0
Tuesday 7 Jan 2014 21:49
ملک میں گہری تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں

سعودی حکومت شیعہ مسلمانوں کے قانونی مطالبات کو نظرانداز کرتی آئی ہے، ڈاکٹر توفیق السیف

سعودی حکومت شیعہ مسلمانوں کے قانونی مطالبات کو نظرانداز کرتی آئی ہے، ڈاکٹر توفیق السیف
ڈاکٹر توفیق السیف 1958ء میں سعودی عرب کے مشرقی صوبے جزیرہ طاروت میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک معروف اسکالر اور لکھاری کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ وہ شیعہ اصلاح تحریک کے سابق جنرل سیکرٹری بھی رہ چکے ہیں۔ انہوں نے لندن کی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی سے اسلامی فلسفہ میں ماسٹرز کیا اور اس کے بعد برطانیہ کی ویسٹ مینسٹر یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ وہ ایک ماہر صحافی بھی ہیں اور مختلف اخبار جیسے سعودی عرب سے شائع ہونے والے ڈیلی ریاض، کویت سے شائع ہونے والے الرای میں مقالات اور کالم لکھتے رہتے ہیں۔ اسی طرح مختلف ٹی وی چینلز جیسے الجزیرہ، الحرہ اور المنار نیوز چینل میں ان کے لائیو تجزیات اور گفتگو بھی نشر ہوتی رہتی ہے۔ 
 
فارس نیوز ایجنسی کے مطابق سعودی عرب کے معروف سیاسی محقق اور تجزیہ نگار جناب توفیق السیف نے اس نیوز ایجنسی کے ساتھ اپنے انٹرویو میں اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ سعودی حکمران شیعہ مسلمانوں کی جانب سے اپنے جائز اور قانونی مطالبات پیش کئے جانے پر سخت ناراض ہیں، کہا ہے کہ ملک میں موجود سکیورٹی بے چینی اور خدشات سعودی سیاست دانوں کے ذہن پر چھا چکی ہے اور شیعہ مسلمانوں کی جانب سے پیش کئے جانے والے قانونی مطالبات بھی اسی کی نذر ہو رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سعودی عرب بھی خطے کے اکثر ممالک کی طرح گہری سیاسی تبدیلیوں سے گزر رہا ہے، جن میں ثقافتی اور معاشرتی تبدیلیاں بھی شامل ہیں۔ یہ وہی صورتحال ہے جسے سماجی امور کے ماہرین آراء، اقدار اور موقف کے بہاو کا نام دیتے ہیں۔ ان کے مطابق سعودی عرب کے موجودہ سیاسی حالات انتہائی پیچیدہ ہیں۔ 
 
جناب توفیق السیف نے عرب حکومتوں کی کمزوریوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا عرب دنیا اور مشرق وسطٰی کی حکومتوں کی سب سے بڑی کمزوری قومی یکجہتی ایجاد کرنے میں ناتوانی کا شکار ہونا اور سول معاشرے کی تشکیل کیلئے ضروری بنیادوں کی فراہمی کے قابل نہ ہونا ہے۔ انہوں نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ بیسویں صدی میں قومی یکجہتی کوئی اہم ایشو نہ تھا کیونکہ اس وقت سیاسی کلچر انتہائی کمزور اور پسماندہ تھا۔ معروف سیاسی محقق اور تجزیہ نگار نے شام کے بحران اور اس کے راہ حل کے بارے میں کہا کہ جنیوا 2 کانفرنس شام کے بحران کو خانہ جنگی سے ملک کے موجودہ سیاسی نظام کی تشکیل نو کی سمت لے جائے گی اور اس کا منطقی نتیجہ امن و امان کی بحالی کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ لیکن اس صورت میں بھی مسلح جھڑپیں جاری رہیں گی کیونکہ ان کا مقصد مختلف دھڑوں کی جانب سے اپنی سیاسی پوزیشن کو مضبوط بنانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں شام کے بحران کے حل کیلئے واحد امید جنیوا 2 کانفرنس ہے کیونکہ اس کے علاوہ کوئی بھی دوسرا راستہ ملک میں خانہ جنگی کی شدت میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے جس کے نتیجے میں ملک ٹوٹنے کا خطرہ بھی موجود ہے۔ اس کے علاوہ شام کا بحران اردن، عراق اور لبنان جیسے ہمسایہ ممالک تک سرایت بھی کر سکتا ہے۔ فارس نیوز ایجنسی کے ساتھ جناب توفیق السیف کا تفصیلی انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے۔ 
 
فارس: آپ مشرقی حصے میں جاری عوامی احتجاج کی روشنی میں سعودی عرب کے موجودہ سیاسی حالات کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
ڈاکٹر توفیق السیف: سعودی عرب بھی مشرق وسطی کے اکثر ممالک کی مانند گہری تبدیلیوں سے گزر رہا ہے جس میں ثقافتی اور معاشرتی تبدیلیاں بھی شامل ہیں۔ ماہرین سماجیات اس حالت کو آراء، اقدار اور موقف کے بہاو کا نام دیتے ہیں۔ ان بنیادی تبدیلیوں کے عوامل اور محرکات انتہائی واضح ہیں اور درمیانی مدت اور لمبی مدت میں ان کے نتائج اور اثرات کی بھی درست طور پر پیشین گوئی کی جا سکتی ہے لیکن کم مدت میں اس کے نتائج کا اندازہ لگانا تھوڑا مشکل کام ہے۔ میری نظر میں اس صورتحال کی بہترین وضاحت یہ ہے کہ ہم اسے پیچیدہ قرار دیں۔ 
 
فارس: آپ نے اپنے شائع ہونے والے مقالات میں سے ایک میں اس نکتے کی جانب اشارہ کیا تھا کہ گذشتہ چند سالوں کے دوران عرب دنیا میں رونما ہونے والے سیاسی بحران اور عدم ثبات عرب حکومتوں کی بنیادی کمزوری کو ظاہر کرتے ہیں، یہ کمزوری کس نوعیت کی ہے؟
ڈاکٹر توفیق السیف: میری نظر میں عرب دنیا اور خاص طور پر مشرق وسطی کی عرب حکومتوں کی بنیادی کمزوری قومی اتفاق رائے کے حصول میں ناتوانی اور سول معاشرے کی تشکیل کیلئے درکار بنیادوں کا فقدان ہے۔ بیسویں صدی میں قومی اتفاق رائے کوئی اہم ایشو نہ تھا کیونکہ اس وقت سیاسی کلچر انتہائی کمزوری اور پسماندگی کا شکار تھا۔ لیکن جدید دور میں خاص طور پر گذشتہ 25 سالوں کے دوران خام تیل کی صنعت میں ترقی حاصل ہونے کے بعد وہ بحران جو خوابیدہ حالت میں تھے دوبارہ سر اٹھانے لگے۔ انہیں میں سے ایک تشخص کا بحران تھا۔ لہذا ہم قومی تشخص اور چھوٹی سطح کے تشخص کے درمیان ٹکراو کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ اکثر عرب ممالک ان کمزوریوں کو دور کرنے سے قاصر ہیں لہذا ان میں موجود عرب حکومتوں نے آسان راستہ اختیار کیا ہے جو کہ طاقت کا استعمال اور طاقت کی تقسیم ہے۔ لیکن یہ دونوں راستے صرف کم مدت کیلئے ہی مفید ثابت ہو سکتے ہیں اور انہیں مستقل راہ حل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ آج ہم عراق، یمن، مصر اور تیونس جیسے ممالک میں حکومتوں کی تبدیلی کے شاہد ہیں۔ یہ ممالک ملک میں موجود سیاسی نظام کے بارے میں قومی اتفاق رائے کے فقدان کے چند واضح نمونے ہیں۔ لہذا جدید سیاسی نظام کی تشکیل نو اور قدیمی روایات سے چھٹکارا انتہائی مشکل کام ہے۔ ان ممالک میں بھی اسی طرح کے مسائل پائے جاتے ہیں جہاں معاشرہ فرقہ وارانہ، قبائلی یا نسلی بنیادوں پر چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں بٹا ہوا ہے۔ یہ بنیادی مسائل تشخص کا بحران، قومی اتفاق رائے کا فقدان اور جدید قومی مفاہمت کی ایجاد میں معاشرے کی ناکامی شامل ہیں۔ 
 
فارس: کیا آپ کی نظر میں مشرقی خطے میں عوامی اعتراضات کا جنم لینا حکومت اور عوام کے درمیان رابطے کی کمزوری کو ظاہر نہیں کرتا؟
ڈاکٹر توفیق السیف: سعودی عرب میں بسنے والے شیعہ مسلمانوں اور سعودی حکومت کے درمیان تعلقات انتہائی خراب ہیں جس کی بنیادی وجہ ایک لمبے عرصے سے دونوں کے درمیان بے اعتمادی کی فضا کا قائم ہونا ہے۔ خطے میں جاری سیاسی کشمکش نے ان تعلقات کو مزید بگاڑ دیا ہے۔ میں نے اس موضوع پر اپنی کتاب "سعودی عرب میں شیعہ رہنا" میں تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ جو مسئلہ میری نظر میں اہم ہے وہ سیاسی اور ثقافتی میدان میں سرگرم افراد اور دینی علماء کا اس بات کی جانب متوجہ ہونا ہے کہ فرقہ وارانہ فسادات اور نفرت پر مبنی تاریخ کو دوبارہ زندہ کرنا ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔ ایسی تاریخ کا زندہ ہونا عوام کے درمیان محبت اور الفت پیدا کرنے میں کوئی مدد نہیں کر سکتا بلکہ الٹا اس سے لوگوں میں شک اور تردید پیدا ہو گا۔ مجھے امید ہے کہ ہم اس تاریخ کو بھول جائیں اور اپنی ثقافت اور سوچ کو اس کے منفی اثرات سے بچا سکیں۔ 
 
فارس: بین الاقوامی رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی عرب میں مخالف فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جاتا ہے، اس مسئلے کو ختم کرنے کا کیا راستہ ہے؟
ڈاکٹر توفیق السیف: موجودہ صورتحال میں فرقہ واریت جیسی مشکل کا کوئی راہ حل موجود نہیں۔ ہم نے ماضی میں اس بارے میں حکومت کو ایک مکمل منصوبہ پیش کیا تھا اور کئی سال سے بعض محدود راہ حل پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔ ان میں سے کچھ راہ حل انتہائی مفید واقع ہوئے ہیں لیکن اصلی مشکل جوں کی توں ہے۔ میری نظر میں امتیازی سلوک والے مسئلے کا حل ایک جامع قومی منصوبہ بندی کے بغیر ممکن نہیں۔ ایک ایسا منصوبہ جو قانون کی حاکمیت اور شہریوں کے درمیان مساوات اور انفرادی تشخص کے مقابلے میں قومی تشخص کے فروغ پر مبنی ہو۔ 
 
فارس: کیا آپ ابھی تک اپنے اس عقیدے پر استوار ہیں کہ سعودی حکام شیعہ مسلمانوں کی جانب سے مطالبات پیش کئے جانے پر پریشان ہیں؟
ڈاکٹر توفیق السیف: جی ہاں۔ میری نظر میں سعودی حکومت گذشتہ کی مانند اب بھی شیعہ مسلمانوں کی جانب سے قانونی مطالبات پیش کئے جانے پر پریشان نظر آتی ہے اور سیکورٹی مشکلات نے سیاست دانوں کی سوچ پر منفی اثر ڈالا ہے جس کی وجہ سے وہ شیعہ مسلمانوں کے مطالبات کو بھی اسی تناظر میں دیکھتے ہیں۔ 
 
فارس: کیا سعودی عرب کے مذہبی مراکز اب بھی حکومت کے تابع ہیں؟
ڈاکٹر توفیق السیف: مختلف مسائل کے بارے میں سعودی مفتی حضرات کی جانب سے فتاوا حکومت کی درخواست پر صادر کئے جاتے ہیں۔ اس طرح کہ حکومت فتوا صادر کرنے والے مراکز سے شرعی سوال پوچھتی ہے اور سعودی مفتی اس کے جواب میں فتوا دیتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جو بھی کسی ذمہ دار کا انتخاب کرتا ہے وہ اس کی جانب سے صادر ہونے والے فتوے پر ایک حد تک اثرانداز ضرور ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ مسلمان علماء کے درمیان ماضی میں ایک چیز رائج رہی ہے جو اب بھی موجود ہے اور وہ حکومت کی بنیادی پالیسیوں سے ہماہنگی ہے اور ایسی پالیسیاں جن سے علماء راضی نہیں ہوتے ان کے بارے میں خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔ علماء اس بارے میں مخصوص دلائل پیش کرتے ہیں۔ سعودی مفتی بھی اس اعتبار سے دوسرے علماء سے مختلف نہیں ہیں۔ 
 
فارس: بحرینی عوام ملک میں اصلاحات کی خاطر سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرنے میں مصروف ہیں، آپ کی نظر میں سعودی عرب نے کیوں اتنی عجلت کے ساتھ عوام کو کچلنے کیلئے بحرین میں فوجی مداخلت انجام دی ہے؟
ڈاکٹر توفیق السیف: عرب ممالک میں جنم لینے والی انقلابی تحریکوں نے خلیج فارس کی عرب ریاستوں کو شدید پریشانی کا شکار کر دیا ہے اور ہر ملک کی کوشش رہی ہے کہ وہ اکیلے ہی اس مسئلے کو حل کر لے۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بحرین اکیلا اس مسئلے سے نمٹنے کی طاقت نہیں رکھتا تھا لہذا اس نے سعودی عرب سے مدد مانگی۔ میری نظر میں ریاض یہ گمان کر رہا تھا کہ بحرین کو ایران کی جانب سے شدید خطرہ ہے، البتہ یہ خطرہ فوجی قبضے کی صورت میں نہ تھا بلکہ خطے کے سیاسی ڈھانچے میں تبدیلی کی صورت میں ظاہر ہو رہا تھا۔ 
 
فارس: ریاض اور منامہ ہمیشہ سے خلیج عرب ریاستوں کے درمیان اتحاد کے قیام اور اس کی ضرورت پر تاکید کرتے آئے ہیں، آپ کی نظر میں سعودی عرب بعض ممالک کی مخالفت کے باوجود اس اتحاد کو اتنی اہمیت کیوں دے رہا ہے؟
ڈاکٹر توفیق السیف: میری نظر میں خلیج عرب ریاستوں کے درمیان اتحاد کی بات صرف ایک آرزو کی حد تک ہی ہے اور یہ کوئی قابل عمل منصوبہ نہیں۔ اگر خلیج عرب ریاستیں آپس میں مل کر ایک اتحاد تشکیل دینے کا ارادہ رکھتیں تو کم از کم انہیں چاہئے تھا کہ ماضی میں طے پانے والے معاہدوں کی پاسداری کریں۔ مثال کے طور پر خلیج فارس کے مشترکہ بازار کا معاہدہ، نظاموں میں یگانگت پیدا کرنے کا معاہدہ اور سرحدی اختلافات کے حل کیلئے بنائے گئے قوانین وغیرہ۔ 
 
فارس: ماضی میں سعودی بادشاہ نے مختلف ادیان اور مذاہب کے درمیان گفتگو کے مرکز کے قیام کا مطالبہ کیا تھا، یہ مطالبہ عملی میدان میں مختلف مذاہب کے درمیان قربت پیدا کرنے میں کس حد تک موثر ثابت ہوا ہے؟
ڈاکٹر توفیق السیف: مختلف مذاہب کے درمیان قربت پیدا کرنا ایک انتہائی اچھا منصوبہ ہے لیکن اس منصوبے پر دو چیزیں بہت زیادہ اثرانداز ہو رہی ہیں۔ پہلی چیز یہ ہے کہ اس مسئلے کا حل دینی علماء کے ہاتھ میں ہے لیکن یہ بالکل ممکن نہیں کیونکہ یہ مسئلہ سیاسی نوعیت کا ہے اور سیاست دانوں کو چاہئے کہ وہ اسے حل کریں۔ دوسری چیز یہ کہ بیرونی سطح پر پیدا ہونے والے بحرانوں نے گفتگو اور مذاکرات کی فضا کو خراب کر دیا ہے جس کے باعث وہ افراد جن سے گفتگو کی توقع کی جا رہی تھی اب ان بحرانوں کیلئے مناسب راہ حل تلاش کرنے میں مصروف ہیں۔ لہذا میری نظر میں اس منصوبے کا کوئی روشن مستقبل نظر نہیں آتا۔ 
 
فارس: آپ کی نظر میں مصر میں اخوان المسلمین کی حکومت کی سرنگونی کی کیا وجوہات ہیں، آیا خود اخوان المسلمین کی اپنی کمزوری کی وجہ سے حکومت ان کے ہاتھ سے نکل گئی ہے یا اس میں بیرونی قوتیں ملوث تھیں؟
ڈاکٹر توفیق السیف: میری نظر میں اخوان المسلمین نے خود مصر کے اندر اور اپنے ہمسایہ ممالک میں موجود حقائق کو صحیح طور پر درک کرنے میں کوتاہی کا مظاہرہ کیا تھا۔ اخوان المسلمین کی دوسری بڑی غلطی ہر چیز کو اپنے قبضے میں لینے اور اپنے سیاسی رقیبوں کو بالکل بے دخل کر دینے کی کوشش تھی۔ ایک سیاسی جماعت چاہے جتنی بھی طاقتور کیوں نہ ہو مصر میں موجود مضبوط سیاسی نظام کو توڑنے پر قادر نہیں ہو سکتی۔ اخوان المسلمین نے پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کرنے کے بعد پورے نظام کو تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ صرف اس نظام کی بنیادوں کو تبدیل کرنے کی کوشش کی تھی۔ انہوں نے اس حقیقت کی اہمیت کو نہیں سمجھا۔ وہ چیز جو مصر میں اخوان المسلمین کی حکومت کی ناکامی کا سبب بنی یہ تھی کہ وہ حکمران سیاسی جماعت کے کردار اور حزب مخالف میں بیٹھی سیاسی جماعت کے کردار کے فرق کو نہیں سمجھ پائے۔ 
 
فارس: شام میں خانہ جنگی جاری ہے اور مختلف ممالک سے مسلح گروہ شام میں داخل ہو چکے ہیں، آپ کی نظر میں کیا اس بحران کا کوئی راہ حل ممکن ہے؟ کیا جنیوا 2 کانفرنس اس بحران کا خاتمہ ثابت ہو گی؟
ڈاکٹر توفیق السیف: جنیوا 2 کانفرنس شام کے بحران کو خانہ جنگی سے جدید سیاسی نظام کی تشکیل نو کے سلسلے میں رقابت میں تبدیل کر دے گی۔ یہ راستہ منطقی طور پر صلح پر ختم ہو گا لیکن اس کے باوجود مدمقابل گروہوں کے درمیان اپنی سیاسی پوزیشن کو مضبوط بنانے کیلئے مسلح جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔ میری نظر میں موجودہ دور میں شام کے بحران کے حل کیلئے واحد امید جنیوا 2 کانفرنس ہے۔ کیونکہ اس کے علاوہ کوئی بھی دوسرا راستہ ملک میں جاری خانہ جنگی کی شدت میں اضافے کا باعث بنے گا اور شائد اس کے نتیجے میں ملک بھی ٹوٹ سکتا ہے۔ مزید یہ کہ جنیوا 2 کانفرنس کے علاوہ کوئی اور آپشن شام کے بحران کا ہمسایہ ممالک خاص طور پر اردن، عراق اور لبنان تک سرایت کر جانے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 338199
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش