0
Friday 28 Feb 2014 00:25
ایم ڈبلیو ایم سیاسی میدان میں ثابت قدمی کیساتھ آگے بڑھ رہی ہے

جماعت اسلامی مولانا مودودی کے نظریات یا منور حسن کی منافقت میں سے ایک کو چنے، علی حسین نقوی

سعودی عرب استعماری قوتوں کے آلہ کار اور ایجنٹ کے طور پر کام کر رہا ہے
جماعت اسلامی مولانا مودودی کے نظریات یا منور حسن کی منافقت میں سے ایک کو چنے، علی حسین نقوی
سید علی حسین نقوی اس وقت مجلس وحدت مسلمین کراچی ڈویژن کے سیکرٹری سیاسیات کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ زمانہ طالب علمی میں آپ پشاور یونیورسٹی میں پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے پلیٹ فارم پر طلباء سیاست میں فعال تھے اور آپ پی ایس ایف پشاور یونیورسٹی یونٹ کے جنرل سیکرٹری اور یونٹ صدر بھی رہے ہیں۔ مجلس وحدت مسلمین کے قیام اور اس کی فعالیت سے متاثر ہو کر آپ نے ایک کارکن کی حیثیت سے ایم ڈبلیو ایم میں شمولیت اختیار کی۔ گذشتہ عام انتخابات میں آپ نے ایم ڈبلیو ایم کے ٹکٹ پر کراچی سے قومی اسمبلی کے حلقہ NA250 سے حصہ لیا، مگر اس حلقے میں دھاندلی اور صورتحال کے پیش نظر جہاں دیگر سیاسی جماعتوں نے اس انتخابات کا بائیکاٹ کیا، وہاں ایم ڈبلیو ایم نے بھی بائیکاٹ کا اعلان کر دیا تھا۔ اس وقت آپ کی سیاسی فعالیت کو دیکھتے ہوئے آپ کو ایم ڈبلیو ایم کراچی کے سیکرٹری سیاسیات کے عہدے پر فائز کیا گیا۔ اسلام ٹائمز نے سید علی حسین نقوی کے ساتھ ان کے دفتر میں ایک خصوصی نشست کی، اس حوالے سے آپ سے کیا گیا مختصر انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ ادارہ


اسلام ٹائمز: گذشتہ عام انتخابات سے پہلے اور اور اسکے بعد کراچی سمیت سندھ بھر میں مجلس وحدت مسلمین کی سیاسی فعالیت کے حوالے سے کیا فرق محسوس کرتے ہیں۔؟
سید علی حسین نقوی: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔۔۔۔۔ دیکھیں اگر مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی سیاسی فعالت کی بات کرنی ہے تو پھر ہمیں صرف کراچی یا سندھ کی نہیں بلکہ پورے پاکستان کی بات کرنی چاہئیے۔ اس وقت ایم ڈبلیو ایم پاکستان بھر میں تیزی سے ابھرتی ہوئی سیاسی قوت تسلیم کی جا رہی ہے۔ سیاسی حوالے سے جدوجہد اور حقوق کی بازیابی کی تحریک کے تناظر میں دیکھیں تو ایم ڈبلیو ایم کی سیاسی و مذہبی اہمیت و اثر کا اندازہ ایک نااہل صوبائی حکومت کے گرانے سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔ ایم ڈبلیو ایم کی سیاسی بالغ نظری و بصیرت ہی تھی کہ ہم نے عوام کے ساتھ ملکر ملت کو مختلف بحرانوں سے نکالا، ملت تشیع جس کی اپنی کوئی سیاسی ساکھ و کردار نہیں تھا، اہم قومی امور و پالیسی کے حوالے سے تشیع کو ہمیشہ نظر انداز کیا جاتا رہا، ایم ڈبلیو ایم نے ملت تشیع کی سیاسی طاقت و اہمیت کو تمام چھوٹی بڑی سیاسی و مذہبی قوتوں اور قومی اداروں منوایا اور ان پر واضح کر دیا اور تسلیم کروایا کہ ملت تشیع کے نظر انداز کرکے پاکستان کو درپیش تمام چھوٹے بڑے بحرانوں سے نجات دلانا ممکن نہیں، کیونکہ یہ بات تمام مقتدر حلقے، ارباب اقتدار، قومی ادارے اچھی طرح جانتے ہیں کہ ملت تشیع نے تمام تر مصائب و تکالیف کا صبر و شکر کے ساتھ سامنا کیا مگر کبھی بھی وطن عزیز پاکستان کی سالمیت و بقاء پر سودے بازی نہیں کی۔
 
ہماری سیاسی فعالیت و بصیرت ہے کہ کراچی کی سطح پر بھی 21 سے زائد یونین کونسلوں میں کاغذات نامزدگی جمع کرائے گئے، کچھ قوتیں بڑی بوکھلاہٹ کا شکار ہوئیں اور ہمارے تین بلدیاتی امیدواروں کو کراچی میں شہید کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ آنے والے بلدیاتی انتخابات میں تقریباً ہر سیاسی جماعت نے خواہ وہ سندھ کی سب سے بڑی جماعت ہو یا کراچی کی سب سے بڑی جماعت ہو یا پاکستان میں بڑی تیزی سے ابھرتی ہوئی جماعت ہونے کے دعویدار ہونے والے ہوں، مستقل ہمارے پاس آتے رہے اور ہم سے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے حوالے سے خواہش کی۔ لہٰذا اس وقت پاکستان کے دوسرے شہروں کی طرح کراچی میں بھی ہماری سیاسی اہمیت و فعالیت کو تسلیم کر لیا گیا ہے۔ دیکھیں کامیاب سیاسی سفر مرحلہ وار طے کیا جاتا ہے، اس حوالے سے جدوجہد کرنی پڑتی ہے، ثابت قدم رہنا پڑتا ہے، ہر طرح کی قربانیاں اٹھانی پڑتی ہیں۔ عام انتخابات ہوں یا آنے والے بلدیاتی انتخابات یا پھر سانحہ کوئٹہ اور اس کے نتیجے میں نااہل صوبائی حکومت کو گرانا ہو، الحمداللہ ایم ڈبلیو ایم پاکستان بھر میں سیاسی میدان میں ثابت قدمی کے ساتھ تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ایم ڈبلیو ایم کے جو مختلف شعبہ جات ہیں، ان میں ایک شعبہ سیاسی امور سے متعلق ہے، جو کہ سیاسی افیئرز کو دیکھتا ہے اس حوالے سے کراچی میں سیاسی شعبہ سب سے زیادہ فعال کردار ادا کر رہا ہے۔ آج جہاں پاکستان بھر میں ایم ڈبلیو ایم ملت کی سیاسی آواز بن چکی ہے، وہیں کراچی میں بھی ہر طرح کے ملی مسائل اور معاملات کو ایم ڈبلیو ایم ہی بھرپور قوت کے ساتھ اٹھاتی ہے، آگے بڑھتی ہے۔

اسلام ٹائمز:کراچی میں طالبان کی موجودگی کے حوالے مختصراً کیا کہیں گے۔؟
سید علی حسین نقوی: دیکھیں کراچی میں جب ہم طالبان کی بات کرتے ہیں تو اس میں طالبان کے ساتھ انکے ہمدرد، انکی حامی و نظریاتی ہم آہنگ انتہاء پسند جماعتیں، گروہ وغیرہ بھی شامل کرتے ہیں، نظریاتی ہم آہنگ جماعتوں سے مراد وہ کالعدم دہشتگرد تنظیمیں، گروہ ہیں جو طالبان عناصر کے ساتھ مل کر دہشتگردانہ کارروائیاں کرتی ہیں اور ان کے ساتھ مل کر چلتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کراچی میں ایسے دہشتگرد عناصر بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں، ان علاقوں کی ایک طویل فہرست ہے اور خصوصاً کراچی کے مضافاتی علاقوں میں طالبان اور انکے ہمدرد عناصر سب سے بڑی تعداد میں موجود ہیں اور اس معاملے سے متعلق تمام تفصیلات و معلومات سے قانون نافذ کرنے والے ادارے بخوبی آگاہ ہیں۔ ان تمام دہشتگردی میں طالبان، جنداللہ اور دیگر انتہا پسند و دہشتگرد عناصر، لیاری گینگ وار، بلوچستان لبریشن آرمی کا آپس میں گٹھ جوڑ ہے، جو پورے شہر میں فعال ہیں، یہ گٹھ جوڑ دہشتگردی، ٹارگٹ کلنگ، بم دھماکے، بھتہ خوری، اغواء برائے تاوان، بینک ڈکیتی سب میں ملوث ہے، اس سے یہ کراچی سے فنڈز جمع کرتے ہیں، اس ریونیو کو یہ دہشتگردانہ سرگرمیوں میں استعمال کرتے ہیں۔ پھر یہ کہ کراچی میں جو باہر سے آنے والے عناصر ہیں، انہیں کراچی کے مقامی دہشتگرد انتہاء پسند گروہوں کی جانب سے پناہ گاہیں فراہم کی جاتی ہیں، ریکی میں مدد کی جاتی ہے، ٹارگٹ کے بارے میں رہنمائی کی جاتی ہے، تمام تر سہولیات فراہم کی جاتی ہے، اسی طرح یہاں کے لوگوں کو دیگر شہروں میں مدد فراہم کی جاتی ہے۔ لہٰذا یہ ایک شہر کی سطح کا نہیں بلکہ پورے ملک میں ایک منظم سلسلہ ہے جو پاکستان بھر میں دہشتگردی کر رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ نے مقامی سطح پر دہشتگردوں کے آپس میں تعاون اور فنڈز اکھٹا کرنے کی بات کی، ان دہشتگرد گروہوں کی غیر ملکی سرپرستی کے حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
سید علی حسین نقوی: ایم ڈبلیو ایم کا اس حوالے سے انتہائی واضح مؤقف ہے کہ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کیلئے طالبان سمیت دیگر تمام انتہا پسند اور دہشتگرد عناصر کو عالمی استعمار امریکہ اور اسکے حواری مغربی و عرب ممالک کی سرپرستی حاصل ہے۔ امریکہ اور اسکے حواری ایک طرف تو افغانستان میں طالبان کے خلاف لڑنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ دوسری جانب خطے میں صیہونی اسرائیل مخالف واحد بشار الاسد کی شامی حکومت کے خلاف طالبان کو اسلحہ، تربیت اور مالی لحاظ سے ہر طرح کی معاونت کر رہے ہیں۔ یہی بین الاقوامی قوتیں کراچی سمیت پاکستان بھر میں طالبان سمیت تمام دہشتگرد عناصر کی مکمل پشت پناہی کر رہی ہیں اور ان کا سب سے بڑا مقصد پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنا ہے۔ یہی بین الاقوامی قوتیں طالبان اور دیگر دہشتگرد عناصر کے ذریعے کراچی سمیت پاکستان بھر میں مکتب تشیع کو مکتب اہلسنت سے لڑانا اور آپس میں دست و گریباں کرانا چاہتی ہیں، مگر انہیں ماضی کی طرح اب بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ اہلسنت و اہل تشیع دونوں بیدار ہیں، عالمی استعمار و استکبار کے سازشی ہتھکنڈوں سے آگاہ ہیں۔ ہم کبھی بھی دشمن کی فرقہ واریت پھیلا کر اتحاد بین المسلمین کی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دینگے، تمام سنی شیعہ مسلمانوں کے درمیان مکمل ہم آہنگی ہے، ہم ایکدوسرے کے دکھ درد کو سمجھتے ہیں، شریک ہوتے ہیں، چند ایک فقہی اختلافات کو چھوڑ کر سنی شیعہ دنوں مکاتب کے درمیان مشترکات زیادہ ہیں۔ یہ بصیرت ہے مکتب اہلسنت کی، مکتب تشیع کی کہ دونوں نے کبھی بھی امریکی سازشوں کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔

اسلام ٹائمز: فرقہ واریت پھیلانے کے حوالے سے عراق اور شام کے بعد عالمی استعماری قوتوں کا رُخ پاکستان کیطرف پھیلے سے زیادہ شدت کیساتھ ہوگیا ہے، کیا کہیں گے۔؟
سید علی حسین نقوی: امریکہ اور اسکے حواریوں نے شام، عراق سمیت دیگر اسلامی ممالک میں شیعہ سنی فساد کرانے کی بہت زیادہ کوشش کی، کہیں کہیں اس میں اسے شاید کچھ نہ کچھ کامیابیاں بھی ملیں، مگر پاکستان میں اسے یہ نتیجہ نہیں ملا۔ دشمن کی پوری کوشش تھی کہ وہ مکتب تشیع کو تنہا کر دے، لیکن یہ مجلس وحدت مسلمین، علامہ ناصر عباس جعفری و دیگر رہنماﺅں، سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا اور انکی پوری ٹیم کی سیاسی بصیرت اور بہترین حکمت عملی کا نتیجہ ہے کہ انہوں سنی شیعہ اتحاد کے ذریعے فرقہ واریت پھیلانے کی سازشوں کو ناکام بنایا اور آج پاکستان میں عالمی استعمار کے ایجنٹ طالبان اور دیگر تکفیری دہشتگرد عناصر خود تنہائی کا شکار ہوچکے ہیں۔ الحمداللہ ہم اپنی بہترین حکمت عملی سے پاکستانی عوام کے سامنے ان تکفیری دہشتگرد عناصر کر بے نقاب کرچکے ہیں اور عوام بھی تکفیری سوچ کو مسترد کرچکی ہے۔

اسلام ٹائمز: گذشتہ دنوں امام حسین علیہ السلام سے متعلق جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی امیر منور حسن کا ایک متنازعہ بیان سامنے آیا، جس کی اب جماعت اسلامی اور خود منور حسن وضاحتیں پیش کر رہے ہیں، کیا کہیں گے انکے اس بیان کے حوالے سے۔؟
سید علی حسین نقوی: مختصراً یہ کہنا چاہوں گا کہ جماعت اسلامی کو دو میں سے ایک چیز کو چن لینا چاہئیے، یا تو وہ مولانا مودودی کی جماعت اسلامی کو رکھے یا منور حسن کی منافقانہ پالیسیوں کو لے کر چلے اور اسے اوون کرے کہ منور حسن جو فرما رہے ہیں، وہ انکے نظریئے اور اس سے مطابقت رکھتی ہے۔ جماعت اسلامی کی منافقت منور حسن کے بیانات سے سامنے آچکی ہے، باطل کے چہرے پر پڑی نقاب اتر چکی ہے، انکی حقیقت دنیا کے سامنے آشکار ہوچکی ہے کہ انکی حقیقت کیا ہے اور انہوں نے کس چیز کا نقاب اوڑھا ہوا ہے۔ منور حسن اس سے پہلے افواج پاکستان، شہدائے پاکستان کی توہین بھی کر چکے ہیں، افواج پاکستان اور پاکستانی عوام کا مورال اپنے بیانات کے ذریعے گرانے کی کوشش کرتے رہے ہیں، اس وقت منور حسن پر غداری کا مقدمہ قائم ہونا چاہئیے تھا۔ اگر اس وقت منور حسن پر غداری کا مقدمہ قائم ہوتا تو آج منور حسن کی جرٲت نہیں ہوتی کہ وہ نواسہ رسول (ص) حضرت امام حسین علیہ السلام کی شان میں گستاخانہ بیان دیتے۔ اس گستاخانہ بیان پر منور حسن کے خلاف 295C کے تحت توہین رسالت (ص) کا مقدمہ قائم ہونا چاہئیے کیونکہ اس سے سارے عالم اسلام، باشعور لوگوں کی، حریت پسندوں کی دل آزاری ہوئی ہے اور اگر جماعت اسلامی واقعاً مولانا مودودی کے نظریات پر عمل پیرا ہے تو وہ فوراً منور حسن کے خلاف سخت ایکشن لے اور انہیں برطرف کرے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان کو شام کے قضیے میں پھنسانے کی کوششوں کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں؟
سید علی حسین نقوی: دیکھیں پاکستان اس وقت دو طرح کی دہشتگردی کا شکار ہے، ایک طرف وہ طالبان سمیت دیگر تکفیری دہشتگرد عناصر کی دہشتگردیوں کا شکار ہے، آئے دن بم دھماکے، خودکش حملے ہو رہے ہیں جبکہ دوسری طرف ہمارے نااہل حکمران کی طرف سے ہے، جو ہمارے قیمتی اثاثے بیچے جا رہے ہیں اور انکی جانب سے معاشی دہشتگردی ہو رہی ہے۔ ان دونوں دہشتگردیوں کا شکار ملک پاکستان اس بات کا متحمل نہیں ہوسکتا کہ کسی دوسرے ملک کے معاملات میں مداخلت کرے۔ سیاسی حکمران فراست کا مظاہرہ کریں اور اپنے معاملات کو صحیح کرنے کی کوشش کریں، ناکہ دوسرے ممالک کے معاملات میں مداخلت کریں۔ ابھی گذشتہ دنوں روس نے سعودی عرب کو تنبیہ کی تھی کہ شامی باغی دہشتگردوں کو اسلحہ اور راکٹ لانچر فراہم نہ کرے۔ ایک چیز تو واضح ہے کہ نام نہاد اسلامی ملک سعودی عرب ایک دوسرے اسلامی ملک کو عدم استحکام کا شکار کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس کے پیچھے وہ استکباری و استعماری قوتیں ہیں، جو سارے عالم اسلام کو عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہ رہی ہیں اور سعودی عرب ان استعماری قوتوں کے آلہ کار اور ایجنٹ کے طور پر کام کر رہا ہے اور اگر اس سلسلے میں وہ ہمارا کندھا استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے، ہمیں چاہئیے کہ ہم انہیں اپنے کندھے استعمال نہ کرنے دیں۔
خبر کا کوڈ : 356295
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش