0
Wednesday 15 Jan 2014 23:59

مشترکات کے ذریعے مسلمان ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو سکتے ہیں، مولانا غلام محمد گلزار

مشترکات کے ذریعے مسلمان ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو سکتے ہیں، مولانا غلام محمد گلزار
مولانا غلام محمد متو عرف گلزار کا تعلق وسطی کشمیر شالنہ پانپور سے ہے، ابتدائی تعلیم مقبوضہ کشمیر ہی میں حاصل کی، پھر اعلٰی تعلیم حاصل کرنے کے لئے 1992ء ہندوستان، اور پھر جنوری 1998ء میں اسلامی جمہوری ایران کا رخ کیا، 15 سال تک وہاں زیرتعلیم رہ کر تقریبا درس خارج تک محصل رہے، یہاں تک کہ اکتوبر 2012ء میں سرزمین انقلاب (قم) سے بعنوان مسئول دینی و تربیتی پیام ایجوکیشنل اکیڈمی شالنہ پانپور کشمیر واپس لوٹ آئے اور آجکل وہیں مصروف خدمت ہیں، اس کے علاوہ علماء کشمیر کے واحد پلیٹ فارم یعنی مجمع اسلامی کشمیر کے روح رواں بھی ہیں، مجمع اسلامی کشمیر، کشمیری طلباء کا ایک مشترکہ پلیٹ فارم ہے جس کے ساتھ کشمیر سے لے کر قم المقدس تک کم و بیش 100 طلباء و علماء کشمیر وابستہ ہیں، اس تنظیم کی بنیاد 2007ء میں ایران میں زیرتعلیم طلباء کی بےانتہا جدوجہد کے بعد پڑی، جس کے بعد سے مجمع اسلامی کشمیر نے اپنی دینی و اخلاقی ذمہ داریوں کو بنحو احسن انجام دیتے ہوئے قوم کی رہنمائی اور مثالی معاشرہ کی ترویج کے لئے مختلف میدانوں میں بہت سارے مفید قدم اُٹھائے، مولانا غلام محمد گلزار جموں و کشمیر کے علماء کرام کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے میں اہم ترین رول نبھائے ہوئے ہیں، اسلام ٹائمز نے مجمع اسلامی کے روح رواں غلام محمد گلزار سے ہفتہ وحدت اور میلاد النبی (ص) کے حوالے سے ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: ولادت رسول اکرم (ص) کی افادیت و اہمیت اور تاریخی پس منظر کے بارے میں تشریح چاہیں گے۔؟

مولانا غلام محمد گلزار: سب سے پہلے میں آپ اور ’’اسلام ٹائمز‘‘ میں آپ کے تمام ہمکاروں کی خدمت میں ہفتہ وحدت اور روزِ میلاد پیغمبر رحمت و شفقت (ص) نیز ان کے چھٹے جانشین برحق حضرت امام جعفر صادق (ع) کی ولادت باسعادت پر تبریک و تہنیت عرض کرتا ہوں۔
بعدہ ولادت پیغمبر اکرم (ص) کی اہمیت و افادیت قرآن کی اس آیہ کریمہ سے بخوبی واضح ہوتی ہے کہ خداوند عالم نے انسان کو جہاں اپنی بےانتہا نعمات سے نوازا ہے تو کہیں پر بھی اپنی منت گزاری کا اعلان نہیں کیا، ہاں اگر کہیں انسان اور مؤمنین پر منت کی بات کی تو وہ نبی اکرم کی ذات اقدس ہے، لقد من اللہ علی المؤمنین اذ بعث فیھم رسولا (آل عمران 163) جی ہاں آنحضرت ایسے وقت تشریف لائے جب دنیا ظلمت کی انتہا تک پہنچ چکی تھی اور انسانی اقدار کا دم گھٹتا جا رہا تھا، خدائے وحدہ لاشریک کی بجائے ہر قوم اور قبیلہ نے اپنے لئے ایک خدا انتخاب کر کے خانہ کعبہ میں رکھا تھا، لوگ لڑکیوں کو اپنے لئے باعث ذلت و بےعزتی سمجھ کر زندہ ان کو دفن کرنے میں ایک دوسرے پر فخر و مباہات کیا کرتے تھے، ہر طرف جہالت، تعصب، قتل و غارت، شراب و شباب، بےشرمی و بےحیائیوں کا اندھیرا ماحول چھایا ہوا تھا اور انسانیت نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی تھی اس طرح اشرف المخلوق کا لقب پانے والا یہ انسان پست ترین جانوروں سے بھی پست ہو چکا تھا، ایسے ماحول میں خداوند عالم نے پیغمبر اعظم (ص) کو عزت، شرافت، کرامت اور انسانیت کی تجدید نو کے لئے بھیجا۔

اسلام ٹائمز: ہفتہ وحدت کے سلسلے میں پوچھنا چاہیں گے، کیا راز مضمر ہے ان ایام کو امام خمینی (رہ) نے ہفتہ وحدت قرار دیا۔؟

مولانا غلام محمد گلزار: مسلمانوں کے مابین بہت سارے مشترکات پائے جاتے ہیں جن کو بنیاد بناکر مسلمان ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو سکے ہیں۔ جیسا کہ علامہ اقبال (رہ) نے بھی اپنے اس شعر میں فرمایا:
منفعت ایک ہے اس قوم کی، نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی، دین بھی، ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

لیکن اس کے باوجود مسلمانوں میں تشتت و افتراق پایا جاتا ہے، اب چونکہ تمام مسلمان خود کو آنحضرت (ص) ہی کا امتی جانتے ہیں اور سب آپ (ص) ہی کا کلمہ پڑھتے ہیں اس لئے امام راحل (رہ) نے آنحضرت (ص) ہی کی ذات کو محور اتحاد قرار دے کر اتحاد کا نعرہ بلند کیا اور درحالیکہ جب پیغمبر کی تاریخ ولادت ہی میں اختلاف پایا جاتا تھا جس کی رو سے اہلسنت 12 ربیع الاول اور شیعہ حضرات 17 ربیع الاول کو آپ (ص) کا روز میلاد مناتے تھے، اس لئے امام راحل نے یہیں سے اختلافات کو ختم کرتے ہوئے اعلان فرمایا کہ ہم نہ صرف 12 یا 17 کی تاریخ کو جشن منائیں بلکہ اتحاد و یکجہتی کی مثال قائم کرتے ہوئے پورے ہفتہ کو ’’ہفتہ وحدت‘‘ مناکر جشن میلاد النبی (ص) منائیں۔

اسلام ٹائمز: وحدت بین المسلمین کے حوالے سے علماء اسلام کا کردار کیا بنتا ہے۔؟

مولانا غلام محمد گلزار: وحدت مسلمین میں علماء کا کردار کافی اہمیت کا حامل ہے اور وہ اس میں کلیدی رول ادا کرسکتے ہیں، چونکہ علماء کا اثر و رسوخ سماج کے ہر فرد پر ہوتا ہے اور سماج کا ہر طبقہ علماء سے متأثر ہوتا ہے یہ علماء ہی ہوتے ہیں جو جس طریقہ اور نہج (راستہ) پر چاہیں عوام کو لا سکتے ہیں، یقینا اگر وہ اپنی دینی و اخلاقی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھائیں تو مسلمانوں میں نفرت کی دیواروں کو منہدم کرکے صدرِ اسلام کی طرح ان میں ایک دوسرے کی نسبت پیار و محبت، اخوت و برادری کی مثال قائم کرسکتے ہیں جو اسلام کے بنیادی دستورات میں سے ہے۔

اسلام ٹائمز: رسول اکرم (ص) کی ذات اقدس میں ہمیں کس قدر وحدت مسلمین کا درس ملتا ہے۔؟

مولانا غلام محمد گلزار: رسول (ص) کی سیرہ عملی یا ان سے منسوب احادیث پر ہم جب ایک سرسری نظر ڈالتے ہیں تو وہاں نہ صرف اتحاد بین مسلمین بلکہ دیگر تمام مذاہب حتی غیر آسمانی ادیان (یہود، نصاری و زرتششت وغیرہ) مثلا کفار قریش کے ساتھ بھی ان کی طرف سے ہمیں وحدت کا درس ملتا ہے، خود قرآن بھی ہمیں دیگر مذاہب کے ساتھ وحدت و اتحاد کا درس دیتا ہے جیسا کہ قرآن مجید کی اس آیہ کریمہ (تعالو الی کلمة سواء بیننا و بینکم۔۔۔ آل عمران 64) میں بھی بیان ہوا ہے اسی لئے پیغمبر اکرم (ص) نے مختلف قبائل اور مذاہب کے ساتھ عہد و پیمان باندھا تھا، اب اگر ہم وحدت مسلمین کے تناظر میں آنحضرت (ص) کی سیرت پاک کو دیکھیں تو چونکہ آپ(ص) مسلمانوں کے آپسی تفرقات کے مضرات اور نقصانات سے بخوبی واقف تھے اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ میں قدم پاک رکھتے ہی آپ (ص) نے سب سے پہلے مسلمانوں اور اپنے اصحاب کو عقد اخوت میں بندھے رہنے کا حکم دیا اور تمام اصحاب مہاجر و انصار کو آپس میں بھائی بھائی قرار دیا، اتحاد مسلمین کو برقرار رکھنے کے لئے ہی پیغمبر (ص) نے دور جہالت کی ہر معیار فضیلت سے انکار کرکے فرمایا تھا کہ اسلام میں عرب، عجم، رنگ و نسل، ذات پات، زن و مرد، صغیر و کبیر وغیرہ کی کوئی چیز کسی پر معیار برتری و فضیلت نہیں ہے بلکہ معیار بزرگی شرافت صرف اور صرف تقوی و پرہیزگاری ہے۔

اسلام ٹائمز: امام خمینی (رہ) کا یہ قول جو لوگ شیعہ سنی اختلافات کو ہوا دیتے ہیں وہ نہ شیعہ ہیں نہ سنی بلکہ استعمار اور دشمن کے آلہ کار ہیں، کی وضاحت آپ کن الفاظ میں بیان فرمائیں گے۔؟

مولانا غلام محمد گلزار: جی ہاں شیعہ و سنیوں میں اختلافات کو ہوا دینے والے استعمار اور دشمن کے آلہ کار ہی ہیں چونکہ اگر وہ اسلام اور دین کے دلسوز ہوتے تو وہ کبھی ایسے کام نہیں کرتے جو مسلم امہ کے لئے کسی زہر ہلاہل سے کم نہیں، یقینا اگر ان کے دلوں میں اسلام اور مسلمانوں کے تئیں ہمدردی اور سچی محبت ہوتی تو وہ اپنی پوری طاقت اور قوت مسلمانوں کو یکجا اور متحد کرنے میں صرف کرتے تاکہ مسلمان اپنے قابل فخر اور روشن و تابناک ماضی کی مثال دوبارہ دنیا میں قائم کرسکیں، نہ کہ ایک دوسرے سے لڑنے لڑانے اور قتل و جدال کے لئے، وہ دیکھتے کہ کس طرح یورپی ممالک، امریکہ، اسرائیل نے مسلم دنیا کی لوٹ کھسوٹ کے لئے بغیر کسی مشترکات کے اور کیسے اپنے صدیوں پرانے اختلافات کو بھلا دیا ہے درحالیکہ ان میں کئی سارے ممالک کئی سال پہلے تک ایک دوسرے کے مدمقابل تھے، اب اس کو جانتے ہوئے بھی وہ عناصر مسلم دنیا کو آپسی تقسیم پر تلے ہوئے ہیں تو وہ دشمن کے آلہ کار نہیں تو اور کیا ہیں۔؟

اسلام ٹائمز: ہم رسول اکرم (ص) کی ذات اقدس کو محور و نکتہ اور مرکز اتحاد بنا سکتے ہیں، کیوں مسلمان عالم اس ذات مقدس پر جمع نہیں ہوتے ہیں اور اختلافات کے شکار ہیں۔؟

مولانا غلام محمد گلزار: یقینا نبی مکرم (ص) ہی کی وہ عظیم ذات مقدس ہے جس پر ہم متحد ہو سکتے ہیں کیونکہ جیسا کہ ہم نے پہلے بھی عرض کی کہ سب مسلمان خود کو آنحضرت ہی کا امتی تصور کرتے ہیں اب نبی معظم (ص) اور ان کی بےبہا تعلیمات کے باوجود مسلمان کیوں جمع نہیں ہو پاتے ہیں مختصر طور پر اس کی کئی وجوہات ہیں، الف: عالم استکبار اور اسلام دشمن طاقتوں کی سازشیں جن کو ہمارے کچھ سادہ لوح مسلمان نہیں سمجھ پاتے ہیں، اگرچہ ایک طبقہ اپنے دنیاوی مال منال کے لئے استعمار اور دشمن کا آلہ کار بنتے ہیں۔ ب: بعض مسلمان حکمرانوں کا حقیر مادی مفادات کا حصول جو اپنی حکومت اور کرسی کے تحفظ کے لئے مسلمانوں میں اختلافات کو ہوا دے کر ان کے اتحاد و بھائی چارگی کو سبوتاژ کرتے رہتے ہیں۔ ج: بعض متعصب اور درباری علماء کا منفی رول، جو حکومتوں یا دوسرے افراد سے تنخواہ لینے کی وجہ سے اپنے دین سے زیادہ اپنے آقاؤں اور ان کی حکومتوں کے وفادار ہوتے ہیں، جن کے لئے خدا سے زیادہ اپنے آقا کی مرضی اہم ہوتی ہے چاہیے اس میں معصیت الہی ہی کیوں نہ ہو۔ د: عام لوگوں کی جہالت، جو وحدت اور اتحاد مخصوصا موجودہ دور میں جب دشمن اپنی تمام قوت و طاقت کے ساتھ اسلام کی نابودی کے لئے صف آرا ہوئے ہیں، اتحاد کی اہمیت اور افادیت سے بےخبر ہیں وہ جو بھی قدم تفرقہ اور آپسی اختلافات کے لئے اُٹھاتے ہیں اپنی نادانی اور سادگی کی وجہ سے وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح وہ دین و اسلام کی خدمت کرتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: ہفتہ وحدت کے ذریعے مسلمانان جہاں کیا مثبت کارنامہ انجام دے سکتے ہیں، اور کون سے بلند ترین و عظیم ترین پیغامات دنیا اور قوم کو دے سکتے ہیں؟ نیز اس میں ہماری سعی و جدوجہد کیا ہونی چاہیئے۔؟

مولانا غلام محمد گلزار: ہفتہ وحدت کے ذریعہ سے ہم مسلمانوں کی علمی، سیاسی، سماجی، تعلیمی، دینی، تہذیب و ثقافتی پسماندگیوں کا حل نکال سکتے ہیں یا جیسا کہ آپ دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے اکثر ممالک میں آجکل خونریزی، قتل و غارت کا بازار بڑی بےرحمی کے ساتھ گرم ہے، اس ہفتہ میں اگر مسلمان چاہتے ایسے ناگوار مسائل کی روک تھام کے لئے ٹھوس اقدام اُٹھا سکتے تھے، یعنی مسلمانوں کے لئے میلاد نبی کسی ایک بڑی اور انمول نعمت سے کم نہیں تھا جس میں وہ اپنے مسائل کو حل نہ کر پاتے، لیکن مسلمان چونکہ افتراق اور تشتت کے شکار ہیں لہذٰا مناسب طور پر پیش آنے والی اس عظیم اور گرانبہا مناسبت اور فرصت سے فائدہ نہیں اُٹھا پا رہے ہیں، ہفتہ کے ذریعہ سے مسلمان دنیا کو یہ بہترین پیغام دے سکتے ہیں کہ فروعی مسائل میں اختلاف نظر کے باوجود ہم بنیادی مسائل میں کسی طرح کا اختلاف نہیں رکھتے ہیں، ہماری یہی جدوجہد ہونی چاہیئے کہ زیادہ سے زیادہ سیرت طیبہ نبی معظم خصوصا اتحاد و وحدت کے حوالے سے منظر عام پر لایا جائے، یعنی اس ہفتہ میں جگہ جگہ، اسکولوں، کالجوں اور حوزات علموں اور عام جگہوں پر علمی کانفرنسیں اور نشستیں منعقد ہونی چائیں جن میں شیعہ و سنی کے عام لوگوں کے علاوہ علماء اور دونوں فرقوں سے وابستہ متفکرین اور سکالروں کو شرکت اور خطابت کے لئے مدعو کیا جائے تاکہ لوگ زیادہ سے زیادہ اسلامی تعلیمات اور فرمودات پیغمبر اکرم (ص) نیز اسلام میں اتحاد و وحدت کی اہمیت اور افادیت سے آشنا ہو جائیں، ان کانفرسوں اور علمی نشستوں کو منعقد کرنے کے لئے شیعہ و سنی زعماء کو آگے آنا چاہیئے نیز ان نشستوں میں یہ آپسی عہد و پیمان کیا جاتا کہ کسی بھی صورت میں دوسرے مذاہب کے ماننے والوں اور ان کے مقدسات کی توہین نہ کی جائے۔

اسلام ٹائمز: ولادت رسول نازنین (ص) پر ہمیں کس جانب زیادہ توجہ مبذول کرنی چاہئے۔؟ اور وقت کی اہم ترین ضروت کیا ہوسکتی ہے۔؟

مولانا غلام محمد گلزار: ولادتِ رسول مقبول (ص) پر ہمیں اس بات کی طرف توجہ مبذول کرنی چاہیئے کہ چودہ سو سال ہمیں آنحضرت (ص) کی سیرت سنتے سنتے ہو گئے اب وقت آ گیا ہے کہ ان کی سیرت پاک کو ہم اپنی عملی زندگی میں لائیں جو ہر لحاظ سے بغیر کسی امتیاز مذہبی ہر بنی نوع انسان کے لئے ایک مکمل نمونہ حیات ہے جس کی گواہی خداوند عالم نے قرآن مجید میں (لقد کان لکم فی رسول للہ اسوة حسنة۔ سورہ احزاب 21) فرما کردی ہے، یہ سیرت طیبہ آنحضرت (ص) ہی کا اجرا ہے جو اس دنیا کو ظلم و جور، ناانصافی اور بےعدالتی، قتل و غارت، خیانت اور ضلالت، بےشرمی اور بےحیائی وغیرہ جیسے تمام رزائل اور خبائث سے نجات دے سکتی ہے اور بندہ کے خیال میں اگر ہم پیغمبر (ص) کے زندگی کے مختلف گوشوں کو اپنی عملی زندگی میں لائیں تو وحدت اور اتحاد جو اس وقت نہ صرف مسلمانوں بلکہ عالم بشریت کی بنیادی ضرورت ہے، بھی خود بخود وجود میں آ سکتی ہے، چونکہ آنحضرت (ص) کی سیرت جو الہی اور وحیانی فرمودات پر مبنی ہے میں نہ صرف وحدت مسلمین کا تصور ہے بلکہ وہاں عالم بشریت کی وحدت و اتحاد کے لئے بہترین خدوخال پائے جاتے ہیں جس کی گواہی قرآن بھی یہ کہکر دے رہا ہے، (یا اھل الکتاب تعالوا الی کلمة سواء بیننا وبینکم، آل عمران ۶۴)۔۔۔
خبر کا کوڈ : 340934
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش