0
Thursday 5 Dec 2013 12:57
علامہ دیدار جلبانی کی شہادت سے وحدت کی فضا کو دھچکا لگا ہے

جنیوا سمجھوتے میں ایران نے پسپائی اختیار نہیں کی بلکہ امریکہ پیچھے ہٹا ہے، علامہ افتخار نقوی

جنیوا سمجھوتے میں ایران نے پسپائی اختیار نہیں کی بلکہ امریکہ پیچھے ہٹا ہے، علامہ افتخار نقوی
علامہ سید افتخار حسین نقوی کا شمار پاکستان کی معروف مذہبی شخصیات میں ہوتا ہے، اپنے دور میں ہونیوالی مکتب تشیع کی تمام سرگرمیوں میں ہراول دستے کے طور پر شامل رہے۔ ایک مدت تک تحریک جعفریہ پنجاب کے صدر رہے، اسکے بعد آپکو تحریک جعفریہ پاکستان کے مرکزی جنرل سیکرٹری کے طور پر چن لیا گیا۔ ضلع میانوالی میں قائم مدرسہ امام خمینی (رہ) کے انچارج ہیں۔ آج کل اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبر ہیں اور اس کونسل میں ایک فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے کراچی کی حالیہ صورتحال خصوصاً علامہ دیدار جلبانی کی شہادت اور دیگر ملکی و بین الاقوامی امور پر علامہ افتخار نقوی کا انٹرویو کیا، جو قارئین کے لئے پیش خدمت ہے۔

اسلام ٹائمز: ایران اور فائیو پلس ون کے درمیان طویل مخاصمت کے بعد ایک معاہدہ طے پاگیا، اس کے کیا دور رس نتائج برآمد ہوں گے۔؟
علامہ سید افتخار نقوی: میں سمجھتا ہوں اس میں اصولوں کی کامیابی ہوئی ہے۔ ایران میں جب سے اسلامی انقلاب آیا، یہ امریکہ کے لئے بڑی شکست تھی، چونکہ اس خطہ میں ایران امریکی مفادات کا نگہبان تھا۔ پھر امام خمینی (رہ) کی قیادت میں انقلاب آیا اور شہنشاہیت کا دور ختم ہوا۔ بڑی عالمی طاقتوں کو شکست کھانی پڑی، چونکہ اس انقلاب کی بنیاد اللہ اور اللہ کے دین پر تھی۔ امام خمینی (رہ) کو عوام کی حمایت
حاصل تھی، انقلاب تمام تر رکاوٹوں اور سازشوں کے باوجود آگے بڑھتا رہا۔ انقلاب کے بعد امام خمینی (رہ) کا جہاں خدا سے رابطہ قوی اور مضبوط تھا، وہاں عوام سے بھی ان کا رابطہ مضبوط اور قوی تھا۔ انہوں نے عوام میں مادی نظام کے خلاف شعور اجاگر کیا، جس کا نتیجہ ہم نے ایران پر مسلط کی گئی ایران عراق جنگ کے دوران دیکھا کہ لوگ اپنے بچوں کی عمریں زیادہ لکھواتے تھے، تاکہ وہ جنگ میں شریک ہوسکیں۔ امام خمینی (رہ) نے اس انقلاب کو انتہائی مستحکم بنیادوں پر استوار کیا۔ اللہ تعالٰی نے اپنے اس عبد خاص کی مدد کی، اور انقلاب کے لئے تمام اسباب فراہم کئے۔ امام خمینی (رہ) کے بعد آپ کے جانشین رہبر معظم سید علی خامنہ ای آئے۔ انہوں نے انقلاب کو آگے بڑھایا اور آج ہم اس کے ثمرات دیکھ رہے ہیں۔ پوری دنیا نے چاہا کہ ایران کو علیحدہ کر دیا جائے۔ انقلاب آنے کے بعد کوشش کی گئی کہ اسے فارسی اور عربی کا مسئلہ بنا دیا جائے، شیعہ سنی کا مسئلہ بنایا جائے۔ پھر یہ تاثر دیا گیا کہ یہ انقلاب پوری دنیا کے لئے مسئلہ ہے۔ لیکن انقلاب مضبوط بنیادوں پر اپنے اہداف پر نظر رکھتے ہوئے آگے بڑھ رہا ہے۔ جہاں تک  ایٹمی مسئلے کا تعلق ہے تو ایران شروع دن سے دنیا کو باور کرا رہا تھا کہ پرامن مقاصد کے لئے ایٹمی توانائی کا حصول اس کا مسلمہ حق ہے۔

اسلام ٹائمز: شام میں شکست
کھانے کے بعد امریکہ نے ایران کے موقف کو جائز مانتے ہوئے جنیوا معاہدہ کیا، کیا کہیں گے۔؟

علامہ سید افتخار نقوی: بظاہر تو امریکہ نے شام کو حملے کی دھمکی دی تھی لیکن درحقیقت نہ وہ حملہ کرسکتا تھا نہ ہی حملہ امریکیوں کے پلان میں تھا۔ یہ ایک پروپیگنڈا وار تھی، جس سے امریکہ دہشتگردوں کو تسلی دے رہا تھا۔ اس معاملے کو سلجھانے میں ایران اور روس نے بہترین کردار ادا کیا۔ شام میں امریکی شکست سے ہمیں سبق حاصل کرنا چاہیے کہ امریکہ اتنی بڑی طاقت نہیں ہے کہ جو ہم پر اپنا تسلط جما سکے۔ ہم پر امریکی تسلط کی وجہ یہ ہے کہ ہماری قوم اندر سے کھوکھلی ہوچکی ہے۔ ہم ایٹمی طاقت تو بن گئے لیکن ایٹم بم ہماری نہیں بلکہ ہم ایٹم بم کی حفاظت میں مصروف ہیں۔ اس ایٹمی توانائی کو ہم توانائی حاصل کرنے کے مقاصد کیلئے استعمال نہیں کر سکے۔

اسلام ٹائمز: پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ ترک کیا گیا اور جنیوا معاہدے کے بعد دوبارہ شروع کرنیکا عندیہ دیا گیا ہے، اس بارے میں کیا کہیں گے۔؟

علامہ سید افتخار نقوی: ایران گیس پائپ لائن کا منصوبہ 2002ء سے جاری ہے۔ اسے بروقت پایہ تکمیل تک پہنچایا جاتا تو فائدہ مند تھا لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ اس میں ایران کا کوئی فائدہ نہیں ہے، یورپی ممالک کے ساتھ معاہدے کے بعد پاکستان میں یہ پروپیگنڈا کیا کہ ایران امریکہ کے ساتھ
مل بیٹھا ہے اور ہمیں کہا جا رہا ہے کہ امریکہ سے تعلق توڑے جائیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ایران امریکہ کے ساتھ نہیں بیٹھا، ایران نے کونسا اپنا اصولی موقف چھوڑا ہے۔ ان کا پہلے دن سے موقف تھا کہ ہم یورینیم اپنے ملک میں افزودہ کریں گے جو اس نے کر لیا۔ ایران نے پسپائی اختیار نہیں کی بلکہ امریکہ پیچھے ہٹا ہے۔ ایران نے ثابت کیا کہ وہ ایٹمی توانائی پرامن مقاصد کے لئے حاصل کرنا چاہتا ہے۔ رہبر معظم نے اعلان کیا تھا کہ ہم ایٹم بم نہیں بنانا چاہتے۔ اپنے دفاع کے لئے ایران نے میزائل بنائے اور ڈرون ٹیکنالوجی میں بھی مہارت حاصل کرلی ہے۔ اسی طرح انہوں نے اپنی مدد آپ کے تحت بحری بیڑہ بھی تیار کر لیا ہے۔ انہی وجوہات کی بناء پر امریکہ و اسرائیل خوفزدہ ہیں۔

اسلام ٹائمز: مولانا دیدار جلبانی کی شہادت کے حوالے سے کیا کہیں گے۔؟

علامہ سید افتخار نقوی: کراچی میں علامہ دیدار جلبانی کی شہادت گذشتہ کئی سالوں سے ملک میں جاری اسی سلسلے کی کڑی ہے جو ملک دشمن طاقتوں کی جانب سے جاری ہے۔ دشمن اس طرح کی گھناﺅنی کارروائیوں سے ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کروانے کے درپے ہیں۔ کراچی عرصہ دراز سے بے امن ہے، وہاں دہشت گردوں کا راج ہے۔ جنہیں کسی کا خوف و خطرہ نہیں۔ میڈیا پر اعلانات کئے جاتے ہیں کہ دہشت گر د گرفتار کر لئے لیکن آج تک کسی دہشت گرد کو سزا نہیں
دی گئی۔ جس کی وجہ سے دہشتگردوں کے حوصلے بڑھ گئے ہیں۔ وہ جب چاہتے ہیں، جہاں چاہتے ہیں، معصوم لوگوں کی جانیں لے لیتے ہیں۔ کبھی عام شہریوں کی جانیں لی جاتی ہیں تو کبھی علماء کو شہید کیا جاتا ہے۔ ان طاقتوں کو بے نقاب کیا جائے جو ان دہشت گردوں کو وسائل فراہم کرتے ہیں۔ ہمارے سیاستدان حالات سے مکمل طور پر آگاہ ہیں، انہیں معلوم ہے کہ مجرم کون ہے۔ لیکن وہ ملک دشمن عناصر کا قلع قمع کرنے کی جرات نہیں کرتے۔ علامہ دیدار جلبانی ہمارے پیارے شاگرد تھے، ان کی شہادت سے وحدت کی فضا کو دھچکا لگا ہے، چونکہ مولانا دیدار جلبانی اتحاد امت کے داعی تھے۔ ہم دعاگو ہیں کہ خداوند انہیں امام حسین علیہ السلام کے ساتھ محشور فرمائے۔

اسلام ٹائمز: مذہبی ہم آہنگی کے سلسلہ میں اسلامی نظریاتی کونسل کا کیا کردار رہا ہے۔؟

علامہ سید افتخار نقوی: اسلامی نظریاتی کونسل کا وجود خود مذہبی ہم آہنگی کا مظہر ہے۔ وہاں تمام مکاتب فکر مل کر بیٹھے ہیں۔ وہاں کسی کو کافر نہیں کہا جاتا، ہر شخص اپنے فقہ کی بات کرتا ہے۔ وہاں کوئی مناظرہ نہیں ہوتا، لیکن یہ کونسل ملک میں فتویٰ باز اور فرقہ واریت پھیلانے والوں کو ایک نصیحت یا مشورہ دے سکتی ہے، لیکن کوئی ایسا آئینی کردار اس کا نہیں ہے۔ اس کا کام فتویٰ دینا نہیں ہے۔ کونسل کے اجلاسوں میں اس پر بحث کی گئی کہ فتویٰ دینے
کا حق کونسل کے پاس ہونا چاہیے۔ متفقہ طور پر طے کیا گیا کہ اولاً تو آئین اس بات کی اجازت نہیں دیتا اور دوسرا فتویٰ دینا اسلامی نظریاتی کونسل کا کام ہی نہیں۔ باقی ہم آہنگی کی فضا پیدا کرنے کے سلسلہ میں اپنا بھرپور کردار کونسل ادا کر رہی ہے۔ جیسے چاند دیکھنے کا معاملہ ہے۔ اس میں مفتی منیب اور دوسرے علماء کے درمیان ملاقاتیں کروائی گئیں اور غلط فہمیوں کو دور کیا گیا۔

اسلام ٹائمز: میلاد و محرم کے جلوسوں پر پابندی لگانی کی باتیں کی جا رہی ہیں، اس پر آپ کیا کہیں گے۔؟

علامہ سید افتخار نقوی: یہ بات ان اذہان کی پیداوار ہے جن کے قول و فعل میں تضاد ہے۔ اپنا کوئی مسئلہ ہو تو بڑے بڑے جلوس نکالتے ہیں، اس موقع پر اپنا وہ فتویٰ بھول جاتے ہیں کہ جلوس نکالنا حرام ہے۔ جھنڈے بھی لے کر چلتے ہیں اور نعرہ بازی بھی کرتے ہیں۔ میلاد و عزاداری کے جلوسوں کو ہم عبادت سمجھتے ہیں۔ جس کی آئین پاکستان مکمل اجازت دیتا ہے، اگر سکھ اپنے طریقے سے عبادت کرتے ہیں تو انہیں اسکی آزادی حاصل ہے۔ عزاداری کے جلوس دنیا بھر میں نکالے جاتے ہیں، چونکہ یہ جلوس ہماری عبادت کا حصہ ہیں۔ عزاداری کے یہ جلوس صدیوں پرانے ہیں، آئین پاکستان میں انکی مکمل اجازت کے بعد ہی نو اور دس محرم کو چھٹی دی گئی، چونکہ امام حسین علیہ السلام کی ذات سب کے لئے محترم ہے۔
خبر کا کوڈ : 327587
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش