0
Saturday 7 Dec 2013 12:53

اسرائیل کی کوشش ہوگی کہ امریکہ سے ایران کا حتمی معاہدہ نہ ہو، ڈاکٹر حسن عسکری رضوی

اسرائیل کی کوشش ہوگی کہ امریکہ سے ایران کا حتمی معاہدہ نہ ہو، ڈاکٹر حسن عسکری رضوی
پنجاب یونیورسٹی لاہور کے شعبہ سیاسیات کے سابق چیئرمین ڈاکٹر حسن عسکری رضوی معروف تجزیہ کار بین الاقوامی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ وہ اپنے غیر جانبدارانہ تجزیوں کے باعث مشہور ہیں۔ اسلام ٹائمز نے ان سے ایران اور دنیا کے چھ ممالک کے درمیان نیوکلیر ٹیکنالوجی کے معاہدے کے بارے میں انٹرویو کیا ہے، جس کا دوسرا اور آخری حصہ قارئین کی نذر کیا جا رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: اسرائیل نے ایران کے نیوکلیئر معاہدے کی مخالفت کی ہے جبکہ سعودی عرب نے محتاط رویہ اختیار کیا ہے۔ اس معاہدے سے نقصان کس کو ہوا ہے۔؟
ڈاکٹر حسن عسکری رضوی: اسرائیل کو اس کا نقصان ہوا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ اس کی بڑی خواہش تھی کہ امریکہ اکیلا یا اسرائیل اس کے ساتھ مل کر ایران کے خلاف کوئی بڑی فوجی کارروائی کر دیں، تاکہ ایرانی ایٹمی تنصیبات جتنی بھی تباہ ہوسکتی ہیں، کر دی جائیں۔ اب جب امریکہ نے اس حملے کی پالیسی کو ایک طرف رکھ دیا ہے اور ایک عبوری معاہدہ ہوگیا ہے اور پھر فائنل معاہدہ بھی امریکہ کرنا چاہتا ہے۔ اگر ایران کے ساتھ مغربی طاقتوں کا فائنل معاہدہ ہو جاتا ہے تو یہ اسرائیل کے لیے ایک بڑا اپ سیٹ ہے۔ اصل میں اسرائیل کا مسئلہ یہ ہے کہ یورپی ممالک پہلے ایران کی طرف معاندانہ رویہ نہیں رکھتے تھے، اس کی پالیسی سے ناراض تھے۔ امریکہ تو کچھ بات کرنا چاہتا تھا مگر اسرائیل اس کا مخالف ہے، اب اسرائیل کا مسئلہ یہ بناتا ہے کہ امریکہ جو ہے، وہ محدود پیمانے پر ایران سے تعلقات بنائے گا۔ جس کی وجہ سے جو اسرائیل کا ایران کے خلاف ایجنڈا تھا وہ بڑی حد تک ڈراپ ہو جاتا ہے۔ اس لئے اسرائیل پوری کوشش کرے گا کہ جو یہودی لابی امریکہ کے اندر ہے، اس کے ذریعے امریکہ کی گورنمنٹ کو سمجھایا جائے کہ وہ فائنل معاہدے کی طرف نہ جائے اور جو ایران کے خلاف امریکہ میں لوگ ہیں، ان کا استعمال جاری رکھے گا۔ اس کے علاوہ امریکہ جو ایران پر پاپندیاں نرم کرنا چاہتا ہے، اس عمل کو سست روی کا شکار کر دیا جائے۔ 

جہاں تک سعودی عرب کا تعلق ہے تو سعودی عرب کی یہاں ملی جلی صورت حال نظر آتی ہے۔ ایک طرف تو وہ خوش ہے کہ ایران ایٹمی ہتھیار نہیں بنا رہا۔ سعودی عرب، یو اے ای، کویت، اور قطر یہ سب ایران کے ایٹمی پروگرام سے ڈرتے تھے۔ لٰہذا ایک طرف تو انہیں تسلی ہے لیکن دوسری طرف ان کو پریشانی بھی ہے کہ اگر ایران امریکہ تعلقات بہتر ہو جاتے ہیں تو امریکہ ایران کی اس شدت سے مخالفت نہیں کرے گا، جس طرح وہ ماضی میں کرتا رہا ہے، یعنی جس طرح سعودی عرب، قطر اور کویت چاہتے ہیں، امریکہ اب اس طرح سے مخالفت نہیں کرے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ بھی ایک بارگینگ گیم کھیلے گا۔ یہ نہیں ہے کہ امریکہ کی پالیسی بدل جائے گی، اب امریکہ بارگیننگ کرے گا، ایران سے بھی اور سعودی عرب سے بھی۔ ایران کو سعودی عرب کا خوف دلاتا رہے گا اور سعودی عرب کو ایران کا خوف دلاتا رہے گا، کہ ہم ایران سے دوستی کرنے میں اگر یہ معاہدہ ہوتا ہے تو امریکا کے آپشن جو ہیں اس علاقہ میں بڑھ جاتے ہیں اور اس کا انحصار سعودی عرب، کویت اور قطر سے کم ہوگا۔ 

اسلام ٹائمز: ایران کے امریکہ سمیت چھ عالمی طاقتوں کے ساتھ ہونے والے معاہدے سے عرب بادشاہتوں کو کوئی خطرہ تو نہیں ہے۔؟
ڈاکٹر حسن عسکری رضوی: عرب بادشاہتوں کو جو خطرات ہیں، ان کا اس معاہدے پر کوئی زیادہ اثر نہیں ہوگا۔ وہ بنیادی طور پر اندرونی صورت حال ہے، اگر ان کے پاس تیل ہے اور وہ تیل سے لوگوں کو خرید لیتے ہیں۔ جیسا کہ وہ ان کو سہولیتں دے کے خرید لیتے ہیں، تو یہ بادشاہتیں چل سکتی ہیں لیکن اگر یہ بادشاہتیں اقتصادی مشکلات کا شکار ہو جاتی ہیں یا ان کی آپس میں کوئی لڑائی ہوجاتی ہے، تب ان کے لیے مشکلات ہوں گی، لیکن میرا خیال ہے کہ سعودی عرب اور دوسری عرب ریاستوں کو خود ہی تبدیل ہونا پڑے گا، کیونکہ ان پر دباﺅ آج نہ سہی، دس سال بعد نظام کو تبدیل کرنے کا مطالبہ آئے گا، لیکن فوری طور پر کوئی خطرہ ان کی بادشاہتوں کے لیے نظر نہیں آتا۔ ان کے جو تعلقات امریکہ کے ساتھ ہیں وہی اگر معاہدہ فائنل ہو جاتا ہے تو redefine ہو جائیں گے۔
 
اسلام ٹائمز: کیا ایسا ممکن ہے کہ ایران امریکی لابی میں اور سعودی عرب اسرائیلی لابی میں چلا جائے۔؟
ڈاکٹر حسن عسکری رضوی: یہ مشکل ہے، سعودی عرب جو ہے وہ اپنی پوزیشن کو برقرار رکھے گا۔ سعودی عرب بظاہر تو ایران سے تعلقات ٹھیک رکھنا چاہتا ہے مگر وفتاً فوقتاً مفادات ٹکراتے رہیں گے۔ مثلاً شام میں اس وقت مفادات ٹکرا رہے ہیں تو اس قسم کے واقعات ہوتے رہیں گے تو دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی ہوگی مگر اس میں آپ کو مکمل مخالفت نظر نہیں آئے گی۔ سعودی عرب اور ایران میں ہمیں مختلف قسم کی پالیسی نظر آئے گی کہ دوستی بھی ہے، ناراضگی بھی ہے۔ دونوں کے درمیان فاصلے موجود ہیں اور تعلقات بھی ہیں تو اسرائیل جو ہے اس کی پالسی تو یہی ہوگی کہ وہ امریکہ کے ذریعے اپنا دباﺅ جاری رکھے گا۔ دوسرا یہ کہ اسرائیل جو وفتاً فوقتاً حماس اور حزب اللہ کے خلاف غصے والا رویہ جو ہے، اسرائیل امریکہ کی جو پالیسی ہے ایران سے تعلقات کو بہتر کرنے کی، اس کو وہ slowdown کرنے کی پالیسی جاری رکھے گا۔

اسلام ٹائمز: یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سعودی عرب امریکہ سے ناراض ہے کہ اس نے شام پر حملہ نہیں کیا، اس لئے کہ ایران شام کا بہت بڑا سپورٹر ہے۔؟
ڈاکٹر حسن عسکری رضوی: بالکل آپ کی بات صحیح ہے کہ اس وقت امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات میں مشکلات ہیں اور اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ سعودی عرب چاہتا تھا کہ امریکہ شام کے خلاف اسی طرح کی کارروائی کرے، جس طرح لیبیا میں یورپی یونین نے کی تھی اور امریکہ اس کی پشت پر تھا، لیکن اس طرح نہیں ہوا۔ اب ایران سے امریکہ کے تعلقات اچھے ہو جاتے ہیں اور پاپندیوں میں نرمی لائی جاتی ہے تو کہا جاسکتا ہے کہ ابھی پاپندیاں ختم نہیں ہوں گی، لیکن اگر ختم کر دی جائیں یا واپس کرنے کا سلسلہ چل پڑے تو بھی ایک مسئلہ تو ہوگا۔ 
سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات میں دونوں کو ایڈجسٹمنٹ کرنا پڑے گی کیونکہ جہاں ایک طرف امریکہ سعودی عرب پر دباو ڈالنا چاہتا ہے۔ ورنہ امریکہ سعودی عرب کو چھوڑنے کا متحمل بھی نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح سعودی عرب کا مستقبل امریکہ سے لڑنے میں نہیں ہے کیونکہ ان کے پاس تیل ہونے کے باوجو اندرونی خطرات ان کے لئے موجود ہیں۔ لٰہذا ان کا جو مغرب کی طرف جھکاو ہے وہ قائم رہے گا، لیکن یہ ہے کہ اب ہم یہ دیکھیں گے کہ بارگیننگ جو ہے وہ کافی مشکل ہوگئی ہے۔ کیونکہ یہ سمجھا جا رہا ہے امریکہ اور ایران مغربی طاقتوں کا حتمی معاہدہ جون 2014ء تک ہوگیا تو اس کا مطلب ہے کہ شاید شام کے لیے بھی کوئی راستہ نکل آئے۔ ممکن ہوا تو یہ بھی سعودی عرب کے لیے ناپسندیدہ ہو جائے گا کہ شام اس کی حکومت کسی طرح سے بچ جائے۔ سعودی عرب کوشش کرے گا کہ جتنا ممکن ہو ایران سے امریکہ کا معاہدہ ہونے میں تاخیری حربے شروع کئے جائیں۔ 

اسلام ٹائمز: پاکستان کو امریکہ اور ایران کے درمیان ہونے والے معاہدہ کا کیا فائدہ ہوگا۔؟
ڈاکٹر حسن عسکری رضوی: پاکستان کو کئی فائدے ہوں گے، ایک تو یہ ہے کہ اس سے علاقہ میں کشیدگی کا کم ہونا پاکستان کے مفاد میں ہے اور فرض کیجئے کہ ہم کو خطرہ تھا کہ امریکہ ایران کے خلاف کوئی فوجی کارروائی کرے گا اور اگر اس قسم کی کارروائی ہوجاتی تو پاکستان کے لیے بہت سارے مسائل پیدا ہو جاتے۔ ماضی میں ایران پاکستان پر شک کرتا تھا کہ امریکہ یہ گیم نہ کھیل دے کہ پاکستان کی سرزمین ایران کے خلاف استعمال کرکے اس پر حملہ نہ کر دے ۔ اگرچہ پاکستان نے ایران کو ہمیشہ کہا ہے کہ وہ کبھی بھی اپنی سرزمین ایران کے خلاف استعمال کرے گا اور نہ ہی کسی کو ایسا کرنے دے گا، لیکن ایک شک تھا جو وقتاً فوقتاً پیدا ہوتا تھا میرا خیال ہے کہ وہ اب کم ہو جائے۔ دوسرا یہ ہے کہ ایران گیس پائپ لائن فنڈنگ کہ وجہ سے رکی ہوئی ہے۔ اب یہ ہے کہ پائپ لائن پر پاپندیاں خود بخود تو ختم نہیں ہوں گی بلکہ پاکستان کو یہ مسئلہ اس وقت امریکہ سے اٹھانا پڑے گا، جب وہ ان پاپندیوں کو ختم کرنا شروع کر ے گا، پھر پاکستان اس سے کہے گا کہ آپ پاپندیاں اٹھا رہے ہیں تو ایران گیس پائپ لائن کی مخالفت بھی بند کر دیں، تاکہ ہمیں بہتر قرض مل سکے اور ہم یہ پائپ لائن مکمل کرسکیں۔ 

تیسرا یہ ہے کہ افغانستان کے معاملے میں بھی صورت حال بہتر ہونے کی امکانات بڑھ جاتے ہیں، بینادی طور پر ایران اور طالبان کے نظریات میں تضاد موجود ہے۔ ایران کبھی بھی طالبان کا حمایتی نہیں رہا، لیکن یہ ہے کہ امریکہ کو خراب کرنے کے لیے وہ ماضی میں کبھی کبھی طالبان کی مدد کرتا تھا، لیکن ابھی یہ ہے کہ اگر طالبان اور امریکہ کا معاملہ درست خطوط پر چلا گیا تو پھر ایران کو یہ کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ ایران اس حق میں نہیں ہے کہ امریکہ کے جانے کے بعد افغانستان میں طالبان کی حکومت آئے۔ جس طرح کی ماضی میں آئی تھی، کیونکہ طالبان کی پچھلی حکومت سے ایران کے لئے وفتاً فوقتاً مسائل بڑھتے رہے ہیں اور فرض کیجئے کہ ایران امریکہ تعلقات بہتر ہوتے ہیں۔ ایران کی پالیسی افغانستان میں کچھ تبدیل آتی ہے تو اس سے پاکستان اور ایران کے تعلقات میں بھی بہتری آئے گی، کیونکہ پاکستان بھی نہیں چاہتا کہ افغانستان پر طالبان کا پھر سے قبضہ ہو۔
خبر کا کوڈ : 327792
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش