QR CodeQR Code

بلوچستان میں شیعہ ہزارہ قوم سمیت ہر مکتبہ فکر کے افراد کو تحفظ دینا چاہتے ہیں، نواب محمد خان شاہوانی

25 Dec 2013 23:37

اسلام ٹائمز: نیشنل پارٹی کے سینئر وزیر و رہنماء کا ’’اسلام ٹائمز‘‘ سے خصوصی انٹرویو میں کہنا تھا کہ شیعہ ہزارہ قوم کے افراد کا قتل عام ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔ بلوچستان میں فرقہ وارانہ فسادات اور قتل عام کی بلوچستان نیشنل پارٹی ہمیشہ سے شدید مذمت کرتی چلی آ رہی ہے۔ ہم نے اقتدار میں آنے کے بعد ہزارہ برادری کے وفد سے ملاقات کی اور اُنکے تحفظ کی یقین دہانی کرائی ہے۔ یہ ٹھیک ہے اُن کے قتل عام کا سلسلہ بند تو نہیں ہوا، تاہم اُس میں کافی حد تک کمی ضرور آئی ہے۔ ڈاکٹر عبدالمالک صاحب نے واضح طور پر کہا ہے کہ ہماری اولی ترجیح صوبے میں امن و امان کا قیام اور ہر مکتبہ فکر کے افراد کی جانوں کا تحفظ ہے۔


نواب عبدالرحیم جان شاہوانی کے صاحبزادے نواب محمد خان شاہوانی بلوچستان اسمبلی کے رکن اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے سینئر و مرکزی رہنماء ہیں۔ آپ مئی 2013ء کے عام انتخابات میں پی بی 38 مستونگ/ کوئٹہ سے بلوچستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ آپ نے اپنی گریجویشن کی ڈگری بلوچستان یونیورسٹی سے حاصل کی۔ آپ شاہوانی قبیلہ کے سربراہ و چیف آف بیرک بھی کہلائے جاتے ہیں۔ نواب محمد خان شاہوانی بلوچستان کابینہ کے رکن اور صوبائی وزیر ایس اینڈ جی اے ڈی ہیں۔ ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے نواب محمد خان شاہوانی سے لاپتہ افراد سمیت صوبہ بلوچستان کی مجموعی صورتحال کے بارے میں ایک مختصر انٹرویو کیا، جو قارئین کے لئے پیش ہے۔ (ادارہ) 

اسلام ٹائمز: بلوچستان میں لاپتہ افراد کا معاملہ مزید خراب ہوتا جا رہا ہے۔ آپ کی جماعت کے برسر اقتدار آنے کے بعد لوگوں کو توقع تھی کہ اس معاملے کا مثبت حل نکلے گا، مگر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ صاحب نے اس سلسلے میں اپنی ناکامی کا اعتراف کیا ہے۔؟

نواب محمد خان شاہوانی: لاپتہ افراد کا معاملہ انتہائی گھمبیر ہے۔ اس ایشو پر صوبے کی تمام سیاسی جماعتیں ایک پیج پر ہیں۔ ہماری جماعت کا مؤقف شروع سے ہی واضح ہے۔ جب ہم نے اقتدار حاصل کیا تو ہماری حکومت کی پہلی ترجیح لاپتہ افراد کی بازیابی تھی۔ اِس پر ہم نے کام بھی شروع کر دیا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہمیں توقع کے مطابق کامیابی نہیں ملی، مگر ہم نے درست سمت کی طرف قدم اٹھایا ہے۔ بلوچستان کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ برسر اقتدار جماعت لاپتہ افراد کے حوالے سے کام کر رہی ہے۔ ڈاکٹر مالک نے بطور وزیراعلٰی لاپتہ افراد کے احتجاجی کیمپ کا دورہ کیا۔ ڈاکٹر صاحب کے جس انٹرویو کا آپ ذکر کر رہے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں لاپتہ افراد کی بازیابی میں توقع کے مطابق کامیابی نہیں ملی، مگر ہم مایوس نہیں ہیں۔ اس سلسلے میں ہمارا مؤقف واضح ہے کہ سیاسی کارکنوں کو غائب کرنا مسائل کا حل نہیں ہے۔ جو دہشت گرد ہیں، اُن پر مقدمہ بنا کر عدالت میں پیش کیا جائے۔ عدالت فیصلہ کرے گی یہ شخص دہشت گرد ہے کہ نہیں۔

اسلام ٹائمز: پچھلی حکومت نے "آغاز حقوق بلوچستان" کا آغاز کیا۔ پہلی بار ایسا ہوا کہ ریاست کے سربراہ نے بلوچ عوام سے معافی مانگی، آپ اس معاملے پر کیا کہتے ہیں۔؟
نواب محمد خان شاہوانی: ہم لوگ بےمقصد تنقید کرنے کے قائل نہیں ہیں نہ ہی تنقید برائے تنقید پر یقین رکھتے ہیں۔ آغاز حقوق بلوچستان ایک اچھا آغاز تھا، مگر اُسے بیورو کریسی کے سپرد کرکے خراب کر دیا گیا۔ پچھلی صوبائی حکومت اس قابل نہیں تھی کہ وہ معاملات کو اپنے ہاتھ لیتی۔ جس کی وجہ سے مسائل بڑھے۔ 3 ہزار نوکریاں ہمارے مسائل کا حل نہیں ہیں۔ جہاں تک بلوچ عوام سے معافی مانگنے کی بات ہے، تو بات معافی سے بہت آگے نکل گئی ہے۔ 65 برسوں میں بلوچوں کے ساتھ بہت ظلم ہوا ہے۔ پہاڑ پر جانے والے لوگ سرپھرے نہیں ہیں۔ ہمیں بلوچستان کے آنسوؤں کو خشک کرنے میں وقت لگے گا۔ جب تک اُن کے شکوے دور نہیں ہوتے بات نہیں بنے گی۔

اسلام ٹائمز: ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ مڈل کلاس سیاستدان اور جماعت ترقی پسند جماعت ہے، تو ترقی کیلئے آپ کیا اقدامات کر رہے ہیں۔؟
نواب محمد خان شاہوانی: ڈاکٹر صاحب گراس روٹ لیول پر کام کر رہے ہیں۔ وہ پروٹوکول کی بندش سے آزاد ہیں۔ اُن کی جڑیں عوام میں ہیں۔ جو کچھ ماضی کی حکومت نے عوام کے ساتھ کیا ہے، ہم نے وہ سب تبدیل کر دیا ہے۔ بلوچستان میں تبدیلی کا آغاز کر دیا ہے۔ اُس کے اثرات جلد آپ کے سامنے آ جائیں گے۔ کسی حکومت کی کامیابی اور ناکامی کو 5 ماہ میں نہیں پرکھا جا سکتا۔ ہمارا صوبہ بیڈ گورننس کا شکار ہے۔ ہم نے گڈ گورننس کی ابتداء کر دی ہے۔ ایک سال میں آپ کو حالات بدلتے نظر آ رہے ہیں۔ پچھلے پانچ برسوں میں تمام صوبائی اداروں کو تباہ کر دیا گیا ہے۔ ہم نے اُن اداروں کو بحال کرنا ہے، ٹھیک کرنا ہے۔ ہم نے اس کام کا آغاز کر دیا ہے۔

اسلام ٹائمز: شاہوانی صاحب! بلوچستان نیشنل پارٹی نظریاتی طور پر جاگیرداری نظام کے خلاف ہے۔ مگر حال ہی میں ڈاکٹر مالک صاحب کی کابینہ میں جاگیردار بھی شامل کیے گئے ہیں، کیا یہ تضاد نہیں؟
نواب محمد خان شاہوانی: بلوچستان نیشنل پارٹی کا جاگیرداری نظام کے خلاف مؤقف بہت واضح ہے۔ ہم آج بھی ببانگ دہل کہتے ہیں کہ جاگیرداری نظام کا خاتمہ ضروری ہے۔ مگر اِن کو ایک دم سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ کیا یہ انقلاب کی ابتداء نہیں کہ اس صوبے میں ایک مڈل کلاس وزیراعلٰی کی حکومت ہے۔ جہاں 65 سال سے جاگیردار اور سردار حکومت کر رہے ہیں۔ ہماری وہاں مخلوط حکومت ہے۔ ہم ایک دم سے ایسا نہیں کر سکتے کہ جاگیرداری کو ختم کر دیا جائے۔ بلوچستان کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ امن و امان اور لاپتہ افراد کی بازیابی ہے۔ پہلے یہ مسئلے حل کر لیں، اس کے بعد جاگیرداری نظام کے خاتمے کا آغاز ہو گا۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان میں شیعہ ہزارہ قوم کو ٹارگٹ کرکے مارا جا رہا ہے اور یہ ابھی بھی جاری ہے۔ اس حوالے سے آپ کیا کہے گے۔؟
نواب محمد خان شاہوانی: یہ بہت خوفناک عمل ہے۔ شیعہ ہزارہ قوم کے افراد کا قتل عام ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔ بلوچستان میں فرقہ وارانہ فسادات اور قتل عام کی بلوچستان نیشنل پارٹی ہمیشہ سے شدید مذمت کرتی چلی آ رہی ہے۔ ہم نے اقتدار میں آنے کے بعد ہزارہ برادری کے وفد سے ملاقات کی اور اُنکے تحفظ کی یقین دہانی کرائی ہے۔ یہ ٹھیک ہے اُن کے قتل عام کا سلسلہ بند تو نہیں ہوا، تاہم اُس میں کافی حد تک کمی ضرور آئی ہے۔ ڈاکٹر عبدالمالک صاحب نے واضح طور پر کہا ہے کہ ہماری اولی ترجیح صوبے میں امن و امان کا قیام ہے اور ہر مکتبہ فکر کے افراد کی جانوں کا تحفظ ہے۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان کے ہندو عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ وہاں اغوا برائے تاوان کی وارداتیں ہو رہی ہیں لیکن حکومتی سطح پر کوئی اقدامات ہوتے نظر نہیں آ رہے۔؟
نواب محمد خان شاہوانی: جی یہ سب مسائل ہمارے سامنے ہیں۔ بلوچستان پر ہندوؤں کا بھی اِس قدر حق ہے، جس قدر مسلمانوں کا ہے۔ ہم سب بلوچ پاکستانی ہیں۔ ڈاکٹر مالک نے اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے واقعات کا سخت نوٹس لیا ہے۔ ہمیں کام کرنے کا موقع ملے تو آپ کو رزلٹ مل جائے گا۔

اسلام ٹائمز: حالیہ زلزلے نے بلوچستان میں بڑی تباہی مچائی ہے۔ سنا ہے کہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ صاحب نے بین الاقوامی اداروں سے تعاون کی اپیل کی، مگر وفاقی حکومت نے اجازت نہیں دی۔؟
نواب محمد خان شاہوانی: میں اس مسئلے پر کوئی بات نہیں کرنا چاہتا۔ زلزلہ زدگان کی مدد کرنا ہم سب کا فرض ہے۔ صوبائی اور وفاقی حکومت اپنا فرض پورا کر رہی ہے۔

اسلام ٹائمز: اس وقت بلوچستان کے حالات کو آپ کس تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔؟
نواب محمد خان شاہوانی: پچھلے دس برس کی صوبائی حکومتوں نے بلوچستان کو 50 برس پیچھے کر دیا ہے۔ اگر میں کہوں کہ پنجاب بلوچستان سے ایک صدی آگے ہے، تو یہ غلط نہ ہو گا۔ بلوچستان میں آج 21ویں صدی میں بھی لوگ جنگلیوں کی سی زندگی گزار رہے ہیں۔ آج بھی بلوچستان میں خواتین 4 کلو میٹر پیدل چل کر پینے کا صاف پانی لینے جاتی ہیں۔ جو پانی بلوچستان کے عوام پی رہے ہیں وہ بارش کے پانی سے کھڑے جوہڑ سے لایا جاتا ہے۔ ہماری حکومت کے نزدیک یہی سب سے بڑی کوشش ہے کہ اس مسئلے کو ختم کیا جائے ۔ لوگ پینے کے صاف پانی کو ترس رہے ہیں۔ یہ ہماری حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو پینے کے لیے صاف پانی مہیا کرے۔


خبر کا کوڈ: 334332

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/interview/334332/بلوچستان-میں-شیعہ-ہزارہ-قوم-سمیت-ہر-مکتبہ-فکر-کے-افراد-کو-تحفظ-دینا-چاہتے-ہیں-نواب-محمد-خان-شاہوانی

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org