0
Friday 31 Jan 2014 19:59
دنیا ایران کیساتھ تجارت کر رہی ہے ہمیں پابندیوں سے ڈرایا جا رہا ہے

امن ہماری اولین ترجیح ہے، اگر طالبان مذاکرات کا یہ موقع ضائع کرتے ہیں تو ہم آپریشن کی حمایت کرینگے، منور حسن

شریف برادران پاکستان سے زیادہ امریکی مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں
امن ہماری اولین ترجیح ہے، اگر طالبان مذاکرات کا یہ موقع ضائع کرتے ہیں تو ہم آپریشن کی حمایت کرینگے، منور حسن
سید منور حسن جماعت اسلامی پاکستان کے امیر ہیں، اگست 1944ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ ہجرت کی اور کراچی میں مقیم ہوگئے۔ آپ نے کراچی یونیورسٹی سے 1963ء میں سوشیالوجی اور 1966ء میں اسلامیات میں ایم اے کیا۔ 1959ء میں سید منور حسن نے نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن جوائن کی، جو اس وقت سرخ انقلاب اور سیکولرازم کیلئے سرگرم عمل تھی، آپ اس کے صدر رہے، مولانا ابوالاعلٰی موودوی کے مطالعہ کے بعد ان کا رجحان جماعت کی جانب ہوگیا اور آپ نے 1960ء میں اسلامی جمعیت طلبہ جوائن کر لی۔ اس کے ساتھ ہی کراچی یونیورسٹی میں جمعیت کے ناظم بنا دیئے گئے۔ بعد میں کراچی شہر کے ناظم بنے اور پھر ایگزیکٹو کونسل کے رکن بن گئے۔ 1964ء میں سید منور حسن اسلامی جمعیت طلبہ کے مرکزی ناظم اعلٰی بن گئے۔ 1967ء میں آپ نے جماعت اسلامی جوائن کی۔ کراچی یونٹ کے معاون سیکرٹری بنے، پھر ڈپٹی امیر اور بعدازاں امیر بنا دیئے گئے۔ 1977ء میں ایم این اے بن گئے۔ مختلف عہدوں سے ہوتے ہوئے آج کل جماعت اسلامی کے امیر ہیں۔ سید منور حسن کو انگریزی اور اردو پر عبور حاصل ہے۔ ایک ٹی وی انٹرویو میں حکیم اللہ محسود کو شہید قرار دینے پر ملک میں ایک ہنگامہ کھڑا ہوگیا، لیکن سید منور حسن اپنے موقف پر قائم رہے۔ اسلام ٹائمز نے گذشتہ روز لاہور میں ان کیساتھ ایک نشست کی، جس کا احوال ہم اپنے قارئین کے لئے پیش کر رہے ہیں۔ (ادارہ)
                                         ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام ٹائمز: آخر کار آپ کی سنی گئی اور حکومت نے آپریشن کی بجائے امن کو آخری موقع دیا ہے، کیا اس معاملے میں حکومت کو کامیابی حاصل ہوجائے گی۔؟
سید منور حسن: یہ ہماری نہیں عوام کی سنی گئی ہے، عوام یہ مطالبہ کر رہے تھے کہ آپریشن نہ کیا جائے بلکہ مذاکرات کے ذریعے ہی مسائل حل کر لئے جائیں تو اس سے بہتر کوئی اور چیز نہیں، میاں نواز شریف صاحب نے دوراندیشی کا مظاہرہ کیا اور مذاکرات کا اعلان کرکے ثابت کر دیا کہ وہ ملک میں امن چاہتے ہیں۔ اے پی سی نے حکومت کو پانچ ماہ قبل ہی مینڈیٹ دے دیا تھا لیکن وہ مذاکرات میں دانستہ تاخیر کر رہی تھی، ہم نے آپریشن کی مخالفت اس لئے کی تھی کہ وزیرستان بارود کا ڈھیر ہے، یہاں سوات، بونیر اور جنوبی وزیرستان جیسی صورتحال نہیں، اس لئے ہم نے ملک کو بچانے کے لئے اس آپریشن کی مخالفت کی۔ دوسرا حکومت سنجیدہ نہیں تھی کیونکہ انہوں نے مذاکرات کا ٹاسک تو مولانا سمیع الحق کو دیدیا تھا لیکن مولانا سمیع الحق نے بتایا کہ ان کا تو فون بھی نہیں سنا جا رہا، جنہیں بات چیت کا ٹاسک دیا گیا جب
ان کا فون سننے کی ہی فرصت نہیں تو پھر آپ اندازہ کر لیں حکومت کتنی سنجیدہ تھی۔ 

میری چوہدری نثار سے بھی فون پر بات ہوئی، میں نے انہیں واضح کہا تھا کہ آپ کس کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں، باتیں تو بڑی ہو رہی ہیں کہ مذاکرات ہو رہے ہیں، بتائیں آپ کس کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں؟ یہ تو آپ ہوا میں تیر چلا رہے ہیں، جن سے مذاکرات کرنے ہیں وہ تو کہتے ہیں کہ ہم سے کسی نے رابطہ نہیں کیا۔ اس لئے حکمرانوں کو روش بدلنے کی ضرورت تھی۔ الحمدللہ وزیراعظم نے احساس کیا اور حالات کی نزاکت کو سمجھا اور امن کو موقع دیا ہے، اب اگر حکومت سنجیدہ رہی تو انشاءاللہ معاملات حل ہوجائیں گے۔ ملک میں امن قائم ہوگا اور ملک ترقی کی جانب سفر کرے گا۔ یہاں ایک بات انتہائی ضروری ہے کہ وہ قوتیں جو مذاکرات کی مخالف ہیں، وہ انہیں سبوتاژ کرنے کے لئے ہتھکنڈے استعمال کریں گی۔ دہشت گردی کے واقعات بھی ہوسکتے ہیں، تاکہ ان کو طالبان کے کھاتے میں ڈال کر مذاکراتی میز کو الٹا جاسکے۔ اس نازک وقت میں سکیورٹی اداروں کی ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں اور انہیں چاہئے کہ وہ ذمہ داری کا ثبوت دیں اور کسی دہشت گرد کو اپنے عزائم میں کامیاب نہ ہونے دیں۔ طالبان کے پاس یہ بہترین موقع ہے۔ اگر طالبان نے اس سے فائدہ نہ اٹھایا اور اس موقع کو ضائع کر دیا تو ہم آپریشن کی حمایت کریں گے، کیونکہ امن ہماری اولین ترجیح ہے۔

اسلام ٹائمز: بعض جماعتوں کی جانب سے تو حکومت کے اس اعلان کی مخالفت کی جا رہی ہے کیونکہ طالبان کے بہت سے گروہ ہیں، جو مذاکرات کے حامی نہیں، اس کے علاوہ طالبان نے حکومتی رٹ کو چیلنج کیا، آئین کو تسلیم نہیں کرتے، تو مذاکرات کی مخالفت کرنیوالی جماعتوں کے یہ خدشات درست بھی دکھائی دیتے ہیں کہ یہ مذاکرات کامیاب نہیں ہونگے، آپریشن ہی واحد حل ہے۔؟
سید منور حسن: دیکھیں جی ابھی تو کچھ ہوا ہی نہیں، پہلے کیسے کہا جاسکتا ہے کہ مذاکرات ناکام ہوں گے۔ ہم نے ملک میں امن کے لئے مذاکرات کی بات کی ہے کہ اگر گھی سیدھی انگلی سے نکلتا ہے تو ٹیڑھی کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ جہاں تک طالبان میں گروہ بندی کی بات ہے تو ہم نے ان طالبان کیساتھ مذاکرات کی بات کی ہے جو پاور میں ہیں، ان کے ساتھ بات چیت کامیاب ہوگئی تو باقی گروہ خود بخود رام ہو جائیں گے اور جن سے مذاکرات ہوں گے وہ انہیں قائل بھی کر لیں گے کہ اب ملک میں امن کے لئے ہمیں صلح کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ تو اگر طالبان کے ساتھ مذاکرات ناکام ہوتے ہیں اور وہ آئین اور قانون کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیتے ہیں تو ان کیخلاف آپریشن کی ہم بھی حمایت کریں گے۔ ہم ملک میں امن چاہتے ہیں اور امن کیلئے اگر بھارت کیساتھ بات چیت ہوسکتی ہے تو طالبان تو ہمارے اپنے ہیں، پاکستانی ہیں،
وطن سے محبت کرنے والے ہیں، اگر آج وہ اس مقام پر ہیں تو وہ بھی حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے ہیں کہ حکومت نے انہیں بے یارومددگار چھوڑ دیا، ضرورت تھی کہ انہیں ساتھ ملایا جاتا، ان سے وطن کیلئے خدمت لی جاتی، لیکن حکومت نے یہ غلطی خود کی کہ انہیں چھوڑ دیا اور وہ اس راہ پر چل نکلے جس کی منزل تباہی و بربادی تھی، لیکن خدا کا شکر ہے کہ حکومت نے ادراک کیا اور ان کیساتھ بات چیت کی جا رہی ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ نے حکیم اللہ محسود کو شہید قرار دیا، حالانکہ وہ ہزاروں پاکستانیوں کا قاتل تھا، ایک دہشتگرد کے حوالے سے یہ نرم گوشہ کس لئے۔؟
سید منور حسن: ہم بہت سے فورمز پر اس کی وضاحت کرچکے ہیں۔ جو بھی امریکی ڈرون حملے میں مارا جائے گا وہ شہید ہے، امریکہ شیطان بزرگ ہے۔ امریکی ڈرون حملوں میں کتنے بے گناہ مارے گئے ہیں لیکن ہماری حکومت چپ ہے۔ اسے اس بات کا احساس ہی نہیں کہ امریکہ ہمارے بے گناہ شہریوں کو مار رہا ہے۔ جہاں تک حکیم اللہ محسود کی بات ہے تو اسے شہید اس لئے قرار دیا کہ وہ امریکہ کیخلاف لڑ رہا تھا۔ جو بھی امریکہ سے لڑے گا وہ جہاد میں شریک ہوگا اور جہاد میں مرنے والا شہید ہوتا ہے۔ جہاں تک میں نے فوج کے حوالے سے بات کی تھی تو میں اپنی بات پر قائم ہوں۔ پاک فوج کے جوان اگر پاکستان کے دفاع کیلئے، اپنے ملک اور قوم کیلئے لڑتے ہوئے مریں گے تو شہید ہوں گے، ہم ان کا سلام پیش کریں گے اور اگر ہمارے فوجی امریکہ کیلئے لڑتے ہوئے مریں گے تو شہید نہیں ہوں گے۔ اس لئے پاک فوج کی نئی قیادت کو اپنے اہداف کا تعین کرنا ہوگا اور دہشت گردی کی نام نہاد جنگ سے علیحدگی اختیار کرنا ہوگی۔ امریکہ کیلئے اپنے فوجی جوانوں کو مروانے کا سلسلہ بند کرنا ہوگا۔

اسلام ٹائمز: کچھ ممالک، جیسے بھارت اور امریکہ ان مذاکرات کو اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہوئے انہیں سبوتاژ تو کرسکتے ہیں، تو اس کیلئے حکومت کو کیا حکمت عملی اپنانا ہوگی۔؟
سید منور حسن: میں نے پہلے عرض کیا کہ بھارت اور امریکہ نہیں چاہتے کہ ملک میں امن ہو، بہت سی دہشت گردی کی وارداتیں پاکستان میں امریکہ اور بھارت کرواتے ہیں اور نام طالبان کا لگا دیتے ہیں، تو اس صورتحال میں جب ہم مذاکرات کی میز بچھانے جا رہے ہیں حکومت کو بیداری کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور بلیک واٹر اور را کے جو ایجنٹ یہاں موجود ہیں، انہیں ان کے عزائم میں کامیاب ہونے سے روکنا ہوگا۔ اس کیلئے ہمارے سکیورٹی اداروں کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے، انہیں اپنی آنکھیں کھلی رکھنا ہوں گی اور لاہور سمیت دیگر شہروں میں جاری سرچ آپریشن لائق تحسین ہے، اس سے دہشتگردوں کو ناکامی سے دوچار ہونا پڑے گا، لیکن اس آپریشن کی آڑ میں بے گناہوں کو تنگ نہ کیا جائے۔

اسلام ٹائمز: ایک طرف حکومت کہتی
ہے پاکستان میں بھارت دہشتگردی کروا رہا ہے، دوسری جانب اس کے ساتھ تجارت اور دوستی کے لئے بھی بے تاب ہے، جبکہ بھارت کئی بار جارحیت کا مرتکب بھی ہوچکا ہے، اس کے باوجود حکمران بچھے چلے جا رہے ہیں۔؟

سید منور حسن: اس ملک کو ہم کس طرح ہم پسندیدہ قرار دے سکتے ہیں اور اس کے ساتھ تجارت کیسے بحال ہوسکتی ہے جس کے ہاتھ ہمارے کشمیری بھائیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ حکمران بھارت کیساتھ دوستی کا شوق پورا کر لیں، پہلے بھی نواز لیگ کی حکومت نے یہ شوق پورا کیا تھا لیکن اس سے کچھ حاصل نہ ہوا، پہلے مسئلہ کشمیر تو حل کر لیں پھر جو چاہے کرتے پھرنا، ہندو ہمارا کبھی دوست نہیں بن سکتا، اس کے لالچ میں آنے کی بجائے اپنی صنعت و تجارت کو مضبوط بنائیںِ۔ اپنے ہاں پیدا ہونے والی سبزیوں کو بھارت سے منگوانا کہاں کی دانشمندی ہے۔ ہندو بنیا تجارت کے نام پر ایک بار پھر ہم پر مسلط ہونا چاہتا ہے، وہ کبھی بھی پاکستان کی مصنوعات کا فروغ نہیں چاہے گا۔ پھر اپنے ملک کے اندھیرے دور کرنے کیلئے بھارت سے پانچ سو میگا واٹ بجلی کی بھیک مانگنا کہاں کی غیرت ہے، ہم خود بھی بجلی پیدا کرسکتے ہیں، کیا اس کیلئے ہم دوسرے ذرائع استعمال نہیں کرسکتے، کیا سولر انرجی اور تھرکول منصوبوں سے استفادہ نہیں کیا جاسکتا، اگر ہم نے ضروریات زندگی کی ہر چیز بھارت سے درآمد کرنا تھی تو پھر آزادی کی کیا ضرورت تھیں، یہ تمام چیزیں تو آپ کو مفت میں مل سکتی تھیں، اتنی قربانیاں سے کر وطن حاصل کرنے کی کیا ضرورت تھی۔

ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ امریکی اشارے پر ہو رہا ہے۔ وہ پاکستان کی کشمیر پالیسی کو کمزور کرنا چاہتا ہے، اس لئے خطے میں بھارت کی بالادستی قائم کرنے کیلئے وہ پاکستانی قیادت پر دباؤ بڑھاتا رہتا ہے، مگر ملک بچانے کیلے ہمیں ایک بار پھر نظریہ پاکستان کی جانب رجوع کرنا پڑے گا۔ نوجوانوں کو بتانا پڑے گا کہ ہمارے آباؤاجداد نے کس طرح اس نظریئے کیلئے اپنی جانوں کی قربانیاں دی تھیں۔ آج بھی بھارت نے ہمارے وجود کو تسلیم نہیں کیا۔ وہ ہمارے ملک کیخلاف سازشوں میں مصروف ہی رہتا ہے۔ انہوں نے کشمیر کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر رکھا ہے، جہاں غیور مسلمانوں پر شدید تشدد کیا جاتا ہے، انہیں تحریر و تقریر کی آزادی نہیں، انہیں اپنے مذہبی فرائض تک کی ادائیگی سے روکا جا رہا ہے، 66 سال سے بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رکھے ہیں، دوسری طرف ہماری نئی نسل کو تباہ کرنے کیلئے ٹیلی ویژن اور فلموں کے ذریعے فحاشی و عریانی پھیلا رکھی ہے، جس سے نئی نسل گمراہ ہو رہی ہے، انہیں دشمن کی سازشوں سے بچانے کیلئے ہمیں نظریہ پاکستان کو اجاگر کرنا ہوگا، انہیں بتانا ہوگا کہ بھارت نے کس طرح ہمارا ایک بازو
ہم سے جدا کیا اور اب ہمارے دریاؤں کا پانی روک کر وہ ہماری زمینوں کو بنجر اور ویران بنانا چاہتا ہے۔

اسلام ٹائمز: کراچی میں گذشتہ کئی ماہ سے آپریشن جاری ہے مگر اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہو رہے۔؟
سید منور حسن: کراچی آپریشن محض اکھاڑا ہے، کراچی میں دہشتگردی کے زیادہ تر واقعات میں ایم کیو ایم ملوث ہے، اس کے ہوتے ہوئے کراچی میں امن کا قیام خواب کے سوا کچھ نہیں، آپ بتائیں کہ آپریشن میں ایم کیو ایم کے کتنے لوگ پکڑے گئے، دکھاوے کے چند افراد کے سوا باقی دوسرے افراد کو دھر لیا گیا، اسی لئے آپریشن کے باوجود کراچی میں روزانہ قتل و غارت گری بھی ہو رہی ہے اور بھتہ خوری بھی نہیں رک سکی۔ ایم کیو ایم کراچی میں بھتہ خوری، دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ اور دوسرے جرائم کی بانی ہے۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین لندن میں بیٹھے ٹسوئے بہا رہے ہیں، اگر ان کے دل میں قوم کا درد موجود ہے تو وہ کراچی آکر اپنے کارکنوں اور ساتھیوں کی دلجوئی کیوں نہیں کرتے۔ ان کے حوصلے کیوں بلند نہیں کرتے۔ ایک ایسا شخص جو اپنے علاقے کا چیمپئن ہونے کا دعویدار ہے اور پھر وہ ڈر کے مارے اپنے ہی علاقے میں آنے کیلئے تیار نہیں، تو اسے چیمپئن کون مانے گا۔ انہوں نے تو محض دھونس دھاندلی اور خوف کے ذریعے کراچی کے لوگوں کی زبانیں بند کر رکھی ہیں، مگر ظلم و جبر بھلا کب تک قائم رہ سکتا ہے، اس سے لوگوں کے دلوں پر حکمرانی نہیں کی جاسکتی۔

اسلام ٹائمز: وزیراعظم کی یوتھ بزنس لون سکیم کو کس نظر سے دیکھتے ہیں، کیا یہ نوجوانوں کو سیاسی رشوت نہیں۔؟
سید منور حسن: غریب عوام کا استحصال کرنیوالی حکومت بھلا کب انکی قسمت بدل سکتی ہے۔ یہ جو یوتھ لون بزنس سکیم کا اعلان کیا گیا ہے، یہ سب دراصل بلدیاتی الیکشن قریب آنے پر عوام کو لولی پاپ دینے کی کوشش ہے، ہم اسے پری پول رگنگ سمجھتے ہیں، اس لئے الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ وہ اس کا نوٹس لے، پھر یہ حکمران نجکاری کی آڑ میں اپنے ذاتی مفادات پورے کر رہے ہیں، نون لیگ کی پالیسی ہی نوازنے کی ہے۔ یہ ہمیشہ اپنوں کو نوازنے کیلئے ہی اقتدار میں آتے ہیں۔ یہ مراعات یافتہ طبقے کو نوازنے کیلئے غریب عوام کو مارتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سرمایہ کار اور صنعت کار طبقے کو خصوصی پیکج دیئے جا رہے ہیں۔ اس کے برعکس غریب عوام آٹا، چینی، تیل سے محروم ہیں۔ یہ حکومت جو گڈگورننس کی دعویدار ہے یہ آلو، ٹماٹر اور پیاز کی قیمتوں پر تو قابو نہیں پاسکی، یہ دہشت گردی اور لاقانونیت پر کس طرح قابو پائے گی۔ یہ لوگ ڈنگ ٹپاؤ پالیسی کے تحت اقتدار میں آئے ہیں اور اسی لئے دھڑا دھڑ نوٹ چھاپ رہے ہیں جس سے افراط زر پیدا ہو رہا ہے۔ اس حکومت نے مہنگائی کے سارے ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔ خدشہ ہے بزنس لون سکیم کو
حکومت سیاسی مقاصد کیلئے ہی استعمال کرے گی۔

اسلام ٹائمز: حکومت قومی اداروں کی نجکاری کر رہی ہے، اگر ایسا ہوتا ہے تو جماعت اسلامی کا ردعمل کیا ہوگا۔؟
سید منور حسن: نواز حکومت نجکاری کے نام پر ملک میں بے روزگاری کو فروغ دینا چاہتی ہے، پہلے ہی مہنگائی کے ستائے لوگ روٹی، روزگار کیلئے پریشان ہیں، اس پر اداروں کی نجکاری سے مزید عوام سٹرکوں پر آنے پر مجبور ہوں گے۔ یہ لوگ منافع بخش سرکاری اداروں کو اپنے من پسند افراد کے ہاتھوں فروخت کرنا چاہتے ہیں، جن میں میاں منشاء گروپ اور کئی ملٹی نیشنل کمپنیاں شامل ہیں۔ اصل میں یہ حکمران ایسا کام کرنے جا رہے ہیں جیسے تجارت کے نام پر ایسٹ انڈیا کمپنی نے پہلے اداروں پر قبضہ کیا، اسی طرح ایک قبضہ گروپ پورے ملک کی صنعتوں پر قبضہ کرکے راج کرنا چاہتا ہے۔ ہم ملک کے اداروں کی بندر بانٹ نہیں ہونے دیں گے۔ ان حکمرانوں نے ماضی میں قرض اتارو ملک سنوارو کے نام پر عوام کو دھوکہ دیا، جس کے اربوں روپے کا حساب ہی نہیں۔ اب یہ غریبوں کو ستانے کیلئے نجکاری کر رہے ہیں۔ مہنگائی نے عوام کا پہلے ہی برا حال کر رکھا ہے، بجلی ناپائید ہے، توانائی بحران حل نہیں ہو رہا ہے، یہ حکومتی نااہلی ہے کہ وہ مسائل حل کرنے میں مسلسل ناکام جا رہی ہے۔

اسلام ٹائمز: توانائی بحران کے حل کیلئے ہمارے پاس پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ تھا لیکن لگتا ہے وہ منصوبہ بھی امریکی دباؤ کی بھینٹ چڑھ رہا ہے۔؟
سید منور حسن: حکومت اگر امریکی دباؤ میں آکر پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ ختم کرتی ہے تو اس سے اسے بہت زیادہ نقصان ہوگا، اصل میں امریکہ پاکستان کو ترقی کرتا نہیں دیکھنا چاہتا، وہی امریکہ جو ہمیں ایران کیساتھ تجارت کرنے سے روک رہا ہے، وہی بھارت کیساتھ سارے معاہدے کرنے کیلئے ہمیں راستہ دکھا رہا ہے، کیونکہ بھارت تو اس کے گھڑے کی مچھلی ہے، جب چاہے گا پاکستان کا ناطقہ بند کرا دے گا۔ حیرت ہے ساری دنیا ایران کیساتھ تجارت کر رہی ہے ہمیں پابندیوں سے ڈرایا جا رہا ہے۔ پاک ایران گیس منصوبہ ہمارے معاشی بحران کا واحد حل ہے، حکومت نے اگر اس کو کلوز کیا تو جہاں ایران آئندہ ہم پر اعتماد نہیں کرے گا، وہاں اندرونی طور پر حکومت کو پریشانی اٹھانا پڑے گی، کیونکہ شہباز شریف بڑے جوشیلے انداز میں کہتے تھے کہ لوڈشیڈنگ ختم نہ کی تو میرا نام بدل دینا، اور یہ کہہ کر مائیک توڑ دیتے تھے، تو ان کی یہ ''شو بازی'' اب سچ ہوتی دکھائی دے رہی ہے، شہباز شریف کا نام بدلنے کا وقت آگیا ہے اور امریکہ کے دباؤ میں اگر یہ منصوبہ ختم کرتے ہیں تو شہباز شریف کا نام آپ ہی کوئی سوچ لیں، وہی رکھ دیں گے۔ کیونکہ شریف برادران پاکستان سے زیادہ امریکی مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 346961
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش