0
Monday 3 Mar 2014 21:27
امریکہ، برطانیہ اور سعودی عرب نے بحرین کی آمرانہ رژیم کو سہارا دے رکھا ہے

بحرین کی انقلابی قوم آل خلیفہ کے ظالمانہ اقدامات سے ہر گز خوفزدہ نہیں ہو گی، علی المشیمع

بحرین کی انقلابی قوم آل خلیفہ کے ظالمانہ اقدامات سے ہر گز خوفزدہ نہیں ہو گی، علی المشیمع
اسلام ٹائمز – جناب علی المشیمع کا شمار بحرین کے معروف انقلابی رہنماوں میں ہوتا ہے۔ وہ بحرین کے معروف انقلابی رہنما شیخ حسن المشیمع کے بیٹے ہیں جو ۱۴ جنوری ۲۰۱۱ء کو بحرین میں انقلابی تحریک کے آغاز کے قبل سے ہی آل خلیفہ رژیم کی جانب سے گرفتار کئے جانے کے بعد جیل میں ہیں۔ جناب علی المشیمع نے تسنیم نیوز ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے بحرینی قوم کی عنقریب کامیابی کی امید ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ بحرینی قوم این انقلابی قوم ہے جس کی بیداری آل خلیفہ کی جانب سے انجام پانے والے تمام ظالمانہ اقدامات کی شکست کا باعث بن جائیں گے۔ انہوں نے تاکید کی کہ بحرین کی انقلابی قوم انتہائی ثابت قدمی اور استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے انقلابی اہداف کو حاصل کر کے ہی دم لے گی۔ تسنیم نیوز ایجنسی کے ساتھ جناب علی المشیمع کے انٹرویو کا تفصیلی ترجمہ اسلام ٹائمز اردو کے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

سوال: بحرینی قوم کی انقلابی تحریک کو شروع ہوئے چار سال گزر چکے ہیں، برائے مہربانی اس انقلابی جدوجہد کی موجودہ صورتحال پر کچھ روشنی ڈالیں؟
علی المشیمع: اپنی گفتگو کے آغاز میں بعض اہم نکات کی جانب اشارہ کرنا چاہوں گا۔ پہلا نکتہ بیگناہ بحرینی عوام کا ظالم آل خلیفہ رژیم کے ہاتھوں بہیمانہ قتل عام اور نسل کشی ہے۔ میں کہنا چاہتا ہوں کہ آل خلیفہ رژیم نے اپنی ظالمانہ کاروائیوں کو زیادہ شدید کر دیا ہے۔ گرفتار ہونے والے افراد کی تعداد گذشتہ سال کی نسبت دو برابر ہو چکی ہے اور اس وقت ہزاروں انقلابی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ عوام کے گھروں پر رات کے وقت سیکورٹی فورسز کے حملے، گلی محلوں میں بیگناہ عوام پر حکومتی اہلکاروں کا تشدد، زہریلی آنسو گیس کا بے تحاشہ استعمال، مساجد کی بے حرمتی اور ان کی مسماری اور ماھر الخباز جیسے انقلابی جوانوں کو سزائے موت ان ظالمانہ اقدامات کے بعض واضح نمونے ہیں۔

دوسرا اہم نکتہ جس کی طرف میں اشارہ کرنا چاہتا ہوں وہ آل خلیفہ رژیم کی جانب سے اپنے مغربی اور عربی اتحادیوں کی مدد سے ایسے سیاسی اقدامات انجام دینے کی کوشش ہے جن کا مقصد حکومت مخالف سیاسی گروہوں کو صفحہ ہستی سے مٹانا ہے اور درحقیقت بحرین میں جاری انقلابی تحریک کو جڑ سے ختم کرنا ہے۔ بحرین کی آمرانہ رژیم قوم کو شہری حقوق سے متعلق انتہائی کم اہمیت وعدوں کے ذریعے خود کو اس سیاسی بحران سے نکالنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اصل مشکل یہ ہے کہ آل خلیفہ رژیم کی جانب سے اس قسم کے اقدامات محض دھوکہ اور فریب ہیں اور یہ خطرہ بھی موجود ہے کہ بعض سادہ لوح افراد حکومت کے ان فریب کارانہ اقدامات کا شکار ہو جائیں جس کے نتیجے میں انقلابی قوم کے اندر ایک حد تک اختلاف اور گروہ بندی پیدا ہو جائے۔ لیکن مجھے پورا یقین ہے کہ بحرینی عوام قومی اور انقلابی بیداری سے برخوردار ہوتے ہوئے آل خلیفہ رژیم کے ان تمام اقدامات کو ناکامی کا شکار کر دیں گے اور اپنی حتمی کامیابی کی امید کے ساتھ اپنے انقلابی اہداف اور مطالبات پر سختی سے ڈٹے رہیں گے۔

جیسا کہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ بحرین کی حکومت نے سعودی عرب کے تعاون اور اس کی حمایت سے بحرینی قوم کی انقلابی تحریک کو طاقت کے زور پر کچلنے کی پالیسی اپنا رکھی ہے لیکن تین یا چار سال گزرنے کے باوجود حکومت عوامی احتجاج اور اعتراض کو ختم نہیں کر سکی۔ میری نظر میں ہمارے عوام آل خلیفہ رژیم کا تختہ الٹنے کا پختہ عزم کر چکے ہیں۔ میرا نہیں خیال کہ بحرین کے انقلابی عوام ظالم حکمرانوں کی جانب سے قتل و غارت کا بازار گرم کئے جانے سے ذرہ برابر خوفزدہ دکھائی دیتے ہوں۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ آل خلیفہ رژیم روز بروز بحرین کی انقلابی قوم پر دباو بڑھاتی جا رہی ہے اور اسی طرح سعودی فوج بھی بحرین میں غیرقانونی اور مجرمانہ اقدامات انجام دینے میں مصروف ہے۔ مثال کے طور پر اب تک دسیوں مساجد مسمار کی جا چکی ہیں، بڑی تعداد میں بیگناہ خواتین اور قیدیوں کو قتل کیا جا چکا ہے جن کا مقصد بحرینی عوام کو مرعوب کرنا ہے لیکن انہیں یہ جان لینا چاہئے کہ آل خلیفہ رژیم اور سعودی عرب کی یہ دہشت گردی کبھی بھی بحرین کے انقلابی عوام کو سڑکوں پر آنے، صدائے احتجاج بلند کرنے اور اپنی انقلابی تحریک کو جاری رکھنے سے نہیں روک سکتی۔

بحرینی قوم حکومت کے ظالمانہ اقدامات اور بیگناہ افراد کے قتل میں اضافے سے ہر گز نہیں گھبراتی۔ ہمیں صرف ایک بات کا ڈر ہے اور وہ یہ کہ کہیں برطانیہ اور امریکہ کی جانب سے بحرین میں شیطانی اقدامات کے باعث انقلابی گروہوں کے درمیان تفرقہ اور اختلافات پیدا نہ ہو جائیں۔ مغربی طاقتیں انقلابی گروہوں میں اختلاف ڈال کر انہیں کمزور کرنا چاہتی ہیں تاکہ اس طرح انہیں مذاکرات کی میز پر آنے اور حکومت کے مطالبات کو ماننے پر مجبور کیا جا سکے۔ ہم نے گذشتہ سال مشاہدہ کیا اور اس سے پہلے بھی دیکھتے آئے ہیں کہ بعض حکومت مخالف گروہ بحرین کے ولی عہد کی درخواست پر حکومت سے مذاکرات کرنے کیلئے راضی ہو گئے لیکن ان مذاکرات کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلا۔ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ حکومت کی جانب سے مذاکرات کی دعوت صرف اور صرف وقت ضائع کرنے اور ملک میں جاری سیاسی بحران کو پرامن طریقے سے حل کرنے سے متعلق پائے جانے والے بین الاقوامی دباو سے نجات حاصل کرنے کا ایک بہانہ ہے۔

سوال: اگرچہ بحرینی حکومت پر مغربی ممالک کی جانب سے ملک میں جاری سیاسی بحران کو پرامن طریقے سے حل کرنے کیلئے دباو ڈالا جا رہا ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ آل خلیفہ رژیم حتی اپنے کئے گئے معاہدوں اور وعدوں کی پابندی بھی نہیں کرتی، آپ کی نظر میں اس کی کیا وجہ ہے اور بحرینی قوم حکومت کی جانب سے وقت کی تضییع کو کس نظر سے دیکھتی ہے؟
علی المشیمع: سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ آل خلیفہ رژیم نے ہمیشہ اپنے ہی کئے گئے وعدوں کو توڑا ہے اور کبھی بھی اپنی بات کو عمل کے ذریعے سچا کر کے نہیں دکھایا۔ مذاکرات کی ناکامی، آل خلیفہ رژیم کا اپنے وعدوں کا پابند نہ ہونا اور بحرین کی انقلابی قوم کی جانب سے حمد آل خلیفہ کی حکومت کی سرنگونی تک اپنی تحریک کو جاری رکھنے کا پختہ عزم وہ واضح دلائل ہیں جو ہمیں حکومت کے جھوٹے وعدوں کے جال میں پھنسنے سے برحذر رکھتی ہیں۔ ہمارے پاس بحرین کی عظیم قوم کی جانب سے استقامت اور ثابت قدمی کی ایک لمبی تاریخ کی صورت میں عظیم سرمایہ موجود ہے لہذا ہمارا وظیفہ بنتا ہے کہ ہم اس انقلابی قوم کی اس مخلصانہ جدوجہد کا احترام کریں۔ ہمیں چاہئے کہ اپنی کامیابی کی خاطر اس عظیم سرمایہ اور تاریخی تجربات سے سبق سیکھیں اور حکومت کی جانب سے ان اقدامات کے بھنور میں گرفتار نہ ہوں جن کا مقصد صرف اور صرف انقلابی تحریک کو کمزور کرنا اور اپنی ظالمانہ حکومت کو تقویت کرنا ہے۔

سوال: بحرین کی انقلابی تحریک کا آغاز کرنے والے بعض بزرگ علمای دین ایسے بھی ہیں جنہوں نے ۱۴ جنوری ۲۰۱۱ء سے کہیں پہلے آل خلیفہ رژیم کے خلاف اپنی جدوجہد کا آغاز کر دیا تھا، ان بزرگان میں سے ایک آپ کے والد ماجد شیخ حسن المشیمع بھی ہیں جو اس وقت سے لے کر اب تک بحرین کی ظالم حکومت کی جانب سے جیل میں ہیں، ان کی رہائی کیلئے کس حد تک کوشش کی گئی ہے اور ان کوششوں کے کیا نتائج برآمد ہوئے ہیں؟
علی المشیمع: اس وقت بحرین میں آغاز ہونے والی انقلابی تحریک کے اکثر بزرگ رہنما حکومت کی قید میں ہیں۔ ان افراد کی مشکلات ایک شخص کی مشکلات نہیں بلکہ انقلاب کی مشکلات ہیں۔ یہ تمام رہنما اگرچہ بہت سخت حالات کا شکار ہیں اور انہیں قید تنہائی میں ڈالا گیا ہے اور دوسرے قیدیوں سے ملنے پر پابندی لگا دی گئی ہے اور انہیں شدت کے ساتھ ٹارچر کیا جاتا ہے لیکن انہیں یہ سختیاں برداشت کرتے ہوئے فخر کا احساس ہوتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح اپنی قوم کے درد میں برابر کے شریک ہیں۔ اسی وجہ سے عوام بھی پورے جوش و جذبے سے حکومت کے خلاف احتجاج میں شامل ہوتے ہیں اور اپنے مطالبات کو منوانے کیلئے پرعزم اور ثابت قدم نظر آتے ہیں۔ ان انقلابی رہنماوں کی گرفتاری ظاہر کرتی ہے کہ بحرینی حکومت ان کے کردار کو محدود کرتے ہوئے بحرینی قوم کی انقلابی تحریک کو نابود کرنا چاہتی ہے لیکن وہ ہر گز اپنے اس منحوس مقصد میں کامیاب نہیں ہو گی۔

سوال: اس بات کے مدنظر کہ بحرین میں جاری انقلابی جدوجہد کو لیڈ کرنے والے اکثر رہنما بحرین سے باہر ہیں جیسا کہ آپ خود لندن میں رہائش پذیر ہیں، آیا بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں نے آپ سے تعاون کیا ہے اور کیا وہ آپ کی جانب سے پیش کردہ مطالبات کو تسلیم کرتے ہیں؟
علی المشیمع: ہم اپنے گذشتہ تجربات کی روشنی میں جانتے ہیں کہ بین الاقوامی تنظیموں کی جانب سے اختیار کیا جانے والا موقف ہمیشہ مثبت رہا ہے اور ان کی جانب سے اچھے اقدامات بھی اٹھائے گئے ہیں۔ اگرچہ یہ سب تنظیمیں ایک جیسی نہیں اور ان میں فرق پایا جاتا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر ڈنمارک اور بلجیئم جیسے ممالک نے بحرین میں جاری انقلابی تحریک اور عوامی مطالبات کے بارے میں بہت اچھا اور مثبت موقف اختیار کیا ہے۔ لیکن بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس ضمن میں مغربی ممالک کے رویے اور عرب ممالک کی جانب سے اپنائے گئے موقف میں بہت زیادہ فرق دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اگرچہ مغربی ممالک نے بعض مواقع پر خاموشی اختیار کی ہے لیکن انہوں نے کبھی بھی عرب ممالک کی طرح بحرین میں جاری عوامی تحریک کی شکل بگاڑ کر پیش کرنے کی کوشش نہیں کی۔ عرب میڈیا کی پوری کوشش رہی ہے کہ بحرین میں جاری پرامن عوامی جدوجہد کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر پیش کرے اور اسے سنی شیعہ جنگ قرار دے کر آل خلیفہ رژیم کے ظالمانہ اقدامات کی توجیہ کرنے کی کوشش کریں۔

مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ بحرین کی انقلابی تحریک سے متعلق بین الاقوامی تنظیموں اور مغربی ممالک نے عرب ممالک کی نسبت کہیں بہتر موقف اختیار کیا ہے۔ اگرچہ مغربی ممالک کی طرف سے بھی اپنایا جانے والا موقف اکثر اوقات آل خلیفہ رژیم کے حق میں ہی رہا ہے لیکن انہوں نے بحرینی عوام پر بھی اپنے دروازے بند نہیں کئے اور ان کی شکایات اور مطالبات پر بھی توجہ دی ہے۔ بحرین میں جاری عوامی احتجاج کے موثر ہونے یا نہ ہونے کا دارومدار ملک میں عوام کی جانب سے شروع کی گئی انقلابی تحریک کا پوری طاقت سے جاری رہنے پر ہے۔ جس قدر عوام کی جانب سے اٹھائی جانے والی صدائے احتجاج اونچی ہو گی اسی قدر بین الاقوامی سطح پر سیاسی اور سفارتی میدان میں اس کے اثرات ظاہر ہو سکیں گے۔

سوال: آخری سوال یہ ہے کہ آپ کی نظر میں بحرین میں جاری انقلابی تحریک کے بارے میں عرب ممالک نے کیسا موقف اختیار کیا ہے اور اس کے مقابلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے کس قسم کا موقف سامنے آیا ہے؟
علی المشیمع: مجھے عرب ممالک کی جانب سے کوئی ایسا موقف دکھائی نہیں دیتا جسے بحرین کی انقلابی قوم کیلئے امید بخش اور حوصلہ افزا قرار دیا جا سکے۔ اکثر عرب حکومتیں یا تو اپنی اندرونی مشکلات کا شکار ہیں اور یا پھر سعودی استعمار اور آل خلیفہ کی ڈکٹیٹر رژیم کی حمایت اور مدد کرنے میں مصروف ہیں کیونکہ اکثر عرب حکومتوں کے مفادات اور مصالح سعودی عرب کے سیاسی اہداف کے گرد گھومتے ہیں۔

لیکن دوسری طرف اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے اپنایا گیا موقف اور اسی طرح ایرانی میڈیا کی کلی پالیسی بحرین کی مظلوم قوم کی حمایت میں ہے اور ہم اس کی قدردانی کرتے ہیں۔ شائد یہی وجہ ہے کہ آل خلیفہ کی آمر رژیم بحرین کی انقلابی تحریک پر ایران سے وابستگی کا الزام عائد کرتی آئی ہے اور اس بہانے سے طاقت کا استعمال کر رہی ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ بحرین کے انقلابی عوام اپنے اصولوں پر استوار اور ثابت قدم رہتے ہوئے اپنے مطالبات پر ڈٹے رہیں گے اور حکومت کی جانب سے جھوٹے وعدوں کے فریب میں نہ آتے ہوئے اپنی انقلابی جدوجہد کو پورے زور و شور سے جاری رکھیں گے اور اس طرح دنیا بھر کے آزادی پسند انسانوں کی توجہ کا مرکز بن جائیں گے۔
خبر کا کوڈ : 357556
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش