0
Wednesday 30 Oct 2013 20:16

کراچی آپریشن کی کامیابی کیلئے ضروری ہے کہ فرقہ پرست عناصر کو بھی لپیٹ میں لیا جائے، سلمان مجتبیٰ نقوی

کراچی آپریشن کی کامیابی کیلئے ضروری ہے کہ فرقہ پرست عناصر کو بھی لپیٹ میں لیا جائے، سلمان مجتبیٰ نقوی
سید سلمان مجتبیٰ نقوی کا تعلق شہر قائد کراچی سے ہے۔ آپ جعفریہ الائنس کے جنرل سیکرٹری اور ماتمی انجمنوں کی مشترکہ فیڈریشن، مرکزی تنظیم عزاء کے صدر بھی ہیں۔ اس کے علاوہ انجمن معین العزاء کی سربراہی بھی آپ ہی سنبھالے ہوئے ہیں۔ سید سلمان مجتبیٰ نقوی صاحب کا شمار کراچی کی انتہائی فعال شیعہ شخصیات میں ہوتا ہے اور آپ ہمیشہ ملت کی خدمت میں پیش پیش رہتے ہیں۔ سلمان مجتبیٰ صاحب اتحاد بین المومنین کے فروغ کیلئے بھی کوشاں نظر آتے ہیں۔ ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے نشتر پارک کراچی میں منعقدہ ’’عظمت ولایت کانفرنس‘‘ کے موقع پر سید سلمان مجتبیٰ کیساتھ ایک انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: مرکزی تنظیم عزاء کا نصب العین کیا ہے، اور یہ کس حد تک فعال ہے۔؟
سلمان مجتبیٰ نقوی:
1970ء میں مرکزی شیعہ فیڈریشن کے ختم ہونے کے بعد مرکزی تنظیم عزاء وجود میں آئی، جب اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی کہ جتنی ماتمی سنگتیں اور انجمنیں ہیں، ان کے مابین ایک کوآرڈی نیشن ہونی چاہیئے، باقاعدہ ایک نیٹ ورک ہونا چاہیئے۔ یہ ایک غیر سیاسی تنظیم ہے اور اس کا موٹو عزاداری، عزادار اور عزاء خانہ ہے۔ بنیادی طور پر اس کی ذمہ داری یہ ہے کہ تمام عزاداروں اور عزاء خانوں کے مسائل کو حل کیا جائے۔ اس کے علاوہ کراچی کے جو مرکزی جلوس، بڑی شب بیداریاں اور مجالس وغیرہ ہیں، وہ اسی تنظیم کے زیر نگرانی ہوتے ہیں۔ بہت ساری تنظیمیں اس تنظیم میں شامل ہو گئی ہیں۔ تاہم شروع سے مرکزی تنظیم عزاء ہی ان کو لیڈ کرتی رہی ہے۔

اسلام ٹائمز: اس سیٹ اپ کے بانیان میں کون کون شامل تھا اور اس کے قیام کے ضرورت کیوں محسوس کی گئی۔؟
سلمان مجتبیٰ نقوی:
انجمن عابدیہ کاظمیہ کے مرزا صاحب تھے، جو بیگ صاحب کے نام سے مشہور تھے، وہ اس کے بانی ہیں۔ اس کے قیام کی ضرورت صرف اس لئے محسوس کی گئی کہ اس وقت تمام ماتمی انجمنیں اپنے اپنے طور پر عزاداری کی خدمت کر رہی تھیں۔ تاہم اس بات کا ادراک تھا کہ کراچی روز بروز پھیل رہا تھا۔ اس لئے ضرورت محسوس کی گئی کہ ایک ایسی تنظیم کو وجود میں لایا جو پورے کراچی کی سطح پر عزاداری کو منظم کرے۔

اسلام ٹائمز: میں کراچی کی صورتحال کے حوالے سے پوچھنا چاہوں گا کہ کچھ عرصہ قبل یہاں ٹارگٹڈ آپریشن شروع کیا گیا، یہ آپریشن شہر میں قیام امن اور عوام کو تحفظ دینے میں کس حد تک فائدہ مند ثابت ہو رہا ہے۔؟
سلمان مجتبیٰ نقوی:
میں سمجھتا ہوں کہ یہ جو آپریشن ہو رہا ہے، اس کے فوائد تو نظر آرہے ہی۔ لیکن ایک بات ہے جس پر ہمیں بہت تشویش ہے، وہ یہ کہ فرقہ وارانہ طرف کام نہیں ہو رہا۔ ابھی تک جو کام ہو رہا ہے وہ سیاسی یا دیگر معاملات پر ہو رہا ہے۔ اس وقت کراچی کو ضرورت ہے کہ اس آپریشن کو فرقہ پرست عناصر کی طرف بھی لایا جائے۔ اگر حکومت فرقہ پرست عناصر کیخلاف بھی کارروائی کرے تو میں سمجھتا ہوں کہ اس کے بہت اچھے نتائج برآمد ہوں گے۔ اور آنے والا محرم ماضی کے محرم سے بہتر ہو سکے گا۔

اسلام ٹائمز: کہا جاتا ہے کہ کراچی میں فرقہ پرست عناصر کو سیاسی سپورٹ بھی حاصل ہے، آپ اس حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
سلمان مجتبیٰ نقوی:
بالکل۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بات صحیح ہے۔ آپ دیکھیں کہ ہر مسلک کے اندر موجود لوگ مختلف جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں، اور اسی وجہ سے اس کے اثرات بھی ہوتے ہیں۔ اس میں اچھے لوگ بھی ہوتے ہیں اور برے بھی۔ کچھ ایسا بھی ہے کہ ایک شخص اپنی جماعت کو فرقہ پرستی کے طور پر استعمال کر رہا ہو، اور بعض جگہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ جماعتیں بھی ملوث ہوتی ہیں، جس پر ہمیں شدید تحفظات ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا وجہ ہے کہ فرقہ پرست عناصر روز بروز پنپ رہے ہیں، اور اگر کراچی کی بات کی جائے تو یہاں کالعدم جماعتیں ریاستی رٹ کی چیلنج کرتی ہیں، چھوٹے چھوٹے واقعات پر شہر کا امن تہہ و بالا کیا جاتا ہے۔؟
سلمان مجتبیٰ نقوی:
ریاست کی پالیسی ہی اس معاملہ میں واضح نہیں ہے کہ ریاست فرقہ واریت پھیلانے والوں کیخلاف کیا ایکشن لے، جب تک ریاست کی پالیسی واضح نہیں ہوگی اس وقت تک مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ مطلب دنیا میں اس وقت جو پراکسی وار چل رہی ہے، اس کے اثرات لازمی بات ہے کہ پاکستان پر بھی آ رہے ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اگر ریاست اس فرقہ واریت کو روکنے میں مخلص ہے تو دہشتگرد تنظیموں کو جو فنڈنگ کی جا رہی ہے، اسے روکنا ہوگا۔ اگر فنڈنگ کا سلسلہ جاری رہا تو میں نہیں سمجھتا کہ فرقہ واریت کو روکا جا سکے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں دہشتگردوں کیساتھ مذاکرات کی بات کی جا رہی ہے، کیا آپ اس پالیسی کو مسئلہ کا حل سمجھتے ہیں۔؟
سلمان مجتبیٰ نقوی:
نہیں، میں اسے مسئلہ کا حل نہیں سمجھتا۔ یہ جو مذاکرات کی بات ہو رہی ہے، اس میں ''گڈ طالبان'' اور'' بیڈ طالبان'' کا تصور بالکل غلط ہے۔ وہ بنیادی طور پر جس قسم کا اسلام نافذ کرنا چاہتے ہیں اور ان کا جو ایجنڈا ہے، وہ ناممکن ہے اور اگر جس طرح کا اسلام طالبان چاہتے ہیں وہ نافذ ہو گیا تو اس دن پاکستان کی بقاء خطرے میں پڑ جائے گی۔

اسلام ٹائمز: محرم الحرام کی آمد آمد ہے، اور کراچی عزاداری کا ایک بہت بڑا مرکز ہے، اس حوالے سے آپ کی تنظیم نے کیا حکمت عملی اپنائی ہے اور کیا چیلنجز درپیش آ سکتے ہیں۔؟
سلمان مجتبیٰ نقوی:
ہمارے سامنے جو مسائل ہیں ان میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پر شیعت کیخلاف جو سازش ہو رہی ہے اور جو فرقہ وارانہ بنیاد پر خطرات ہیں، ان سے ہم اپنے مومنین کو کس طرح بچا سکتے ہیں، اس سلسلے میں ہماری کوشش ہے کہ ہم اپنے رضا کار اسکاوٹس کو اس طرح کی تربیت دیں کہ ہم ان حالات کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں ہوں۔ اس کے علاوہ عزاداری کے جو دیگر مسائل ہیں ان تمام معاملات پر ہم نے اپنا ہوم ورک مکمل کرلیا ہے۔ اور ہم امید کرتے ہیں کہ اس مرتبہ ہم محرم الحرام میں مومنین کی بہتر انداز میں خدمت سرانجام دے سکیں گے۔

اسلام ٹائمز: جیسا کہ حکومت پنجاب عزاداری کو محدود کرنے کی کوشش کر رہی ہے، کیا سندھ حکومت سے تعاون کی توقع رکھتے ہیں۔؟
سلمان مجتبیٰ نقوی:
جہاں تک حکومت پنجاب کا معاملہ ہے، پنجاب حکومت سے میری مراد یہ ہے کہ جب بھی مسلم لیگ نواز کی حکومت آتی ہے تو ان کی پالیسی تھوڑی سخت ہوتی ہے اور انہوں نے ہمیشہ عزاداری کے حوالے سے بہتر رویہ نہیں اپنایا، اور جس طرح ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے وہ اسے ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس کے برعکس آپ سندھ کا کلچر دیکھیں تو چونکہ سندھ صوفیوں کا مرکز رہا ہے، یہاں صوفیوں کی بہت عزت کی جاتی ہے۔ اس لئے یہاں کبھی بھی کوئی بھی حکومت رہے، وہ عزاداری کو ہمیشہ پروموٹ کرتی ہے۔ یہ کسی ایک کا مسئلہ نہیں ہے، یہاں کوئی بھی حکومت رہے عزاداری کے حوالے سے یہاں معاملات پنجاب کی نسبت بہتر رہتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 315506
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش