0
Sunday 27 Oct 2013 10:05

اگر آج بھی ملک میں ریفرنڈم کرایا جائے تو 99 فیصد لوگ امریکہ کے مخالف ہونگے، مفتی عبدالقوی

اگر آج بھی ملک میں ریفرنڈم کرایا جائے تو 99 فیصد لوگ امریکہ کے مخالف ہونگے، مفتی عبدالقوی
مولانا مفتی عبدالقوی کا تعلق مذہبی، روحانی اور صاحب فتویٰ خاندان سے ہے، آپ کے خاندان کا تعارف مفتی ملتان کے نام سے ہوتا ہے، آپ کے والد اور آپ کے دادا دونوں مفتی صاحب کے نام سے جانے جاتے تھے، آپ 26 جولائی 1957 کو ملتان میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم ملتان، فیصل آباد اور ایم فل کی ڈگری جامشورو یونیورسٹی سے حاصل کی جبکہ وفاق المدارس بنگلہ دیش نے آپ کو پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری دی۔ آپ آج کل پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما، سینٹرل کمیٹی کے ممبر اور مذہبی امور کے سربراہ ہیں، مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے ممبر ہیں، پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ حکومت پاکستان کے ممبر ہیں، متحدہ شریعت کونسل پاکستان کے چیئرمین ہیں اور متحدہ قومی موومنٹ کی علماء کمیٹی کے مرکزی نائب صدر ہیں، اسلام ٹائمز نے ان سے موجودہ ملکی صورتحال کے حوالے سے ایک انٹرویو کیا جو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ) 


اسلام ٹائمز: ملتان میں آپ کی جماعت کے منتخب صدر مخدوم جاوید ہاشمی کے خلاف چلنے والی تحریک کے حوالے سے کیا کہیں گے؟
مفتی عبدالقوی: بسم اللہ الرحمن الرحمن۔ ہماری جماعت کے منتخب شدہ صدر ہیں تو جس وقت مخدوم جاوید ہاشمی کا بیان آیا تو الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے اُس کو دکھایا تو میں نے اُن سے رابطہ کیا تو اُنہوں نے کہاکہ میں خود ایک مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں اور میرا ماضی کیا ہے، ختم نبوت اور تحفظ ناموس رسالت (ص) کے حوالے سے وہ سب کے سامنے ہے۔ جاوید ہاشمی نے کہا کہ یہ قانون جب سے بنا اور نافذ ہوا اس کا عملی طور پر غلط استعمال کیا گیا ہے، جس کی وجہ سے ہم بہت سے عاشقان رسول (ص) کو بھی دیکھتے ہیں کہ جو پابند سلاسل ہیں اُن پر یہی الزام ہے کہ وہ گستاخ رسول (ص) ہیں۔ یہ اُن کا بیان تھا، اس کے ساتھ خداوند کریم کا بھی حکم ہے کہ جب تمہارے پاس کوئی خبر پہنچے تو پہلے اُس کی تصدیق کرلو۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ جس آدمی کا ماضی ناموس رسالت (ص) اور ختم نبوت کے حوالے سے روشن ہو اُسکی بات سن لینی چاہیئے لیکن اس کے ساتھ ساتھ میں یہ بھی کہوں گا اُن کا اس طرح کا بیان دینا شرعی حوالے سے بھی درست نہیں ہے اور اس سے ہماری جماعت کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ اور اس بیان کے بعد اہل اسلام کے دل بھی دکھے ہیں۔ بہرحال اُنہیں اس طرح کے بیان سے گریز کرنا چاہیئے۔ کیونکہ یہ بہت ہی حساس موضوع ہے اور حساس موضوع پر بات کرنے سے پہلے پچاس بار سوچا جائے۔ جاوید ہاشمی کے بیان پر جن جماعتوں نے اُن کا تعاقب کیا اُن کا اقدام بھی درست ہے۔ 

اسلام ٹائمز: کے پی کے میں آپ کی جماعت کی حکومت ہے اور وہ طالبان کی جانب سے دہشت گردی کا نشانہ بھی ہے اس کے باوجود بھی عمران خان نے پاکستان میں طالبان کے باقاعدہ دفتر کھولنے کے مطالبے کو کیسے دیکھتے ہیں؟
مفتی عبدالقوی: دیکھیں جی بات یہ ہے عمران خان صاحب کے بیان کے بعد جب میری اُن سے بات ہوئی تو وہ کہتے ہیں کہ میرا یقین ہے کہ ایک بھی بےگناہ کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ بہرحال طالبان کے نام پر جو بھی شخصیات ہیں یا طاقتیں ہیں پہلے تو یہ دیکھا جائے کہ اُن کو طالبان کانام کس نے دیا؟ نہ علمائے اسلام نے دیا، نہ پاکستانی علماء نے دیا، نہ افغانی علماء نے دیا اور نہ ہی اہل دین نے دیا۔ امریکہ جو کہ استعماری شکل اختیار کرچکا ہے وہ جس کو چاہے طالبان کا نام دیدے جس کو چاہے القاعدہ کا نام دیدے یا کسی کو دہشت گردوں کا نام دیدے۔ بہرحال یہ طالبان نام ہے یہ بھی امریکہ اور امریکی آلہ کاروں کی جانب سے دیا گیا ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جو اصل میں طالبان ہیں اُنہیں آخری حد تک تحفظ دینا ہے اُن کی جانون کا نقصان نہ ہو اور پاکستان میں امن بھی قائم ہو جائے۔ اسی لیے ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ اُن کے دفاتر بھی بنائے جائیں اور اُن سے مذاکرات بھی کیے جائیں لیکن اگر وہ پھر بھی کسی بات پر نہ آئیں تو پاکستانی فوج اور پاکستانی سکیورٹی کے ادارے جو فیصلہ کریں گے پاکستان تحریک انصاف کا بھی وہی موقف ہوگا۔ 

اسلام ٹائمز: عید کے روز آپ کی حکومت کے صوبائی وزیر کو خودکش حملے میں مار دیا گیا، کیا پھر بھی خان صاحب طالبان کے دفاتر کھلوائیں گے؟
مفتی عبدالقوی: اصل میں بات یہ ہے کہ طالبان کے جتنے گروپس ہیں وہ سارے ایک ڈگر پر نہیں ہیں۔ ان میں سے بعض طالبان کے جو گروپس ہیں اُن کی مولانا فضل الرحمن کے ساتھ وابستگی ہے۔ اس واقعہ کے بعد جب میرا خیبر پختونخواہ کے علماء سے رابطہ ہوا تو اُن میں بہت زیادہ اشتعال پایا جاتا ہے اور وہاں کے سب علماء اور عوام یہی کہہ رہے ہیں کہ اس قتل کے پیچھے مولانا فضل الرحمن کا ہاتھ ہے اور اس کے پیچھے بہت بڑا سازشی ذہن کار فرما ہے۔ بہرحال مولانا فضل الرحمن نے بھی یہ طے کیا ہے کہ ہم نے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو ناکام بنانا ہے اور ہم اس پختہ عزم کے ساتھ ہیں کہ ہم نے وہاں عدل و انصاف کا بول بالا کرنا ہے۔ جو طالبان اور دہشت گردوں کے ہم فکر ہیں وہ اُن کے آلہ کارہیں اور اس کا فیصلہ ہو جائے گا۔ 

اسلام ٹائمز: ملالہ یوسفزئی کے بیان کے حوالے سے کیا کہیں گے جس میں اُس نے آئندہ وزیراعظم بننے کا کہا ہے؟
مفتی عبدالقوی: ملالہ یوسفزئی کو میں اپنی بیٹی سمجھتا ہوں، اللہ تبارک و تعالی نے اُسے نئی زندگی دی ہے، ہمارا عقیدہ اور ایمان ہے کہ زندگی دینے والی ذات اللہ کی ہے اور دوسرا وہ کلمہ گو ہے اور لاالہ الااللہ کی نسبت سے میں اُس کو اپنی بیٹی سمجھتا ہوں۔ تیسرا یہ ہے کہ جس ملک میں میں رہتا ہوں اُسی ملک میں وہ رہتی ہے جس کی وجہ سے اُس کے ساتھ ہمارا تین طرح کا تعلق ہے۔ باقی استعمار جو کچھ کررہا ہے ڈرون حملوں کے ذریعے جو وہ کر رہا ہے وہ ظلم ہے اور قابل مذمت ہے، عافیہ صدیقی کے حوالے کے خلاف اب تک ہونے والے اقدامات قابل مذمت ہیں لیکن اگر ظالم سے کوئی نیک عمل ہو جائے تو اُس کو تسلیم کرنا بھی ہمارے نبی اکرم کی سنت ہے۔ بہرحال آج اگر ملالہ یوسفزئی دنیا میں علم اور تعلیم کے حوالے سے کچھ کرنا چاہتی ہے اور اُس کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ہے تو ہم نے علم کو دیکھنا ہے نہ کہ اُس کے پیچھے کون ہے۔ ہم ملالہ کی عزت کی دعا کرتے ہیں۔ رہی بات کہ آئندہ وزیراعظم کی تو بات یہ ہے اگر پاکستانی عوام اس قدر نااہل ہے تو ممکن ہے ورنہ نہیں۔ اگر آج بھی ملک میں ریفرنڈم کرایا جائے تو 99 فیصد لوگ امریکہ کے مخالف ہوں گے اور ایک فیصد وہ لوگ امریکہ کے ساتھ ہوں گے جن کے مفاد اُس سے وابستہ ہیں۔ پاکستانی عوام امریکہ کو بالخصوص ظالم سمجھتی ہے۔ اگر امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ اس طرح سے ملالہ کو وزیراعظم کے لیے پیش کرے گا تو پاکستانی عوام اس قدر مجبور اور بےبس نہیں کہ جو امریکہ چاہے وہ ہو جائے۔ ہاں اگر امریکی ادارے اور ہمارے ادارے مل کر اُس کو مسلط کریں تو ممکن ہے کہ اُس کا وزیراعظم بننے کا خواب پورا ہو جائے۔
 
اسلام ٹائمز: مصر میں اخوان المسلموں دوبارہ میں اقتدار میں آئے گی یا امریکی سازش کامیاب ہوگی؟ 
مفتی عبدالقوی: عالم عرب اور عالم عجم کی سوچ میں بڑا فرق ہے۔ مصرکے عرب پہلے امریکہ کے محکوم رہے ہیں اور اب وہاں امریکہ، سعودی عرب اور بعض دیگر ممالک اُس پر چڑھائی کر رہے ہیں میں نہیں سمجھتا کہ زمانہ قریب میں دوبارہ وہاں اخوانی حکومت میں آ سکتے ہیں۔ اب وہاں فوج ہی رہے گی چاہے جس مذہبی فرقہ یا گروہ کو اپنے ساتھ ملا لے۔ اس لیے اب اخوانیوں کا دوبارہ آنا ناممکن ہے۔ 

اسلام ٹائمز: مصری منتخب حکومت کے خاتمے میں کس کا ہاتھ ہے، امریکہ یا سعودی عرب؟
مفتی عبدالقوی: امریکہ کے سعودی عرب کے ساتھ جو تعلقات ہیں وہ سب کے سامنے ہیں۔ امریکہ کے جو معاملات ترکی کے ساتھ ہیں وہ بھی سب کو معلوم ہیں اور جس قدر ہم امریکہ کے زیردست ہیں وہ بھی سب کو معلوم ہے۔ ابھی وہاں پر صورتحال یہ ہے کہ امریکہ نے جمہوریت کے خاتمے کی مخالفت کی ہے اور سعودی حکومت بھی فوج کے ساتھ ہے اور فوج جو اقدامات کررہی ہے اُس کے پیچھے سعودی عرب کا ہاتھ ہے اور سعودی عرب مصری فوج کو پیسے بھی دے رہی ہے۔ اور وہاں پر جو اخوان المسلموں اور عام شہریوں کی شہادتیں ہوئی ہیں اُس میں سعودی عرب مجرم ہے۔ سعودی عرب کی جو موجودہ پالیسیاں ہیں وہ بہت خوفناک ہیں۔ سعودی حکومت کو ذہن میں رکھنا چاہیئے کہ اُسے حرمین شریف کی خدمت کرنی ہے لیکن گذشتہ چند مہینوں سے میں جو دیکھ رہا ہوں کہ ایک طرف سعودی حکومت آ چکی ہے اور دوسری طرف ایران آ گیا ہے۔ یہ سعودی حکومت کا احمقانہ فیصلہ ہے اور جو اس کا ردعمل ہوگا وہ بہت خوفناک ہوگا۔ 

اسلام ٹائمز: شام میں ہونے والی جنگ بندی کا کس کو کریڈٹ جاتا ہے؟
مفتی عبدالقوی: امریکہ کبھی بھی شام کو ختم نہیں کرے گا۔ امریکہ وہ استعمار ہے جو شیعہ کو بھی جانتا ہے اور سنی کو بھی، امریکہ ایران کو بھی جانتا ہے اور سعودی عرب کو بھی جانتا ہے۔ اس لیے اُس نے ہر حالت میں تصادم کو باقی رکھتے ہوئے یہ کوشش کرنی ہے کہ سعودی عرب اور ایران باہم متصادم رہیں تاکہ مسلمان کمزور ہو جائے۔ امریکہ اسرائیل کو مضبوط کرنا چاہتا ہے اور جو ممالک اسرائیل کے قریب ہیں اُنہیں نقصان پہنچانے کے لیے سعودی عرب کو ایران کے آمنے سامنے پیش کر رہا ہے تا کہ نقصان جہاں سے بھی مسلمان کا ہو۔ وہ تمام ممالک جو اسرائیل کے ارد گرد ہیں امریکہ اُنہیں کمزور کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ اس وقت عراق، شام، بحرین، فلسطین کو کمزور کرنا چاہتا ہے۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ایک طرف سعودی عرب ہے اور دوسری طرف ایران ہم یہ چاہتے ہیں کہ وہاں کی عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع دینا چاہیئے۔
خبر کا کوڈ : 314273
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش