0
Saturday 25 Jan 2014 14:20
ملک اور اسلام دشمن قوتیں پاکستان میں خون کی ہولی کا گھنائونا کھیل کھیل رہی ہیں

پاک آرمی، رینجر اور دیگر فورسز تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے شدت پسندوں کا خاتمہ کریں، مخدوم جاوید ہاشمی

پاک آرمی، رینجر اور دیگر فورسز تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے شدت پسندوں کا خاتمہ کریں، مخدوم جاوید ہاشمی
مخدوم جاوید ہاشمی کا تعلق ملتان کے نواحی علاقے مخدوم رشید سے ہے۔ مخدوم جاوید ہاشمی کا شمار ملک کے بزرگ اور سینیئر سیاستدانوں میں ہوتا ہے۔ مخدوم جاوید ہاشمی نے سیاست کا آغاز کالج دور میں اسلامی جمعیت طلبہ کے پلیٹ فارم سے کیا۔ اُنہوں نے ملک میں جمہوریت کی خاطر کئی قربانیاں دیں، کئی بار جیل گئے اور اُنہوں نے اپنے آپ پر ایک کتاب بھی لکھی، جس کا نام ''ہاں میں باغی ہوں'' ہے۔ مخدوم جاوید ہاشمی پاکستان مسلم لیگ نون کے مرکزی رہنما تھے اور نواز شریف کی جلاوطنی کے دور میں بڑی مشکل سے پارٹی کو سنبھالا اور جب اُنہیں پارٹی میں اُن کا مقام نہ ملا تو اُنہوں نے پاکستان مسلم لیگ نون کو خیرباد کہہ کر پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی۔ جاوید ہاشمی اس وقت پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی صدر ہیں۔ ''اسلام ٹائمز'' نے سانحہ مستونگ اور ملک میں جاری دہشتگردی کے حوالے سے ان سے انٹرویو کیا ہے، جو کہ قارئین کے پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)

سوال: پاکستان میں موجودہ فرقہ واریت کی لہر کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
مخدوم جاوید ہاشمی: خدا کا شکر ہے ہم کئی سالوں سے ایک ساتھ رہ رہے ہیں۔ ہمارے اندر شیعہ سنی کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ پاکستان بننے کے پہلے سے شیعہ سنی ایک ساتھ مل کر بلکہ دیوبندی اور اہلحدیث علماء بھی محرم الحرام کے جلوس اور ربیع الاول کے جلوسوں کی قیادت کرتے تھے اور مل کر ان جلوسوں میں شرکت کرتے تھے۔ یہاں تک کہ مولانا ثناءاللہ (پانی پت والے) جو کہ خود وہابی تھے، وہ بھی تعزیہ اپنے کندھوں پر اُٹھاتے تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جن لوگوں کو پاکستان بننے کی تکلیف ہے وہی ملک میں فرقہ واریت پھیلا رہے ہیں۔ جو کام دہشتگرد کر رہے ہیں  اُس کی کوئی بھی مذہب تعلیم نہیں دیتا، اسلام تو پھر تمام مذاہب کا سردار ہے۔ اس وقت جو فرقہ واریت کی لہر ہے یہ دشمن کی سازش ہے، جس کا شکار ہمارے نادان اور جاہل لوگ ہو رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: اس وقت ایک عام آدمی کے علاوہ سکیورٹی فورسز کے ادارے بھی محفوظ نہیں ہیں۔؟
مخدوم جاوید ہاشمی: اس وقت پاکستان میں ایسے حالات پیدا کئے جا رہے ہیں کہ ملک کو توڑا جائے۔ جو لوگ ملک میں فوج، پولیس، ایف سی اور رینجرز کو نشانہ بنا رہے ہیں، کیا کبھی اُنہوں نے سوچا ہے کہ وہ کس دشمن کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں، کس کافر کو مار رہے ہیں۔ یہ جو کارروائیاں کر رہے ہیں یہ اسلام کے خلاف ہیں، دین محمدی کے خلاف ہیں اور پاکستان کے بھی خلاف ہیں۔ ملک اور اسلام دشمن قوتیں پاکستان میں خون کی ہولی کا گھنائونا کھیل کھیل رہی ہیں۔ افواج پاکستان ان کے خلاف ایکشن لیں، ہم حمایت کریں گے۔ پاک آرمی، رینجر اور دیگر فورسز تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے شدت پسندوں کا خاتمہ کرے۔

اسلام ٹائمز: گذشتہ حکومت کی طرح اس حکومت کے دور میں بھی ہزارہ برادری اور اہل تشیع کیساتھ ظلم جاری ہے، آپ کیا کہیں گے۔؟
مخدوم جاوید ہاشمی: موجودہ حکومت عوام کو تحفظ دینے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے۔ زرداری کی طرح نواز شریف دور میں بھی بے گناہوں کا قتل عام جاری ہے۔ انہیں نہ روکا تو ملک میں خانہ جنگی ہوسکتی ہے۔ جو بے گناہوں کا خون بہاتا ہے وہ مسلمان نہیں ہے۔ پاکستان کو تمام مذاہب کے رہنمائوں نے اس لیے مل کر بنایا تھا کہ یہاں سب مل کر ایک خدا کی عبادت، ایک نبی کی اُمت، ایک کتاب کو ماننے والے ایک مذہب کے پیروکار مل کر رہیں گے۔ جب پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت تھی اور زرداری صاحب صاحب اختیار تھے، تب بھی اہل تشیع برادری کے ساتھ ظلم ہوا اور وہ اپنے پیاروں کی لاشوں کو لے کر تین دن تک سڑکوں پر بیٹھے رہے اور جب میاں نواز شریف کی حکومت ہے پھر بھی اہل تشیع اپنے پیاروں کی لاشیں لے کر سڑکوں پر بیٹھے ہے۔ اس سے واضح ہے کہ حکومت چاہے پاکستان پیپلزپارٹی کی ہو یا میاں نواز شریف کی یہ قوم اسی طرح سخت سردی میں اپنے پیاروں کو لے کر سڑکوں پر بیٹھی ہے، حکومتیں تبدیل ہوئی ہے لیکن ان لوگوں کی قسمت تبدیل نہیں ہوئی۔

اسلام ٹائمز: ایک طرف طالبان اور ملک دشمن قوتیں پاکستان کے سکیورٹی اداروں اور عوام کو نشانہ بناتے ہیں جبکہ دوسری جانب بعض مذہبی و سیاسی جماعتیں اُن سے مذاکرات کی بات کرتی ہیں۔؟
مخدوم جاوید ہاشمی: میں نے بار بار کہا ہے کہ ان واقعات میں ملوث لوگوں اور جن لوگوں نے اس کی ذمہ داری قبول کی ہے (کالعدم لشکر جھنگوی، تحریک طالبان) کے خلاف سخت کاروائی کرنی چاہیے۔ اگر ظالم کا ہاتھ نہ روکا گیا تو پاکستان کے مظلوم بھی اُٹھ کھڑے ہوں گے اور ملک میں خانہ جنگی کا ماحول پیدا ہوجائے گا۔ گھر گھر میں جنگ ہوگی، گلی گلی میں جنگ ہوگی، جس کا فائدہ ہمارے دشمن، ہمارے اغیار امریکہ اور دیگر قوتوں کو ہوگا۔ اس لیے ہمیں ان ناسوروں کے خلاف ایک طاقت کے طور پر کھڑا ہونا چاہیے۔ جو لوگ مذاکرات کی رٹ لگائے ہوئے ہیں، اُن کا نقصان کوئی نہیں ہوا، جب اُن کا نقصان ہوگا تو اُنہیں سمجھ آئے گی۔ جو ظلم کر رہا ہے اور دہشتگردی کی ذمہ داری قبول کر رہا ہے، اُن کے خلاف آپریشن کیوں نہیں کرتے، چاہے وہ سانحہ مستونگ کی بس پر حملہ کرنے والا ہو، فوجی جوانوں پر حملہ ہو، ایف سی پر حملہ ہو یا قومی تنصیبات پر۔ دشمن کے خلاف کارروائی نہ کرنے کی وجہ سے پوری دنیا میں ہمیں کمزور سمجھا جا رہا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ آپریشن ہونا چاہیے اور اس آپریشن کے لیے مستقل کوئی لائحہ عمل بنانا چاہیے۔ حکومت آخر کیوں آنکھیں بند کرکے بیٹھ گئی ہے۔ مذاکرات فرض نہیں ہیں، اگر ہم ان کو روک سکتے ہیں تو کیوں نہیں روکتے۔ حکومت ان دہشتگردوں کو روک نہیں رہی، لوگوں کو تحفظ نہیں فراہم کر رہی تو کیا کر رہی ہے۔ آپ کس بات کے حاکم اور محافظ ہیں، کیا آپ کی یہ ذمہ داری نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: مخدوم صاحب اس وقت مرنے والا اور مارنے دونوں اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں؟ کیا اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ کسی بے گناہ کو قتل کر دیا جائے۔؟
مخدوم جاوید ہاشمی: پاکستان میں کیسا نظام چل رہا ہے، جس میں مارنے والا بھی قرآن مجید کی آیت پڑھتا ہے اور جو مر رہا ہے وہ مسجد میں، امام بارگاہوں میں، سکولوں میں اور زائرین ہیں۔ آخر علماء اہل تشیع اور اہلسنت کو سمجھ کیوں نہیں آتی، جو اسلام کو بدنام کر رہے ہیں اور پاکستان کو بدنام کر رہے ہیں۔ ایک اسلام کے لیے مار رہا ہے اور دوسرا اسلام کے لیے مر رہا ہے۔ خدارا اسلام پر رحم کریں۔ حکومت کی ذمہ داری ہے وہ ملک اور اسلام کی بقاء کے لیے ان درندوں کے خلاف کارروائی کرے۔ ہم سیدھے سادھے لوگ ہیں، ہم خدا کو ایک مانتے ہیں، رسول خدا کو انبیاء کا سردار اور خدا کا برگزیدہ بندہ مانتے ہوئے گواہی دیتے ہیں، اہلبیت اطہار، صحابہ کرام، مولا علی علیہ السلام کو، امام حسین کو، سیدہ زینب سلام اللہ علیھا کو مانتے ہیں اور ہمارا ایمان ہے کہ اُس وقت ہمارا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا جب تک اہلبیت اطہار کو نہ مانا جائے۔ ہمارا درود اُس وقت تک مکمل نہیں جب تک اہلبیت کو شامل نہ کیا جائے۔ یہ کیسے مسلمان ہیں جو درود بھی پڑھتے ہیں اور اُن کے ماننے والوں کو ذبح بھی کرتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: دشمن اس طرح کے دہشتگردانہ واقعات سے کیا ثابت کرنا چاہتا ہے۔؟
مخدوم جاوید ہاشمی: دشمن سمجھتا ہے کہ ہم ان مظالم سے ڈر جائیں گے، لیکن ہم قربانی دینے والے ہیں اور قربانی دیتے رہیں گے۔ اس وقت جو ظلم ہو رہا ہے، پاکستان میں خاص طور پر جو مستونگ میں ہوا ہے، اُس کا تدارک کرنا چاہیے۔ اس درندگی میں ملوث دہشتگردوں کو سرعام پھانسی پر لٹکایا جائے۔ یہ کہاں کی انسانیت ہے کہ جو تمہاری بات نہ مانے اُس کو قتل کر دو، اسلام اس کی ہرگز اجازت نہیں دیتا اور نہ ہی انسانیت اس بات کی اجازت دیتی ہے۔ میں اُن دہشتگردوں کو کہتا ہوں کہ تم مسلمان تو نہیں بن سکے کم از کم انسان تو بن جائو۔ تحریک انصاف ہر سطح پر آپ کے ساتھ ہے۔ آج ملک میں کوئی طبقہ بھی محفوظ نہیں ہے، کئی برسوں سے دھرتی پر قتل عام جاری ہے۔ مسلمانوں کو باہر سے نہیں اندر سے وحشیانہ طریقے سے مارا جا رہا ہے، حکومت کو ان مسائل کے حل کے لیے وقت ہی نہیں مل رہا ہے۔ یہ لوگ زخموں پر مرہم لگانے کی بجائے مزید زخم لگانے میں لگے ہوئے ہیں۔ اسلام اور پاکستان کے دشمن متحد ہوچکے ہیں، اب ہمیں بھی تمام اختلافات کو بھلا کر اسلام اور پاکستان کے لیے متحد ہونا ہوگا۔ مذاکرات فرض نہیں ہیں اور نہ ہی ملکی سلامتی سے زیادہ عزیز اور ضروری ہیں۔ ملک اور قوم کی سلامتی ہماری پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔ یہ بھیڑیوں کا نہیں بلکہ 18 کروڑ انسانوں کو ملک ہے۔

اسلام ٹائمز: شہدائے مستونگ کے ورثاء کے حوالے سے کچھ کہیں گے۔؟
مخدوم جاوید ہاشمی: میں شہدائے مستونگ کے ورثاء کو سلام پیش کرتا ہوں اور اُن سے تعزیت کرتا ہوں۔ آج ہر دل دکھی ہے، آج اُن مائوں، بہنوں، بیٹیوں اور والدین کا کیا حال ہوگا جو کوئٹہ کی سردی میں اپنے پیاروں کی لاشوں کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ اُن بچوں سے کوئی جا کر پوچھے کہ جن کے سر سے ماں باپ کا سایہ اُٹھ گیا اور کوئی اُن ماں باپ سے جا کر پوچھے کہ جن کے جواں سالہ بیٹے اس دہشتگردی کا نشانہ بنے۔ اس واقعہ میں بچوں کو بھی نہیں بخشا گیا، جس سے دہشتگردوں کی درندگی کا ثبوت ملتا ہے۔ سانحہ مستونگ کے واقعے سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔
خبر کا کوڈ : 344819
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش