0
Friday 29 Nov 2013 01:03
سعودی عرب امریکہ کی بی ٹیم ہے

تکفیری دہشتگرد گروہ امریکی ایماء پر سنی شیعہ مسلمانوں کو دہشتگردی کا نشانہ بنا رہا ہے، مولانا فیصل عزیزی

تکفیری دہشتگرد گروہ امریکی ایماء پر سنی شیعہ مسلمانوں کو دہشتگردی کا نشانہ بنا رہا ہے، مولانا فیصل عزیزی
مولانا فیصل عزیزی بندگی کا تعلق کراچی سے ہے۔ 1985ء میں زمانہ طالب علمی میں ہی آپ نے ڈاکٹر طاہر القادری کی تحریک منہاج القرآن سے وابستہ ہو کر مذہبی سرگرمیوں اور دینی تعلیم کا باقاعدہ آغاز کیا۔ 1991ء سے آپ نماز جمعہ کی امامت کر رہے ہیں۔ تین سال قبل آپ نے تحریک منہاج القران سے علیحدگی کے بعد سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی۔ آجکل آپ سنی اتحاد کونسل کراچی کے صدر ہیں۔ اسلام ٹائمز نے مولانا فیصل عزیزی بندگی کے ساتھ مختلف مختلف موضوعات کے حوالے سے ان کی رہائش گاہ پر ایک نشست کی، جس میں نئے پاکستانی آرمی چیف سے وابستہ امیدیں، جشن عید میلادالنبی (ص) اور عزاداری سیدالشہداء امام حسین (ع) کے جلوسوں پر پابندی کی سازش، تکفیری سوچ، کالعدم تنظیموں پر پابندی، فرقہ واریت پھیلانے کی سازش، انچولی دھماکے اور بے مثال سنی شیعہ اتحاد و وحدت کا اظہار، عالمی طاقتوں کی جانب سے جمہوری اسلامی ایران کے پرامن ایٹمی توانائی کے حق کو تسلیم کئے جانے پر اسرائیل اور سعودی عرب کا واویلا وغیرہ شامل ہیں۔ اس موقع پر آپ سے کیا گیا خصوصی انٹرویو اسلام ٹائمز کے قارئین کیلئے پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: جنرل راحیل شریف کو نیا پاکستانی آرمی چیف مقرر کیا جا چکا ہے، کتنی امیدیں ہیں کہ نئی فوجی قیادت پاکستان میں دہشتگردی کو کچلنے کیلئے واضح اور دوٹوک پالیسی اختیار کریگی۔؟
مولانا فیصل عزیزی بندگی: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔۔۔۔۔ دیکھیں نئی فوجی قیادت سے بھی بالکل ویسے ہی امیدیں ہیں جیسے پچھلی فوجی قیادت سے تھیں، لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہئیے کہ فوجی قیادت چونکہ جمہوری نظام میں حکومت کے تابع ہوتی ہیں اور اس میں بنیادی واضح خارجہ پالیسی حکومت کو بنانی ہوتی ہے جو کہ اس نواز حکومت نے اپنے قیام سے لیکر اب تک اپنی خارجہ پالیسی کا اعلان نہیں کیا۔ دوسرا یہ کہ جو نئے آرمی چیف آئے ہیں، ان کا شخصی پس منظر تو بڑا حسین اور لائق احترام ہے، اب آنے والے وقت میں واضح ہوگا کہ انکا رخ اور انکی سمت کا تعین ہو سکے گا، ابھی تو انہوں نے اپنی پوزیشن سنبھالی ہے۔ امید ہم یہ رکھتے ہیں کہ جس طرح ان کا خاندانی پس منظر ہے بالکل ایسے ہی یہ پاکستان کو عزت و آبرو دیں گے اور پاکستان کی ناموس کی علامت بنیں گے۔

اسلام ٹائمز: دہشتگردی کی آڑ لیکر جشن عید میلادالنبی (ص) اور عزاداری سید الشہداء امام حسین (ع) کے جلوسوں پر پابندی کی باتیں کی جا رہی ہیں، کیا اس قسم کی باتوں سے دہشتگرد عناصر کے حوصلے بلند نہیں ہونگے۔؟
مولانا فیصل عزیزی بندگی: جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ عزاداری سید الشہداء (ع) اور ربیع الاول کے جلوسوں پر پابندی لگا دی جائے دہشت گردی کے خطرے کے پیش نظر، ان حضرات نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ دہشت گردی جب بازاروں میں ہوتی ہے تو کیا بازاروں کو بند کر دیا جائے، دہشت گردی جب فوجی مرکز جی ایچ کیو پر ہوتی ہے تو کیا جی ایچ کیو کو بند کر دیا جائے، جب فوجی جوانوں، رینجرز اور پولیس اہلکاروں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو کیا قانون نافذ کرنے والے اداروں اور محکموں کو بند کر دیا جائے، مساجد، امام بارگاہوں، مزارات و درگاہوں پر دشت گردانہ حملے ہوتے ہیں تو کیا انہیں بند کر دیا جائے، یہ حل نہیں ہے، بلکہ اس طرح کی سوچ تو دہشت گردوں کے ناپاک عزائم کو کامیاب بنانے میں تقویت فراہم کرنا ہے۔ دہشت گرد تو چاہتے ہی یہ ہیں کہ جشن عید میلاد البنی (ص) کے جلوس نہ ہوں، عزاداری سید الشہداء (ع) نہ ہو، مگر عزاداری سید الشہداء (ع) کا ہونا، ربیع الاول کے جلوسوں کا ہونا، ولادت و شہادت کا جلوس ہونا درحقیقت صرف جلوس کا ہونا نہیں ہے بلکہ یہ اس بات کا اعلان بھی ہے کہ ہم دہشت گردی کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں۔

اسلام ٹائمز: جشن عید میلاد النبی (ص) اور عزاداری کے جلوس پر پابندی کے پیچھے کونسا طبقہ سرگرم عمل ہے۔؟
مولانا فیصل عزیزی بندگی: اس ناپاک خواہش و سازش کے پیچھے ہوئی وہی طبقہ ہے جسے اس کا فائدہ ہوگا۔ اہل تشیع و اہلسنت دونوں ولادت باسعادت حضرت محمد رسول خدا (ص) و شہادت امام حسین (ع) کی محافل کا اہتمام کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی محافل میں شرکت کرتے ہیں، ایک طبقہ ایسا ہے کہ جن کے ہاں نہ ذکر ولادت حضرت محمد (ص) ہے اور نہ ہی ذکر شہادت امام حسین (ع) ہے۔ پابندی کی باتیں کرنے والا وہی طبقہ ہے جو جشن عید میلاد النبی (ص) اور عزاداری کے جلوس نکالے کو تو بدعت سمجھتے ہیں لیکن یوم فارق اعظم (رض) یکم محرم کو منا کر جلوس نکال کر انہیں اپنا بدعت کا فتویٰ یاد نہیں آتا، یہ تکفیری طبقہ بارہ ربیع الاول اور یوم عاشور کی تعطیلات کو تو غیر اسلامی کہتے ہیں، لیکن یوم صدیق اکبر (رض) اور یوم فاروق اعظم (رض) پر تعطیل کی اپیل کرتے وقت انہیں اپنے بدعت کے فتوے یاد نہیں آتے، یہ ٹو لہ اپنے مقاصد کیلئے اجتماعات منعقد کرتا ہے مگر اسے ربیع الاول اور محرم کے اجتماعات بدعت نظر آتے ہیں، دراصل ان جلوس پر پابندی اسی طبقے کی دیرینہ خواہش ہے کہ ربیع الاول اور محرم میں یہ اجتماعات اور گھر گھر حضرت محمد (ص) اور انکے نواسے حضرت امام حسین عالی مقام (ع) کا مبارک ذکر نہ ہو سکے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں کالعدم تنظیموں پر پابندی کے باوجود امن و امان کے قیام کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا، کیا وجہ سمجھتے ہیں۔؟
مولانا فیصل عزیزی بندگی: دیکھیں کالعدم تنظیموں پر پابندی لگانا ہی صرف مسئلے کا حل نہیں ہے کیونکہ وہ نام بدل کر پھر فعال ہو جاتے ہیں۔ تنظیم پر پابندی کے ساتھ ساتھ جن افراد کی وجہ سے اس تنظیم پر پابندی لگی ہے انہیں کی فعالیت پر بھی پابندی ہونی چاہئے اور انہیں پابند کیا جائے کہ آئندہ پھر کبھی عملی سیاست اور کسی بھی دوسری تنظیم کا حصہ نہ بن سکیں۔ بلاتفریق ایک معیار بنا لینا چاہئیے کہ جن کی وجہ سے دہشت گردی کو تقویت ملے، جن کی وجہ سے امن تاراج ہو چاہے ان کا تعلق کسی بھی مکتب و مسلک سے ہو، سیاسی و لسانی گروہ سے ہو، سرکاری سطح پر ان کا بائیکاٹ ہونا چاہئیے۔ لہٰذا صرف تنظیم یا گروہ نہیں بلکہ افراد پر بھی پابندی لگانا ضروری ہے۔

اسلام ٹائمز: انچولی دھماکوں میں سنی شیعہ مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا، اسی خون کی تاثیر کا اثر تھا کہ علمائے اہلسنت و اہل تشیع نے اپنے بھرپور مثالی اتحاد و وحدت کا مظاہرہ کرکے فرقہ واریت پھیلا کر مسلمانوں میں تفرقہ ایجاد کرنے کے دہشتگرد عناصر کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیا، کیا کہیں گے اس حوالے سے۔؟
مولانا فیصل عزیزی بندگی: دیکھیں انچولی دھماکوں کے نتیجے میں ہونی والی شہادتوں پر سنی شیعہ اتحاد و وحدت کا مظاہرہ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ اہلسنت و اہل تشیع مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء کرام، تنظیمیں، افراد ہر موقع پر ایک دوسرے کے ساتھ محبت و یکجہتی کا اظہار کرتے چلے آ رہے ہیں۔ افسوس ان اذہان کے اوپر ہے کہ جب انچولی دھماکوں کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی تو انہوں نے اس واقعے کی مذمت صرف اس لئے نہیں کہ کہیں طالبان ناراض نہ ہو جائیں۔ بڑے بڑے اتحاد کے دعویدار، پاکستان کے خیر خواہ انچولی دھماکوں کی مذمت صرف اس لئے نہیں کر سکے کہ اس کی ذمہ داری طالبان قبول کر چکے تھے۔ یہ لوگ ہر واقعے پر، ہر سانحے پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں، مذمت کرتے ہیں لیکن انچولی دھماکوں میں سنی شیعہ مسلمانوں کی قیمتی جانیں گئیں ہیں، سنی شیعہ مسلمانوں نے مشترکہ طور پر جام شہادت نوش کیا ہے، یہاں پر مذمت کیوں نہیں کی گئی۔ یہاں پر مذمت کرنے صرف وہی طبقہ کیوں سامنے آیا جو پہلے ہی دہشت گردی کا شکار ہے، اس آگ میں جل رہا ہے اور جن سے امید کی جاتی ہے انہوں نے ابھی تک نہ تعزیت کی اور نہ ہی اس واقعہ کی مذمت کی۔

اسلام ٹائمز: اسلام و پاکستان دشمن دہشتگرد عناصر اپنے غیر ملکی آقاﺅں کو خوش کرنے کیلئے پاکستان میں فرقہ وارانہ سازش کرکے مسلمانوں کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں، کس کی ایماء پر یہ کام جاری ہے۔؟
مولانا فیصل عزیزی بندگی: پاکستان میں فرقہ وارانہ مسئلہ نہیں ہے بلکہ اصل بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اسلام و مسلمانوں کے نام پر عالمی استعمار و سامراج نے ایک گروہ تشکیل دیا ہے جو اپنی تمام تر حرکتوں کو اسلام کا نام دیتا ہے اور اس کے نتیجے میں عالمی سطح پر اسلام مخالف پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ اسلام ایسا دین ہے، یہی گروہ پاکستان میں بھی دہشت گردی کا ذمہ دار ہے، ورنہ اہلسنت و اہل تشیع کا ساتھ 1400 سالوں سے چلا آ رہا ہے، آپس میں شادی بیاہ بھی ہوتی ہیں، ایک دوسرے کے ہر خوشی و غم کے مواقع پر شریک ہوتے ہیں، ایک دوسرے کے اجتماعات میں شریک ہوتے ہیں، امام بارگاہوں میں ہمارا جانا ہوتا ہے، علماء و ذاکرین کا مساجد میں آنا ہوتا ہے، ہمارے اجتماعات میں آتے ہیں۔ اختلافات ہر جگہ ہوتے ہیں مگر یہاں کوئی ایسی صورتحال نہیں ہے کہ ایک دوسرے کے قتل کے درپے ہوں، کافر کافر کے نعرے لگ رہے ہوں۔ اصل میں یہ ایک دہشت گردوں کو ٹولہ ہے جس نے اپنے آپ کو اسلام کو ٹھیکیدار سمجھا ہوا ہے، یہ دہشت گرد گروہ بیک وقت سنی شیعہ مسلمانوں کو اپنے نشانے پر لئے ہوئے ہے۔ لہٰذا یہ سارا کام عالمی سامراج کی ایماء پر ہو رہا ہے جس کا مقصد اسلام کے آفاقی پیغام کو پھیلنے سے روکنا اور اسلام و مسلمین کو بدنام کرنا ہے، اس کا اظہار امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن کر بھی چکی ہیں، انٹرنیٹ پر تقریریں موجود ہیں، جس میں انہوں نے انکشاف کیا ہے کن کن نام نہاد اسلامی تنظیموں کو جنم دیا، فنڈز دیئے، پروان چڑھایا اور اپنے اسلام دشمن مقاصد کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔ ان تمام گروہوں کے پیچھے امریکا ہے، پاکستان مخالف قوتیں ہیں اور انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان کے پیچھے عالم اسلام کے ایسا ملک بھی ہے جس کی سرزمین سے ہر مسلمان کو عقیدت و محبت ہے، اس عرب سرزمین سے بھی دہشت گردی کو ہوا دی جاتی ہے۔

اسلام ٹائمز: عالم اسلام میں تکفیری سوچ کو پروان چڑھایا گیا اور اب محسوس کیا جا رہا ہے کہ اس سوچ کو عالم اسلام خصوصاً پاکستان میں مسلمانوں پر مسلط کرنے کیلئے کوشش تیز کر دی گئی ہیں، جس کا ایک واضح ثبوت جشن عید میلادالنبی (ص) اور عزاداری سید الشہداء امام حسین (ع) کے جلوسوں پر پابندی لگانے کی سازش ہے۔ کیا کہیں گے اس تکفیری سوچ کے حوالے سے۔؟
مولانا فیصل عزیزی بندگی: لفظ فرقہ وارانہ خود تکفیر کی نفی ہے، کیونکہ فرقے دین میں ہوتے ہیں دین سے باہر نہیں۔ جب ہم کہتے ہیں شیعہ اور سنی، دیوبندی، اہلحدیث، تو یہ فرقہ ہیں، اس کا مطلب ہے کہ ہم نے ان تمام کو مسلمان تسلیم کیا ہے، ورنہ ہم ان کو فرقہ نہیں بلکہ مذہب کہتے۔ ہم نے شیعیت اور سنیت کو اسلام کا فرقہ کہا ہے مذہب نہیں کہا۔ یہ سوچ کے زاوئیے ہیں، مکاتب فکر ہیں، اہل تشیع کی سوچ کا اپنا ایک زاویہ ہے، اہلسنت کی سوچ کا اپنا ایک زاویہ ہے، لیکن سوچ کے فرق کے باوجود دونوں مسلمان ہیں اور کبھی یہ دونوں ایک دوسرے پر تکفیری فتوے نہیں لگاتے بلکہ یہ ایک تیسرا گروہ ہے جو شیعہ سنی دونوں کو، اہل تشیع کو گستاخ صحابہ (رض) کہہ کر اور اہل سنت کو مشرک اور بدعتی کہہ کر تکفیری فتوے لگاتا ہے۔ میں بار بار یہ کہہ رہا ہوں کہ اس تیسری قوت پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس گروہ کے اجتماعات بھی محفوظ ہیں، اس کی مساجدمحفوظ ہیں، اس کے مدارس محفوظ ہیں، رائیونڈ میں اتنا بڑا اجتماع ہوتا ہے، سلامتی سے ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ سلامتی سے کرتا رہے، لیکن یہ ایک سوالیہ نشان ہے کہ کراچی کی ایم اے جناح روڈ پر اہل تشیع کا جلوس محفوظ نہیں ہے، نشترپارک میں جشن عید میلاد النبی (ص) کا اجتماع محفوظ نہیں ہے، داتا علی ہجویری کی درگاہ محفوظ نہیں ہے، انچولی کے اندر بیٹھے ہوئے معصوم لوگ محفوظ نہیں ہیں مگر جہاں لاکھوں لوگ جمع ہوتے ہیں وہاں اس قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا، یہ اچھی بات ہے وہاں امن ہے، رہنا بھی چاہئیے لیکن عوام کے ذہنوں میں یہ ایک سوالیہ نشان ضرور ہے۔ اس تکفیری سوچ کے پیچھے عالمی سامراج ہے جو چاہتا ہے کہ ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگوا کر مسلمانوں کی باہمی قوت کو ختم کیا جا سکے۔

اسلام ٹائمز: جمہوری اسلامی ایران کے اپنے مضبوط موقف پر ڈٹے رہنے کے باعث بلآخر امریکہ سمیت عالمی طاقتوں نے گھٹنے ٹیک دیئے اور ایران کے ایٹمی توانائی کے پرامن استعمال کے حق کو تسلیم کر لیا، جسے پوری دنیا میں سراہا جا رہا ہے، اسے عالمی امن کا معاہدہ اور عالم اسلام کیلئے نیک شگون قرار دیا جا رہا ہے، اس معاہدے پر جہاں اسرائیل سیخ پا ہو کر کر تلملا رہا ہے، وہیں سعودی عرب بھی اس معاہدے پر خوش نظر نہیں آ رہا ہے، اس حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ سعودی عرب نے اسرائیل کا ہم آواز ہو کر امت مسلمہ کا امیج خراب کیا ہے، اس حوالے سے آپ کیا کہنا چاہیں گے۔؟
مولانا فیصل عزیزی بندگی: اہلسنت کی جانب سے بلاتفریق مسلک میں یہ کہنا چاہوں گا کہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ایران عالم اسلام کا واحد ملک ہے جو امریکا سے خود داری اور غیرت مندی کے ساتھ برابری کی بنیاد پر بات کرتا ہے اور ملت اسلامیہ کے دیگر ممالک کے ہاں جہاں سردمہری نظر آتی ہے وہاں ایران اپنا موقف بھرپور طریقے سے پیش کرتا ہے جیسے سلمان رشدی ملعون کے معاملے میں امام خمینی (رہ) کا فتویٰ آج تک برقرار ہے، سرکاری سطح پر کسی ملک نے فتویٰ جاری نہیں کیا تھا لیکن ایران نے یہ فتویٰ جاری کیا تھا۔ ایران نے امریکا کی مذمت ہمیشہ کی، برملا کی، لہٰذا ایران کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے تنہے تنہا ایک ملک ہونے کے ناتے درحقیقت عالم اسلام کی نمائندگی کی ہے اور سعودی عرب چونکہ امریکا کی بی ٹیم ہے اور امریکا اور اسرائیل کے مفادات ایک ہیں، ایران کی نسبت سعودی عرب کو تشویش لاحق ہونا افسوسناک اور خود عالم اسلام کیلئے باعث تشویش ہے۔ وہ سعودی عرب جو ہمیں سمجھاتا ہے کہ غیر اللہ سے مدد نہ مانگی جائے، ہر موقع پر وہ خود امریکا سے مدد مانگتا نظر آتا ہے تو سعودی عرب کی رسوائی اور جگ ہنسائی اس سے زیادہ کیا ہوگی کہ آج ایک اسلامی ملک ایران کو چھوڑ کر وہ اسلام دشمن، ظالم، جابر، عالمی دہشت گرد امریکا کا ہمنوا بنا ہوا ہے۔
خبر کا کوڈ : 325665
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش