسلہ بند ہونا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: آپ کی حکومت کے زمانے میں نواز لیگ کو فرینڈلی اپوزیشن کے طعنے ملتے تھے، اب آپ کی جماعت وہی کردار کرتی دکھائی دیتی ہے، کیا چیئرمین نیب کا تقرر اسی سلسلے کی کڑی تو نہیں۔؟
سردار محمد لطیف کھوسہ: جو لوگ ہمیں فرینڈلی اپوزیشن کا طعنہ دیتے ہیں، کل تک یہ مسلم لیگ نون پر اسی قسم کے الزامات عائد کرتے تھے، مگر انہوں نے کھل کر اپوزیشن کی اور ہم بھی ہر معاملے میں کھل کر بحث کریں گے۔ حکومت کے منفی کاموں پر تنقید کریں گے، جبکہ مثبت کاموں کو سراہیں گے، اب تو نوے کی دہائی نہیں رہی، یہ نیا دور ہے اور نئے دور میں سیاستدانوں نے اپنے ماضی سے سبق سیکھ لیا ہے۔ جو لوگ چاہتے ہیں کہ اسمبلیوں میں ہنگامہ آرائی اور سڑکوں پر دنگا فساد ہو، انہیں منہ کی کھانا پڑے گی۔ آج میڈیا آزاد ہے، اس کی ہماری ہر سرگرمی پر نظر ہے۔ اب نورا کشتی نہیں ہوسکتی اور نہ ہی مصنوعی بحران پیدا کئے جاسکتے ہیں۔ ہم ایشوز کی سیاست کریں گے، جن ایشوز کو ہم سمجھیں گے کہ یہاں کھل کر تنقید ہوسکتی ہے، اسے کھل کر بیان کریں گے، کسی معاملے پر عوام کو بے خبر نہیں رکھیں گے۔ ہمارا کام حکومت کی اصلاح کرنا ہے اسے گرانا نہیں۔ اس لئے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ہم آہنگی کو نورا کشتی نہیں کہا جاسکتا۔ جہاں تک ہماری کارکردگی کا تعلق ہے تو پیپلز پارٹی نے اپنے دور میں بلوچستان پیکج دیا، ساتھ ساتھ اس کی روح کو بھی بحال کیا۔ آج اسی کے ثمرات سے حکمران فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ یہ پہلا موقع ہے کہ ہمارے صدر نے اختیارات وزیراعظم کو منتقل کئے ہیں۔ انہوں نے جمہوری روایات اور جمہوری کلچر کو فروغ دے کر وزیراعظم کو طاقتور بنایا ہے۔ پھر چیئرمین نیب کی تقرری حکومت اپوزیشن مشاورت کیساتھ آئینی طریقے سے ہوئی، کئی ماہ کی مشاورت کے بعد چوہدری قمر زمان چیئرمین نیب کے عہدے کے لئے نامزد کر دیئے گئے۔

اسلام ٹائمز: آپ کی حکومت ناقص کارکردگی کی بنیاد پر الیکشن میں شکست سے دوچار ہوئی، اب آپکی پارٹی بلدیاتی الیکشن میں کلین سویپ کے دعوے کر رہی ہے، یہ کیسے ممکن ہے۔؟
سردار محمدلطیف کھوسہ: پیپلز پارٹی جمہوریت پر یقین رکھتی ہے، اس جمہوریت کی بحالی اور بقا کے لئے ہمارے قائد ذوالفقار علی بھٹو پھانسی کے پھندے پر جھول گئے، اسی کی خاطر بے نظیر بھٹو نے شہادت پائی، ہم اس جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے۔ ہمیں اقتدار اور عہدوں سے زیادہ وطن کی سالمیت عزیز ہے، اس لئے ہم کبھی بھی ملک میں انتشار پیدا نہیں کریں گے۔ ہمارے سامنے شہادتوں کی طویل تاریخ پڑی ہے، جس سے ہم سبق حاصل کرتے ہیں، پی پی ملک کی سب سے بڑی اور مضبوط جماعت ہے، اسے کوئی آمر نہیں توڑ سکا۔ اس کے کارکن کو جتنا دبایا جائے یہ اتنا ہی ابھرتا ہے۔ اس لئے یہ جمہوریت پسند افراد کے دل کی دھڑکن ہے، یہ سچ ہے کہ گذشتہ ادوار میں عوام کے مسائل حل کرنے کی کوشش کی، لیکن اس میں کامیاب نہیں ہوسکے، اب ہم نے اس وقت سے سبق سیکھا ہے، اس لئے ہم دوبارہ عوام میں آگئے ہیں۔ یہ عوام ہی بہتر فیصلہ کرسکتے ہیں کہ کونسی سے جماعت انکے مفادات کا درست تحفظ کرسکتی ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ کی حکومت نے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ شروع کیا، اب موجودہ حکومت پر اس حوالے سے کافی دباؤ ہے، آپ کیا سمجھتے ہیں کہ نواز لیگ کی حکومت اس منصوبے کو مکمل کر پائے گی یا دباؤ کا شکار ہو جائے گی۔؟
سردار محمد لطیف کھوسہ: ہم نے جو بھی منصوبے شروع کئے عوامی مفاد کے منصوبے تھے۔ پاک ایران گیس منصوبے پر ہماری حکومت پر بھی شدید دباؤ تھا، امریکہ نے ہمیں بھی بہت دھمکیاں دی تھیں، لیکن صدر زرداری کو توانائی بحران کا شکار عوام عزیز تھے۔ انہوں نے تمام بیرونی دباؤ خاطر میں نہ لاتے ہوئے معاہدہ کر لیا اور منصوبے میں ایسی شرائط رکھیں کہ نئی آنے والی حکومت بھی اس سے منحرف نہ ہوسکے گی، اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ نواز لیگ کی حکومت بھی اس منصوبے کو ضرور مکمل کرے گی، کیونکہ توانائی بحران نے ہماری معیشت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے اور موجودہ حکومت یہ نہیں چاہے گی کہ مزید مسائل پیدا ہوں۔ اب نواز شریف امریکہ جا رہے ہیں، ہم تو انہیں یہی مشورہ دیں گے کہ وہ امریکیوں کو قائل کریں کہ یہ ہمارا معاملہ ہے اور اس میں امریکی ٹانگ نہ اڑائیں، نواز شریف واضح انداز میں کہیں کہ توانائی بحران نے ہماری معیشت کو دھچکا لگایا ہے اور مزید ہم اس کے متحمل نہیں ہوسکتے ہیں کہ معاشی بحران کا سامنا کریں۔ اگر الیکشن میں ہمیں دوبارہ موقع مل جاتا تو یہ منصوبہ اب تک مکمل ہوچکا ہوتا اور اس کے ثمرات بھی عوام تک پہنچ رہے ہوتے۔ پورا ملک ایرانی گیس سے استفادہ کرکے بحران سے نکل رہا ہوتا اور خوشحالی گھر گھر ہوتی۔
خبر کا کوڈ : 312414
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش