1
0
Sunday 24 Nov 2013 21:59
تحریک انصاف یا کوئی اور پارٹی ڈرون حملے روکنے کیلئے جو بھی کوئی اقدام اٹھائیگی ہم ان کا ساتھ دیںگے

امریکہ پاکستان کو شام اور عراق بنانیکی منصوبہ بندی کر چکا ہے، لیاقت بلوچ

امریکہ اور اسکے حواریوں کے اس خطے سے نکل جانے تک امن قائم نہیں ہو سکتا
امریکہ پاکستان کو شام اور عراق بنانیکی منصوبہ بندی کر چکا ہے، لیاقت بلوچ
لیاقت بلوچ جماعت اسلامی کے مرکزی سیکرٹری جنرل ہیں، ملی یک جہتی کونسل کی سیکرٹری جنرل شپ بھی آپ کے ہی پاس ہے، آپ کا تعلق جنوبی پنجاب کے ضلع مظفر گڑھ سے ہے، آپ 9 دسمبر 1952ء کو ملتان میں پیدا ہوئے۔ آپ نے لاء میں گریجویشن کی اور ماس کمیونی کیشن میں ماسٹر کیا ہوا ہے۔ آپ نے اپنی سیاسی کیریئر کا آغاز اسلامی جمعیت طلبہ کے پلیٹ فارم سے کیا، ضلعی اور صوبائی لیول پر بھی آپ نے جمعیت کے مختلف عہدوں پر کام کیا ہے، آپ دو بار جمعیت کے ناظم اعلٰی بھی رہ چکے ہیں، پنجاب یونیورسٹی میں دوران تعلیم طلبہ سیاست میں آپ کا کردار نمایاں ہے۔ پنجاب یونیورسٹی میں ہی اسٹوڈنٹس یونین کے سیکرٹری جنرل بھی بنے۔ 1978ء میں ایشین اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل بھی رہے۔ ورلڈ اسمبلی آف مسلم یوتھ اور انٹرنیشنل فیڈریشن آف اسلامک اسٹوڈنٹس آرگنائزیشنز کے بھی رکن رہے ہیں۔ ایم اے میں پنجاب یونیورسٹی سے گولڈ میڈل بھی حاصل کیا۔ صحافت اور لاء کی تعلیم حاصل کر کے بھی دونوں شعبوں کو بطور کیریئر نہ اپنا سکے اور کارزار سیاست میں قدم رکھ دیا۔ جماعت اسلامی کے مختلف عہدوں سے ہوتے ہوئے سیکرٹری جنرل کی نشست پر پہنچ گئے۔ آپ مختلف اوقات میں ایران، چین، ترکی، روس اور سنٹرل ایشیا کی ریاستوں کے دورے بھی کر چکے ہیں۔ سعودی عرب، ہانگ کانگ، تھائی لینڈ، قطر، یو اے ای، لندن، کینیڈا، ناروے، سویڈن،ڈنمارک، جرمنی، بوسنیا، انڈونیشیا، ملایشیاء، سنگا پور اور بنگلہ دیش بھی جا چکے ہیں۔ لاہور میں اسلام ٹائمز نے ان سے مختصر گفتگو کی جو قارئین کے استفادہ کے لئے پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)
                                     
اسلام ٹائمز:سید منور حسن کے پاک فوج کے حوالے سے بیان نے تو نئی بحث کا آغاز کر دیا، ایسے بیانات سے دشمن کو فائدہ پہنچتا ہے، آپ کیا سمجھتے ہیں اس معاملہ میں لچک کا مظاہرہ نہیں ہونا چاہیئے تھا؟
لیاقت بلوچ: ہمارے امیر سید منور حسن نے جو حال ہی میں بیان دیا ہے اس پر شرمندہ ہیں نہ ہی انہوں نے معذرت خواہانہ رویہ اختیار کیا ہے، اس لئے کہ جماعت اسلامی اپنے اصولی موقف پر قائم ہے۔ ہمارا موقف ہے کہ نائن الیون کے بعد امریکہ اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ جنگ لڑ رہا ہے۔ ایسے میں کسی مسلمان ملک کے لئے امریکہ سے تعاون اور اس کی مدد کرنا کسی صورت جائز نہیں۔ ڈرون حملوں کا شکار ہونے والے شہید کا درجہ پاتے ہیں اس میں کسی قسم کی دو رائے نہیں پائی جاتی، سید منور حسن نے کوئی غیر آئینی اقدام اٹھایا اور نہ ہی خلاف شریعت کوئی بات کی ہے، ان کے بیان کو اچھال کر قوم کو تقسیم کیا جا رہا ہے۔ خدارا قوم کو گمراہ نہ کیا جائے بلکہ انہیں حقائق سے باخبر رکھا جائے۔ انہیں بتایا جائے کہ امریکہ اسلامی دنیا پر حملہ آور ہے اس نے افغانستان میں داخل ہو کر مسلسل پاکستان کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا ہوا ہے، اس کے ڈرون طیارے نہتے اور مظلوم عام کو ہلاک کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ ان کے ڈرون حملوں کے باعث ہی ملک میں خودکش حملے بڑھ رہے ہیں، جماعت اسلامی محب وطن پاکستانیوں کی جماعت ہے، جو ہر مشکل اور کٹھن مرحلے پر پاکستانی فوج اور پاکستانی قوم کے شانہ بشانہ کھڑی ہوئی ہے، یہ پاکستان کی نظریاتی اور جغرافیائی اساس کی حفاظت کرنے والوں کی جماعت ہے۔ ساری خرابی کے ذمہ دار پرویز مشرف ہیں، جنہوں نے امریکہ کی ایک فون کال پر سرنڈر کر دیا تھا، یوں آج پوری پاکستانی قوم امریکہ کے ظلم و ستم کا نشانہ بنی ہوئی ہے۔ اس کے جاسوس ملک کے اندر تخریبی کارروائیوں میں مصروف ہیں۔

دوسری طرف اس نے ڈرون حملے شروع کر رکھے ہیں۔ ہم اپنی فوج کے خلاف نہیں بلکہ پرویز مشرف کے دور سے پاکستان نے جو امریکہ نواز پالیسیاں شروع کیں جن کے سبب پاکستان کو پرائی آگ میں جھونک دیا گیا ہے، ہم اس کے خلاف ہیں۔ کسی بھی مسلمان ملک کیلئے اپنے ہی مسلمان بھائیوں پر حملہ کرنا جائز نہیں، امریکہ کے اشارے پر اپنوں کو ہلاک کرنے کی جو پالیسیی اختیار کر رکھی ہے ہم شروع دن سے اس کے خلاف رہے ہیں۔ پوری قوم ڈرون حملوں کے خلاف ہے جب بھی قوم احتجاج کے لئے سڑکوں پر آنے کیلئے پر تول لیتی ہے امریکہ کے ایجنٹ ایسے حالات پیدا کر دیتے ہیں کہ تحریک کا رخ دوسری طرف مڑ جاتا ہے، مگر اب لاوا پک چکا ہے، عوام امریکہ نواز پالیسیوں سے اکتا چکے ہیں وہ اپنے ملک کو امریکی چنگل سے آزاد کرانے کے لئے سینہ سپر ہونے کے لئے تیار ہیں۔ حکمرانوں نے اپنے مفادات کے لئے عوام کو گمراہی کی راہ پر لگا رکھا ہے مگر انہیں پتہ ہونا چاہیئے کہ ان کی اس قسم کی غلط پالیسیوں کے سبب آج ملک بحران کا شکار ہے۔ امریکی جنگ دے نکل کر ہی ہم اپنی آنے والی نسلوں کا مستقبل محفوظ بنا سکتے ہیں۔ ہمارے دوہرے معیار اور دوغلے پن نے اس سطح پر پہنچا دیا ہے کہ آج ہم کو یہ پتہ نہیں چل رہا کہ کون شہید ہے اور کون نہیں۔ جب ہم امریکہ کو جارح مانتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہماری خودمختاری اور سالمیت پر حملے کر رہا ہے تو پھر جن مسلمانوں کو جارحیت کر کے ہلاک کر رہا ہے ہم انہیں شہید کہتے ہوئے گھبراتے ہیں۔ ہمیں قوم کو حقیقی راستہ بتانا ہو گا اور واضح کرنا ہو گا کہ کون جارحیت کر رہا ہے اور کون مظلوم ہے، جب تک ہماری ڈائریکشن واضح نہیں ہو گی منزل کس طرح پا سکتے ہیں۔ یہی سوال سید منور حسن نے اٹھایا تھا مگر ان پر تنقید کے وار شروع کر دیئے گئے۔ ہمارا موقف واضح ہے کہ امریکہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جنگ کر رہا ہے اور اس کی مدد کرنے والے بھی مسلمانوں کے بہی خواہ اور دوست نہیں ہو سکتے اس لئے پاکستان کو بربادی کے راستے سے نکالنے کیلئے ہمارے اداروں اور اسٹیبلشمنٹ کو اپنی پالیسیاں بدلنا ہوں گی۔ جماعت اسلامی امریکہ کو جارح سمجھتی ہے اس لئے وہ نیٹو سپلائی بند کرنے کے لئے منعقد ہونے والے دھرنوں میں بھرپور شرکت کرے گی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ امریکہ اور اس کے حواریوں کے اس خطے سے نکل جانے تک امن قائم نہیں ہو سکتا۔ اس لئے سب کو مل جل کر اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرنا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: ڈرون حملے انتشار کی اصل وجہ ہیں، ان کو روکنے کیلئے آپ کی پارٹی نے کیا حکمت عملی اختیار کی ہے اور کیا نیٹو سپلائی بند کرنے سے حملے رک جائیں گے؟

لیاقت بلوچ: ڈرون حملے رکوانے اور طالبان مذاکرات کے حوالے سے پوری قوم متحد ہے تو پھر کونسی طاقت ہے جو نہ تو ڈرون حملے روکتی ہے اور نہ ہی طالبان سے مذاکرات کرنے دیتی ہے، جب بھی طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے کوئی اقدام اٹھایا جاتا ہے اس سے پہلے ہی ڈرون حملہ کر کے اس کوشش کو سبوتاژ کر دیا جاتا ہے۔ اب آپ خود ہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کونسی طاقت ہمیں مذاکرات کرنے سے روکتی ہے۔ پھر بھی اگر ہم ان کا ساتھ دیتے ہیں تو قوم سوچنے پر مجبور ہو جاتی ہے کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں، اصل میں امریکہ افغانستان سے نکلنے سے پہلے ہمارے ملک میں خانہ جنگی کرانا چاہتا ہے اس لئے جب بھی قوم اتحاد کا مظاہرہ کر کے مذاکرات کی طرف بڑھتی ہے تو ایسا سانحہ رونما ہو جاتا ہے اس پر قومی اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کیلئے نان ایشوز کو ایشو بنا کر اچھال دیتا ہے۔ سید منور حسن پہلے بھی اس موقف پر قائم تھے اور آج بھی اپنے موقف پر قائم ہیں، مگر اب دانستہ اس مسئلے کو اچھالا جا رہا ہے، آئی ایس پی آر کو تو یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ ملک کی کسی سیاسی جماعت کے سربراہ کو نوٹس دے یا پریس ریلیز جاری کر کے وضاحت طلب کرے، یہاں ملک کی وحدت کو نقصان پہنچانے والوں کو تو کوئی نہیں پوچھتا محب وطن سیاسی رہنماؤں سے وضاحتیں طلب کی جاتی ہیں۔

فوج اپنے پرائے میں پہچان کرے، ڈرون حملے روکنے کیلئے نیٹو کی سپلائی لائن کاٹنے کی ضرورت ہے۔ اس طرح ہم اپنی طاقت اور خود مختاری کا مظاہرہ کر سکتے ہیں، تحریک انصاف یا کوئی اور پارٹی ڈرون حملے روکنے کیلئے جو بھی کوئی اقدام اٹھائے گی ہم ان کا ساتھ دیں گے۔ سابق فوجی آمر نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کیلئے پاکستان کو امریکہ کی کالونی بنا دیا ہے۔ اب ہمارے ملک کی حیثیت امریکہ کی ریاست جیسی ہے، بزدل حکمرانوں نے امریکی مفاد میں اپنی خارجہ پالیسی اور داخلی پالیسیاں تشکیل دیں۔ ڈرون حملوں کے نتیجہ میں ہی آج ہمارے لوگ بندوق اٹھانے پر مجبور ہو رہے ہیں، اس جنگ میں امریکہ سے زیادہ ہمارا نقصان ہو رہا ہے، اس لئے ہمیں فی الفور اس جنگ سے باہر نکلنے کا اعلان کرنا چاہیئے، ہمیں اپنی آزادی و خودمختاری کے لئے آزاد خارجہ پالیسی بنانا ہو گی۔ اس کے لئے ضروری ہے امریکہ افغانستان سے نکل جائے اور وہاں ایک آزاد اور خودمختار حکومت قائم ہو جائے جسے سب کو قبول کرنا ہو گا، جہاں تک تحریک انصاف اور دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کا تعلق ہے تو جو کوئی بھی اس ملک میں قیام امن کے لئے کوشش کرے گا جماعت اسلامی اس کا ساتھ دے گی، موجودہ حکمرانوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں کہ جو مشرف اور زرداری دور کی پالیسیوں کو آگے بڑھا رہے ہیں، محض کرسی بچانے کیلئے امریکی پالیسیوں کی حمایت کرنا سراسر بے وقوفی اور نادانی ہو گی۔

اسلام ٹائمز:بھارت ایک طرف تو سرحدوں پر جھڑپیں کر رہا ہے، دوسرا آبی جارحیت کا مرتکب بھی ہو رہا ہے اس کے باوجود سرتاج عزیز بھارت کے دورہ پر چلے گئے، کیا انہیں وہاں ان ایشوز کو اٹھانا نہیں چاہیئے تھا؟

لیاقت بلوچ: مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز نے اپنے دورہ بھارت میں جو موقف اختیار کیا اس پر کیا بات کی جائے، ہماری خارجہ پالیسی میں ہمیشہ سے سقم پایا جاتا ہے ہم ایک طرف بھارت کو اپنا ازلی دشمن قرار دیتے ہیں دوسری طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے کھڑے ہو جاتے ہیں، خطے میں توازن کے قیام کیلئے برابری کی سطح پر بات ہو سکتی ہے مگر بھارت جس نے پاکستان کے وجود کو ہی تسلیم نہیں کیا اسے پسندیدہ ملک تسلیم کیا گیا تو قوم سراپا احتجاج بن جائے گی، خطے میں قیام امن کے لئے پہلے مسئلہ کشمیر حل کیا جائے۔ پاکستان کے پانی پر بننے والے ڈیم ختم کئے جائیں، مگر بھارت دوستی کی بات تو کرتا ہے مگر نہ وہ مسئلہ کشمیر حل کرنے کی طرف آتا ہے اور نہ ہی آبی جارحیت ختم کرنے کا مطالبہ تسلیم کرتا ہے، پھر مشیر خارجہ کا دورہ جو بے مقصد ہے سمجھ سے باہر ہے۔ بھارت سے اس حوالے سے سخت موقف اپنایا جائے اور ان مسائل کو عالمی فورمز پر اٹھایا جائے قوم امریکہ کے اشارے پر بھارت سے دوستی کرنے کو تسلیم نہیں کرے گی، بھارت تو پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی باتیں کر رہا ہے، ہم ان سے دوستی کی بھیک مانگنے جا رہے ہیں، آزادی اور خودمختاری بھیک میں نہیں ملا کرتی اس کیلئے دو دو ہاتھ کرنے پڑتے ہیں۔

مشیر خارجہ کا دورہ بھارت معذرت خواہانہ تھا جس سے کچھ حاصل نہیں ہو گا ہم شروع دن سے پہلے ہی کہتے آ رہے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی اور افراتفری پیدا کرنے میں بھارت کا ہاتھ ہے، اب تو بھارت کے سابق آرمی چیف بھی برملا اعتراف کر رہے ہیں کہ انہوں نے مقبوضہ کشمیر اور پاکستان کے خلاف کارروائیاں کرنے کے لئے سیل قائم کر رکھا تھا تاکہ پاکستان عدم استحکام کا شکار رہے، اس لئے یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے فروغ میں بھارت ابھی بھی سرگرم عمل ہے، پھر بھارتی حکمران مسئلہ کشمیر سے توجہ ہٹانے کیلئے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کا مرتکب ہو رہا ہے، اس کی سات لاکھ فوج کشمیر میں پھنسی ہوئی ہے جہاں وہ بےگناہ کشمیری مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے، اس کی خواہش ہے کہ پاکستان اپنے داخلی مسائل میں اسی طرح الجھا رہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کی طرف نہ آئے اس نے افغانستان کے راستے بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں مداخلت کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے وجہ یہی ہے کہ پاکستان اپنے مشرقی محاذ سے نظر ہٹا کر مغرب میں الجھا رہے اسی لئے وہ مسلسل بلوچستان میں یورش پیدا کر رہا ہے، کراچی میں بڑھتی ہوئی لاقانونیت میں بھی اس کا ہاتھ ہے ہمیں اسے ایکسپوز کرنا ہو گا۔

بھارت اسرائیل اور امریکہ کی تثلیث پاکستان کو نقصان پہنچانے کے درپے ہے، عالم اسلام کے خلاف بھارت کی سازشیں بےنقاب ہو رہی ہیں۔ جو یورپ کو ساتھ ملا کر مسلمانوں کے خلاف نبرد آزما ہے اور پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا، امریکہ کی اسی لئے اس کے ساتھ دوستی ہے وہ بھی عالم اسلام کو نقصان پہنچانے کے درپے ہے۔ اس لئے امریکہ عالم عرب میں غیر جمہوری قوتوں اور آمروں کے ساتھ ہے۔ مصر میں اس نے جہاں اسلام حکومت کا خاتمہ کیا وہ ہرصورت میں اسرائیل کا دفاع چاہتا ہے اسی لئے مصر میں قائم ہونے والی اسلامی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا، امریکی اسرائیلی یہودیوں کی مکمل پشت پناہی کرتے ہیں، انہی کی آشیر باد سے عرب ممالک اور انہیں کچلنے میں جہاں امریکہ اپنا کردار ادا کر رہا ہے وہاں اسرائیل بھی مکمل طور پر اس کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس لئے کہ ان کا مقصد ایک ہے۔ یہ اسلامی دنیا میں انتشار پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ آج ہم جس دہشت گردی کا شکار ہیں اس میں اسرائیل امریکہ اور بھارت تینوں شامل ہیں، اس لئے ان کے اہداف مشترک ہیں۔

اسلام ٹائمز:سانحہ راولپنڈی میں کس کا ہاتھ سمجھتے ہیں، اس میں بھی بھارت ملوث ہے؟

لیاقت بلوچ: سانحہ راولپنڈی میں بھی بیرونی ہاتھ خارج از امکان نہیں، کیوں کہ اس میں انتظامیہ کی غفلت سے یہ سانحہ رونما ہوا، اگر انتظامیہ اس میں ذمہ داری کا مظاہرہ کرتی تو یہ واقعہ کسی طور بھی رونما نہیں ہونا تھا، حکومت کی ناقص پالیسی کے باعث راولپنڈی میں بےگناہ لوگ موت کی بھینٹ چڑھ گئے، لاکھوں روپے کی املاک جلا دی گئیں، تو اس میں یقیناً بیرونی قوتیں ملوث ہیں، اس کے علاوہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لئے ہم ملی یک جہتی کونسل کا اجلاس بلانے کا سوچ رہے ہیں، اسی ہفتے ہی اسلام آباد میں اجلاس بلایا جائے گا جس کی تاریخ کا تعین ایک آدھ دن میں ہو جائیگا، اجلاس میں ہم تمام مکاتب فکر کے علماء کو باہمی اتحاد کے حوالے سے کردار ادا کرنے کی اپیل کریں گے اور ملی یک جہتی کونسل کا مقصد بھی یہی ہے کہ ملک میں فرقہ واریت کے خاتمہ کے لئے کردار ادا کرنا ہے، اس کونسل میں تمام مکاتب فکر کے جید علما اور رہنما شامل ہیں، اس میں ہم نے درباری ملاؤں کو شامل نہیں کیا، جو ہر پلیٹ فارم پر صرف حکومت کی بات کرتے ہیں، ہم نے اس پلیٹ فارم پر محب وطن اور مخلص رہنماؤں اور علماء کو جمع کیا ہوا ہے اور ہمیں یقین ہے ملی یک جہتی کونسل اس حوالے سے اپنا کردار بہتر انداز میں ادا کرے گی۔

اسلام ٹائمز: پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کے حوالے سے آپ کی کیا رائے ہے، ہماری حکومت تو تذبذب کا شکار دکھائی دے رہی ہے؟

لیاقت بلوچ: دیکھیں جی، پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ ہماری معیشت کے لئے روح کی حیثیت اختیار کر چکا ہے، اس حوالے سے واضح کر دیں کہ توانائی بحران کے حل کے لئے ہمیں مستقل بنیادوں پر حل نکالنا ہو گا، موجودہ حکومت وقتی منصوبے بنا رہی ہے جو ممکن ہے ان کے دور حکومت تک ہی چل سکیں، اس کے بعد نئی آنے والی حکومت کو پھر انہی مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا، اس حوالے سے ہم یہ چاہتے ہیں کہ توانائی بحران کا سنجیدہ اور مستقل بنیادوں پر حل نکالا جائے۔ نواز لیگ کی حکومت فرانس، جرمن، چینی اور دیگر کمپنیوں کیساتھ سولر معاہدے کئے جا رہی ہے یہ سب وقتی ہیں، عارضی ہیں، اس لئے اس بحران کا حل مستقل بنیادوں پر کی جائے اور اس کیلئے صرف دو حل ہیں اس کے سوا کوئی تیسرا حل نہیں، ایک حل کالا باغ ڈیم کی تعمیر ہے، کالا باغ ڈیم تعمیر ہو گیا تو ہمارے ملک میں بجلی کا بحران ختم ہو جائے گا، لیکن کالاباغ ڈیم پر صوبوں کے اختلافات وفاق کے لئے خطرہ ہیں اس لئے فی الحال یہ قابل عمل منصوبہ دکھائی نہیں دے رہا۔

دوسرا اور آخری حل پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ ہے، جس پر کسی کو بھی اعتراض نہیں، کالا باغ ڈیم کی طرح اس کی مخالفت نہیں ہو رہی تو حکومت اپنا مفاد دیکھے، اپنی معیشت کی بہتری دیکھے، بجائے اس کے کہ ہم امریکہ کے لئے اپنا مفاد قربان کر دیں، اس حوالے سے کوئی دو رائے نہیں کہ کیا کیا جائے، واضح ہے کہ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ ہماری معیشت کیلئے انتہائی ضروری ہے، اس سے حکومت کو کسی طور بھی پیچھے نہیں ہٹنا چاہیئے، اور ہم تو چیف جسٹس سے مطالبہ کریں گے کہ وہ ازخود نوٹس لے کر عوامی بہبود کے اس منصوبے کی تکمیل کرائیں، اس سے بیرونی دباؤ بھی مسترد ہو سکتا ہے، حکومت کہہ سکتی ہے کہ یہ فیصلہ ہماری عدلیہ کا ہے ہم اس میں مداخلت کا اختیار نہیں رکھتے تو امریکہ خود بخود چپ ہو جائے گا، امریکہ کا بس پریشر ہی ہوتا ہے، جو اس میں آ گیا وہ تو کام سے گیا اور جو اس پریشر کے سامنے ڈٹ گیا اس سے خود امریکہ ڈر جاتا ہے۔ جیسے ایران کی پوزیشن ہے، ایران نے تمام تر پابندیوں کے باوجود کبھی امریکہ کو خاطر میں نہیں لیا، وہ اس کی پرواہ بھی نہیں کرتے، اس لئے امریکہ ان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکا، انہوں نے تو امریکہ کا ڈرون اتار کر اس میں تبدیلیاں کر کے اپنا ڈرون بنا لیا ہے تو امریکہ نے اس کا کیا بگاڑ لیا ہے، اس لئے ہم تو کہتے ہیں کہ حکومت جرات مندی کا مظاہرہ کرے اور امریکہ کے ڈرون مار گرائے یا ایران کی طرح اتار لے تو یہ ڈرون ہمارے کام بھی آ سکے گا۔

اسلام ٹائمز: ہمارے پاس بھی تو ڈرون ہیں، پچھلے دنوں پاک فوج نے اس کا میاب تجربہ بھی کیا ہے؟

لیاقت بلوچ: ہاں ہیں تو سہی لیکن وہ کس کام کے؟ ایٹم بم بھی تو ہے ہمارے پاس، لیکن ہمیں اس کی حفاظت کے لالے پڑے ہوئے ہیں، یہ تجربات اور اسلحہ کا ذخیرہ ہماری فوج مجبوری میں کر رہی ہے، بھارت جو خطے میں اسلحے کے انبار لگا رہا ہے اس کا مقابلہ کرنے کے لئے ایسا کرنا ضروری ہے، اس لئے آپ ان کا ذکر نہ کریں جہاں تک امریکہ کے ساتھ تصادم کی بات ہے تو ہماری حکومت کو خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں، اگر ہم امریکہ کا ڈورن گرا لیتے ہیں تو پہلے تو امریکہ ہمارے کچھ نہیں بگاڑے گا اور اگر اس نے حملے کی حماقت کر بھی دی تو چین، ایران اور سعودی عرب ہمارے ساتھ ہوں گے، آج کل سعودی عرب کے تعلقات بھی ایران کیساتھ کشیدہ ہیں، کیوںکہ شاہ عبداللہ جان گئے ہیں کہ امریکہ نے تو ان کے ساتھ بھی وفا نہیں کی اور اس حوالے سے بندر بن عباس کو امریکہ اپنے مفادات کے لئے استعمال کر رہا ہے، تو پاکستان کو خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں، کھل کر امریکہ کے سامنے آنا چاہیئے اور سخت موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے ورنہ امریکہ پاکستان کو شام اور عراق بنانے کی منصوبہ بندی تو کر ہی چکا ہے۔
خبر کا کوڈ : 324106
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

محترم ڈرون حملوں میں مرنے والے معصوم لوگوں کو تو شہید کہا جا سکتا ہے لیکن ہزاروں معصوم لوگوں کے سفاک و بےرحم قاتل کو شہید کہنا واقعا قابل مذمت ہے، منور حسن نے یہ بیان دے کر ایک خاص قسم کے تعصب کا ثبوت دیا ہے۔
ہماری پیشکش