0
Wednesday 19 Feb 2014 20:56
طالبان کا اگلا نشانہ گلگت بلتستان ہی ہوگا

مذاکراتی عمل سے طالبان مضبوط اور ریاست کمزور ہو گی، منظور یولتر

گلگت بلتستان کے بہتر مستقبل کیلئے محکمہ تعلیم سمیت دیگر تمام محکموں میں تحقیقات ناگزیر ہیں
مذاکراتی عمل سے طالبان مضبوط اور ریاست کمزور ہو گی، منظور یولتر
حاجی منظور حسین یولتر کا تعلق اسکردو بلتستان سے ہے۔ آپ کا شمار گلگت بلتستان کی اہم سیاسی شخصیات میں  ہوتا ہے۔ آپ پہلے پاکستان پیپلز پارٹی کے جیالے ہونے کے علاوہ پیپلز یوتھ آرگنائزیشن کے فنانس سیکرٹری بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت آپ آل پاکستان مسلم لیگ گلگت بلتستان کے چیف آرگنائزر ہیں۔ گلگت بلتستان کے موجودہ حالات کے حوالے سے اسلام ٹائمز نے جو انٹرویو کیا ہے اپنے محترم قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: وطن عزیز پاکستان میں دہشت گردی کی روک تھام کے لیے حکومت نے مذاکراتی عمل شروع کر دیا ہے اور دوسری طرف طالبان بھی جنگ بندی کی باتیں کرنے میں مصروف ہیں، آپ اس ایشو کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
منظور یولتر: طالبان یعنی دہشت گرد، طالبان یعنی قاتل، طالبان یعنی ملک دشمن، طالبان وہ درندہ صفت گروہ جو پاکستان کی ریاست آئین اور دستور کو جھٹلاتا ہے۔ ان سے مذاکرات ڈھونگ ہے، عوام اور پاکستانی آئین کے ساتھ مذاق ہے، ریاست کے ساتھ غداری کے مترادف ہے۔ اس کے علاوہ نواز شریف حکومت سے آپ توقع بھی کیا رکھ سکتے ہیں۔ نواز شریف خود طالبان کے سرپرست ہیں۔ وہ اپنے شہریوں اور فوجیوں کو تحفظ فراہم کرنے میں اتنے سنجیدہ نہیں جتنا دہشت گردوں کو بچانے میں ہیں۔ طالبان کو مضبوط کرنے اور دوام دینے میں نواز شریف کا ہاتھ ہے۔ وہ چاہتے یہ ہیں کہ مذاکرات کے نام پر ان ملک دشمنوں اور دہشتگردوں کو ایوانوں تک پہنچایا جائے اور ان کی پسند کی شریعت نافذ کی جائے۔ مذاکراتی عمل سے طالبان مضبوط ہوںگے اور ریاست کمزور۔ لیکن میں نے پہلے عرض کیا کہ طالبان کی پشت پر نواز شریف ہیں۔ دوسری بات یہ کہ طالبان کی طرف سے جنگ بندی کا یہ مطلب ہے کہ مذاکرات خود ایک خوبصورت ڈرامے کی مختلف قسطیں ہیں، جس کی ڈائریکشن اور پلاننگ حکومت نے ساتھ بیٹھ کر کی ہے۔ ابھی جنگ بندی کے بعد کچھ مطالبات سامنے رکھیں گے جس میں ملک بھر میں موجود دہشت گردوں کی جیلوں سے رہائی اور ایوانوں تک رسائی شامل ہے۔ یہ کام ہو جانے کے بعد ہر دفعہ بندوق کی نوک پر اپنے مطالبات منواتے رہیں گے۔ ان سے مذاکرات کا کوئی منطقی حل نہیں نکلے گا۔

اسلام ٹائمز: آپ کے خیال میں طالبان کے پیچھے کن طاقتوں کا ہاتھ ہے، اور وہ چاہتی کیا ہیں۔؟
منظور یولتر: طالبان کے پیچھے دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں ہیں، ایک ایک کر کے نام لینے کی ضرورت نہیں میڈیا کے ذریعے ان کے نام تک واضح ہو گئے ہیں۔ وہ ممالک چاہتے یہ ہیں کہ ملک کو عدم استحکام کی طرف لے کے جائیں اور وہ اپنے انٹرسٹ کے مطابق پاکستان سے مفادات حاصل کریں۔ طالبان کے پیچھے سب سے بڑا ہاتھ پاکستان کے ازلی دشمن ہندوستان کا ہے، جو کسی صورت پاکستان میں امن، استحکام، ترقی اور فلاح نہیں چاہتا کیونکہ انڈیا اپنے آپ کو ایشین ٹائیگر بنانے کے خواب دیکھ رہا ہے اور اس کے لیے وہ کوشش بھی کر رہا ہے۔ طالبان کی مالی اور تکنیکی معاونت کے سلسلے میں را کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور یوں طالبان کی باتوں کو ماننا را کے ایجنڈے کی تکمیل ہے۔ اکثر دہشت گردانہ واقعات کے پیچھے را کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں جو دہشت گردی کی لہر ہے، اسے گلگت بلتستان کے تناظر میں کس طرح دیکھتے ہیں، اب تک طالبان کے ہاتھوں گلگت بلتستان کسی حد تک محفوظ ہے۔؟
منظور یولتر: جی جناب! بہت اہم بات کی آپ نے سانحہ چلاس و کوہستان اور بابوسر میں بھی طالبان کی کاروائی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان تمام سانحات کے پیچھے ان کا ہاتھ موجود ہو سکتا ہے۔ جہاں ملک کا دیگر کوئی بھی اہم مقام محفوظ نہیں وہاں گلگت بلتستان میں بھی طالبان کی سرگرمیوں کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ طالبان کا اگلا نشانہ گلگت بلتستان ہی ہو گا، اس حوالے سے ہمیں ہشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ گلگت بلتستان طالبان کی ہیڈ لسٹ میں شامل ہے۔ مذاکرات کے بعد انکی کاروائیوں کا رخ گلگت بلتستان کی طرف ہو سکتا ہے۔ سکیورٹی اداروں کو چوکنا رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ بالفرض مذاکرات کامیاب ہو جاتے ہیں اور طالبان جنگ بندی کا اعلان کرتے ہیں اور وہ پاکستان میں کاروائی نہ کرنے کا پابند بھی ہو جاتا ہے لیکن خود پاکستان کے نزدیک گلگت بلتستان متنازعہ علاقہ ہے، یہاں کاروائی پاکستان میں کاروائی شمار نہیں ہوگی۔

اسلام ٹائمز: اس وقت گلگت بلتستان میں سب سے بڑا ایشو گندم پر سبسڈی کے خاتمے کا ہے، گندم سبسڈی ختم کرنے کا اصل ذمہ دار کون ہے۔ کیا عوام کو سبسڈی برقرار رکھوانے میں کامیابی ملے گی۔؟
منظور یولتر: گندم سبسڈی یقینا اس وقت گلگت بلتستان کا سب سے بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ وفاقی حکومت گندم سبسڈی ختم کرنے کے حوالے سے پی پی پی کو مورد الزام ٹھرا رہی ہے جبکہ پی پی وفاقی حکومت کو۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس عوام دشمن اور غریب کش پالیسی میں دونوں برابر کے شریک ہیں۔ دونوں نے باہمی رضامندی سے معاملے کو طے کر دیا ہے اور اخبارات میں بیانات کے ذریعے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھرانا محض غریب عوام کو دھوکے میں رکھنے کے لیے ہے، اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ جہاں تک عوامی رد عمل کا تعلق ہے مجھے نہیں لگتا یہ عوام کو گندم کی سبسڈی برقرار رکھوانے میں کامیابی ملے گی۔ ایک عرصے تک بیچاری عوام شور شرابے کے بعد خاموش ہو جائیگی۔ جب تک حکومت مخلص نہ ہو جنرل مشرف کی طرح تو نہ گندم سبسڈی برقرار رہ سکتی اور نہ کسی میگا پروجیکٹ پہ کام ہو سکتا ہے۔ یہاں میں ایک دلچسپ بات بتاتا چلوں کہ وزیراعلٰی گلگت بلتستان سید مہدی اکثر اپنے تقریروں میں بڑے فخر کے ساتھ کہا کرتے ہیں کہ گندم سبسڈی بھٹو نے پہلی بار دی ہے لیکن سید مہدی شاہ گلگت بلتستان کے پہلے وزیراعلٰی ہیں جس نے اس سبسڈی کو ختم کروانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

اسلام ٹائمز: گلگت بلتستان میں محکمہ تعلیم میں جو تحقیقات جاری ہیں اور غیر قانونی تقرریوں کو نکال باہر کرنے کے امکانات ہیں، آپ اس سلسلے میں کیا کہنا چاہیں گے۔؟
منظور یولتر: گلگت بلتستان میں محکمہ تعلیم میں جاری تحقیقات خوش آئند اور خطے کی ترقی و فلاح کی ضامن ہیں۔ ہم اول روز سے میرٹ کی بحالی کے لیے کوشش کر رہے ہیں، میں نے گذشتہ دنوں یادگار چوک اسکردو کے تقریب میں بھی واضح طور پر ان غیرقانونی تقرریوں کی مخالفت کی ہے۔ درون پردہ بھی میرٹ کی بحالی کے لیے کام کر رہا ہوں۔ یہ بات واضح کرتا چلوں کہ ہماری پارٹی صرف محکمہ تعلیم میں ہی تحقیقات کی حامی نہیں بلکہ تمام سرکاری محکموں میں بھی تحقیقات ہونی چاہیئیں تاکہ گلگت بلتستان کو رشوت، کرپشن اور مالی بدعنوانی سے پاک کیا جا سکے دیگر محکومی کی نسبت محکمہ تعلیم میں اس کی اہمیت زیادہ ہے، اس میں کسی چور دروازے سے بھرتی ہونے والے اساتذہ کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: وزیراعلیٰ گلگت بلتستان سید مہدی شاہ کا حالیہ بیان ہے کہ پی پی پی آئندہ انتخابات میں واضح اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کرے گی، اس دعوے کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں۔؟
منظور یولتر: (بھرپور قہقہے بعد) خواب دیکھنے میں کیا حرج ہے۔ پیپلز پارٹی نے پہلے کیا کیا ہے جس کی بنیاد پر ایسا دعویٰ کرے۔ کسی بھی میگا پروجیکٹ پہ کام نہیں ہو سکا۔ گندم سبسڈی کا خاتمہ کرایا اور اوپر سے اس طرح کے بیانات داغنے میں مصروف ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ مہدی شاہ حکومت صرف اخباروں میں زندہ ہے اس صوبائی حکومت کی کوئی حیثیت ہے اور نہ ان کے پاس کوئی اختیار ہے۔ میں دعوے کے ساتھ کہوں گا کہ آئندہ انتخابات میں انہیں شکست فاش ملے گی۔
خبر کا کوڈ : 352400
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش