0
Tuesday 22 Oct 2013 01:17
بعض بیرونی ہاتھ اور اندرونی سازشیں مذہبی جماعتوں کے اتحاد میں رکاوٹ ہیں

مذاکرات کی کامیابی کیلئے طالبان، امریکہ اور قبائل کو آن بورڈ لینا ضروری ہے، مولانا محمد قاسم

مذاکرات کی کامیابی کیلئے طالبان، امریکہ اور قبائل کو آن بورڈ لینا ضروری ہے، مولانا محمد قاسم

مولانا محمد قاسم کا بنیادی تعلق ضلع مردان کے علاقہ شیر گڑھ سے ہے، آپ نے 1960ء میں مولانا محمد احمد کے گھر میں آنکھیں کھولیں، آپ نے دو مرتبہ قومی اسمبلی کی رکنیت حاصل کی، جبکہ 2013ء کے الیکشن میں آپ بھی پی ٹی آئی کے سونامی کے ہاتھوں شکست کھا گئے۔ مولانا محمد قاسم اس وقت جمعیت علمائے اسلام (ف) خیبر پختونخوا کے جنرل سیکرٹری ہیں اور اپنی جماعت میں ایک سنجیدہ اور تھنک ٹینک رہنماء کے طور پر دیکھے جاتے ہیں۔ ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے مولانا محمد قاسم کیساتھ مولانا فضل الرحمان کے حالیہ دورہ افغانستان، طالبان کیساتھ مذاکرات سمیت موجودہ صورتحال کے تناظر میں ایک انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: گذشتہ دنوں مولانا فضل الرحمان صاحب نے افغانستان کا دورہ کیا، اور وہاں افغان صدر حامد کرزئی کیساتھ ملاقات میں کئی اہم امور پر بات چیت بھی ہوئی، اس دورے کے اغراض و مقاصد کیا تھے۔؟
مولانا محمد قاسم:
مولانا صاحب کا افغانستان کا یہ دورہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ مولانا صاحب اس خطے کے بہت بڑے رہنما سمجھتے جاتے ہیں، اور بہت بڑے رہنما ہیں۔ پاکستان اور افغانستان دونوں ممالک کے عوام اور علماء کا ان پر اعتماد بھی ہے اور مولانا صاحب ان کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ انہوں نے وہاں یہی تجویز دی کہ مذاکرات مسائل کا حل ہیں، طاقت کے زور پر کوئی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ یہ بات پہلے بھی انہوں نے کہی تھی اور آج بھی یہی کہہ رہے ہیں کیونکہ جب افغانستان میں امن نہ ہو تو پاکستان میں بھی امن قائم نہیں ہو سکتا۔ یہ دونوں ممالک لازم و ملزوم ہیں۔ اگر افغانستان میں امن ہوگا تو یہاں بھی امن ہوگا، اگر افغانستان میں امن نہ ہو تو یہاں بھی بدامنی ہوگی۔ 

یہ ایک واضح بات ہے، اس پر کوئی دلیل دینے کی ضرورت بھی نہیں، کیونکہ یہ ایک ہی خطہ ہے۔ لہذا مولانا صاحب اس معاملہ میں بہت اہم رول ادا کر رہے ہیں، اور ان کی بات مانی جائے اور اس معاملہ میں مزید پیش رفت ہو تو انشاءاللہ اس خطہ میں امن آ جائے گا۔ پہلے بھی مولانا صاحب نے ایک جرگہ تشکیل دیا تھا، جس کی وجہ سے قبائل میں بہت عرصہ تک امن رہا اور پھر اس امن عمل کو سبوتاژ کرنے کیلئے کوششیں بھی کی گئیں۔ جس طرح کہ مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں اور بدامنی پھیلائی جا رہی ہے لیکن اگر مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرنے کی یہ کوششیں بند کی جائیں اور مذاکرات کے ذریعے اخلاص کیساتھ کوئی بات آگے بڑھے تو انشاءاللہ اس کے اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں جاری مذاکراتی عمل اور پاکستانی طالبان کیساتھ بات چیت میں کوئی تعلق ہے۔؟
مولانا محمد قاسم:
فی الحال تو ایسا نہیں لگتا لیکن ان کا عمل ایک دوسرے کیساتھ جڑا ہوا ہے۔ اگر دونوں طرف مذاکرات کامیاب ہو جائیں تو یہ دونوں ممالک کی کامیابی ہوگی۔

اسلام ٹائمز: کیا میاں نواز شریف یا خیبر پختونخوا کی حکومت نے طالبان کیساتھ مذاکرات میں مدد کیلئے جمعیت علمائے اسلام سے رابطہ کیا ہے۔؟
مولانا محمد قاسم:
ابھی تک تو کوئی رابطہ نہیں ہوا ہے۔ اگر ان کی طرف سے رابطہ ہو جائے، اور مولانا صاحب نے بار بار یہ پیشکش بھی کی ہے کہ ہم مذاکرات کی کامیابی کیلئے پل کا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ تو اچھے نتائج نکلیں گے۔

اسلام ٹائمز: عمران خان صاحب نے کہا کہ طالبان کو دفتر کھولنے کی اجازت دی جائے، آپ کی جماعت کا اس بارے میں کیا موقف ہے۔؟
مولانا محمد قاسم:
جے یو آئی کا موقف تو یہ ہے کہ مذاکرات میں سب ہی گروپس شامل ہو جائیں بشمول طالبان، امریکہ اور قبائل۔ اس سے مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس کیلئے کسی دفتر وغیرہ کی ضرورت نہیں ہے۔ ان سب گروپوں کو آن دی بورڈ لینا ضروری ہے۔

اسلام ٹائمز: اس حوالے سے وفاقی حکومت کے کردار کو آپ کیسے دیکھتے ہیں۔؟
مولانا محمد قاسم:
وفاقی حکومت کا غالباً یہ موقف تو ٹھیک ہے کہ مسئلہ مذاکرات کے ذریعے حل ہو جائے لیکن ان کیلئے بہت کچھ کرنا باقی ہے، کیونکہ یہ مسئلہ بہت دیرینہ اور پیچیدہ مسئلہ ہے۔ اس سلسلے میں سرسری اور سطحی باتوں سے کام نہیں چلے گا۔ جب تک پورے فارمولے اور اعتماد کیساتھ یہ مذاکرات نہ کئے جائیں، کامیابی مشکل ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ کی جماعت خیبر پختونخوا اسمبلی میں اپوزیشن بنچوں پر بیٹھی ہے، پی ٹی آئی کی مخلوط حکومت کی اب تک کی کارکردگی کو کیسا دیکھتے ہیں۔؟
مولانا محمد قاسم:
پی ٹی آئی کی مخلوط حکومت بشمول جماعت اسلامی اور شیرپاو فی الحال مکمل طور پر ناکام ہیں، جو انہوں نے وعدے کئے تھے انہیں پورا کرنے میں یہ یکسر ناکام نظر آتے ہیں۔ نہ ڈرون حملوں کا مسئلہ حل ہوا، نہ نوے دنوں میں کرپشن ختم کرنے کا دعویٰ پورا کیا گیا، نہ امن لانے کا۔ انہوں نے تبدیلی لانے کا نعرہ بھی لگایا، لیکن ان نعروں میں اب تک کوئی بھی پورا نہیں ہو سکا اور نہ ہی یہ چیلنجز پر قابو پا سکے ہیں۔

اسلام ٹائمز: نواز حکومت کیساتھ آپ کی جماعت کے تعلقات خاصے قریبی نظر آتے ہیں، کیا جے یو آئی اس حکومت کا بھی حصہ بنے گی۔؟
مولانا محمد قاسم:
ابھی تک تو ہم ان کیساتھ ہیں۔ ان کی جو اچھی کارکردگی ہو تو اس پر ہم ان کو سراہتے ہیں۔ جب وہ غلط کام کریں گے تو اس پر ان کو تنبیہ بھی کریں گے لیکن ان کیساتھ خواہ مخواہ کے اختلافات نہیں چاہتے، کیونکہ حکومت کو کامیاب ہونا چاہیئے کیونکہ عوام اور پاکستان کو چیلنجز اور مسائل درپیش ہیں، انہیں حل کرنے کیلئے ہم ان کیساتھ تعاون کر رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: آپ سے آخری سوال کہ کیا پاکستان کے عوام کبھی ملک و قوم کی خاطر مذہبی جماعتوں کو اکھٹا دیکھ سکیں گے۔؟
مولانا محمد قاسم:
پہلے مذہبی جماعتیں اکھٹی ہوئی تھیں تاہم پھر ایسے عناصر آ گئے، جنہوں نے اتحاد کو توڑا۔ جمعیت علمائے اسلام کی گذشتہ انتخابات میں بھی یہی کوشش رہی کہ متحد ہو جائیں، تاہم کچھ بیرونی ہاتھ اور کچھ اندرونی سازشیں اس اتحاد میں آڑے آئے، تاہم مستقبل قریب میں تو نہیں لگتا کہ اتحاد ہوگا لیکن حالات کا تقاضا ہے کہ سب دینی جماعتیں اکٹھی ہو جائیں۔

خبر کا کوڈ : 312991
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش