0
Sunday 20 Oct 2013 00:24
سعودی عرب کا امریکہ کو شام پر حملے کیلئے اکسانا قابل مذمت ہے

شیعہ یا سنی کے مقدسات پر حملہ کرنا اسلامی تعلیمات کے منافی ہے، مفتی ہدایت اللہ پسروری

شیعہ یا سنی کے مقدسات پر حملہ کرنا اسلامی تعلیمات کے منافی ہے، مفتی ہدایت اللہ پسروری
مفتی ہدایت اللہ پسروری 1942ء میں انڈیا کے ضلع کانگڑا میں ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام میاں غلام مصطفٰی تھا جو کہ اپنے دور کے نامور عالم دین تھے۔ 1947ء میں تقسیم ہند کے بعد سیالکوٹ کی تحصیل پسرور میں آباد ہوئے۔ ابتدائی تعلیم پسرور شہر سے حاصل کی اور آٹھویں جماعت کے بعد والد صاحب کی خواہش پر پسرور میں ہی اس وقت کے بزرگ عالم دین حافظ محمد علی پسروری سے علم دین حاصل کرنا شروع کیا۔ بعدازاں جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور میں داخلہ لیا اور فنون کی تعلیم وہاں سے حاصل کی۔ اس کے بعد جامعہ رضویہ فیصل آباد، وزیرآباد اور جامعہ انوارالعلوم ملتان، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے تعلیم حاصل کی۔ جس کے بعد 1965ء سے آپ ملتان میں دین خدا کی تبلیغ میں مصروف ہیں۔ آپ زمانہ طالب علمی سے ہی جمیعت علمائے پاکستان میں شامل تھے۔ آپ جمیعت میں مختلف ذمہ داریوں پر رہے اور آپ نے علامہ شاہ احمد نورانی کے ساتھ بھی کام کیا۔ آج کل آپ جمیعت علمائے پاکستان کے مرکزی نائب صدر ہیں۔ اسلام ٹائمز نے گذشتہ روز ملکی مجموعی صورتحال پر ان سے انٹرویو کیا، جو کہ قارئین کے پیش خدمت ہے۔ ادارہ 

اسلام ٹائمز: ملتان میں مخدوم جاوید ہاشمی کے خلاف چلنے والی تحریک تحفظ ناموس رسالت (ص) کو جاوید ہاشمی کے بیان کو واپس لینے کے بعد کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
مفتی ہدایت اللہ پسروری: تحریک تحفظ ناموس رسالت (ص) دراصل نبی اکرم کی ختم نبوت ہے جو کہ ہمارے دین اور ایمان کا حصہ ہے اور اس پر ہر مسلمان چاہے وہ نیک ہو یا گناہگار اپنی جان نثار کرنے کے لئے تیار ہے۔ کوئی باپ رسول اکرم کی شان میں گستاخی کرے تو بیٹا باپ کی جان لینے کو تیار ہوجاتا ہے اور اگر کوئی بیٹا گستاخی کرے تو باپ اپنے لخت جگر کو مارنے کے لیے آمادہ ہوجاتا ہے۔ مخدوم جاوید ہاشمی نے اسمبلی میں جو بیان دیا ہے وہ خدا جانتا ہے کہ وہ کس حالت میں تھے۔ جاوید ہاشمی کے لیے وہ دن اور لمحہ بدترین تھا اور اُن کی زندگی کا یہ سیاہ ترین کارنامہ ہے۔ جاوید ہاشمی کے بیان کے خلاف دیگر شہروں کی طرح ملتان میں بھی عاشقان رسالت نے مظاہرے کئے اور ریلیاں نکالیں۔ 

ملتان میں جب تحریک چل رہی تھی، میں اُن دنوں یہاں نہیں تھا لیکن اس تحریک میں بلااستثناء تمام مذہبی جماعتیں شامل تھیں۔ اس دوران جمعیت علمائے پاکستان کے مرکزی نائب صدر علامہ اویس نورانی ملتان تشریف لائے تو اُنہوں نے ملتان میں اپنی پریس کانفرنس کے دوران اسی نقطے پر پریس کانفرنس کی کہ رسول (ص) کی ذات پر ایمان اور عقیدہ ہمارے دین و ایمان کا حصہ ہے۔ ذاتی تعلقات چاہے کسی کے کسی سے ہوں لیکن نبی کی شان میں گستاخی کرنے والے کو معاف نہیں کیا جاسکتا۔ اگر جاوید ہاشمی کا اسی سوچ پر انتقال ہوجاتا ہے ہم سمجھیں گے کہ اُن کی آخرت تباہ ہے۔ گو کہ جاوید ہاشمی دوسرے دن تاجروں کے مظاہر میں چلے گئے اور اپنے بیان کو واپس لے لیا۔ اُنہیں چاہیے کہ قومی اسمبلی میں ایک تو خدا سے اور دوسرا پوری قوم سے غیرمشروط طور پر معافی مانگین کیونکہ یہ بہت حساس مسئلہ ہے۔ 

اسلام ٹائمز: اگر کوئی شخص اپنے ذاتی عناد اور دشمنی کی وجہ سے کسی پر جھوٹا توہین رسالت ایکٹ کا مقدمہ درج کراتا ہے تو اُس کے بارے میں کیا حکم ہے۔؟
مفتی ہدایت اللہ پسروری: آج تک ایسا کوئی کیس سامنے نہیں آیا، جس میں کسی پر جھوٹا مقدمہ درج کیا گیا ہو۔ کیونکہ اس مقدمے کے اندراج سے پہلے مکمل تحقیقات کی جاتیں ہیں، پھر جا کر ایف آئی آر درج کی جاتی ہے۔ لہذا کسی پر جھوٹا مقدمہ درج کرانا آسان نہیں ہے۔ کیونکہ یہ مقدمہ اُس وقت تک درج نہیں ہوسکتا جب تک مکمل شواہد سامنے نہ آجائیں۔ ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ 295 سی کے ایکٹ میں کسی قسم کی کوئی ترمیم نہ کی جائے، کیونکہ ترامیم کرنے سے کیس کمزور ہوجاتا ہے۔ اس ایکٹ میں ترمیم کی سازش استعماری عناصر کی ہے، جو چاہتے ہیں کہ دیگر ایکٹ کی طرح اس کو بھی کمزور بنا دیا جائے۔ 

اسلام ٹائمز: نون لیگ کی جانب سے مہنگائی کے پہاڑ اور آئی ایم ایف کے قرضوں میں اضافے سے آپ پچھلی اور موجودہ حکومت میں کیا فرق محسوس کرتے ہیں۔؟
مفتی ہدایت اللہ پسروری: ظاہراً تو ایسے ہی لگتا ہے کہ ان دونوں پارٹیوں نے آپس میں باریاں بنا رکھی ہیں۔ جن نعروں کے بل بوتے پر مسلم لیگ نون کی حکومت وجود میں آئی تھی، اُن میں سے ایک بھی پورا نہیں ہوا۔ یہ لوگ عوام کے خیرخواہ نہیں ہیں، ان کو اپنی جییں بھرنے کی فکر ہے، عوام پر مہنگائی کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔ یہ سب باتیں طے ہیں کہ ہم تمہاری باری میں تمہیں تنگ نہیں کریں گے اور تم ہمیں تنگ نہیں کرو گے۔ اسی لئے تو زرداری کا بیان بھی آیا ہے نواز شریف قدم بڑھائو ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ جب تک یہ دونوں پارٹیاں رہیں گی، پاکستان کی عوام اسی طرح کسمپرسی کا شکار رہے گی۔ 

اسلام ٹائمز: پاکستان کی ہر مذہبی جماعت اپنے آپ کو ملک کی مخلص جماعت سمجھتی ہے، یہ جماعتیں ملکی استحکام اور پاکستان کے بقاء کی خاطر باہم متحد ہوکر تیسری قوت بن کر سامنے کیوں نہیں آتیں۔؟
مفتی ہدایت اللہ پسروری: مولانا شاہ احمد نورانی نے اسی مسئلے کے پیش نظر پہلے ملی یکجہتی کونسل اور بعدازاں متحدہ مجلس عمل کی بنیاد رکھی۔ متحدہ مجلس عمل نے خیبر پختوںخوا میں حکومت بھی کی اور مرکز میں بھی پارلیمنٹیرین کی ایک بڑی تعداد موجود تھی، ایم ایم اے کی جانب سے اُس وقت حکومت پر دبائو بھی تھا۔ دشمن نے اسی طاقت سے خوفزدہ ہوکر ایم ایم اے کے اندر اختلافات ڈالنا شروع کر دیئے۔ جب تک علامہ شاہ احمد نورانی کی سوچ پروان نہیں چڑھائی جائے گی اور آپس میں متحد نہیں ہوں گے، یہ مسائل اسی طرح رہیں گے۔ عوام میں شعور ہے کہ وہ سمجھتی ہے کہ کوئی مخلص آئے لیکن خواص کی جانب سے مشکلات ہیں۔ 

اسلام ٹائمز: ان دو جماعتوں کے علاوہ تیسری جماعت پاکستان تحریک انصاف ایک طاقت بن کے سامنے آرہی تھی لیکن الیکشن میں اُسے خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی۔؟
مفتی ہدایت اللہ پسروری: پاکستان تحریک انصاف واقعی ایک بار منظر عام پر آئی، لیکن معلوم نہیں کہ وہ کون سے عوامل تھے جن کی وجہ سے کامیاب نہ ہوسکی۔ اب تحریک انصاف کو چاہیے کہ وہ خیبر پختونخوا میں عوام کی حکمرانی، عدل و انصاف، مہنگائی پر کنٹرول سمیت دہشت گردی پر کنٹرول کرے، تاکہ دیگر صوبوں کی نسبت اپنا اعتماد بناسکے اور اسلام دوست پالیسیوں کو عام کرکے ملک ترقی میں اہم کردار ادا کرے۔ مثلاً تحریک انصاف کے صدر مخدوم جاوید ہاشمی نے جو بیان دیا ہے وہ اگر سجدہ سہو بھی کرلیں لیکن وہ اپنا داغ تو نہیں دھوسکتے۔ تحریک انصاف کو بحرانوں سے اپنے آپ کو بچانا ہوگا، ورنہ آئندہ الیکشن میں مشکلات میں اضافہ ہوجائے گا۔ 

اسلام ٹائمز: کچھ عرصہ قبل عمران خان نے بیان دیا تھا کہ دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی باقاعدہ طالبان دفتر کھولا جائے، لیکن کچھ ہی دنوں بعد پشاور چرچ میں حملہ اور عید کے روز خیبر پختونخوا کے صوبائی وزیر قانون کی موت طالبان کی حمایت کا نتیجہ ہیں۔؟
مفتی ہدایت اللہ پسروری: دہشتگردی کے اس ناسور نے بہت سی جانیں لی ہیں۔ کوئی بھی شخص جو باضمیر ہے وہ ان قاتلوں کی حمایت نہیں کرسکتا، جنہوں نے مسلمان کے لیے عید کے دن بھی خون کی ہولی کھیلی، یقیناً یہ لوگ دنیا میں بھی رسوا ہوں اور آخرت میں بھی۔ عمران خان صاحب کے لیے یہ سبق ہے کہ ابھی تو دفتر بھی نہیں کھلے تو یہ صورتحال ہے اگر پاکستان میں باقاعدہ طور پر دفتر کھل گئے تو پتہ نہیں کیا ہوگا۔ اسلام اس بات کی قطعاً اجازت نہیں دیتا کہ اسلحہ کے زور پر اپنی بات منوائی جائے، اسلام تو امن اور سلامتی کا دین ہے۔ ہمارے آقا دو جہاں کی سیرت کے منافی جو بھی کام کرے گا، لعنت اور عذاب کا حقدار ہوگا۔ اُنہوں نے کہا کہ طالبان کا مقصد دین کی تبلیغ نہیں بلکہ دین کو بدنام کرنا ہے۔ یہ کہاں کا اسلام ہے کہ بچے سکول جا رہے ہیں تو حملہ کر دیں۔ مریض ہسپتال میں زیر علاج ہیں تو وہاں حملہ کر دیں۔ 

مسلمان اگر مساجد، امام بارگاہوں اور مزارات پر عبادت خدا میں مصروف ہوں تو اُن پر حملہ کر دیں۔ طالبان نے ہر سمت میں جنگ شروع کر رکھی ہے۔ مذہبی جنگ، اخلاقی جنگ، معاشی جنگ لڑ رہے ہیں پاکستان اور اسلام کے خلاف۔ جو اقلیتیں پاکستان میں موجود ہیں اُن کے جان و مال کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اگر ہم یہاں بسنے والی اقلیتوں کا تحفظ نہیں کریں گے، امریکہ و یورپ میں رہنے والے مسلمانوں کی کون حفاظت کرے گا۔ مساجد، امام بارگاہیں، مزارات، گرجا گھر، چرچ کو نقصان پہنچانا جائز نہیں ہے۔ جو لوگ ان مقدسات کی توہین کرتے ہیں، اُن کا دور تک اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
 
اسلام ٹائمز: شام میں کون سی طاقتیں ہیں جو مسلمانوں کے خلاف استعماری سازشوں کا حصہ بنی ہوئی ہیں۔؟
مفتی ہدایت اللہ پسروری: اس وقت سب کے سامنے واضح ہے کہ شامی حکومت کی مدد ایران کر رہا ہے، لیکن اس کے نتیجے میں شام میں ہونے والے قتل عام میں مسلمانوں کی موت بھی قابل افسوس ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ طاقتیں جو استعمار کی مدد کرنے کے لئے یہ کہہ رہی ہیں کہ آپ شام پر حملہ کریں، ہم سارا خرچہ کرتے ہیں، وہ بھی قابل مذمت ہیں۔ سعودی عرب کی جانب سے امریکہ کو مدد فراہم کرنا اور شام پر حملہ کرنے کا کہنا قابل مذمت ہے۔ سعودی عرب اور شام کی آپس میں لڑائی کے نتیجے میں بے گناہ مسلمانوں کی موت اسلام کے لئے نقصان دہ ہے۔ دشمن کی سازش یہی ہے کہ ایک طرف سعودی عرب کو ایران کے مقابلے میں تیار کرے، تاکہ یہ دونوں ممالک آپس میں لڑتے رہیں اور مسلمان ممالک ان دونوں طاقتوں کے زیر اثر رہ کر حالت جنگ میں رہیں اور کمزور ہوتے رہیں۔ 

اسلام ٹائمز: پاکستان میں جب کسی اہل سنت مسجد پر حملہ ہوتا تو اہل تشیع پر الزام عائد کیا جاتا ہے اور جب اہل تشیع کی مساجد اور امام بارگاہوں پر حملہ ہوتا ہے تو اسے اہل سنت پر ڈال دیا جاتا ہے، آخر ایسا کیوں ہے۔؟
مفتی ہدایت اللہ پسروری: الحمداللہ دشمن کی یہ سازش تھی کہ اس مذہبی جنگ کو گلی محلے کی جنگ بنا دیا جائے، لیکن وہ بری طرح ناکام ہوچکا ہے، کیونکہ کوئی بھی حقیقی اہل سنت کسی شیعہ مسجد یا امام بارگاہ پر حملہ نہیں کرتا اور اسی طرح کوئی بھی اہل تشیع کسی اہل سنت کی مسجد پر حملہ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ دشمن اہل سنت کی مسجد میں حملہ کرکے شیعوں پر ڈال دیتا ہے اور اہل تشیع کی مقدسات پر حملہ کرکے اہل سنت پر ڈال دیتا ہے۔ لیکن دشمن کو اس میدان مین بھی واضح شکست ہوئی ہے۔ جو بھی یہ کام کرتا ہے اور اپنے آپ کو شیعہ یا سنی کہتا ہے، وہ شخص جھوٹا ہے کیونکہ یہ اسلام کی تعلیمات کے منافی ہے۔ 

اسلام ٹائمز: سعودی حکومت کی جانب سے امریکہ کو امداد کی فراہمی کے اعلان کے بارے میں کیا کہیں گے۔؟
مفتی ہدایت اللہ پسروری: سعودی بیان کے حوالے سے میں کچھ نہیں کہوں گا، لیکن جو بھی اس طرح کے کام کرے گا چاہے وہ سعودی عرب ہو یا کوئی اور عرب ملک، ہم اُسکی مذمت کریں گے، کیونکہ اُس کی مدد سے وہاں اسلام اور مسلمانوں کو نقصان ہوگا۔ اگر سعودی عرب نے اس طرح کا کوئی بیان دیا ہے تو بہت بُرا کیا ہے اور سعودی عرب یاد رکھے کہ اگر آج وہ کسی اسلامی ملک کو نقصان پہنچانے کے لیے مدد کر رہا ہے تو کل اُس کی بھی باری آئے گی، کیونکہ امریکہ کسی کا خیرخواہ نہیں۔ 

اسلام ٹائمز: حج اور عمرہ کے موقع پر جو زائرین روضہ رسول (ص) کی زیارت کرتے ہیں، اُن پر تشدد کیا جاتا ہے اس حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
مفتی ہدایت اللہ پسروری: سعودی حکومت کی جانب سے زائرین پر ہونے والے تشدد کی پُرزور مذمت کرتے ہیں۔ ہم سعودی عرب میں بیت اللہ شریف اور روضہ رسول (ص) کی زیارت کی غرض سے جاتے ہیں۔ سعودی حکومت کی جانب سے زائرین پر تشدد اس لئے کیا جاتا ہے کہ وہ روضہ رسول کی جالی کو چومنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن اُن بادشاہوں کے کرتے، ہاتھ، تصاویر اور عمامے چومے جاتے ہیں وہاں کچھ نہیں ہوتا۔ ہم سعودی حکومت کے فیصلے کو نہیں مانتے، کیونکہ اوائل اسلام میں رسول کے قریب ابوجہل اور ابو لہب بھی رہتے تھے۔ ہمارے دل میں اگر مقام و منزلت ہے تو سچے عاشق رسول کی ہے۔ اگر سعودی ولی عہد عاشقان رسالت پر مظالم ڈھائے گا تو ہمارے لیے قابل احترم نہیں رہے گا۔
خبر کا کوڈ : 312437
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش