0
Friday 22 Nov 2013 21:27
سانحہ راولپنڈی کی منصوبہ بندی پہلے سے کی گئی تھی

پاکستان اور افغانستان میں خون ریزی کا ذمہ دار امریکہ ہے، عبدالغفور حیدری

پاکستان اور افغانستان میں خون ریزی کا ذمہ دار امریکہ ہے، عبدالغفور حیدری
مولانا عبدالغفور حیدری 15 جنوری 1957ء کو قلات میں پیدا ہوئے۔ آپ ایم ایم اے کے ٹکٹ پر 2002ء میں ایم این اے منتخب ہوئے۔ اس سے قبل 1992-93 میں آپ صوبائی وزیر بھی رہ چکے تھے۔ آپ 1993ء میں رکن قومی اسمبلی بھی منتخب ہوئے، پیشہ کے لحاظ سے ماہر تعلیم ہیں، آپ نے اسلامیات میں ایم اے کیا ہوا ہے۔ اس وقت جمعیت علما اسلام (ف) کے مرکزی سیکرٹری جنرل  اور سینیٹر ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کے انتہائی بااعتماد ساتھیوں میں آپ کا شمار ہوتا ہے۔ آپ مختلف ادوار میں ترکی، ایران، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، بحرین اور جاپان کے دورہ جات بھی کرچکے ہیں۔ سیاست اور مذہب کو لازم و ملزوم سمجھتے ہیں۔ ملک میں امن و امان کے خواہاں ہیں اور اسلامی نظام دیکھنا چاہتے ہیں۔ لاہور میں جے یو آئی کی مجلس شوریٰ کے اجلاس کے موقع پر انہوں نے ’’اسلام ٹائمز‘‘ سے مختصر گفتگو کی، جو ہم اپنے قارئین کے استفادہ کیلئے پیش کر رہے ہیں۔ (ادارہ)
                                             ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام ٹائمز: حکیم اللہ محسود ڈرون حملے میں مارا گیا، کیا اب طالبان کیساتھ ہونیوالے مذاکرات کی بیل منڈھے چڑھ پائے گی؟ اور کیا ڈرون حملوں کے حوالے سے قومی اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔؟

عبدالغفور حیدری: ڈرون حملے ہماری سلامتی اور خود مختاری پر حملے ہیں، اس لئے ہم پہلے دن سے ہی اس کے مخالف ہیں، اس کے ذریعے مسلمانوں پر حملہ کرکے نہتے افراد کو ہلاک کیا جا رہا ہے، ہمارے ملک کے شہری اور مسلمان بہن بھائی شہید ہو رہے ہیں، ہم کب تک خاموش تماشائی بنے رہیں گے، ہمیں کھل کر ڈرون حملوں کی مخالفت کرنا ہوگی۔ ہمارے منافقانہ رویے کی وجہ سے دشمن کو شہہ ملتی ہے، ان حملوں کے حوالے سے ہمارے ہاں دو رائے پائی جاتی ہیں، جس کی وجہ سے دشمن کو یہ حملے کرنے کی جرات ہوتی ہے، جب حکومت اور اپوزیشن یک زبان ہو کر ڈرون حملے بند کرنے کا مطالبہ کریں گے تو امریکہ کو اپنا فیصلہ بدلنا پڑے گا، جب پوری قوم متفق ہو کہ ان حملوں کو فی الفور روک دیا جائے تو پھر ان کی کیا مجال ہے کہ وہ ڈرون حملے بند نہ کریں۔ اس حوالے سے حکمرانوں کو مصلحت چھوڑنا ہوگی، کیونکہ اسی مصلحت کی وجہ سے دشمن کو کھل کر ہم پر وار کرنے موقع ملا۔ ہمیں تو اب بھی حکمران سنجیدہ دکھائی نہیں دیتے۔ گذشتہ تین دہاہیوں سے ہماری مغربی سرحد پر خون بہہ رہا ہے مگر ہم خاموش بیٹھے ہیں، اس خاموشی کی ہمیں سزا مل رہی ہے، یہ ہماری ریاست کی بقا کا مسئلہ ہے، اس لئے اب خاموشی اختیار کرنے کی بجائے کھل کر بولنا ہوگا۔

اسلام ٹائمز: مولانا فضل الرحمن نے کتے کیلئے بھی شہید کا لفظ استعمال کرکے اس اعلٰی ترین منصب کی توہین نہیں کی۔؟

عبدالغفور حیدری: مولانا فضل الرحمن کے بیان پر تنقید کی بجائے اس کا مفہوم سمجھنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اس بیان میں علامتی طور پر کہا تھا کہ اگر امریکی ڈرون حملے میں کتا بھی مارا جائے گا تو میں اسے شہید کہوں گا۔ اصل میں ان کا مقصد امریکہ نے مسلمانوں پر مظالم کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا تھا۔ ورنہ کسی بھی مسلمان کی شہادت کا فیصلہ تو اللہ تعالٰی نے کرنا ہے، ہم تو صرف مسلمان کے کسی کافر کے ہاتھوں مارے جانے پر ہی اسے اس لقب سے نوازتے ہیں۔ جو بھی مسلمان کسی ظالم جابر قوت کے ہاتھوں حق کی آواز بلند کرنے کی پاداش میں مارا جائے، اسے ہم شہید سمجھتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کے اس بیان کو متنازع بنانے اور اسے منفی انداز میں پیش کرنے کا مطلب دراصل حقیقی مسائل سے توجہ ہٹانا ہے، اس پر بے مقصد بحث شروع کرکے ہم اپنے اصل مقصد اور موقف سے ہٹ جاتے ہیں۔ اس لئے اس بحث میں پڑنے کی بجائے ملک کی تمام سیاسی و دینی اور دیگر جماعتوں کو مل کر امریکہ کے ظلم و زیادتی کے خلاف آواز بلند کرنی چاہیے، ہم سمجھتے ہیں کہ امریکہ پاکستان اور افغانستان میں خونریزی کا ذمہ دار ہے۔ اگر حکیم اللہ محسود پر حملہ نہ ہوتا پاکستان کے طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع ہوچکے ہوتے، جس کے ملک میں امن و امان کی صورت حال پر گہرے اثرات مرتب ہوتے۔ اس حملے سے ثابت ہوگیا کہ کون خطے میں امن قائم ہوتا نہیں دیکھ سکتا، اس سے امریکہ کے عزائم کھل کر سامنے آگئے ہیں، اب بھی وقت ضائع کئے بغیر اعتماد سازی کو فروغ دیا جائے اور طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لئے کوششیں شروع کر دینی چاہئیں۔ اگر مذاکرات نہ ہوئے تو ملک میں انتشار پھیلنے کا اندیشہ ہے۔

اسلام ٹائمز: امریکہ اور ہمارے حکمران یہ سمجھتے ہیں کہ ڈرون حملے دہشتگردوں کیخلاف ہو رہے ہیں۔؟
عبدالغفور حیدری: نہیں میرے بھائی، ان حملوں میں مرنے والے بے گناہ بچے اور عورتیں دہشتگرد ہیں؟ دراصل امریکہ کے ڈرون حملوں کا مقصد پاکستان میں خودکش حملوں کو پروان چڑھانا ہے، انہیں یہ ایٹمی ملک ایک آنکھ نہیں بھا رہا، کیونکہ اسرائیل امریکہ اور بھارت مل کر اس ملک کو کمزور کرنے کے لئے مصروف عمل ہیں، اس لئے ملک میں دہشتگردی، ٹارگٹ کلنگ، فرقہ واریت اور تخریب کاری کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ ہمیں مل جل کر قومی وحدت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اسی سے ہی ہم دشمن کی سازشوں کو ناکام بناسکتے ہیں۔ اس حوالے سے حکومت کو ایک اور اے پی سی بلانا ہوگی، تاکہ تمام جماعتوں کو اعتماد میں لے کر ڈرون حملے بند کرنے یا نیٹو سپلائی روکنے جیسے اقدامات کا فیصلہ کیا جاسکے۔

اسلام ٹائمز: عمران خان نے تو دھمکی دے دی ہے کہ نیٹو سپلائی روکنے کیلئے، جب آپ اور عمران خان کا موقف ڈرون حملوں کے حوالے سے ایک ہے تو آپ ملکر کیوں لائحہ عمل اختیار نہیں کرتے۔؟

عبدالغفور حیدری: تحریک انصاف کو سولو فلائیٹ اختیار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، اس حوالے سے کیا جانے والا کوئی بھی جذباتی فیصلہ ملک کو گہری کھائی میں دھکیل سکتا ہے۔ تحریک انصاف محض نمبر گیم کے چکر میں نیٹو سپلائی کے متعلق بیان بازی نہ کرے اور نہ ہی کوئی جماعت اکیلے ہی نیٹو سپلائی بند کرسکتی ہے، یہ ملک کی وحدت کا معاملہ ہے اور یہ کام وفاق کا ہے، کسی ایک صوبے کا مسئلہ نہیں، تحریک انصاف قومی اسمبلی میں یہ معاملہ لائے پھر اتفاق رائے سے فیصلہ کیا جائے، اس پر عمل کرنا ہوگا، صرف اپنے نمبر بڑھانے کے لئے ایسی بیان بازی سے گریز کرنا ہوگا۔ نیٹو سپلائی اور ڈرون گرانے جیسے فیصلے صرف وفاقی حکومت ہی کرسکتی ہے۔ تحریک انصاف کا وفاقی حکومت کو الٹی میٹم دینا سمجھ سے بالا تر ہے۔ اگر خارجہ امور کے تمام معاملات صوبوں نے حل کرنا ہیں تو پھر وفاق کیا کرئے گا، اس طرح وفاق کی طاقت کم کرنے کی ہم کسی کو اجازت نہیں دے سکتے، کیونکہ یہ کسی ایک جماعت کا مسئلہ نہیں قومی مسئلہ ہے، اس لئے ڈیڈ لائن دینے سے گریز کیا جانا چاہئے تھا۔

ہمیں اس سلسلہ میں مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا۔ ہمارا عمران خان کے ساتھ کوئی ذاتی اختلاف نہیں، نہ ہی ہم ذاتیات کا مسئلہ بنانا چاہتے ہیں، قومی ایشوز پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے ہم ایک ہیں، وہ نیٹو سپلائی روکنا چاہتے ہیں تو ہم بھی نیٹو سپلائی روکنے کے خلاف نہیں، مگر کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ اس حوالے سے سجنیدگی کا مظاہرہ کیا جائے، تاکہ جگ ہنسائی نہ ہو، دنیا کو کہیں یہ پیغام نہ جائے کہ ہم کوئی منتشر قوم ہیں، ہمیں ان معاملات میں قومی سوچ اپنانا ہوگی، ہم وہ جنگ لڑ رہے ہیں جس میں ہمیں زبردستی جھونک دیا گیا تھا، سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کے بعد پاکستان نے چھ سات ماہ تک نیٹو سپلائی بند رکھی، جس سے امریکہ کو چار ارب ڈالر کا نقصان ہوا، اب امریکہ اور نیٹو کو اپنا قیمتی ساز و سامان واپس لے کر جانا ہے، اس لئے انہیں ہر قیمت پر ہماری بات تسلیم کرنا پڑے گی، لہذا پاکستان کو یہ موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہئے۔ یہ متحد ہو کر ایک قوم بن کر سامنے آنے کا وقت ہے، اگر پوری قوم فیصلہ کرئے تو ڈرون حملے رک سکتے ہیں اور نیٹو سپلائی بند ہوسکتی ہے، مگر اس لئے ہمیں یکساں موقف اپنانا ہوگا، ضرورت اس امر کی ہے کہ طالبان کیساتھ مذاکرات کو ازسرنو شروع کر دیا جائے اور امریکہ پر واضح کر دیا جائے کہ اگر مذاکرات کے دوران اب ڈرون حملہ ہوا تو اس کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا، اس لئے یہ کسی ایک پارٹی کا نہیں پوری قوم کا مسئلہ ہے۔

اسلام ٹائمز: آئی ایم ایف سے قرضے لینے والے بھلا کس طرح ڈرون حملوں پر سخت موقف اختیار کرسکتے ہیں، اور کیا حکمران طالبان کیساتھ مذاکرات میں سنجیدہ ہیں۔؟

عبدالغفور حیدری: یہ صحیح ہے کہ حکومت نے طالبان کے ساتھ مذاکرات اور رابطوں کا سلسلہ بحال کرنے کا اصولی فیصلہ کر لیا تھا، اس طرف پیش رفت بھی جاری تھی، مگر ڈرون حملے اس کے تمام تر کوششوں پر پانی پھیر دیا، یہ اصل میں مذاکراتی کوششوں پر نہیں خطے کے امن پر حملہ تھا، ہمیں پھر سے غلط فہمیوں کے ازالے کے لئے مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانا ہوگا، اسی صورت میں ملک میں امن و امان قائم ہوگا۔ ڈرون حملے سے امن کے لئے کی گئی کوششیں رائیگاں گئیں، اب ہمیں طالبان کو پھر سے مذاکرات کے لئے راغب کرنے کے لئے از سر نو انہیں قائل کرنا پڑے گا، ملکی بقا و سلامتی کا دار و مدار معاشی و دفاعی طور پر مضبوطی پر ہے، اس لئے ضروری ہے کہ ملک کو اقتصادی طور پر مستحکم بنایا جائے، کشکول توڑ کر ہمیں ملک کو پہلے آئی ایم ایف کے چنگل سے نکالنا ہوگا، اس سے قرضے نہیں لیں گے تو اپنے پاؤں پر کھڑے ہو کر بات کرنے کے قابل ہوجائیں گے۔ اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ بیرونی دباؤ سے نکلنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم ایک آزاد خارجہ پالیسی بنائیں، یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم اقتصادی طور پر مستحکم ہوں، ملک میں بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کرکے اپنی صنعتوں کا پہیہ چلا سکتے ہیں، جب یہ پہیہ چلے گا تو ملک خوش حال ہوگا مگر ہم تو بیرونی ایجنڈے پر کام کرتے ہوئے اپنی انڈسٹری تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

ایک طرف روپے کی قدر گرتی جا رہی ہے ڈالر بڑھتا جا رہا ہے، ہم ہیں کہ ٹیکس نیٹ بڑھانے کی بجائے غریبوں پر بوجھ ڈال رہے ہیں، لوگ کب تک بوجھ برداشت کریں گے، ان کے صبر کا امتحان نہ لیا جائے، انہیں ریلیف دیا جائے۔ اس لئے کہ عوام نے آپ کی ووٹ دیئے ہیں، انہیں بجلی اور گیس سے محروم کیا جا رہا ہے، دوسری طرف ایسی اشیا جو ان کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہیں، ان کے نرخ بھی مزید بڑھا دیئے گئے ہیں، پٹرولیم مصنوعات جب پوری دنیا میں ریٹ کم ہوتے ہیں، ہمارے ہاں ان چیزوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنا شروع ہو جاتی ہیں، حکمران اپنی عیاشیوں کو ختم کرکے عام آدمی کو ریلیف دے سکتے ہیں، مگر انکے اپنے پیٹ ہی نہیں بھرتے، یہ بھلا غریبوں کو کہاں ریلیف دیں گے، پٹرول تو چلو باہر سے آتا ہے، جو ہمارے اپنے ملک کی پیداوار ہیں سبزیاں، آٹا، دالیں، چاول وغیرہ ان کی قیمتیں کیوں بڑھتی ہیں؟ اس لئے کہ حکمرانوں کا کسی چیز پر کنٹرول باقی نہیں رہا، ہر کوئی اپنی مرضی کے نرخ مقرر کر رہا ہے۔ حکومت نام کی کوئی چیز نہیں، اب سنا ہے کہ آٹے اور چینی کے نرخ بڑھانے کے لئے مصنوعی بحران پیدا کیا جا رہا ہے، ہمارے ملک میں پیدا ہونے والی گندم وافر مقدار میں سٹوروں میں پڑی ہے، گنا اتنا ہے کہ کوئی خریدار نظر نہیں آتا، پھر آٹا چینی کا بحران کیوں پیدا کیا جا رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ پرویز مشرف کی رہائی کے حوالے سے کیا کہیں گے؟ کیا انہیں انصاف ملا ہے یا کوئی ڈیل ہوئی ہے۔؟

عبدالغفور حیدری: پرویز مشرف کی رہائی کے عدالتی فیصلے سے ہمیں تو مایوسی ہوئی ہے، ایک ایسا شخص جس نے دو مرتبہ آئین کو پامال کیا ہے، بے نظیر بھٹو اور اکبر بگٹی کے قتل میں ملوث رہا ہے، جس کے حکم پر لال مسجد کا سانحہ رونما ہوا ہے، جس میں نہتے مسلمان شہید ہوگئے تھے، پھر جس نے عدلیہ کے وقار کو نقصان پہنچایا، مگر عجیب بات یہ ہے کہ سیاستدانوں کو تو چھوٹی چھوٹی باتوں پر سزا دی جاتی ہے، مگر فوجی آمروں کو بڑے بڑے جرائم میں بھی معافی مل جاتی ہے، اگر فوج اور اسٹیبلشمنٹ مشرف کے پیچھے نہ ہوتی تو انہیں سزا ضرور ملتی، مگر ہمارے ہاں آمروں کو سزا دینے کی کوئی روایت نہیں، انہیں تو ملک توڑنے پر بھی گارڈ آف آنر دے کر رخصت کیا جاتا ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ یہ حکمرانوں کی کمزوری ہے کہ جو اس کے خلاف مضبوط کیس پیش نہ کرسکے، جس سے انہیں عدالتوں میں فائدہ پہنچا، اگر انہیں باہر جانے کا محفوظ راستہ دیا گیا تو ہم یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ یہ کسی ڈیل کا نتیجہ ہے۔ آئین کے آرٹیکل چھ کے حوالے سے کارروائی کا شوشہ میرے خیال میں سانحہ راولپنڈی سے توجہ ہٹانے کی سازش ہے۔

اسلام ٹائمز: سانحہ راولپنڈی کے حوالے سے آپ کیا کہیں گے۔؟
عبدالغفور حیدری: یہ واقعہ امن و امان کے خلاف بہت بڑی سازش تھا، اس کی منصوبہ بندی بہت پہلے سے کر لی گئی تھی۔ اور ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت حالات خراب کئے گئے۔ اس وقت ہمیں جذبات نہیں بلکہ ہوش میں رہ کر اس آگ کو ٹھنڈا کرنا ہوگا، تمام مکاتب فکر کے علماء کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ یہ شرپسندوں کی کارروائی ہے، اور میڈیا نے دکھایا کہ کیسے شرپسندوں نے پولیس اہلکاروں سے بندوقیں چھین کر بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنایا، اس حوالے سے پنجاب حکومت کو ملزموں کو فوری گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچانا چاہئے اور اس میں جو بھی ملوث ہے، اسے عبرت ناک سزا دی جائے۔

اسلام ٹائمز: اگر اس مسجد کا مولوی خطبے میں اشتعال انگیز باتیں نہ کرتا اور امام حسین (ع) کے حوالے سے توہین آمیز کلمات نہ کہتا تو جلوس تو پرامن تھا۔؟

عبدالغفور حیدری: دیکھیں جی، تحقیقات ہو رہی ہیں، سب کچھ سامنے آ جائے گا کہ کون اس واقعہ کا ذمہ دار ہے، ہم نے یہ کہا کہ جو بھی اس واقعہ کا ذمہ دار ہے اس کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے، ہم سمجھتے ہیں کہ یہ شیعہ سنی کا مسئلہ نہیں بلکہ بیرونی قوتوں نے کی کھیل کھیلا ہے اور انکے آلہ کار تھے جنہوں نے شہر کا امن و امان خراب کیا۔

اسلام ٹائمز: جلوس میں آنے والوں کی تو چار جگہ تلاشی ہوئی، عزادار تو نہتے تھے، پھر یہ لاٹھی بردار اور آگ لگانے والے کہاں سے آگئے اور ان کو کون لایا؟ بعض لوگ تو کہہ رہے ہیں کہ یہ لوگ مسجد کے اندر پہلے سے جمع تھے اور انہی نے باہر آ کر سب کچھ کیا ہے۔؟

عبدالغفور حیدری: یہ تو سراسر ایک گروہ پر الزام لگانے والی بات ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ جو کچھ بھی ہوا، یہ بہت بڑا ظلم ہے، بے گناہ لوگ مرے ہیں، حکومت نے جو عدالتی کمیشن تشکیل دیا ہے، اس کی تحقیقات میں یہ سب چیزیں کھل کر سامنے آجائیں گی، کچھ سوشل میڈیا پر بھی گمراہ کن وار چل رہی ہے، ایک جنگ کا سماں ہے، ہر کوئی اپنی بولی بولے جا رہا ہے، ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کی جا رہی ہے تو اس سلسلے کو بھی بند ہونا چاہئے اور جلوسوں کو چار دیواری کے اندر تک محدود کر دیا جانا چاہئے۔ تاکہ یہ فساد ہی ختم ہو، نہ کسی کو اعتراض کو موقع ملا، ہر قسم کے جلوس اور مذہبی عبادات چاردیواری کے اندر تک محدود کر دی جائیں۔
خبر کا کوڈ : 323466
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش