2
0
Friday 3 Jan 2014 21:49
طالبان سے مذاکرات آئین سے انحراف ہے

قومی امن کنونشن ثابت کریگا کہ محبان وطن کون ہیں اور دشمنان پاکستان کون، صاحبزادہ حامد رضا

قومی امن کنونشن ثابت کریگا کہ محبان وطن کون ہیں اور دشمنان پاکستان کون، صاحبزادہ حامد رضا
صاحبزادہ حامد رضا سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین ہیں، آپ سنی اتحاد کونسل کے بانی چیئرمین صاحبزادہ فضل کریم کے فرزند ہیں، صاحبزادہ فضل کریم کی وفات کے بعد انہیں قائم مقام چیئرمین منتخب کیا گیا، تاہم بعد ازاں مجلس شوریٰ کے فیصلے کے بعد انہیں باقاعدہ چیئرمین سنی اتحاد کونسل بنا دیا گیا۔ تاحال سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین کے منصب فائز ہیں۔ اتحاد بین المسلمین کے داعی ہیں، امریکی سازشوں کے خلاف عوامی بیداری کے لئے آواز اٹھاتے رہتے ہیں۔ عالم اسلام کے مسائل پر ہمیشہ غم زدہ رہتے ہیں، پوری امت کو ایک لڑی میں پرویا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں، ''اسلام ٹائمز'' نے ان سے 5 جنوری کو اسلام آباد میں ہونے والے قومی امن کنونشن اور اس کے اغراض و مقاصد کے بارے میں ایک تفصیلی انترویو کیا ہے، جو پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)
                        

اسلام ٹائمز: قومی امن کنونشن کے اغراض و مقاصد کیا ہیں، اور اس کانفرنس کے انعقاد کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی۔؟

صاحبزادہ حامد رضا: پاکستان میں اس وقت سب سے بڑا مسئلہ وہابی ازم ہے، جسے گذشتہ 65ء سالوں سے یہود و ہنود کی مکمل سرپرستی حاصل ہے۔ گذشتہ 25 سال سے دہشت گردی کو پرموٹ کیا گیا اور اب اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ خاکم بہ دہن ہمارا ملک ٹوٹنے کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔ کہیں پر بلوچستان کا استحصال ہو رہا ہے، کہیں گلگت بلتستان کے لوگوں کا استحصال ہو رہا ہے، کہیں خیبر پختونخوا کا استحصال ہو رہا ہے اور سندھ کے عوام کے اپنے مسائل ہیں اور اسی طرح پنجاب اپنے مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ پورا پاکستان اس وقت دہشت گردی جیسی لعنت سے دوچار ہے۔ اس قومی امن کنونشن کا مقصد ان عناصر کو بے نقاب کرنا ہے جنہوں نے جان بوجھ کر ایک سازش کے تحت پاکستان کے سب سے بڑے طبقے اہل سنت کو بدنام کیا اور شیعہ سنی مسئلہ پیدا کر دیا گیا۔ اس شعور کو اجاگر کرنے کے لیے امن کنونشن رکھا گیا ہے۔ 
اس کے علاوہ امن کنونشن میں دیگر جو فورسز جمع ہوں، جو شہداء کے وارثین جمع ہوں، عوام کا ایک مینڈٹ لے کر اور ایک پوری آواز بن کر حکومت وقت کو یہ بتلا سکیں کہ ہم طالبان کے ساتھ مذاکرات نہیں چاہتے، ہم کالعدم جماعتوں کے ساتھ مذاکرات نہیں چاہتے، ہم پاکستان کو نہ ماننے والوں کے ساتھ مذاکرات نہیں چاہتے، ہم قائداعظم کو نہ ماننے والوں کے ساتھ مذاکرات نہیں
چاہتے، ہم قائداعظم کو کافر اعظم کہنے والوں کے ساتھ مذاکرات نہیں چاہتے، ہم دوسروں کے خلاف کافر کا نعرہ لگا کر انہیں قتل کرنے والوں کے ساتھ مذاکرات ہرگز نہیں چاہتے۔ ایک نئی سمت کا تعین کرنے کے لیے کہ محبان وطن پاکستان کس طرف ہیں اور دشمنان پاکستان کس جانب ہیں۔ 5 جنوری کا کنونشن اس لائن کو کلیئر کر دے گا کہ کون محب وطن ہے اور کون وطن کا غدار ہے۔

اسلام ٹائمز: ہمیں کچھ اطلاعات ملی ہیں کہ قومی امن کنونشن کو روکنے کیلئے رکاوٹیں پیدا کی جا رہی ہیں، یہ رکاوٹیں کس قسم کی ہیں۔؟

صاحبزادہ حامدرضا: جی بالکل، ہماری اطلاعات کے مطابق گورنمنٹ لیول پر سازش ہو رہی ہے، چونکہ ہم قانونی اور پرامن لوگ ہیں۔ ہم نے پرامن طریقے سے اس کا اجازت نامہ لیا اور باقاعدہ پروگرام کا نام دیا، جس کی باقاعدہ اپروول بھی ہوچکی ہے۔ اس کے باوجود حکومتی سطح پر کوشش جاری ہے کہ یہ کنونشن نہ ہوسکے۔ موجودہ حکومت چونکہ دہشت گردوں کی ہی لائی ہوئی حکومت ہے۔ یہ ایک مخصوص سوچ اور فکر کی حکومت ہے جو پاکستان میں امن نہیں چاہتی۔ مختلف طریقوں سے لوگوں کو روکنے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے اور پریشر بھی ہے۔ ہم یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ اب ہم اس پروگرام میں کسی قسم کی رکاوٹ برداشت نہیں کریں گے۔ اگر یہ کنونشن جناح سنٹر کنونشن میں نہ ہوا تو یہ کنونشن پارلیمنٹ کے سامنے ہوگا اور وہ بہرحال موجودہ حکومت کے لیے بہتر نہیں ہوگا۔

اسلام ٹائمز: شہداء کے حوالے سے بھی پروگرام رکھا گیا ہے، تو ان شہداء سے مراد کون سے شہید ہیں۔؟

صاحبزادہ حامدرضا: شہداء یعنی شہدائے پاکستان و شہدائے اسلام، وہ تمام لوگ جنہوں نے پاکستان کے لیے قربانیاں دیں، جنہوں نے اسلام کے لیے قربانیاں دیں، ان کا تعلق کسی بھی گروہ سے ہو، زندگی کے کسی بھی طبقہ سے ہو، اس میں سول سوسائٹی، وکلاء، ہمارے سکیورٹی فورسز کے جوان، پاکستان آرمی، پاکستان کی دیگر ایجنسیز اور پانچوں صوبوں کی پولیس اور کسی بھی صورت میں اسلام اور پاکستان کے لیے قربانی دی ہو۔ سب سے بڑھ کر وہ اقلیتیں جنہوں نے اس ملک کے لیے قربانی دی، کیونکہ اسلام یہ کہتا ہے کہ اقلیتوں کو آپ کے معاشرے میں مساوی حقوق حاصل ہیں۔ اگر اقلیتیں مملکت کے دفاع کے لیے آپ کے شابہ بشانہ لڑیں تو انہیں بھی وہ عزت چاہیے۔ 
الغرض زندگی کے تمام طبقات وہ چاہے دہشت گردی کے حوالہ سے ہوں، ٹارگٹ کلنگ کے حوالہ
سے ہوں، مقدس مقامات پر بم دھماکوں کے حوالہ سے ہوں، جس میں امام بارگاہیں، زیارات، درباروں کے حوالہ سے ہوں، علمائے کرام کے حوالہ سے ہوں، جتنے بھی شہداء ہیں، ان تمام کے ورثاء کی اچھی خاصی تعداد اس کنونشن میں انشاءاللہ موجود ہوگی۔ ہم نے اس کنونشن کو کسی ایک مکتبہ فکر سے مشروط یا منسلک نہیں رکھا بلکہ ہم نے اس کنونشن کو پورے پاکستان کی آواز بنایا ہے۔ اس بندے کا تعلق چاہے کسی بھی جماعت سے ہو، خواہ وہ پیپلز پارٹی سے، مسلم لیگ قاف، مسلم لیگ نون سے ہو، بس ہم یہ چاہتے ہیں کہ وہ بندہ پاکستان کا محب ہو اور اس کے کسی بھی ساتھی نے پاکستان کے لیے قربانیاں دی ہیں تو ہم پاکستانیت کو پرموٹ کرنے کے لیے کنونشن میں ان تمام لوگوں کو بلوائیں گے اور ان کا جو جائز حق ہے وہ ہم دیں گے۔

اسلام ٹائمز: جب بھی طالبان کیخلاف کوئی کارروائی کی بات کی جاتی ہے اور آپریشن کیلئے راہیں ہموار ہونے لگتی ہیں تو مولانا سمیع الحق جیسے لوگ فوراً متحرک ہوجاتے ہیں اور طالبان کے ساتھ روابط بڑھاتے ہیں، دوسری طرف حکومت طالبان سے مذاکرات کا کوئی ٹائم فریم بھی نہیں دیتی، آپ اس بارے میں کیا کہیں گے۔؟

صاحبزادہ حامدرضا: حکومت ٹائم فریم دے ہی نہیں سکتی، کیونکہ حکومت مذاکرات کر ہی نہیں سکتی۔ اصولی طور پر آپ کسی بھی ایسے گروہ، جماعت یا تنظیم کے ساتھ مذاکرات نہیں کرسکتے جو آپ کے آئین، پارلیمنٹ، سپریم کورٹ، ریاست کی رٹ اور سکیورٹی فورسز کو ماننے سے انکار کرے۔ سب سے پہلی بات کہ اس کے ساتھ مذاکرات ہونے ہی نہیں چاہیں، جو ریاست کا باغی ہے، آپ دستوری طور پر لے لیں یا آپ شرعی طور پر لے لیں کہ باغی کی سزا واجب القتل ہے۔ ہاں صرف ایک صورت ہے کہ وہ ریاست سے معافی مانگ کر اپنی ہمدردیاں دوبارہ ریاست کے ساتھ بحال کرے۔ بصورت دیگر وہ باغی تصور ہوگا اور باغی کی سزا پاکستان کے آئین میں بھی سزائے موت ہے اور اسلامی شریعت کے مطابق بھی سزائے موت ہے۔ اس لیے طالبان کے ساتھ مذاکرات کسی صورت بھی نہیں ہوسکتے۔ دوسری آپ نے مولانا فضل الرحمن اور مولانا سمیع الحق کے حوالے سے بات کی، چونکہ یہ لوگ ان کی پیداوار ہیں، ان کے مدارس و یونیورسٹیز میں طالبان کو پروان چڑھایا گیا ہے۔

آج تک انہوں نے اپنے آپ کو طالبان کا باپ کہا ہے اور سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ایک ہی فریق کو اسی فریق کے ساتھ مذاکرات کرنے کے لئے بھیجا جا رہا ہے۔
پس یہ مذاکرات کی حقانیت کو شک میں ڈال دیتا ہے۔ اگر آپ مذاکرات کرنا بھی چاہتے ہیں تو شہداء کے وارثین سے اجازت لیں، جو ابھی تک حیات ہیں اور جنہوں نے قربانیاں دی ہیں۔ پھر بھی اگر آپ مذاکرات کے لیے جا رہے ہیں تو کسی غیر جانبدار شخص کو مذاکرات کے لیے بھیجیں۔ طالبان کا باپ، طالبان کا بیج بونے والا شخص، طالبان کی نرسری کو پروان چڑھانے والا شخص، طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے گیا تو یہ پاکستان کے لیے سیاہ ترین دن ہوگا۔ یہاں پر میں یہ کہوں گا کہ یہ بیج جو انہوں نے بویا تھا، یہ فصل اب ان کو ہی کاٹنی پڑے گی۔ ہم پرامن طریقے سے اکٹھے ہو کر ان کا بائیکاٹ بھی کریں گے اور ان کے آگے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بھی ثابت ہوں گے۔ اس کے علاوہ اپنا قانونی، شرعی اور آئینی حق بھی استعمال کریں گے۔

اسلام ٹائمز: کیا پیغام دینا چاہیں گے کہ طالبائزیشن سوچ کو ختم کیا جاسکے۔؟

صاحبزادہ حامدرضا: اگر پاکستان بچانا ہے، پاکستان میں زراعت تباہ ہوچکی ہے، پاکستان میں لا اینڈ آرڈر کی صورتحال ایسی ہے کہ اب شرم آتی ہے اپنے آپ کو پاکستانی بتانے پر۔ پوری قوم اور بالخصوص حکومت پاکستان کو چاہیے کہ ڈرون گرانے والوں سے پوچھے کہ دہشت گردی پر ان کا کیا موقف ہے، فرقہ واریت کے خلاف وہ کیا سوچ رکھتے ہیں۔ وزیراعظم پاکستان جو کل تک تو بھارت کے وزیراعظم سے گلے مل رہے ہیں، وہ جب ہندوستان کے خلاف پاکستان کی پالیسی کا دفاع کریں گے تو پھر ہم انہیں محب وطن مانیں گے۔ حکومت کے سربراہ کو اتنی ہمت نہیں ہے کہ وزیراعظم سے ملے۔ پوری قوم شعور کے ساتھ اٹھ کھڑی ہو اور متفقہ لائحہ عمل اپنائے کہ ملک کو بچانے کے لیے ایک ہی ایجنڈا رہ گیا ہے کہ دہشت گردی، طالبائزیشن کا خاتمہ کریں تو پھر انشاءاللہ آہستہ آہستہ پاکستان کے حالات ٹھیک ہوجائیں گے۔ بلدیاتی انتخابات میں الیکشن کا حق استعمال کریں، اگر آپ پر ظلم ہو رہا ہے تو پرامن طور پر احتجاج ضرور کریں۔ حکومت وقت کو بھی چاہیے کہ پاکستان کے شہدائے کے وارثین کی بات کو سنے اور اس پر عمل کرے۔

اسلام ٹائمز: آپ احتجاج کو دستوری عمل کہتے ہیں تو گذشتہ دنوں ایک کالعدم جماعت نے بھی احتجاج کرکے اپنا حق استعمال کیا ہے، اس حوالے سے پورا لاہور اور اس کی سڑکیں گواہ ہیں کہ کس طرح بندوق کی نوک پر دکانیں بند کرائی گئیں، اس پر کیا کہیں گے۔؟

صاحبزادہ حامدرضا: اس احتجاج میں جس طرح دفعہ 144 کی دھجیاں
اڑائی گئیں اور اسلحے کی نمائش کی گئی۔ وہاں پر پولیس و انتظامیہ کو جس طریقے سے مارا گیا، اس کی نظیر کہیں نہیں ملتی۔ محرم اور میلاد کے جلوسوں کے حوالے سے آج بھی انتظامیہ نے یہ کہا کہ آپ واک تھرو گیٹس کا خود انتظام کریں اور افراد کا داخلہ بھی ایک ہی طرف سے رکھیں، گاڑی پر سکیورٹی ٹکٹ خود لگائیں اور ٹوکن بھی خود تقسیم کریں تو میرا سوال ہے کہ آپ یہاں پر کس لئے بیٹھے ہیں۔ حکومت کا تو بس پھر ایک ہی کام رہ گیا ہے کہ پاکستان میں جہاں پر کالعدم جماعت ہے، جہاں پر کوئی پاکستان مخالف جماعت ہے اور جہاں بھی کوئی قتل و غارت گری کرنے والی جماعت ہے، اس کو مکمل سکیورٹی اور مکمل حفاظت فراہم کرے۔ کیا حکومت کا اب یہی کام رہ گیا ہے کہ کالعدم جماعتوں کے رہنماؤں کو مکمل بلٹ پروف گاڑیاں اور پولیس کی چھ چھ وین دینی ہیں۔

اس کے برعکس اگر کوئی محب وطن جماعت ہے تو اس پر لاٹھیاں برسانی ہیں۔ یہ سب کام موجودہ حکومت حقیقی معنوں میں سرانجام دے رہی ہے۔ گذشتہ رات سیالکوٹ میں 2 مزارات میں ایک بدبخت نے قرآن مجید کے نوے نسخے قبر پر رکھے اور پھر اس نے قرآن مجید کے ان نوے نسخوں اور قبر کو آگ لگا دی۔ وہ شخص گرفتار ہوچکا ہے، مجھے حکومت بتائے کہ اب تک اس پر کیا ردعمل دکھایا گیا ہے۔ یہ حکومت چاہتی ہی نہیں ہے کہ فسادات ختم کئے جائیں۔ موجودہ حکومت چاہتی ہے کہ پاکستان کی حالت مصر، لیبیاء اور شام جیسی ہو جائے۔ اگر حکومت تین سال رہ گئی تو یہ بنا کر ہی دم لیں گے۔ میری تمام برادران سے گزارش ہے کہ آپ ان لوگوں کے ماضی دیکھیں تو معلوم ہو جائے گا کہ ان کا کردار کیا ہے۔ جن کے ماضی بہت داغدار ہیں، ان کا مستقبل بھی داغدار ہی رہے گا۔ جن کے ماضی تابناک ہیں، وہ انشاءاللہ اس ملک کے لیے آگے کچھ بہتر کریں گے۔

اسلا م ٹائمز: جو بندہ گرفتار کیا گیا ہے، اس کی کیا شناخت ہوئی ہے۔؟
صاحبزادہ حامدرضا: یہ اسی مخصوص نظریئے کا حامل ہے جو نظریہ کسی شخص کو قتل بھی کرتا ہے، کافر کافر کے نعرے بھی لگاتا ہے۔ مشرک مشرک، بدعتی بدعتی کے نعرے لگاتا ہے۔ جنہوں نے مزاروں، امام بارگاہوں پر بم دھماکے کئے۔ بالکل اسی نظریہ کا حامل فرد ہے اور الاعلان کہتا ہے کہ میں نے قرآن پاک کے نوے نسخوں اور قبر کو آگ لگائی ہے۔ مجھے پتہ نہیں اب تک سکیورٹی اور انتظامیہ والوں نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے۔ اس کے خلاف شہر میں پرامن طور پر احتجاج کیا گیا ہے
کہ جس میں ایک گملا تک نہیں ٹوٹا۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اب تک انتظامیہ نے اس پر ایف آئی آر تک نہیں کاٹی۔ اگر مزار کے حوالے سے بغض ہے تو قرآن کو تو بخش دو۔ قرآن تو کلام الٰہی ہے۔

میرا حکومت وقت سے مطالبہ ہے کہ اس بدبخت کو صبح سیالکوٹ چوک پر سرعام پھانسی دی جائے۔ اس کے بعد پورے ملک میں سکون ہو جائے گا اور پھر کسی کو یہ کام کرنے کی جرات نہ ہوگی۔ بہرحال ہم نے تو قوم کے سامنے آواز حق بلند کی ہے اور 5 جنوری کو عوام کے سامنے ایک کلیئر اور متحد چہرہ نظر آئے گا۔ 5 جنوری کو ان شہداء کا پروگرام منعقد کیا جائے گا کہ جنہوں نے اپنا تن من دھن اس وطن اور اسلام پر قربان کر دیا۔ اس کے علاوہ ہمارا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ہے۔ اگر موجودہ حکومت قوم کو متحد کرنے اور طالبان اور ریاست مخالف عناصر کیخلاف کوئی کارروائی کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور کوئی قدم اٹھاتی ہے تو میں پہلا شخص ہوں گا جو میاں صاحب کا ساتھ دوں گا۔ مجھے اگر حکومت یہ حکم دے کہ مجھے وانا بارڈر پر جا کر طالبان سے لڑنا ہے تو فوراً جاؤں گا۔

اسلام ٹائمز: کالعدم جماعتیں موجودہ حکومت کے قیام کے ساتھ ہی پہلے سے بہت زیادہ متحرک نظر آرہی ہیں، اس کی کیا وجہ ہے۔؟

صاحبزادہ حامد رضا: اس ملک میں دہشت گردوں کے گلوں میں ہار ڈالے جا رہے ہیں۔ کالعدم جماعت کے سربراہ کو چار گاڑیوں کی سکوارڈ ملی ہوئی ہے۔ یہ گروہ کسی جگہ پر ماہ محرم کے حوالے سے مسئلہ کھڑا کر دیتا ہے اور کہیں پر ربیع الاوّل کے جلوس کے حوالے سے مسئلہ پیدا کر دیتا ہے۔ آپ شیعہ و سنی غیر سیاسی جماعتوں کو دیکھ لیں کہ جن کے افراد نے پاکستان اور اسلام کو بچاتے ہوئے شہادت دی ہے، ان کے بارے میں حکومت وقت کی پالیسی کیا ہے اور پھر دہشت گردوں اور کالعدم جماعتوں کے پروٹوکول چیک کریں۔ مجھے کسی کا خوف نہیں ہے، جو رات میری قبر میں ہے وہ قبر میں ہی ہے۔ میری لیے سب سے بڑی سعادت یہ ہوگی کہ مجھے کوئی رسول اللہ ؐ کا منکر مارے اور میں یارسول اللہ ؐ کہتے ہوئے جنت چلا جاؤں اور میرے لیے یہی سب سے بڑی سعادت ہوگی۔ میں نے کبھی پچاس پچاس گاڑیوں پر سفر نہیں کیا۔ آپ میری سکیورٹی کی صورتحال چھوڑیں، ایم ڈبلیو ایم کی سکیورٹی چیک کر لیں، کوئی سکیورٹی نظر نہیں آئے گی، جو ہے وہ ہماری ذاتی حیثیت سے ہے جبکہ دہشت گردوں اور کالعدم جماعتوں کے رہنماؤں کے پاس چیک کریں تو حکومت کی کارکردگی بتا دے گی۔
خبر کا کوڈ : 337003
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
Zabardast bht achay Allah pak aap ko khush o Khuram o Abaad rakhay.!
Nic Sir geeeeeee
ہماری پیشکش