0
Tuesday 18 Feb 2014 02:23
سعودی عرب پاکستان میں موجود دہشتگرد تنظیموں کو سپورٹ کر رہا ہے

دہشتگردوں کیخلاف بھرپور طاقت کا استعمال کیا جائے اور ان سے کوئی نرمی نہ برتی جائے، اکرم ذکی

امریکہ آج بھی سعودی عرب کا دوست اور ایران کا دشمن ہے
دہشتگردوں کیخلاف بھرپور طاقت کا استعمال کیا جائے اور ان سے کوئی نرمی نہ برتی جائے، اکرم ذکی
سینیٹر (ر) محمد اکرم ذکی پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ایک بہت بڑا کردار ہیں۔ ملکی تاریخ میں اب تک دو شخصیات کو فارن سیکرٹری جنرل ہونے کا اعزاز حاصل ہوا ہے جن میں ایک اکرم ذکی صاحب ہیں۔ انہوں نے چین، امریکہ، نائیجریا اور فلپائن کے علاوہ دنیا کے متعدد ممالک میں پاکستان کے سفیر کی حیثیت سے نمایاں خدمات سرانجام دیں ہیں۔ ان کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ ان سے تربیت پانے والے وزارت خارجہ کے کئی افسران نے قابلیت کے بل بوتے پر اعلٰی ترین عہدوں پر رسائی حاصل کی۔ سابق سینیٹر اکرم ذکی 1991ء سے 1993ء تک وزارت خارجہ کے سیکرٹری جنرل کے عہدے پر فائز رہے جو کہ وزیر مملکت کے برابر شمار کیا گیا۔  1997ء سے 1999ء تک سینیٹ کی خارجہ کمیٹی کے چیئرمین اور نیشنل ایجوکیشن کمیشن کے وائس چیئرمین رہے ہیں۔ سابق سینیٹر اکرم ذکی انجمن فروغ تعلیم کے بانی صدر بھی ہیں۔ ان کو پاکستان یورپ فرینڈ شپ ایسوسی ایشن کے بانی صدر ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں انہوں نے پاکستان انٹرنیشنل ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کی بنیاد رکھی۔ آج بھی پاکستان کی خارجہ پالیسی اور اہم فیصلوں میں ان کی رائے کو معتبر سمجھا جاتا ہے۔ اسلام ٹائمز نے اپنے قارئین کے لیے اکرم ذکی صاحب سے ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا جو کہ پیش خدمت ہے۔

اسلام ٹائمز: ملک میں اسلام کے نام پر خونریزی کا طوفان گرم ہے، کچھ لوگ اسلام کو ہی قیام پاکستان کا بنیادی مقصد قرار دیتے ہیں، آپ نے قیام پاکستان کی تحریک کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ہے، اس بارے میں اظہار خیال فرمائیں۔؟
اکرم ذکی: اسلامی ریاست یا مسلمانوں کی ریاست دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ آج ملک میں اسلامی نظام شریعت کے نفاذ کی باتیں ہو رہی ہیں۔ پاکستان میں کوئی ایک مسلک یا مکتب کے لوگ نہیں بستے۔ شرعی نظام میں تشریحات مختلف مسالک میں مختلف ہیں۔ شریعت اگر نافذ کی جائے تو کون سے مسلک کی، یہ بذات خود
ایک تنازعہ ہے۔ ملک کو اس وقت تنازعات سے نکالنے کی ضرورت ہے، نئے تنازعات کو جنم دینے کی ہرگز نہیں۔ جہاں تک قیام پاکستان کے مقاصد کا سوال ہے۔ پاکستان مسلمانوں کے رہنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ اسلام کے لیے نہیں بنایا گیا تھا۔ قائداعظم خود اسکالر تھے۔ ان کا مطمع نظر تعلیم تھا، وہ چاہتے تھے کہ اس ملک کے باشندے تعلیم و ترقی میں آگے بڑھ کر دیگر ملکوں کی ترقی کا باعث بنیں۔ اسلام میں دہشت گردی کی کوئی گنجائش موجود نہیں، اگر پاکستان سے دہشت گردی کا یہ لیبل ہٹ جائے اور امن و امان قائم ہو تو ترقی کی راہ میں کوئی چیز حائل نہیں رہے گی۔ دہشت گرد اسلام کی جو شکل متعارف کرانے کی کوشش کر رہے ہیں، اسے مغرب نے پروان چڑھایا ہے اور اب وہ ہمارے لیے ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ نے اپنی گفتگو میں دہشتگردی کو ملکی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ حائل قرار دیا ہے، جبکہ حکومت دہشتگردوں سے مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہے، کیا آپ اس عمل کی تائید کرتے ہیں۔؟ آپ کی نظر میں دہشتگردی کا حل کیا ہے۔؟
اکرم ذکی: پاکستان اس وقت جن مسائل کا شکار ہے ان کے حل کیلئے ضروری ہے کہ قائدین میں نظریہ، جرات اور تدبر موجود ہوں، لیکن ان تینوں عناصر کا فقدان ہے۔ میری نظر میں یہ مذاکرات، مذاق رات ہی ہیں۔ دونوں جانب کی کمیٹیاں بھی سنجیدہ نہیں ہیں اور دونوں کمیٹیوں کے پاس کوئی چوائس بھی نہیں ہے۔ ابھی طالبان کی جانب سے یہ اعلان کیا گیا ہے کہ ملا عمر امیر المومنین اور ملا فضل اللہ پاکستان میں ان کے خلیفہ ہونگے، اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ طالبان کیا چاہتے ہیں۔ اگر حکمران اس خیال سے باز رہیں کہ انہیں امیر المومنین تسلیم کیا جائے تو تین نکات پر مبنی پالیسی بنا کر اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر اس پالیسی پر عمل کیا جائے تو چند سالوں میں دہشت گردی کا مسئلہ مکمل طور پر ختم ہوجائے گا۔
اول، دہشت گردوں کے خلاف بھرپور
طاقت کا استعمال کیا جائے اور کسی بھی قسم کی نرمی نہ برتی جائے اور اس حوالے سے نہ ہی کوئی پریشر قبول کیا جائے۔
دوئم، ہتھیار ڈالنے والے دہشت گردوں کو مراعات دیکر سرکاری تعمیری پروگرامز کا حصہ بنا لیا جائے۔
سوئم، پہلے دونوں نکات پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ مذاکرات کا دروازہ کھلا رکھا جائے۔ اگر اس تین نکاتی پالیسی پر عملدرآمد نہ ہوا تو یہ مسئلہ ہمیشہ حل طلب رہے گا اور پھیلتا جائے گا۔

اسلام ٹائمز: عموماً یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اگر قائد ملت لیاقت علی خان اپنے پہلے دورے کے لیے امریکہ کے بجائے روس کا انتخاب کرتے تو پاکستان کے داخلی اور خارجی حالات مختلف ہوتے۔؟
 اکرم ذکی : قائد ملت لیاقت علی خان انگلستان سے واپسی پر تہران میں رکے تھے۔ تہران میں اس وقت راجہ غضنفر علی کو سفیر بناکر بھیجا گیا تھا۔ راجہ غضنفر علی نے قائد ملت کے لیے جو دعوت دی اس میں روس کا نمائندہ بھی شامل تھا۔ اس نمائندے نے لیاقت علی خان سے کہا کہ آپ انگلستان جاتے ہیں لیکن روس نہیں آتے۔ تو قائد ملت نے جواب دیا اگر آپ دعوت دیں گے تو روس بھی آئیں گے۔ اس کے بعد روس کی جانب سے سرکاری دعوت نامہ موصول ہوا، جس میں قائد ملت کو 14 اگست 1948ء کو روس میں دورے کی دعوت دی گئی۔ چونکہ پاکستان کا وہ پہلا جشن آزادی تھا تو ملک کا سربراہ کیسے بیرونی دورے پر جاسکتا تھا۔ روس کو قائد ملت کی جانب سے جواب دیا گیا کہ میں روس کا دس روزہ دورہ کرنا چاہتا ہوں، جس میں سے 4 دن اسلامی ریاستوں میں گزارنا چاہتا ہوں۔ قائد ملت کے اس جواب کے بعد روس کی جانب سے خاموشی چھا گئی۔

اسلام ٹائمز: پاکستان کی خارجہ پالیسی میں موجود اسلامک فیکٹر اور مسئلہ کشمیر و فلسطین کے حل کے بارے میں کچھ اظہار خیال فرمائیں۔؟
اکرم ذکی: 23 مارچ 1940ء کو ایک قراداد پاس نہیں ہوئی تھی بلکہ دو قرادادیں پاس ہوئیں تھیں۔ ایک پاکستان سے متعلق تھی اور دوسری فلسطین کے حق میں۔ فلسطین کی
آزاد سرزمین پر قبضے کے بعد جب اسے دو حصوں میں تقسیم کرکے ایک طرف اسرائیل اور دوسری جانب فلسطین کی بات کی گئی تو قائداعظم نے اسے مسترد کرتے ہوئے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا۔ کامن ویلتھ میں قائداعظم نے مسئلہ فلسطین کی وجہ سے واک آؤٹ کیا تھا۔ اس کے بعد سے تاحال پاکستان اپنے اصولی موقف پر قائم ہے اور اس نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا۔ البتہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں کچھ نقصان بھی اٹھانا پڑا۔ پاکستان کے چند حکمرانوں نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی کوشش بھی کی تھی مگر وہ کامیاب نہیں ہوسکے۔ اسرائیل کی جانب سے جب مسجد اقصٰی کی بیحرمتی کا سانحہ پیش آیا تو او آئی سی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ مراکش کے شہر رباط میں اسلامی کانفرنس کا انعقاد ہو اور اس کے بعد دوسری اسلامک سربراہی کانفرنس پاکستان میں منعقد ہوئی۔ اگرچہ او آئی سی سیاسی مقاصد حاصل کرنے میں تو کامیاب نہیں ہوسکی لیکن جن تین کمیٹیوں کا قیام عمل میں لایا گیا تھا، اس نے اپنے بہترین اثرات مرتب کیے۔ پہلی کمیٹی سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں فروغ پر مبنی تھی، جس کی سربراہی پاکستان کے پاس ہے اور کامسٹس کے نام سے یہ ادارہ کام کر رہا ہے۔ دوسری کمیٹی اقتصادی اور تجارتی تعاون پر مبنی تھی جس کی سربراہی ترکی کے پاس ہے، اس نے بھی بہت اہم کردار ادا کیا ہے، جبکہ تیسری کمیٹی تعلیم و کلچر کے تعاون پر مبنی تھی، جس کی سربراہی سینگال کے پاس ہے۔ 
مصر نے جب اسرائیل سے تعلقات قائم کئے تو اسے او آئی سی سے نکال دیا گیا تھا۔ پاکستان نے ہر فورم پر فلسطین کے حق میں آواز بلند کی ہے۔ اس طرح کشمیر کے موقف پر بھی پاکستان ابھی تک قائم ہے۔ جنرل ضیاءالحق نے اپنے دور میں آزادی کشمیر کی عوامی جدوجہد کی تیاری ضرور کی، لیکن اسی بات پر امریکہ سے اختلاف کی وجہ سے انہیں موقع نہیں مل سکا۔ افغان جنگ کے دوران کشمیریوں کو افغانستان میں ٹریننگ دی گئی۔ ٹریننگ
کے بعد انہیں واپس کشمیر میں بھیج دیا جاتا کہ ابھی آپ کی ضروت نہیں ہے۔ اس طرح کشمیر میں وہ افرادی قوت تیار ہوگئی، جس نے آزادی کشمیر کی عملی جدوجہد میں حصہ لینا تھا۔ شائد یہی وجہ ہے کہ جنرل ضیاء کی ہلاکت کے بعد ایک دم کشمیر میں تحریک اٹھی۔ جنرل ضیاء کے بعد آنیوالے حکمرانوں نے کشمیری کاز کا ساتھ دیا۔ لیکن مشرف نے کشمیر کاز کو جتنا نقصان پہنچایا کسی اور نے نہیں پہنچایا۔
 مشرف کے بعد آنیوالی دونوں حکومتوں نے کشمیر کے مسئلہ پر مشرف کی پالیسی کو جاری رکھا، اب یہ کہنا مشکل ہے کہ زیادہ نقصان کس نے پہنچایا ہے۔ مشرف مسئلہ کشمیر کے جس حل کے قریب تھا وہ لائن آف کنٹرول کو مستقل سرحد بنانا تھا۔ ارسطو نے کہا تھا کہ تاجروں کے ہاتھ میں حکومت کبھی نہ دینا، وہ تمیں بیچ دیں گے۔ آج پاکستان کے بھی یہی حالات ہیں۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی پر پہلے دن سے ہی اسلامی رنگ گہرا تھا، یہی وجہ ہے کہ افریقہ کی شمالی ریاستوں کی آزادی کے لیے پاکستان نے مکمل تعاون کیا۔ تیونس اور الجیریا کے لیڈرز پاکستان میں قیام کرتے تھے۔ پاکستان نے انہیں اپنے ملک کے پاسپورٹ جاری کئے، تاکہ وہ دنیا میں آسانی سے جاسکیں۔ اسی طرح 1955ء میں بندون کانفرنس میں نو آبادیاتی ریاستوں کی آزادی کے لیے پاکستان نے تعاون کی حامی بھری۔

اسلام ٹائمز: ملک میں فرقہ واریت اندرونی ہے یا بیرونی اور پاکستان کے سعودی عرب اور ایران کے ساتھ تعلقات کو کس تناظر میں دیکھتے ہیں۔؟
اکرم ذکی: میں نے اکثر مواقع پر کہا ہے کہ پاکستان کے چین اور ایران سے بہترین تعلقات انتہائی ضروری ہیں۔ سعودی عرب کے ساتھ افغان جنگ کے دوران ہماری بہت زیادہ قربت تھی لیکن آج ہمیں بہت سے تحفظات ہیں، کیونکہ سعودی عرب پاکستان میں موجود دہشت گرد تنظیموں کو سپورٹ کر رہا ہے۔ جہاں تک ایران اور سعودی عرب کے تعلقات کا سوال ہے تو ان دو ملکوں کے درمیان بہتر تعلقات ہوجائیں تو کئی دیگر ممالک کے
اندرونی حالات بھی بہتر ہوجائیں گے۔ پاکستان میں فرقہ ورانہ عناصر کو دونوں ملک اپنے اپنے انداز میں پروان چڑھا رہے ہیں۔ پاکستان کو دونوں ملکوں کے ساتھ تعلقات میں احتیاط برتنا پڑتی ہے۔ پاکستان نے ہی سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ اور صدر خاتمی کی کئی خفیہ ملاقاتیں کرائیں، جس سے دونوں کے درمیان حالات بہتر ہوئے۔ 1965ء کی جنگ میں تین ملک ایسے تھے جن کی مدد سے ہم نے بھارت کے خلاف جنگ جیتی تھی۔ چین، ایران اور انڈونیشیا، چین نے اپنے اسلحہ کے ڈپوؤں کے منہ کھول دیئے تھے، جبکہ انڈونیشیا نے اپنی پوری نیوی ہماری حفاظت کے لیے بھیج دی تھی اور سیاسی سطح پر یہ اعلان کیا گیا کہ انڈونیشیا کے بحری جہاز مرمت کے لیے پاکستان آئے ہیں۔
 ایران نے ہماری فضائیہ کو اپنے ائیربیس دیئے۔ ہمارے جہاز وہیں سے اڑتے تھے اور ایران میں ہی اترتے تھے۔ آج اسی ایران کے ساتھ جب ہم گیس پائپ لائن بنانا چاہتے ہیں تو سعودی عرب کا پریشر ہے مت بناؤ۔ چین کے ساتھ ہمارے تعلقات بڑھے تو ہم نے گوادر کے ساتھ کوریڈور بھی فراہم کرنے کی حامی بھری۔ وسطی ایشیائی ریاستوں اور دیگر ملکوں سے چین کو حاصل ہونے والے تیل کو ابھی نو ہزار میل کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے جبکہ گوادر اور زمینی راستے سے یہ فاصلہ سمٹ کر تین ہزار کلومیٹر ہو جائے گا۔ چین کے ساتھ ہمارے تعلقات میں اضافہ ہوا۔ آج پاکستان سے تعلق رکھنے والے شرپسند چین میں بھی تخریب کاری کر رہے ہیں۔ جس سے تعلقات کی خرابی کا اندیشہ ہے۔ امریکہ سعودی عرب سے اپنی دوستی میں بتدریج کمی لا رہا ہے جبکہ ایران کے ساتھ دشمنی میں بھی کمی لا رہا ہے۔ یہ تاثر غلط ہے کہ ایران کے ساتھ امریکہ کی دوستی ہوگئی ہے۔ امریکہ آج بھی سعودی عرب کا دوست اور ایران کا دشمن ہے۔ بس فرق اتنا ہے کہ دونوں کے ساتھ ان رشتوں میں کمی لا رہا ہے۔ جبکہ سعودی عرب ہم سے ایک ملین ایکٹر زمین بھی مانگ رہا ہے اور چالیس ہزار فوج بھی۔
خبر کا کوڈ : 352754
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش