0
Tuesday 22 Oct 2013 01:41

ایم ڈبلیو ایم، دہشتگرد تکفیری عناصر کیخلاف تمام مکاتب فکر پر مشتمل محاذ بنانا چاہتی ہے، علامہ صادق رضا تقوی

ایم ڈبلیو ایم، دہشتگرد تکفیری عناصر کیخلاف تمام مکاتب فکر پر مشتمل محاذ بنانا چاہتی ہے، علامہ صادق رضا تقوی
مجلس وحدت مسلمین پاکستان سندھ کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ سید صادق رضا تقوی اپنے زمانہ طالب علمی سے ہی اجتماعی ملی و قومی معاملات میں فعال ہیں، آپ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کراچی ڈویژن کی مختلف ذمہ داریوں پر فائز رہنے کے علاوہ کراچی ڈویژن کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت آپ مجلس وحدت مسلمین پاکستان سندھ کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف مجلوں کے مدیر بھی ہیں اور کراچی میں شیعہ قومیات اور اتحاد بین المسلمین و بین المذاہب یکجہتی کے حوالے سے بھی فعال ہیں۔ اسلام ٹائمز نے عظمت ولایت کانفرنس کراچی، ماہ محرم کی آمد اور امن و امان کی صورتحال، کراچی آپریشن، دہشت گردی اور نواز حکومت کی کوششیں، طالبان کے ساتھ مذاکرات یا فوجی آپریشن، اتحاد و وحدت بین المومنین و مسلمین سمیت دیگر موضوعات کے حوالے سے علامہ سید صادق رضا تقوی کی رہائش گاہ پر انکے ساتھ ایک خصوصی نشست کی، اس سلسلے میں آپ سے کیا گیا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے زیراہتمام کراچی میں ملت جعفریہ یکجہتی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، مختصراً بتا دیں کہ اس کانفرنس کے آنے والے ایام عزاء پر کیا مثبت اثرات مرتب ہونگے؟
علامہ سید صادق رضا تقوی: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ملت جعفریہ یکجہتی کانفرنس میں سب سے زیادہ خوش آئند بات یہ تھی کہ سب یک جہت تھے، سب کی جہت واضح ہے، ایم ڈبلیو ایم نے آگے بڑھتے ہوئے ایام عزاء سے پہلے شیعہ تنظیموں، جماعتوں، اداروں، مختلف ٹرسٹوں، فلاحی اداروں، اسکاﺅٹس گروپس، خطباء، ذاکرین، ماتمی انجمنوں وغیرہ کو ساتھ ملا کر ان کو ایک سوچ، جہت، ایک لائن آف ایکشن دی ہے اور اس حوالے سے کانفرنس میں جنہوں نے تعاون کیا، جو شریک ہوئے ان کے بیانات و تجاویز کو مرتب کیا گیا ہے اس حوالے سے مرکزی کردار علامہ سید حسن ظفر نقوی صاحب نے ادا کیا ہے، وہ جلد تمام تجاویز کو مرتب کرکے ایام عزاء سے پہلے  عوام و خواص کے سامنے پیش کرینگے۔ اس کانفرنس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ تشیع کی آواز کو خصوصاً ایام عزاء میں مستحکم و منسجم انداز میں پیش کرنے کیلئے ایک ایسا قدم اٹھائیں اور ایک ایسی کمیٹی تشکیل دی جائے کہ جو انتظامی امور میں انتظامیہ سے جا کر بات کر سکے، نہ کہ مختلف کمیٹیاں الگ الگ موقف کو اپناتے ہوئے انتظامیہ سے رابطہ کریں۔ ہمارا کراچی سمیت سندھ بھر میں رابطوں کا سلسلہ جاری ہے، ہم چاہتے ہیں کہ سندھ بھر کی شیعہ تنظیمیں، ادارے اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔ اس حوالے سے آخر میں یہ بات واضح کروں کہ کسی بھی ایسی کمیٹی کی تشکیل کا مقصد صرف یہ نہیں ہے کہ صرف ایک کمیٹی بنا دی جائے اور وہ انتظامیہ سے بات کرے، نہیں بلکہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ تشیع کو ایک جگہ جمع کیا جائے، سب کو ہم آواز کیا جائے اور الحمدللہ ابتدائی طور پر ہم اس میں کامیاب ہوئے ہیں۔

اسلام ٹائمز: ایام عزاء کے آغاز سے قبل شیعہ تنظیموں، اداروں وغیرہ کے درمیان عملی اتحاد و وحدت کی فضاء بننے کی کوئی امید ہے؟
علامہ سید صادق رضا تقوی: دیکھیں تشیع کا اتحاد و وحدت سب کی آواز ہے، سب کی آرزو ہے، خواہش ہے۔ میں مجلس وحدت مسلمین سندھ کا ڈپٹی سیکرٹری جنرل ہونے کی حیثیت سے تمام شیعہ تنظیموں، اداروں، جماعتوں سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ وہ تشیع کے اتحاد و وحدت کیلئے عملی طور پر سامنے آئیں، اپنا اپنا حصہ ڈالیں، تنظیمی بتوں سے نکل کر تنظیمی دائرے میں رہتے ہوئے دین و ملت، تشیع، عزاداری کی سربلندی کیلئے عمل پیرا ہوں۔

اسلام ٹائمز: کراچی میں 27 اکتوبر کو عظمت ولایت کانفرنس کا انعقاد کیا جا رہا ہے، کیا مقاصد ہیں؟
علامہ سید صادق رضا تقوی: عظمت ولایت کانفرنس کا مقصد یہ ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ تشیع کی طاقت کو متمرکز کیا جائے، ان کو یکجا کیا جائے اور تشیع ولایت مولا علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے سائے میں جمع ہو کر اپنی وحدت و اتحاد کے ذریعے سے یہ بات ثابت کرے کہ نہ ہم ڈرنے والے ہیں، نہ بکنے والے ہیں، ہم شہید ہو رہے ہیں، شہادتیں دے رہے ہیں مگر ہم گھبرائے نہیں ہیں۔ عزاداری سید الشہداء (ع) اور عاشورا سے سبق حاصل کرتے ہوئے ہم دشمن کی کسی بھی قسم کی چھوٹی بڑی سازش کو ناکام بنانے کیلئے میدان عمل میں حاضر ہیں، یہی اس کانفرنس کا بنیادی نکتہ ہے۔ ہم ایک شہادت و جہاد کی روح، فعالیت، حرکت و تحرک کی روح، عزت و سربلندی و آزادی کی روح ملت تشیع کے اندر پھونکنا چاہتے ہیں کہ انشاءاللہ وادی مہران، سرزمین سندھ 27 اکتوبر کو شاہد ہو گی۔ نشتر پارک میں ایک بار پھر ملت تشیع اپنے اتحاد، استقامت، اپنی شان و شوکت کے ساتھ دشمن کے مقابلے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند کھڑی ہے۔

اسلام ٹائمز: کراچی میں رینجرز اور پولیس کی جانب سے جاری ٹارگٹڈ آپریشن باعث اطمینان ہے، کیا کہیں گے؟
علامہ سید صادق رضا تقوی: کراچی آپریشن بظاہر دہشت گردی کے خلاف جاری ہے، رینجرز کو خصوصی اختیارات دیئے گئے ہیں، رینجرز نے اس حوالے سے کوششیں بھی کی ہیں ، بہت سے ملزمان گرفتار بھی ہوئے ہیں، ان پر مقدمات بھی چلائے جا رہے ہیں، ان ملزمان کی سیاسی وابستگیاں ہیں جنہیں چھپایا جا رہا ہے۔ اب تک جو صورتحال سامنے آئی ہے، اس کے مطابق رینجرز اور پولیس نے مذہبی دہشت گردی کے خلاف اپنے ٹارگٹڈ آپریشن کا آغاز نہیں کیا ہے، صرف لینڈ مافیا، بھتہ مافیا، سیاسی مافیا، کرپشن و اس جیسے دیگر جرائم میں ملوث عناصر پر ہاتھ ڈالا جا رہا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ مذہبی بنیادوں پر بیس بائیس دنوں میں بارہ، پندرہ شیعہ افراد کی ٹارگٹ کلنگ جس میں شیعہ پولیس افسران بھی شامل ہیں، چونکہ مذہبی بنیادوں پر دہشت گردی کرنے والوں کو لگام نہیں ڈالی جا رہی ہے، انہیں نہیں پکڑا جا رہا ہے، کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جا رہا ہے، کالعدم دہشت گرد تکفیری گروہوں کے دفاتر بدستور کام کر رہے ہیں، انکی جانب سے انتہائی قابل اعتراض چاکنگ کرنے کا سلسلہ کھلے عام جاری ہے، اس بناء پر ملت تشیع اس ٹارگٹڈ آپریشن پر عدم اعتماد کا اظہار کرتی ہے اور ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ کراچی میں جاری ٹارگٹڈ آپریشن کا دائرہ مذہبی دہشت گردی تک وسیع کیا جائے، مذہبی دہشت گردوں کے خلاف بھی کریک ڈاﺅن شروع کیا جائے۔ ہر سطح پر، ہر میدان میں حکومت وقت کو، خفیہ اداروں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اپنی سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہئیے۔

اسلام ٹائمز: شیعہ ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے جہاں پولیس، رینجرز کو ذمہ دار ٹہرایا جاتا ہے، وہیں عوام و خواص کا ایک بہت بڑا طبقہ کراچی سے تعلق رکھنے والی ایک سیاسی جماعت کہ جس کا دعویٰ ہے کہ کراچی ہمارا ہے اور اسکا 85 فیصد مینڈیٹ ہمارے پاس ہے، کو بھی تنقید کا نشانہ بناتا ہے کہ اکثر شیعہ ٹارگٹ کلنگ اسی سیاسی جماعت کے زیراثر علاقوں میں ہوتی ہے جبکہ دوسری جانب اس سیاسی جماعت کو ایم ڈبلیو ایم کی مرکزی قیادت بھی اپنے اجتماعات میں سخت تنقید کا نشانہ بنا چکی ہے، کسی قسم کا رابطہ ہوا ہے، کیا کہیں گے اس حوالے سے؟
علامہ سید صادق رضا تقوی: اس حوالے سے کسی بھی سیاسی جماعت سے ہمارا کوئی رابطہ نہیں ہے نہ انہوں نے ہم سے رابطہ کیا ہے، البتہ ہم نے اپنے احتجاج کو مختلف سیاسی جماعتوں تک پہنچایا ہے۔ جس بات کی طرف آپ نے اپنے سوال میں اشارہ کیا ہے کہ کراچی کے جن علاقوں میں زیادہ تر شیعہ افراد کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی ہے وہ وہی علاقے ہیں جو کہ کراچی کی ایک سیاسی جماعت کے زیراثر علاقے شمار ہوتے ہیں، تو ظاہری سی بات ہے اس حوالے سے ملت تشیع کو اپنے تحفظات کے اظہار کا حق حاصل ہے اور وہ کرتی بھی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ تمام سیاسی جماعتیں اس بات کا نوٹس لیں، کیونکہ اس حوالے سے عوام میں جو بےچینی بڑھ رہی ہے، عدم تحفظ کے احساس میں اضافہ ہو رہا ہے، یہ کراچی کی تمام سیاسی جماعتوں کیلئے، انکی سیاسی فعالیت کیلئے بہت بڑی رکاوٹ ہوگی اور ایک ایسے انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوگا کہ جس کی وجہ سے ان سیاسی جماعتوں کی فعالیت پر، انکے کردار پر، انکے ملک و قوم کیلئے دعوﺅں پر حرف آ سکتا ہے۔ اس بناء پر میں کراچی کی تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین و عمائدین کو، تھنک ٹینک کو دعوت دونگا کہ وہ آئین اور ملک کو خصوصاً کراچی سمیت سندھ کو تباہی سے بچانے کیلئے اپنا پرخلوص سیاسی کردار ادا کریں۔

اسلام ٹائمز: ماہ محرم الحرام نزدیک ہے، ایام عزا میں قیام امن کیلئے حکومتی کوششوں کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں؟ قیام امن کے حوالے سے ایم ڈبلیو ایم کا کردار کیا ہوگا؟
علامہ سید صادق رضا تقوی: مجموعی طور پر حکومت امن و امان کے قیام میں مکمل ناکام ہو چکی ہے، لیکن ہم نے ہمت نہیں ہاری ہے، عام انتخابات سے پہلے اور بعد میں اور ابھی بھی ڈسٹرکٹ سے لیکر مرکز کی سطح پر سنی اتحاد کونسل، پاکستان سنی تحریک، جمعیت علمائے پاکستان نورانی سمیت بہت سی دیگر اہلسنت جماعتوں سے ہمارے رابطے ہیں، ایک دوسرے کے پروگرامات، کانفرنسز، اجتماعات میں شرکت کا سلسلہ جاری ہے، ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ لہٰذا اتحاد بین المسلمین، مذہبی رواداری، اخوت و بھائی چارگی کی فضاء کو مزید خوشگوار بنانے کیلئے ہم اپنے طور پر فعالیت دکھا رہے ہیں، اس سلسلے میں مزید کوششیں جاری و ساری ہیں۔ محرم الحرام میں اتحاد بین المسلمین کی فضاء کو فرقہ واریت کی سازش کے ذریعے نقصان پہنچانے والے دہشت گرد تکفیری عناصر کے خلاف ہم تمام مکاتب فکر پر مشتمل ایک محاذ بنانا چاہتے ہیں جو فرقہ واریت پھیلانے کی سازش کی روک تھام کرے، دہشت گردوں کو بےنقاب کرنے کیلئے شیعہ سنی مل کر اپنے کردار کو ادا کریں۔

اسلام ٹائمز: حکومت طالبان مذاکرات کے حوالے سے تو مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی پالیسی بالکل واضح ہے کہ طالبان سے مذاکرات کی بجائے انکے خلاف بھرپور فوجی آپریشن کرکے ان کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے، جبکہ موجودہ نواز حکومت طالبان سے مذکرات پر بضد ہے، نواز حکومت کی موجودہ روش کے تناظر میں اسکا مستقبل کیسا دیکھ رہے ہیں؟
علامہ سید صادق رضا تقوی: وفاق میں قائم نواز حکومت جو یہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ ایک جمہوری حکومت ہے، جس کی موجودہ روش کا خمیازہ عوام کو ملک بھر میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی، قتل و غارت گری، کمر توڑ مہنگائی، بجلی، گیس کا بدترین بحران، سی این جی کی بندش، آئے دن ہڑتالیں، کرپشن اور ان جیسے ان گنت مسائل کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے جبکہ دوسری جانب نواز حکومت کی تمام تر توجہ اقتدار اور کرسی کو بچانے کی طرف ہے۔ جس طرح آج نواز حکومت گھٹنے ٹیکتے نظر آ رہی ہے طالبان کے سامنے، ان سے مذاکرات کیلئے اور طالبان کی ذیلی تنظیموں کو، کالعدم دہشت گرد تکفیری گروہوں کو کراچی میں سپورٹ کر رہی ہے۔ نواز حکومت کو یاد رکھنا چاہیئے کہ ایک وقت آئے گا یہی آگ ان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گی، اگر یہ سمجھتے ہیں کہ یہ دہشت گردی کی آگ کسی خاص فرقے یا مسلک کے لوگوں کے خلاف ہے تو ایسا نہیں ہے۔ نواز حکومت کو دہشت گردی کی تاریخ یاد رکھنی چاہیئے کہ جب یہ پھرتے ہیں، منحرف ہوتے ہیں تو اپنے آقاﺅں کی مسندوں کو جلاتے ہیں، تخت و تاج کو ویران کرتے ہیں، صدام، حسنی مبارک، شاہ ایران، کرنل قذافی، ضیاءالحق سمیت ان جیسے بےشمار لوگوں اور انکی حکومتوں کا حشر دیکھئے کہ جب عالمی استعمار نے ان مہروں سے کام لے لیا تو ان کو دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال کر پھینک دیا۔ نواز حکومت نے اگر تاریخ سے سبق نہ لیا، عبرت حاصل نہ کی تو وہ وقت دور نہیں کہ جب نواز حکومت کا بھی وہی انجام ہوگا جو ان آمروں اور استعمار کے ایجنٹوں کا ہوا ہے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ اہل تشیع اور بریلوی اہلسنت مکاتب فکر، دونوں کی نمائندگی کی دعویدار مذہبی و سیاسی جماعتیں طالبان سے مذاکرات یا انکے خلاف فوجی آپریشن کیا جائے جیسے دو الگ الگ موقف پر واضح تقسیم نظر آتی ہیں۔ آپ اس حوالے سے کیا کہیں گے؟
علامہ سید صادق رضا تقوی: دیکھیں مختلف سیاسی تنظیموں و جماعتوں کے مختلف سیاسی اسلوب و روشیں ہیں، ہر سیاسی جماعت اپنی سیاسی پالیسی کے تحت جو وہ مرتب کرتی ہے اس حوالے سے لائن آف ایکشن اور حکمت عملی مرتب کرتی ہے۔ ہم مکتب عاشورا سے تعلق رکھتے ہیں، حریت و آزادی، شجاعت و حمیت کے علمبردار ہیں، اس بناء پر ہم یہ کہتے ہیں کہ کسی بھی قسم کے ظلم کو برداشت نہیں کرنا چاہیئے۔ جہاں تک دوسری تنظیموں اور جماعتوں کا تعلق ہے جو پہلے مرحلے میں مذاکرات اور دوسرے مرحلے میں فوجی آپریشن کی بات کر رہے ہیں، ہم انہیں اس بات پر قانع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس دہشت گردی کو روکنے کیلئے جتنی دیر ہو گی اتنی ہی زیادہ قربانی اور ایثار و فداکاری کی ضرورت پڑے گی۔ ہمارے رابطے جاری ہیں، ہم مایوس نہیں ہیں۔ بہرحال دہشت گردی کے خلاف سب متحد ہیں، کوئی پہلے مرحلے پر اور کوئی دوسرے مرحلے پر۔ کوئی کسی اسلوب کو پہلے مرحلے پر انجام دینا چاہتا ہے اور کوئی دوسرے مرحلے پر۔ اس بناء پر جو ایک جمہوری طریقہ ہے، ہم سب کے نظریات کا احترام کرتے ہیں، تمام تنظیموں کو احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں لیکن ہم مسلسل تمام تنظیموں کو پیغامات بھیج رہے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف ہم سب کو مل کر ایک واضح، جامع اور ٹھوس حکمت عملی تیار کرنا ہوگی تاکہ پاکستان کو اس دہشت گردی کی آگ سے بچا کر عوام کو سکھ کا سانس لینے کی آزادی دلا سکیں۔

اسلام ٹائمز: آیت اللہ سید علی خامنہ ای سمیت عالم تشیع کی بزرگ شخصیات، مراجع کرام و مجتہدین عظام کے نزدیک پاکستانی تشیع کے تمام تر مسائل کا بنیادی حل اتحاد و وحدت میں مضمر ہے، مگر اس حوالے سے اب تک کسی قابل قدر پلیٹ فارم کی تشکیل نظر نہیں آتی کہ جہاں تشیع سے تعلق رکھنے والی تنظیمیں، جماعتیں، ادارے اکٹھے ہو کر مشترکہ مسائل کے حل کیلئے کوششیں کر رہے ہوں، اس پیش کئے گئے بنیادی حل کی طرف توجہ کئے بغیر تشیع پاکستان کے مسائل کیسے حل ہو سکتے ہیں، وحدت کی دعویدار ایم ڈبلیو ایم پاکستان کی اس حوالے سے فعالیت کیا ہے، بحیثیت فعال عالم دین اور ڈپٹی سیکرٹری جنرل ایم ڈبلیو ایم سندھ، اس حوالے سے آپ کی نظر کیا کہتی ہے؟
علامہ سید صادق رضا تقوی: دیکھیں بہت اچھا اور بنیادی سوال ہے، رہبر معظم حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای، خدا انکا سایہ ہمارے سروں پر تاظہور مہدی (عج) قائم و دائم رکھے سمیت مراجع، مجتہدین، بزرگ علماء و شخصیات نے جو یہ کہا ہے کہ پاکستان میں تشیع کی بقاء اور تمام مسائل کا حل اتحاد و وحدت میں مضمر ہے، یہ بالکل بجا ہے، کوئی شک نہیں ہے، اس کیلئے ہمیں خود حکمت عملی اختیار کرنی ہوگی، بعض اوقات ہم کسی سند کیلئے، کسی سند کے معتبر ہونے کیلئے سارے وسائل کو خرچ کرنا شروع کر دیتے ہیں، کسی کو کسی سے نسبت دینے کیلئے بعض اوقات مخالفین و موافقین میں ایک جنگ کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے قیام سے ابتک اتحاد و وحدت کیلئے اس دوران جتنی بھی کوششیں ہوئی ہیں، میں یہ نہیں کہتا کہ کافی ہیں لیکن ان میں جو بنیادی کردار رہا ہے، ہمیشہ ابتدائی قدم جو اٹھایا گیا ہے وہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی جانب سے اٹھایا گیا ہے۔ دوسری بات یہ کہ اس درمیان میں اگر کہیں سے تفرقے کی بات آتی ہے تو اس کو روکا جائے۔ آپ دیکھیں کہ سوشل میڈیا کی ویب سائٹس پر علماء کرام کی کردار کشی کے حوالے سے جو صورتحال سامنے آئی ہے وہ واقعی ناگفتہ بہ ہے۔ واقعاً انسان کو شرم محسوس ہوتی ہے کہ ان چیزوں کے عشر عشیر میں سے کسی ایک موضوع پر سے پردہ اٹھائے اس کو یہاں بیان کرے۔ لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ تمام جماعتوں کو جو ملکی سطح پر ہونے کا دعوی کرتی ہیں باشمول مجلس وحدت مسلمین پاکستان، تمام اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور خود حکمت عملی وضع کرنا ہوگی، اس تصور میں، اس خام خیالی میں نہ رہیں کہ کوئی باہر سے آکر اتحاد و وحدت پیدا کر دے گا۔ ہر گز نہیں، ہمیں خود حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی، انا کے بت کو توڑنا ہوگا اور ہر تنظیم اپنے دائرے میں رہتے ہوئے اپنی پالیسی کے تحت عمل کرے، اسے پورا اختیار و آزادی حاصل ہے لیکن اس اختیار کو، اس عوامی رائے عامہ کوکہ جو اسے حاصل ہے، تشیع کی سربلندی اور اتحاد و وحدت کیلئے صرف کرے۔ 

میں سمجھتا ہوں کہ اگر علماء کرام جمع ہوں، بیٹھیں، سر جوڑ کر کوئی حکمت عملی وضع کریں تو کوئی مشکل ایسی نہیں ہے کہ جو حل نہ ہو سکے یا ہم کوئی جامع پالیسی وضع نہ کر سکیں، ہمارا ایمان ہے کہ اللہ کا ہاتھ جماعت کے ساتھ ہے، متحد علماء کے ساتھ ہے اور اس سلسلے میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان دامے درہمے سخنے میدان میں حاضر ہے کہ وحدت و اتحاد کا ہاتھ عملی طور پر بڑھائے، اپنے مومن بھائیوں کیلئے، اپنے مسلمان بھائیوں کیلئے، اور انشاءاللہ یہ ہمارا نعرہ ہے، ہمارا نام ہے، ہمارا شعار ہے، انشاءاللہ مرتے دم تک ہم اس پر قائم ہیں، انشاءاللہ ہماری پوری کوشش ہے کہ پاکستان کی تشیع کی سربلندی کیلئے ہم متحد ہو کر مل جل کر کام کریں۔
خبر کا کوڈ : 312987
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش