QR CodeQR Code

ضیاءالحق کا طیارہ امریکہ نے گروایا تھا

شریعت نافذ ہوئی تو طالبان خود پھنس جائیں گے، حمید گل

ہم امریکی کالونی بن چکے ہیں، ہمیں اپنے معاملات بھی آزادانہ طور پر چلانے کی اجازت نہیں

13 Feb 2014 02:51

صحافی : نادر عباس بلوچ

اسلام ٹائمز: آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اور ممتاز دفاعی تجزیہ نگار کا ’’اسلام ٹائمز‘‘ سے خصوصی انٹرویو میں کہنا تھا کہ طالبان نے شریعت کا چہرہ مسخ کرکے اسلام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے، ضیاءالحق پاکستان میں اسلامی نظام نافذ کرنا چاہتا تھا، جس وجہ سے امریکہ نے اس کو جہاز میں ہی پلاسٹ کروا دیا۔ سیدھی سی بات ہے، اس حکومت کی پالیسی بھی وہی ہوگی جو امریکہ چاہے گا اور وہ کبھی بھی پاکستان کو بھارت پر ترجیح نہیں دے سکتا۔


ایک طرف حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات جاری ہیں تو دوسری طرف افغانستان سے امریکہ کا انخلا ہونے کو ہے، ان حالات میں آنیوالے دنوں میں پاکستان، افغانستان اور بھارت کے تعلقات کیسے ہونگے؟ اور پاکستان کا اندرونی منظر نامہ کیا ہوگا؟ کیا اس خطے میں امن قائم ہو پائے گا یا جنگوں کا یہ سلسلہ یونہی جاری رہے گا؟ امریکی فوجوں کے جانے کے بعد پاکستان کی افغانستان کے حوالے سے کیا پالیسی ہونی چاہیے؟ اور اس انخلاء کے پاک بھارت تعلقات پر کیا اثرات مرتب ہونگے؟ کیا پاکستان دہشتگردی کنٹرول کرسکے گا؟ کشمیر میں موجود آزادی کی تحریک کیا رخ اختیار کرے گی؟ یہ وہ سوال ہیں جو ذہنوں میں تشنگی پیدا کرتے ہیں، اس لئے انہی سوالات کے جوابات جاننے کیلئے ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے آئی ایس آئی کے سابق چیف لیفٹنٹ جنرل (ر) حمید گل سے خصوصی ملاقات کی، آیئے اس ملاقات کا احوال جانتے ہیں۔ (ادارہ)
                 
اسلام ٹائمز: جنرل صاحب طالبان سے ہونے والے مذاکرات کے بارے میں کیا کہیں گے، کیا یہ مذاکرات کامیاب ہونگے یا ماضی کی طرح ناکامی کا شکار ہوجائیں گئے۔؟
جنرل (ر) حمید گل:
دیکھیں جی، میں ان مذاکرات کے حوالے سے ابھی کوئی بات نہیں کرنا چاہتا، چند دنوں میں اس کا نتیجہ سامنے آجائے گا کہ یہ معاملہ کس طرف جاتا ہے۔

اسلام ٹائمز: جنرل صاحب مذاکرات تو ماضی میں بھی ہوتے رہے اب بھی ہو رہے ہیں، یقیناً چند دنوں میں پوزیشن واضح ہوجائے گی کہ یہ مذاکرات کس رخ جا رہے ہیں، لیکن ان مذاکرات کے تناظر میں ٹی وی چینلز پر شریعت کے حوالے سے گفتگو چل رہی ہے اور شریعت کے نفاذ کی باتیں ہو رہی ہیں، جبکہ طالبان نے ماضی میں اور اب جو اپنی تصویر پیش کی ہے، وہ کسی طور بھی شریعت کیمطابق نہیں۔؟
جنرل (ر) حمید گل:
یہی ہمارا المیہ ہے کہ ہم نے شریعت کو طالبان کی شریعت سمجھا ہے، شریعت تو وہی ہے جو قرآن اور سنت سے برآمد ہوگی اور جس کا ہم نے اپنے آئین کے اندر وعدہ کر رکھا ہے، قراردادِ مقاصد جو ہمارے آئین کا حصہ ہے بلکہ بنیاد ہے، ہمارے آئین کی، اور اصل میں پاکستان کی روح اس میں سمائی ہوئی ہے، تو اگر طالبان اس کی بات کرتے ہیں تو اس کا شکار وہ خود ہی ہوجائیں گے۔ آپ اگر ایک شرعی کورٹ بنا دیں یا ہم تسلیم کرتے ہیں ان کے علاقہ میں شریعت دیدیں اور بنوں میں کہیں یا ایف آر بنوں جس کو کہتے ہیں، اس میں ایک کورٹ بنا دیں تو شریعت کے سامنے تو وہ خود مارے جائیں گے کیونکہ جو کام انھوں نے کئے، وہ غیر شرعی تھے۔ حکومت پاکستان اور حکومت پاکستان کا نظام بہت فرسودہ اور غلط ثابت ہوچکا ہوا ہے۔ اب اس میں کوئی جان ہی نہیں، اس میں کوئی زندگی ہی نہیں، یعنی ایسے ہو کہ آپ یہ توقع رکھیں کہ کیکر کے درخت سے آپ کو پھل ملے گا۔ سچ تو یہ ہے کہ اس سے تو نہ سایہ ملے گا، نہ پھل ملے گا، یہ بات تو پاکستان کے عوام پر واضح ہے، لیکن جو ہمارے مخصوص طبقات ہیں بالخصوص الیکٹرانک میڈیا کا اس میں جو کردار ہے وہ تو قوم کو کنفیوز کرنا چاہتے ہیں۔ یہ شریعت تو نہ کسی فضل اللہ کی ہے، نہ کسی حکیم اللہ محسود کی ہے، نہ کسی ملا عمر کی ہے، یہ شریعت تو قرآن اللہ کی شریعت ہے اور نبی کریم ﷺ نے ہمیں یہ کرکے دکھا دیا۔
 
اسی لئے ہم اسے شریعت محمدی ﷺ کہتے ہیں۔ شریعت محمدی ﷺ جو ہے ہمارا پاکستان بنا ہی اس کی وجہ سے تھا، مگر ہم نے انحراف کیا ہوا ہے، لہذا اب اس کا حل تو یہی ہے کہ آپ شریعت کی تشریح کر دیں۔ کیا شریعت ہے اور کیا نہیں۔ پہلے تو سپریم کورٹ اس کا فیصلہ کر لے، کیونکہ جو چیز پہلے آئین میں لکھ لی گئی ہے، وہ بنیاد بھی ہو آئین کی۔ تو یہ کام تو سپریم کورٹ کا بنتا ہے کہ اس کی تشریح کرے۔ ہر مکتب فکر مولوی کو بلا لے اور اگر وہ یہاں نہیں آسکتے تو جو علاقے تحریک طالبان پاکستان کے ہیں، تو وہاں آپ فیڈرل شریعت کورٹ کی برانچ لگا دیں، جہاں آپ ان کو کہہ دیں کہ آؤ بیٹھ کے اپنا مقدمہ پیش کرو۔ یقیناً وہ اس کو نہیں کرسکتے، کیونکہ شریعت کا کہہ کے وہ خود اس میں پھنس گئے ہیں، لیکن حکومت ہو یا میڈیا، اور یہ حکومتی جو کارندے ہیں، ان میں پتا نہیں کیوں ابہام نظر آ رہا ہے، لیکن یہ بات تو اب کرنی پڑے گی، اب نہیں کریں گے تو بعد میں کرنی پڑے گی، کیونکہ امریکہ کے نکلنے کے بعد ایک آدھ سال لگے گا، شاید کرزئی حکومت کی رخصتی میں، یا آئندہ جو آئے گا اس کے بعد اس نظام کو بھی لپیٹ دیا جائے گا اور افغانستان میں ایک شرعی نظام قائم ہوگا اور پھر اس شرعی نظام کے جو نتائج ہیں وہ آپ کے اوپر مرتب ہوں گے۔ جیسا کہ صدیوں سے ہوتے رہے ہیں۔

افغانستان میں جب بھی کچھ ہوا، اس کے اثرات ہم پر مرتب ضرور ہوتے ہیں۔ ہمارے جو صوفیائے کرام ہیں، حضرت داتا گنج بخش، معین الدین چشتی رحمت اللہ علیہ، لال شہباز قلندر یا عبداللہ شاہ غازی، یہ سارے افغانستان سے آئے تھے۔ ہمارے جتنے ہیروز ہیں محمود غزنوی ہو، شہاب الدین غوری، جن کے نام پر ہم اپنے میزائلوں کے نام رکھتے ہیں، وہ پاکستان کے تو نہیں تھے، ہندوستان کے بھی نہیں تھے، وہ سب افغانستان کے تھے، اس لیے اب بھی افغانستان کے حالات کے ہم پر اثرات مرتب ہونگے۔ رہی بات شریعت کی تو اب یہ سارا جو شریعت کا معاملہ ہے، یہ کھولنا پڑے گا، اس کو آپ پسِ پشت نہیں ڈال سکتے۔ اب ایک موقع آگیا ہے، جہاں ہم اس کی تشریح کرکے اس مسئلے کو بھی ختم کرسکتے ہیں، یہ خون خرابہ جو ہے اس کو بھی ٹھنڈا کر سکتے ہیں، لیکن کیا ہمارا سیکولر اور لبرل طبقہ جو ہے، وہ یہ سب ہونے دے گا؟ جو چاہتے ہیں ان کو شراب پینے کی آزادی ہو، ان کو فری مکسنگ کی آزادی ہو، ان کو ہر قسم کی آزادی ہو، تو وہ یہ نہیں چاہتا، یہ پاکستان اس لئے بنا تھا اور نہ ہی یہ پاکستان کے مسئلے کا حل ہے، تو پھر ان کو شریعت کی تشریح تو اب کرنی پڑے گی۔

اسلام ٹائمز: اس میں ایک خلا سا دیکھنے میں آرہا ہے کہ جس طرح آپ نے پہلے کہا کہ میڈیا کے اندر اور سیکولر افراد جو ہیں وہ شریعت کے نام سے ہی بھاگ رہے ہیں، ان کو اپنی ذاتی شخصیت پر چوٹ لگتی ہوئی محسوس ہوتی ہے، طالبانی شریعت تو اسلام ہے ہی نہیں، لیکن جو پرامن لوگ ہیں اگر وہ شریعت کی بات کریں گے تو ان کی بات میں زیادہ وزن ہوگا۔؟
جنرل (ر) حمید گل:
میں گذشتہ 20 سال سے جب سے ریٹائرڈ ہوا ہوں، اس وقت سے یہ بات کر رہا ہوں اور اس کا میں نے نام ’’نرم انقلاب‘‘ رکھا تھا۔ اس ملک میں تبدیلی تو چاہئے، انقلابی تبدیلی، کیونکہ یہ نظام تو ناکام ہوگیا۔ تو پھر اب کونسا نظام آئے گا؟ یقیناً قرآن سے جو برآمد ہوگا، جو سنت سے برآمد ہوگا، اور یہ نظام ہم سب نے تسلیم کیا ہوا ہے، تو اب اس کی طرف آنا پڑے گا۔ اب حالت یہ ہے کہ میرے جیسے لوگ جو شریعت کے نظام پر یقین کرتے ہیں، جو سمجھتے ہیں کہ ہمارے مسائل بلکہ انسانیت کے مسائل کا حل بھی شرعی نظام میں ہی ہے، کیونکہ انسانیت کے پاس جو دو نظام تھے، اشتراکیت اور استعماریت، وہ دونوں ختم ہوچکے ہیں۔ اب تو ایک نئی صورتِحال درپیش ہے، تو اس میں یقیناً طالبان نے شریعت کو نقصان پہنچایا ہے، شریعت کا جو تصور تھا اُسے مسخ کیا ہے۔ 80% پاکستانی اب بھی شریعت ہی مانگتے ہیں۔ اسلامی نظام ہی مانگتے ہیں، امریکیوں نے خود سروے کئے ہیں، انھوں نے یہ ثابت کیا ہے اور نوجوان خاص طور پر شرعی نظام چاہتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کے اس ملک کو چلانے کیلئے اسلامی نظام ہو۔

 اگر شرعی نظام سے چڑھ ہے تو ہم اسے شریعت کے بجائے اس کو قرآنی نظام کہہ دیں، پھر تو بات واضح ہوجائے گی، قرآن میں تو ہمارا اتفاق رائے ہے، وہ مسلمان ہو ہی نہیں سکتا جو قرآن پر یقین نہ رکھتا ہو۔ اگر اس بات پر شک ہے کسی کو تو وہ کھلم کھلا اعتراض کرے، اس پر کوئی پابندی نہیں، اللہ فرماتے ہیں کہ دین پر کوئی جبر نہیں، تو جب جبر نہیں تو نہ عمل کرو چلے جاؤ۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ جو شریعت ہے، اگر اقلیتوں کو تکلیف پہنچائے گی تو بھی غلط ہے، کیونکہ میثاق مدینہ، اصل میں جب شریعت محمدی قائم تھی تو اس میں ہر ایک کو کھلی چھٹی تھی اور ہمارے آئین میں بھی یہ لکھا ہوا ہے، قرارداد مقاصد جب منظور ہوئی تھی تو اس میں اقلیتیں بیٹھی ہوئی تھیں۔ جوگندر سنگھ منڈل وزیر داخلہ تھے، قائداعظم کے دور میں وہ بھی موجود تھے، وہاں پارسی بھی تھے اور عیسائی بھی تھے۔ میں خود عیسائی دانشوروں سے بات کرچکا ہوں، وہ تو کہتے ہیں کہ ہمیں تو اسلامی نظام قبول ہے بشرطیکہ شریعت کسی مولوی کی نہ ہو۔ شریعت اور مولوی کو جب ملا کر دیکھا جاتا ہے، مسائل تب پیدا ہوتے ہیں۔ شریعت کا مطلب کسی مولوی کی حکومت نہیں بلکہ شریعت کا مطلب اللہ کی حکومت ہے اور اللہ کی حکومت سے مولوی بھی ڈرتا ہے اور منسٹر بھی ڈرتا ہے، سچی اور سیدھی بات یہ ہے۔

اسلام ٹائمز: جس طرح آپ نے کہا کہ ہمارے ہیروز کا تعلق افغانستان سے ہے، ہمارے میزائلز کا نام افغانستان سے آنیوالے اکابر اور ہیروز کے نام پر ہے، تو افغانستان پاکستان کی جو جغرافیائی صورتحال ہے یا وہاں کے جو اندرونی معاملات ہیں، ان کا پاکستان پر گہرا اثر ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک طرف امریکہ افغانستان میں طالبان سے مذاکرات کر رہا ہے، دوسری طرف پاکستان میں بھی مذاکرات کرنے جا رہا ہے۔ ان مذاکرات کے متعلق امریکہ کا یہ کہہ دینا کہ یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے، تو کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ بھی یہ چاہتا ہے کہ پاکستان ان کیساتھ مذاکرات کرے۔؟
جنرل (ر) حمید گل:
نہیں نہیں ۔۔۔ یہاں پر جو نظاموں کی کشمکش ہے اور جب شریعت کا معاملہ آتا ہے تو امریکہ کے پیٹ میں بہت درد ہوتا ہے۔ جب اشتراکیت آئی تھی تو کتنی شدید جنگ انھوں نے لڑی، جسے ہم کولڈ وار کہتے ہیں۔ اس میں چھوٹی چھوٹی جنگیں بھی ہوئیں اور بھی بہت کچھ ہوا، کیونکہ وہ ایک متبادل نظام تھا، اُس کے بعد افغانیوں نے وہاں شرعی نظام قائم کر دیا، جس کو ختم کرنے کیلئے امریکی آگئے، پھر جو ہوا سب کے سامنے ہے، اب ہم ایک امریکی کالونی ہیں اور ہمیں آزادانہ اپنے معاملات کو حل کرنے کی بھی آزادی نہیں۔ ذہنی طور پر ہم غلام ہوچکے ہیں اور حکومت کی سوچ کے اندر بھی یہ غلامی ہے، ان کے اندر ڈالر اور آنر کی کشمکش ہے۔ حکومت کے اپنے اندر ڈالر کی بھوک بھی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ڈالر کے ذریعے سے امریکہ ان کی مدد کرے گا تو آئی ایم ایف نہیں آئے گا، ورلڈ بنک نہیں آئے گا اور پھر اس صورتحال کا وہ فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ امریکہ تو ہمارا دشمن ہے، ہماری سلامتی و بقا کے جتنے تقاضے ہیں، ان کے برخلاف اس کا ایجنڈا ہے، وہ تو یہاں اسلام کو نافذ ہی نہیں دیکھنا چاہتے۔ اسلام اور نیوکلیئر کا ملنا، اسلام اور چائینہ کا ایک ہونا، اسلام اور ایک اعلٰی فوج کا ہونا، یہ کسی طور بھی اُنہیں قبول نہیں، اور نہ ہی اسرائیل کو، نہ انڈیا کو قبول ہے۔

اسلام ٹائمز: یہ خبریں چل رہی ہیں کہ امریکہ 2014ء سے قبل بھی افغانستان سے انخلاء کرسکتا ہے، پہلے کرے یا بعد میں، مگر یہ تو طے ہے کہ وہ جا رہا ہے یا کم از کم یہ ایک تاثر ضرور ہے کہ وہ جا رہا ہے، اس کے بعد آپ پاکستان کا افغانستان کے حوالے سے اور افغانستان کا پاکستان کے حوالے سے کردار کیسا دیکھتے ہیں۔؟
جنرل(ر) حمید گل:
دیکھیں! مسئلہ تو یہی ہے، افغانستان کا کردار امریکہ کیا دیکھنا چاہتا ہے پہلے یہ دیکھ لیں۔ امریکہ اور بھارت یہ چاہتے ہیں کہ ہم اپنی فوجیں مشرقی سرحدوں سے ہٹا کر مغربی سرحدوں پر لگا دیں، جو کہ قائداعظم کے آنے سے پہلے وہاں پر ہوا کرتیں تھیں، انگریز کی سرحد تو وہی تھی، واہگہ تو نہیں تھی، سرحد اب وہ واپس ادھر لے جانا چاہتے ہیں، لہذا جھگڑا کھڑا کیا گیا، آپس میں لڑایا گیا۔ ہمارے جہاز اڑا دیئے گئے، ہماری میران بیس پر حملہ کیا گیا، یہاں پر ہمارے ایویکس اڑا دیئے گئے، یہ طالبان کی سوچ تو نہیں ہوسکتی۔ یہ سوچ تو کہیں اور سے درآمد کی جا رہی تھی، کیونکہ ان کو پیسے مل رہے تھے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ کیا ہم بھی یہ کرنے کیلئے تیار ہیں کہ انڈیا کیساتھ محبتیں، جو کہ ہماری حکومت کا رویہ ہے، اصل میں ہم امریکہ کے ساتھ بھارت کی غلامی بھی قبول کرنے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف ملک کو لوٹا جا رہا ہے، پھر اب نواز شریف صاحب اور زرداری صاحب کا جو ملاپ ہے، اس سے بھی بات عیاں ہے کہ ہم کس رخ پر جا رہے ہیں۔ ہم اپنے اصلی دشمن کو تو پہچان ہی نہیں رہے اور نہ اس کیساتھ دشمن کے طور پر مقابلہ کر رہے ہیں۔ ایک نیوکلیئر پاور رکھنے والے ملک، اعلٰی فوج رکھنے والے ملک، ایک نظریہ رکھنے والے ملک، خوراک میں خود کفیل ہونیوالے ملک کے ہوتے ہوئے بھی ہمارا عمل اس سے متضاد ہے۔

اسلام ٹائمز: اس صورتحال میں بقول آپ کے، جب ہمیں دشمن اور دوست کی پہچان بھی نہیں تو آپ کیا دیکھتے ہیں کہ جب امریکہ نکل جائے گا، پاکستان کی حکومت انڈیا کیساتھ راہ رسم بڑھانا چاہ رہی ہے، پاکستان کے لیے کشمیر کور ایشو ہی نہیں رہا، تو اس صورتحال میں آنیوالے برسوں میں کیا منظرنامہ بنے گا۔؟
جنرل (ر) حمید گل:
بہتر یہی ہے کہ ہم آہنگی پیدا کریں، وہ جو شرعی نظام آ رہا ہے، اس کو کوئی نہ روکے، ویسے کوئی روک بھی نہیں سکتا۔ اس لئے ہم بھی افغانستان میں اس کیساتھ ہم آہنگ ہوجائیں اور ہمارے تو آئین میں بھی موجود ہے، لہذا اصلی شریعت، جو قرآن کے اندر موجود ہے اور نبیﷺ نے نافذ کرکے دکھائی، جس دن دین مکمل ہوا، نہ کوئی فرقہ واریت تھی، نہ کوئی سیاسی جماعتیں تھیں، یہ سیاسی جماعتیں بھی تو فرقہ واریت ہیں، اس نظام کو ختم کریں، استثناء ختم کریں، آئین کے اندر جو غیر اسلامی شقیں ہیں، ان کو ختم کریں، تو ایک بہت زبردست نظام پاکستان کیلئے پیدا ہوسکتا ہے، اور اگر آپ یہ نہیں کریں گے تو مجھے ڈر ہے اور میں بڑے افسوس سے یہ کہہ رہا ہوں کہ پاکستان خانہ جنگی کا شکار ہوجائے گا۔

اسلام ٹائمز: جنرل صاحب روس کے ٹوٹنے میں یقینی طور پر طالبان کا جو کردار تھا وہ تو اپنی جگہ موجود تھا لیکن آئی ایس آئی اور بالخصوص آپ کا جو کردار تھا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں، لیکن جب روس چلا گیا تو اس کے بعد افغانستان میں انتشار کی صورتحال پیدا ہوگئی، اب امریکہ جا رہا ہے تو امریکہ کے جانے کے بعد وہ جو قوتیں اس کیخلاف لڑ رہی ہیں، وہ آپس میں برسر پیکار تو نہیں ہوں گی۔؟
جنرل (ر) حمید گل:
اُس وقت حالات اور تھے، امریکہ جنگ دیکھنا چاہتا تھا وہاں، کیونکہ وہ شرعی نظام کیلئے لڑ رہے تھے، لیکن امریکہ نہیں چاہتا تھا کہ وہاں اسلامی نظام آئے۔ ضیاءالحق صاحب اور میرا یہ مطالبہ تھا کہ ہم وہاں پر ایک عبوری حکومت قائم کر دیں، تاکہ اقتدار کی منتقلی احسن انداز میں ہوسکے۔ لیکن امریکہ اس میں دلچسپی نہیں رکھتا تھا۔ وہ تو لڑانا چاہتا تھا، چنانچہ یہ لڑ پڑے۔ یہ بھی اقتدار کے بھوکے تھے، جہاد سے انھوں نے اپنی ہیت بدل لی اور طالبان بھی سیاسی جماعتیں بن گئے اور انھوں نے آپس میں لڑائی شروع کر دی اور انھوں نے خوب ان کو لڑنے دیا۔ پاکستان نے بھی اُن کا ساتھ چھوڑ دیا، بلکہ اُن کو تباہ کر دیا۔ یہ غلط باتیں ہیں جو احمد رشید جیسے مغرب زدہ لوگ ہیں، یا مغرب کی مراعات یافتہ لوگ ہیں، وہ سب جو لکھتے ہیں غلط ہیں۔ ساری باتیں جھوٹ ہیں۔ لیکن وہ لڑائی وہاں ہوئی جس کے نتیجہ میں طالبان آگئے۔ کیونکہ افغانستان کی روح تو اسلام سے مطابقت رکھتی تھی، تو اب بھی وہ وہاں آئے گی، اگر ہم نے اب بھی اس موقع سے فائدہ نہ اُٹھایا تو ہمارا ہی نقصان ہوگا، تو اُس وقت کی صورتحال اور آج کے حالات مختلف ہیں، کیونکہ دونوں حالات کے پس منظر میں جائیں تو بڑے مختلف نظر آتے ہیں، اب یہ ہے کہ صرف ملا عمر ۔۔۔ ملا عمر ۔۔۔ اور ملا عمر، اور کوئی مقابلے میں نہیں۔ اس کے یعنی جو اپوزیشن ہے جس نے متبادل لانا ہے، ابھی اس نظام کو اس میں ایک ہی آدمی ہے جو کہ علمبردار ہے اور افغانستان کی آزادی جس اسلامی نظام کی متلاشی ہے، اُس کی نمائندگی ملا عمر کرتا ہے۔

اسلام ٹائمز:جنرل صاحب، معذرت کیساتھ جس طرح آپ نے فرمایا کہ جب روس ٹوٹ رہا تھا تو پاکستان نے بھی طالبان کا ساتھ چھوڑ دیا تھا لیکن آج پاکستان میں دہشتگردی کا سبب ہماری وہی پالیسی ہے جو آپ نے اور جنرل ضیاء نے ترتیب دی تھی۔ اس پالیسی نے پاکستان کو نقصان ہی پہچایا ہے فائدہ کوئی نہیں دیا۔؟
جنرل (ر) حمید گل:
جی پاکستان ایٹمی قوت بنا، چھ ملک اسلامی آزاد ہوئے، پاکستان کا ایک بڑا بلند مقام بن گیا۔ پاکستان کو بہت سے ہتھیار مل گئے، کوبرا ہیلی کاپٹرز، ایف 16، سب میرین ملیں۔ انڈیا کانپنے لگ گیا، رونے لگ گیا۔ لیکن بتدریج ہمارے حکمران جو آئے، انھوں نے یہ راستہ چھوڑ دیا۔ اب دیکھیں، میں اس کی مثال دیتا ہوں، جنگیں تو لڑی جاتی ہیں، جنگوں کے اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں۔ یورپ میں جتنی جنگیں لڑی گئیں، یہاں پر بھی لڑی گئیں، تو کیا یورپ میں سارے لوگ آپس میں دست و گریباں ہیں۔؟ اگر یہ بات مان لی جائے تو اُس زمانے میں کراچی میں دنگا فساد شروع ہوا تھا، تو کراچی تو افغانستان سے متصل نہیں تھا۔ ٹرائیبل ایریاز میں تو امن تھا، جہاں سب سے زیادہ ہتھیار ہیں، تو ہتھیار کیوں کراچی میں پہنچ رہے تھے؟ کیونکہ ایک شرارت کی جا رہی تھی، وہ بوری بند لاشیں اور وہ سب، وہ سارے قصے آپ کو یاد ہیں؟ یہ تو اُس دور کی بات ہے۔ میں تھوڑی سی تاریخی تصحیح کر دوں کہ یہ جو پالیسی تھی، کہ ہم نے افغانستان میں مجاہدین کی مدد کرنی ہے، وہ بھٹو صاحب نے بنائی تھی، ضیاء الحق صاحب نے نہیں بنائی تھی۔ جیسا کہ نیوکلیئر پالیسی بھی بھٹو صاحب نے بنائی تھی، البتہ ضیاءالحق صاحب نے اسے پروان چڑھایا اور ہم جہاد میں بھی کامیاب ہوگئے اور نیو کلیئر میں بھی کامیاب ہوگئے۔

اسلام ٹائمز: ابھی حال ہی میں 5 فروری گزرا ہے اور پاکستان اور کشمیر کا تعلق کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، یہاں تک کہ قائداعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ کہا ہے۔ مگر مشرف صاحب کی حکومت نے تو کشمیر پالیسی کا رخ ہی بدل دیا اور پھر پیپلز پارٹی کی حکومت بھی گزری، جس کے متعلق تو یہ واضح ہوچکا، کونڈالیزا رائس نے واضح طور پر لکھا ہے کہ ہمارا یہ ایجنڈا تھا جس کے تحت ان تین پارٹیز کو ہم نے اقتدار دینے میں کردار ادا کیا، مگر آج کی جو نواز شریف کی حکومت ہے، آپ کیا سمجھتے ہیں، ان کی بھی وہی پالیسی ہے جو گذشتہ حکومتوں کی تھی۔؟
جنرل (ر) حمید گل:
جی بالکل وہی ہے، یہ بھی معاہدہ کرکے آئے ہیں، کچھ دوست ممالک بھی اس میں اثر انداز ہوتے ہیں، وہ بھی آپ کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتے ہیں، میرا خیال ہے اور چند دنوں میں اور بھی واضح ہو جائے گا آپ پر، کہ ان کے کیا اثرات ہیں اور ان ممالک کو امریکہ کنٹرول کرتا ہے۔ سیدھی سی بات ہے، اس حکومت کی پالیسی بھی وہی ہوگی جو امریکہ چاہے گا اور وہ کبھی بھی پاکستان کو بھارت پر ترجیح نہیں دے سکتا، تو کشمیر سے اِس حکومت کو کوئی دلچسپی نہیں۔ پاکستان تو ایک مکان کی ٹوٹی ہوئی دیوار کی طرح ہے، جو چاہے آئے یہاں اپنا گھروندا بنا لے اور تخریب کاری کرتا رہے، ہماری ایسی صورت بن چکی ہے، بلیک واٹر بھی پھر رہی ہے، کسی نے بتایا کہ وہ چلی گئی یا ابھی بھی ادھر موجود ہے۔ انھوں نے اگر نام بدل لئے تو کیا، انھوں نے اپنا ایجنڈا تو نہیں بدلا۔ کیا اسرائیل پاکستان کو اپنے لئے خطرہ سمجھتا ہے، کیا انڈیا پاکستان کو اپنے لئے خطرہ سمجھتا ہے اور دونوں کس کے پروردہ ہیں، امریکہ کے پروردہ ہیں۔ تو پھر پالیسی تو وہی ہے، پالیسی تو نہ بدلی۔

اسلام ٹائمز: جنرل صاحب اگر یہ وہی پالیسی ہے تو یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ جس طرح مشرف نے خاموش معاہدے کے تحت باڑ لگوائی تھی، اسی طرح مسلم لیگ (نواز) کی حکومت خاموش معاہدے کے تحت کنٹرول لائن پر دیوار بھی بنوا دے گی۔؟
جنرل (ر) حمید گل:
جی دیوار تو دیکھیں بننا شروع ہوگئی ہے وہاں پر۔ کوئی احتجاج ہی نہیں ہوا، حکومت کی جانب سے، کوئی بلایا گیا کسی کو کہ یہ کیوں بنا رہے ہو بھائی؟ متنازعہ علاقہ کے اندر، نہیں کیا گیا، بلکہ تجارت کی بات کی گئی، حالانکہ 2 ارب ڈالر کا پہلے ہی نقصان ہوچکا ہے جبکہ ابھی تجارت شروع بھی نہیں ہوئی۔ دوسری بات یہ ہے کہ نواز شریف صاحب بچھے بچھے جا رہے ہیں انڈیا کیلئے۔ کیوں؟ ۔۔ آخر کس لئے؟؟؟ کیا انھوں نے ہمیں کبھی کوئی رعایت دی، ایک پیسے کی بھی رعایت دی ؟؟؟ کبھی نہیں دی۔ کیا امریکہ نے کوئی ایک کام ایسا کیا جس سے پاکستان کو امن، سکون اور چین مل سکے؟ نہیں کیا۔ قرضوں کی ادائیگی میں کوئی نرمی کی؟ حالانکہ ہم ان کے ساتھی رہے ہیں، ہم جو خرچ کرچکے ہیں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں، جو ہم پر زبر دستی مسلط کر دی گئی، تو اس میں انھوں نے کیا کیا ہے۔ تو میرا خیال ہے کہ پالیسیز تو وہی چل رہی ہیں جو کہ پہلے سے تھیں، بلکہ اس میں چونکہ وہ بائیں بازو کی حکومت تھی تو اس پر ہم بھی کھڑے ہو جاتے تھے، اب دائیں بازو کا نواز شریف کے ذریعے بلکل صفایا کر دیا گیا ہے۔!

اسلام ٹائمز: جنرل صاحب اگر پالیسیز بھی وہی ہیں تو جس طرح پہلے ہوتا رہا ہے کہ فوج اور حکومت کے دو مختلف زاویے ہیں اور جس طرح آپ بھی وضاحت کر رہے ہیں اور بھی بہت سے ذی شعور اس بات سے آگاہ ہیں کہ یہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے تحریک طالبان ہو یا بلوچستان کے جو بھی معاملات ہیں، ان میں بھارت ملوث ہے۔ تو فوج کی جانب سے یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ ہمارا سب سے بڑا دشمن انڈیا نہیں، ہمارے اندرونی معاملات ہیں۔؟
جنرل (ر) حمید گل:
انڈیا نے INTERNAL کر دیا، جیسے مکتی باہنی آئی تھی اور اس نے ایسٹ پاکستان میں کارروائیاں کیں، یعنی دشمن تو وہ تھا، لیکن INTERNALY انھوں نے صورتحال ایسی کر دی تھی تو ان کو تو ہینڈل کرنا تھا نا اور اس میں ہم مار کھا گئے، کیونکہ اس میں ہم نے مذاکرات نہیں کئے تھے، ان لوگوں کیساتھ کاش کہ ہم اس وقت مشتاق خند کور کیساتھ، کرنل عثمانی کیساتھ، اے این پی کیساتھ، مجیب الرحمن کو ہی موقع دے دیتے، وہ تو روتا تھا، کہتا تھا یہ تو نہیں میں چاہتا تھا۔ اگر چھ پوائنٹ وہ مانگتے تھے تو آج اٹھارویں ترمیم کر ذریعے چھ پوائنٹ سے زیادہ آپ نے انھیں دے دیئے، تو انھیں دینے میں کیا ہرج تھا، دے دیتے، انھیں چھ پوائنٹ۔ آپ وہ دینے کو تیار نہیں تھے، یعنی مذاکرات کا سلسلہ شروع نہیں ہوا تھا۔ اس میں کیا بھٹو صاحب کا کرار تھا، کیا یحیٰی خان کا کردار تھا، سب غلط تھے۔ چونکہ آپ کا ملک ٹوٹ رہا تھا، سب نظر آ رہا تھا، آپ نے اس پر عمل نہیں کیا۔ لڑائی کی اپنے لوگوں کیساتھ، جنہیں دشمن استعمال کر رہا تھا، تب بھی مذاکرات ہوتے تو پاکستان کا نقشہ یہ نہ ہوتا۔

اسلام ٹائمز: اگر کنٹرول لائن پر دیوار بن گئی، جس طرح کہ انھوں نے دیوار پر کام شروع کر دیا ہے، تو کیا فوج اور ہماری حکومت کے درمیان اختلافات بڑھیں گے یا فوج خاموش تماشائی کا کردار ادا کرے گی؟
جنرل (ر) حمید گل:
دیکھیں، معروضی طور پر تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ اختلافات جو ہیں وہ واضح ہوجائیں گے، کیونکہ فوج نے بہت شہادتیں دیں، کشمیر فوج کے وجود کا جواز ہے، کیونکہ اگر کشمیر کا تیا پائنچہ کر دیا تو کیا ہوگا؟ پہلی بات تو یہ ہوگی کہ کشمیر نہیں رہا تو اب آپ کو نیوکلیئر کی ضرورت ہی نہیں رہی، دوسرا یہ مسئلہ پیدا ہوگا کہ آپ کو فوج کی ضرورت نہیں، اتنی بڑی فوج کیوں رکھی ہوئی ہے، اتنا بڑا بوجھ کیوں ڈالا ہوا ہے، پھر ایک ڈیبیٹ شروع ہوجائے گی کہ ہم نے لڑائی تو کرنی نہیں، انڈیا کیساتھ، ہم نے تو تجارت کرنی ہے آلو، پیاز، ٹماٹر کی تجارت کرنی ہے ہم نے، یہاں لاہور میں ہندو بیٹھے ہوں گے، انھوں نے پہلے ہی خریدنے شروع کر دیئے ہیں، پلازوں کے اندر حصے ڈالنے شروع کر دیئے ہیں۔ پھر اسلام آباد بھی پہنچ جائیں گے، وہ شاطر ہیں چالاک ہیں، آپ کی ساری تجارت اور معیشت کا انحصار ان پر ہوجائے گا۔ تو پھر آپ کی فوج کی ضرورت نہیں رہے گی۔ تو ظاہر ہے نہ فوج رہے گی نہ نیوکلیئر رہے گا اور خدا نخواستہ پاکستان کی تحلیل کا عمل شروع ہوجائے گا۔

اسلام ٹائمز: جنرل صاحب آپ کی اس ساری گفتگو سے ایک مایوس کن صورتحال نظر آتی ہے، تو پھر کیا ایسے حالات میں کوئی امید کی کرن نظر آتی ہے۔؟
جنرل (ر) حمید گل:
اُمید کی یہی ایک کرن ہے کہ افغانستان سے امریکہ کے جانے کے بعد تاریخ ایک بار پھر جو پلٹا کھا رہی ہے تو ماضی میں بھی افغانستان سے ہی تمام کرنیں پھوٹتی رہی ہیں، اب بھی پھوٹتی رہیں گی اور اس کے نتیجہ میں قوم کو ایک حوصلہ ملے گا۔ انڈیا تو ڈر رہا ہے، کانپ رہا ہے، اندر سے کہ کہیں تاریخ اپنے آپ کو دہرا نہ دے۔ جیسے ماضی میں ہوتا رہا ہے، پھر تو سارے سومنات ان کے ٹوٹ جانے ہیں۔ مسئلہ تو یہ ہے کہ ہم اسے ہینڈل کیسے کرتے ہیں۔ ہم میں اگر کوئی کمی ہے تو وہ قیادت کی ہے، میں نے اسی لئے ابھی کہا تھا کہ اگر آج قیادت اپنا صحیح کردار ادا کرے تو پاکستان کیلئے بہت بلندیاں ہیں، کیونکہ آپ دنیا کو ایک ایسا نظام دیدیں گے جو کہ اخوت، محبت، اقلیتوں کے حقوق اور انصاف پر مبنی ہوگا۔ کسی گورے کو کالے پر اور نہ کسی کالے کو گورے پر، نہ مرد کو زن پر، کوئی فوقیت حاصل نہیں ہوگی۔ ایک تو یہ طریقہ ہے، آپ کے پاس۔ یا پھر دوسری صورت میں خانہ جنگی ہوگی، دو پہلو ہیں، اس ساری صورتحال کے امکانات زیادہ ہیں، خدشات کم ہیں۔ میڈیا کا جو کردار ہے وہ بہت بھیانک ہے، میری نظر میں، میڈیا قوم کو کنفیوز بھی کر رہا ہے، یہ تو پیڈ میڈیا ہے، میں سب کی بات نہیں کرتا لیکن زیادہ تر اس میں شامل ہیں۔ میڈیا نے کرپشن کیخلاف کتنا کچھ بولا، کیا کرپشن کم ہوئی یا زیادہ ہوئی؟ میڈیا نے کہا کہ جمہوری طریقے سے حکومت چلنی چاہئے، کیا جمہوریت آئی؟ میڈیا نے آئین کی بات کی تو آئین میں اسلامی شقوں کا ذکر ہی نہیں کیا، تو میڈیا کا بھی تو قصور ہے۔ باسٹھ ، تریسٹھ کا مذاق اڑا لیں مگر قرارداد مقاصد کو تو دیکھیں، جس کے اندر لکھا ہوا ہے کہ یہ بنیاد ہے ہمارے آئین کی۔ آج بھی ہم اس پر چلیں تو ہم تمام معاملات حل کر سکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: جنرل مشرف پر غداری کے مقدمہ کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔؟
جنرل (ر) حمید گل:
معاملہ چونکہ عدالت میں ہے، تو اس پر بات کرنا مناسب نہیں، اس لئے دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔

اسلام ٹائمز: جنرل صاحب، آپ نے کراچی کی بات کی، کراچی کے حالات ایک دفعہ سے پھر اسی طرف جا رہے ہیں، روز قتل وغارت، روز احتجاج! آپ ایم کیو ایم کے رول کو کراچی میں کس طرح دیکھتے ہیں۔؟
جنرل (ر) حمید گل:
دیکھیں ایم کیو ایم ایک جماعت ہے اور اس نے بار بار یہ ثابت کیا کہ وہ مربوط و مرتب ہے، اگرچہ میں ان کے طریقہ کار سے اتفاق نہیں کرتا، کیونکہ ان میں ہراس ازم کے عنصر پائے جاتے ہیں، جہاں کنٹرول کیا یہ ہماری راج دھانی ہے، اس راج دھانی میں کسی اور کو کوئی حق نہیں کہ وہ مداخلت کرے، یہ طرز عمل میں درست نہیں سمجھتا۔ لیکن ایک بات تو ضرور ہے کہ وہ مڈل کلاس طبقے کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ بدقسمتی کہ وہ پھیل نہ سکی، کیونکہ انھوں نے خود ہی اپنے آپ کو محدود کر لیا۔ الطاف حسین جا کے لندن بیٹھ گئے، ایسا تو نہیں کیا جاسکتا، آپ آئیں پنجاب میں بھی آئیں، دوسری جگہوں میں بھی جائیں۔ لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ الطاف حسین صاحب کی قیادت کو خطرات ہیں۔ ہماری طرف سے نہیں، برطانیہ کی طرف سے خطرات ہیں، اور ان خطرات کی وجہ سے ایک الجھن پیدا ہو رہی ہے کہ وہ جو دہشتگرد گروپ ہیں، وہ کس کے انڈر ہوں گے، ان کے جانے کے بعد۔؟ کیونکہ جو باقی قائد ہیں، فاروق ستار یا دوسرے ان کی کوئی حیثیت نہیں۔

اسلام ٹائمز: کراچی میں ایم کیو ایم کے علاوہ اور جماعتیں بھی تو حالات کے بگاڑ کی ذمہ دار ہیں۔؟
جنرل (ر) حمید گل:
کراچی میں تین پارٹیاں ہیں، پیپلز پارٹی اور خود ڈاکٹر ذوالفقار مرزا صاحب نے یہ بات کی کہ ہاں میں نے اتنا اسلحہ تقسیم کیا ہے اور سپریم کورٹ کے دو ججز کا بینچ بیٹھا تھا، انھوں نے انویسٹی گیٹ کیا اور انھوں نے نام لیا تھا کہ کون کون جماعتیں ہیں جو خرابی کی ذمہ دار ہیں، جس میں ایم کیو ایم تھی، پیپلز پارٹی اور اے این پی تھی۔

اسلام ٹائمز: جنرل صاحب آپ نے افغانستان کی بات کی کہ وہاں ایک شخص قیادت کر رہا ہے، جس کا نام ملا عمر ہے، پاکستان میں ایسی صورتحال نہیں تو جس انقلاب کی طرف آپ اشارہ کر رہے ہیں، یہ انقلاب کس طرح سے آئے گا، کیا فوج اس کی راہ ہموار کرے گئی کیونکہ سیاسی اور مذہبی جماعتوں میں تو کوئی قیادت نظر نہیں آتی جو ایسا انقلاب برپا کرسکے۔؟
جنرل (ر) حمید گل:
میں تو نہیں سمجھتا کہ فوج کو کچھ کرنا چاہیے، یہ تو ایک نظام ہے، جو کوئی بھی اس نظام کا حصہ بنتا ہے، جماعت بنا کے لیڈ کرتا ہے۔ مجھ سے بہت اصرار کیا گیا کہ میں جماعت بناؤں یا کسی جماعت میں شامل ہو جاؤں۔ اتنے دباؤ ڈالے گئے، اتنا کہا گیا لیکن میرا ایک ہی جواب رہا کہ میں اس نظام کا ستون نہیں بننا چاہتا، مکان کی گرتی ہوئی چھت کے نیچے میں عارضی طور پر ٹیک لگا کر کھڑا ہو جاؤں۔ لہذا SOURCES OF CHANGE یا SOURCES OF STATUS کے درمیان جو تصادم ہے، اس میں ہمارا سیاسی نظام سب سے زیادہ خرابی پیدا کر رہا ہے۔ کیونکہ یہ SOURCES OF CHANGE کو ابہام کی شکل میں لے آتا ہے۔ نواز شریف نہیں آئے گا تو عمران خان آجائے گا، عمران خان نہیں آیا تو بلاول یا پھر دونوں مل کے آجائیں گے، یہ ابہام نہیں تو کیا ہے اور ابہام قاتل ہوتا ہے۔ ابہام نہیں ہونا چاہئے، وضاحت ہونی چاہئے۔ یہ چاہتے ہو یا یہ نہیں چاہتے ہو۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ یہ نظام ڈوب رہا ہے، میں طنزاً یہ بات کر رہا ہوں کہ ان کو کوئی اچھا کام نہیں کرنا چاہئے۔ خدا نخواستہ ان سے کوئی اچھا کام ہوگیا جس سے لوگوں کو ریلیف مل گیا تو وہ جو فیصلہ کن گھڑی آنی ہے وہ موخر ہوجائے گی۔ میں تو چاہتا ہوں کہ یہ مزید خرابی کریں اور لوگ ایک دم اُٹھ کھڑے ہوں۔ کھل کے سب کے سامنے آجائے کہ ہماری اس نظام میں فلاح نہیں۔

اسلام ٹائمز: آپ نے کچھ عرصہ قبل انٹرویو میں کہا تھا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو ایک بیرونی ایجنڈے پر آ رہی تھیں، تب اس کی مخالفت میں آپ نے آئی جی آئی بنائی تھی، لیکن بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ محترمہ کیساتھ آپ کی کوئی ذاتی عداوت بھی تھی۔؟
جنرل (ر) حمید گل:
نہیں محترمہ کیساتھ تو میرے بہت ہی اچھے تعلقات تھے۔ اس وقت شکوک ضرور تھے، اس میں کوئی شبہ نہیں، لیکن پھر میں نے محترمہ کو سمجھا، کچھ انھوں نے میرے کردار کو جانا تو سب ٹھیک ہوگیا، تو میری ذاتی عداوت ان سے کیا ہوسکتی ہے، میں تو کبھی ملا بھی نہیں تھا ان سے۔

اسلام ٹائمز: اب اپنی گفتگو کو سمیٹتے ہوئے میں یہ جاننا چاہوں گا کہ ضیاءالحق کے طیارہ کے حادثے کے حوالے سے ایک تشنگی ہے، جس کی تحقیقات کو کبھی بھی منظر عام پر نہیں لایا گیا، تو اپ یہ بتائیں کہ اس میں کون سی طاقتیں ملوث تھیں۔؟
جنرل (ر) حمید گل:
امریکہ نے گروایا تھا اور امریکہ ہمارا آقا ہے، میں اس پر مضامین لکھ چکا ہوں، میں اس پر بہت زیادہ بول چکا ہوں، میں سب کچھ بیان کرچکا ہوں اور کسی نے اتنا کھل کر نہیں کہا کہ امریکہ ذمہ دار ہے، ضیاءالحق کے طیارے کے حادثے کا۔ وہ اس لئے کہ ضیاءالحق اسلامی نظام لانا چاہتے تھے اور آپ کیا سمجھتے ہیں کہ دوسرے یہ نظام نافذ ہونے دیتے۔

اسلام ٹائمز: موجودہ حکومت کو آپ پانچ سال پورا کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔؟
جنرل (ر) حمید گل:
میں کیا کہہ سکتا ہوں، میں تو بس دعا ہی کر سکتا ہوں کہ یہ کوئی کام جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ مزید برا کریں، تاکہ جلدی سے فیصلہ ہوجائے۔


خبر کا کوڈ: 351092

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/interview/351092/شریعت-نافذ-ہوئی-طالبان-خود-پھنس-جائیں-گے-حمید-گل

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org